تعارف کتاب

آئینۂ کمالاتِ اسلام (حصّہ دوم۔آخر)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیفِ لطیف آئینۂ کمالاتِ اسلام کے تعارف پر جامعہ احمدیہ گھانا میں علمی نشست

کتاب کے اہم مضامین کا خلاصہ(خدمت دین کی اہمیت اور برکات، عشق رسول ﷺ اور ملائکۃ اللہ کی حقیقت کا ذکر گذشتہ شمارہ میں ہوچکا ہے۔اس کے بعد درج ذیل مضامین کا ذکر ہے۔ناقل)

سر سید احمد صاحب کے نظریات کی تردید

برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما اور ہمدرد لیڈر سر سید احمد صاحب تھے۔انہوں نے مسلمانوں کی ظاہری تعلیم کے سلسلہ میں بہت نمایاں خدمت کی ہے۔لیکن دینی امور کے معاملے میں یورپی فلسفہ سے متاثر ہوکر اسلام کے کئی بنیادی نظریات مثلا ملائکہ،وحی،معجزات اور دعا وغیرہ کی خلافِ اسلام تاویلات کیں ۔ان کی بعید از صدق و انصاف تاویلوں کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :

‘‘قبل اس کے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیمات میں تدبر کرتے اور اس کے تسلّی بخش دلائل سے اطلاع پاتے کسی منحوس وقت میں ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوگئے جو اس زمانہ کے یورپ کے فلاسفروں نے جو دہریہ کے قریب قریب ہیں تالیف کی ہیں اور نہ صرف یہی بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ملحد طبع نو تعلیم یافتہ لوگوں کی باتیں بھی سنتے رہے جن کی طبیعتوں میں یورپ کے طبعی اور فلسفہ پھنس گیا تھا ۔ سو جیسا کہ یکطرفہ خیالات کے سننے کا نتیجہ ہوا کرتا ہے وہی نتیجہ سید صاحب کو بھی بھگتنا پڑا۔ قرآن کریم کے حقائق معارف سے تو بے خبر ہی تھے اس لیے فلاسفروں کی تقریروں کے ساحرانہ اثر نے سید صاحب کے دل پر وہ کام کیا کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور طینت کی پاکیزگی جو اسی کے فضل سے تھی ان کو نہ تھامتی تو معلوم نہیں کہ ان کی یہ سرگردانی اب تک کہاں تک ان کو پہنچاتی ۔سید صاحب کی یہ نیک منشی درحقیقت قابل تعریف ہے کہ انہوں نے بہرحال قرآن شریف کا دامن نہیں چھوڑا گو سہواً اس کے منشاء اور اس کی تعلیم اور اس کی ہدایتوں سے ایسے دور جا پڑے کہ جو تاویلیں قرآن کریم کی نہ خدائے تعالیٰ کے علم میں تھیں نہ اس کے رسول کے علم میں نہ صحابہ کے علم میں نہ اولیاء اور قطبوں اور غوثوں اور ابدال کے علم میں اور نہ ان پر دلالت النص نہ اشارۃ النص وہ سید صاحب کو سوجھیں۔’’

(صفحہ227)

اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے

سرسید احمد صاحب اور ان جیسے دوسرے مسلمان جو فلسفہ یورپ سے متاثر ہوکر خلاف روح اسلام تاویلیں کر رہے تھے،کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘اِس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہورہی ہے اس کو دیکھ کر اور علم کے مذہب پر حملے مشاہدہ کر کے بے دل نہیں ہونا چاہیے کہ اب کیا کریں۔ یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے۔ یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح پائے گا۔ حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں۔ کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کار ان کے لیے ہزیمت ہے۔ میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کردے گا۔۔۔ حضرت خوب یاد رکھو کہ اس فلسفہ کے پاس تو صرف عقلی استدلال کا ایک ادھورا سا ہتھیار ہے اور اسلام کے پاس یہ بھی کامل طور پر اور دوسرے کئی آسمانی ہتھیار ہیں پھر اسلام کو اس کے حملہ سے کیا خوف۔’’

(صفحہ255-254)

ملکہ وکٹوریہ کو دعوت اسلام

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کتاب میں ایک خط کے ذریعے ملکہ وکٹوریہ (1901-1819)کو ایک خط کے ذریعے دعوت اسلام دی جس میں آپ علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کا حقیقی خادم ہونے کی حیثیت سے ملکہ کو انہیں الفاظ میں اسلام پہنچایا جن الفاظ میں آنحضرت ﷺ نے 628ء کے اواخر میں قیصر و کسریٰ کو پیغام پہنچایا تھا۔چنانچہ آپ ملکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں : یَا مَلِیْکَۃَ الْاَرْضِ اَسْلِمِی تَسْلِمِیْنَ (صفحہ534)اے ملکہ مسلمان ہوجا۔تو سلامتی میں آجائے گی۔ملکہ وکٹوریہ کو جب یہ دعوت ملی تو اس نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں