اصلاحِ اعمال کی تلقین (قسط نمبر 2)
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کی رَو کا اثر
مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ توحید قائم ہوئی تو آج وہ مشرک لوگ جو اپنی بت پرستی پر بڑا زور دے رہے تھے کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں شرک بعد میں داخل ہوا ہے پہلے نہیں تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ مانا کہ پہلے شرک نہیں تھا لیکن یہ تو بتاؤ کہ شرک کے خلاف تم میں خیال کب سے پیدا ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہی پیدا ہوا۔ تو دنیا کو گو ظاہری طور پر نظر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ شرک کے خلاف جو لہر پیدا ہوئی اس کا کس قدر اثر ہوا لیکن جب بتایا جائے تو ہر ایک سمجھدار یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شرک کے خلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل سے جو لہر نکلی وہی پھیل رہی ہے۔یہ میں نے ایک ایسی مثال دی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر تمام لوگ مانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک رَو لایا جو تمام دنیا میں پھیلی اور اب ہر قوم اقرار کرتی ہے کہ ہمارے مذہب میں شرک نہیں۔ یا تو وہ وقت تھا کہ کہا جاتا تھا مسیح کا خدا ہونا عیسائیت کی صداقت کی دلیل ہے اور دیگر مذاہب پر اسے یہی فوقیت حاصل ہے چنانچہ گزشتہ زمانہ میں عیسائیوں اور مسلمانوں میں جو مناظرے ہوتے رہے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے مگر آج عیسائی صاحبان کہتے ہیں ہمارا مذہب اس لیے سچا ہے کہ صرف اسی میں توحید پائی جاتی ہے۔ گویا یہ مذھب یا تو اس لیے سچا تھا کہ اس میں خالص شرک پایا جاتا تھا یا اب اس لیے سچا ہے کہ اس میں خالص توحید پائی جاتی ہے۔ یہ کیوں؟ اس لیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو لہر شرک کے خلاف پیدا ہوئی وہ سب کے اندر سرایت کر گئی اور اندر ہی اندر شرک کا قلع قمع کر رہی ہے۔ یہ لہر گو مخفی ہے اور ہر ایک کو نظر نہیں آتی مگر غور اور تدبر سے دیکھنے والے خوب دیکھ سکتے ہیں۔
انسان کے دل میں پیدا ہونے والی کوئی رَو ضائع نہیں جاتی
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت ضائع نہیں جاتی۔ دیکھو اِدھر شرک کی لہر ایسے زور سے چل رہی تھی کہ ہر شخص اس کی طرف جھک گیا تھا لیکن جب اس کے خلاف روحانی لہر پھیلی تو اس کی طرف بھی دنیا جھک گئی۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ یہ کہ شرک کی جو لہر پیدا ہوئی اس کے متعلق کوئی پتہ نہیں کہ کہاں سے پیدا ہوئی لیکن اس کے خلاف جو لہر پیدا ہوئی وہ اس قدر نمایاں اور واضح ہے کہ ہر ایک جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پیدا ہوئی۔
ایک کے دل سے نکلی ہوئی رَو دوسرے کے دل پر کس طرح اثر کرتی ہے
اس امر کا ان لوگوں کے لیے سمجھنا ذرا مشکل ہے جو روحانیت سے ناواقف ہیں کہ ایک کے دل سے نکلی ہوئی لہر کس طرح دوسرے پر اثر کرتی ہے لیکن اس کی مثالیں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ ایک سکھ تھا جو لاہور کے کسی کالج میں پڑھتا تھا اور اس کا حضرت مسیح موعودؑ سے بہت تعلق تھا ایک دفعہ اس نے کہلا بھیجا کہ حضرت مرزا صاحب سے عرض کی جائے کہ جب میں کالج میں جا کر بیٹھتا ہوں تو میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں ان سے بچنے کے لیے کوئی تدبیر بتائی جائے۔ حضرت صاحب نے کہلا بھیجا کہ کالج میں جس جگہ بیٹھتے ہو اسے بدل ڈالو چنانچہ اس نے جب جگہ بدلی تو اس قسم کے خیالات پیداہونے بند ہو گئے۔ بات کیا تھی یہ کہ اس کے اردگرد ایسے لڑکے بیٹھتے تھے جن میں دہریت پائی جاتی تھی اور ان کے خیالات کی رَو نکل کر اس تک پہنچتی اور اسے متاثر کرتی تھی اور چونکہ اس کے اندر معرفت اور نور نہ تھا اس لیے اس کا دل دہریت کے اثر سے دَب جاتا تھا۔ لیکن جب اس نے جگہ بدل لی تو محفوظ ہو گیا۔ اسی طرح بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان کے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ بات ہو جائے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اظہار کرے دوسرا اس خیال کو بیان کر دیتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ایک کا دوسرے پر اثر ہو جاتا ہے۔ ایک دفعہ میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب حضرت خلیفہ اوّل گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے بیمار تھے اور ابھی اچھی طرح صحت یاب نہ ہوئے تھے۔ نماز پڑھاتے ہوئے جب میں سجدہ میں گیا تو خیال آیا کہ کل جمعہ میں اس آیت پر تقریر کروں کہ
یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا (الفرقان:31)
اس وقت نہ اس کے متعلق کوئی خیال تھا نہ کوئی اس قسم کا واقعہ ہوا تھا کہ میں نے اس اس آیت کو کسی وقت پڑھا ہو یا سنا ہو لیکن ایسے جوش کے ساتھ یہ خیال پیدا ہوا کہ میں نے سمجھا خداتعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک ہے اور یہ اس زور سے پیدا ہوئی کہ میں بمشکل اسے دبا کر نماز ختم کر سکا۔
حتیٰ کہ میں وضو کر کے نماز کے لیے روانہ ہوا اور سیڑھیوں سے نیچے اُترا تو حضرت خلیفہ اوّل اُترتے ہی ملے۔ فرمانے لگے آج آپ کو میںنے بڑا تلاش کرایا آپ کہاں تھے۔ میں نے کہا میں تو گھر میں ہی رہا ہوں معلوم نہیں تلاش کرنے والے سے غلطی ہوئی یا کیا۔ میں تو گھر سے نکلا ہی نہیں۔ فرمانے لگے میں نہیں جانتا کیا وجہ ہے صبح سے میرے دل میں ایک تحریک بہت زور کے ساتھ ہو رہی ہے کہ آپ آج اس امر پر تقریر کریں کہ لوگ قرآن پڑھیں یہ باتیں کرتے کرتے جب ہم ہندوؤں کے اس مکان کے قریب پہنچے جو بڑی مسجد کے قریب ہے تو آپ نے فرمایا کہ تقریر کرنے کے لیے کوئی آیت منتخب کر لو اور پھر خود ہی فرمایا اچھا یہی آیت سہی
یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا
اس پر میں نے سنایا کہ رات سے میرے دل میں یہی آیت آ رہی تھی اور اس پر تقریر کرنے کی بڑے زور سے تحریک ہو رہی تھی۔ کہنے لگے شاید تمہاری ہی تحریک کا مجھ پر اثر ہوا ہے۔ تو اس قسم کی لہریں ہوتی ہیں جو ہر قلب کے اندر پیدا ہوتی ہیں اور جس قدر زبردست اور زور دار ہوتی ہیں اسی قدر زیادہ پھیلتی ہیں اور ان میں فرق یہی ہوتا ہے کہ بعض اتنی کمزور ہوتی ہیں جنہیں ہر قلب محسوس نہیں کرتا جس طرح ہوا میں لہریں تو موجود ہوتی ہیں لیکن ہر آنکھ محسوس نہیں کر سکتی بلکہ خاص آلہ ہی محسوس کرتا ہے اور باریک سے باریک ذرات ہوتے ہیں مگر کوئی آنکھ انہیں دیکھ نہیں سکتی بلکہ خوردبین ہی دکھاتی ہے۔ اسی طرح قلب میں پیدا ہونے والی لہروں کا حال ہوتا ہے اور بعض ایسی نمایاں اور زور دار ہوتی ہیں کہ تمام لوگ محسوس کر سکتے ہیں تو ہر ایک فعل جو انسان سے سرزد ہوتا ہے اور ہر ایک خیال جو انسان کو پیدا ہوتا ہے وہ موجود رہتا ہے اور نہ صرف موجود رہتا ہے بلکہ تمام انسانی دماغوں میں جاتا ہے۔ ہاں اگر وہ کمزور ہوتا ہے تو محسوس نہیں ہوتا اور اگر زور دار ہوتا ہے تو سب کو محسوس ہوتا ہے۔
کوئی انسان اپنے آپ کو غیر ذمہ دار نہ سمجھے
اس سے ہمارے لیے ایک نتیجہ نکلا اور وہ یہ کہ ہم جس طرح اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہیں درحقیقت اس طرح غیر ذمہ دار نہیں ہیں۔ بہت سی باتوں کے متعلق انسان سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس لیے وہ لاپرواہی سے اسے منہ سے نکال دیتے ہیں۔ مگر یہ شواہد اور مثالیں جو میں نے پیش کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت اور کوئی فعل بےنتیجہ نہیں ہوتا اور نہ وہ اس تک محدود رہتا ہے بلکہ اس کا اثر دور دور تک پھیلتا ہے۔ ہاں جب وہ طاقتور ہوتا ہے تو بہت سے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے اور جب کمزور ہوتا ہے تو کم لوگوں کومحسوس ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے اور کچھ نہ کچھ اثر ضرور کرتا ہے۔
مخفی لہروں کے اثر کرنے کا ثبوت قرآن سے
چنانچہ اسی لیے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔ مَلِکِ النَّاسِ۔ اِلٰہِ النَّاسِ۔ مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ الۡخَنَّاسِ۔ الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ۔ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ۔(الناس:2تا 7)
اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ انسان کے دل میں پیدا ہونے والی مخفی لہریں بھی دوسروں پر اثر کرتی ہیں کیونکہ فرماتا ہے کہو ہم پناہ مانگتے ہیں خناس کے وسوسوں سے۔ گویا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خود تو پیچھے رہتے ہیں لیکن ان کے وسوسے یعنی گندے خیالات دوسروں کے دلوں میں جا پڑتے ہیں۔ اس میں یہ بھی بتایا کہ فضا میں آپ تو نظر نہیں آتے مگر ان کا وسوسہ دل میں آ جاتا ہے کس طرح؟اسی طرح کہ ان کے دل میں پیداہونے والی لہر چلتی ہے اور اس طرح ان کے گندے خیالات دوسروںتک پہنچ جاتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق اس سے بھی ہوئی ہے کہ عموماً دیکھا گیا ہے جب کوئی نیا خیال پھیلنے لگتا ہے تو مختلف شہروں میںاس خیال کے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح تحقیقاتوں کے متعلق بھی دیکھا گیا ہے مثلاًڈارون تھیوری ہے اس کے تین شخص مدعی ہیں۔ ایک انگریز، دوسرا جرمن اور تیسرا فرانسیسی۔ لیکن محققین کہتے ہیں کہ ایک ہی زمانہ میں ان تینوں کو یہ خیال پیدا ہوا تھا چنانچہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے ہم عصر تھے تو خیالات ایک سے دوسرے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔
صالحین کی صحبت میں بیٹھنے کا حکم
اسی لیے صحبت صالح کا حکم ہے اس میں یہی حکمت ہے خدا کے برگزیدہ بندوں کی بات تو تحریر کے ذریعہ یا دوسروں کی زبانی بھی معلوم ہو سکتی ہے۔ پھر
کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ (التوبۃ:119)
میں صادقوں کی صحبت میں رہنے کا کیوں اشارہ کیا گیا ہے۔ پھر رسول کریمؐ کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرنے یا مسیح موعود کا اپنی صحبت میں رہنے کی تاکید کرنے کا کیا مطلب ہے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ صرف الفاظ اس قدر اثر نہیں رکھتے جس قدر وہ رَو رکھتی ہے جو قلب سے نکلتی ہے اور چونکہ ہر قلب ایسا نہیں ہوتا جو اسے دُور سے محسوس کر سکے اس لیے قریب ہونے کی وجہ سے چونکہ رَو کی شدت بڑھ جاتی ہے اور جلدی اثر ہو جاتا ہے اس لیے قرب کا حکم دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا گیا کہ جو تیرے زمانہ کے لوگ ہوں گے وہ اچھے ہوں گے اور جو ان سے بعد کے ہوں گے وہ ان سے کم درجہ کے ہوں گے اور جو ان سے بعد کے ہوں گے وہ ان سے کم درجہ کے ہوں گے۔ اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ (بخاری کتاب المناقب باب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اب سوال ہوتا ہے کہ ان سب کی اصلاح تو قرآن کریم اور احادیث کے ذریعہ ہوئی اور اسی طرح سے وہ پاک و صاف ہوئے پھر وجہ کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے لوگ اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں اور ان کے بعد کے ان سے کم اور ان کے بعد کے ان سے بھی کم۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلوں پر جس قدر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعوؑد کے وجود پاک سے نکلی ہوئی لہر کا اثر ہوا وہ بُعدِ زمانی کی وجہ سے بعد والوں پر کم ہوتا گیا دیکھو پانی میں جب پتھر پھینکا جائے تو قریب قریب کی لہریں بہت نمایاں اور واضح ہوتی ہیں اور جوں جوں لہریں پھیلتی جاتی ہیں مدھم ہوتی جاتی ہیں یہی حالت روحانی لہروں کی ہوتی ہے ان پر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتاہے اور وہ پھیلتی جاتی ہیں تو گو مٹتی نہیں مگر ایسی کمزور اور مدھم ہوتی ہیں کہ ہر ایک دل انہیں محسوس نہیں کرتا اور جو محسوس کرتا ہے وہ بھی پورے طور پر محسوس نہیں کر سکتا۔ اس لیے جن لوگوں کو روحانیت کی لہر پیدا کرنے والے وجود کا قُربِ مکانی یا قُربِ زمانی حاصل ہوتا ہے وہ اس لہر سے زیادہ فائدہ اُٹھاتے ہیں اور بعد میں آنے والوں سے بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔
(…………باقی آئندہ)
٭…٭…٭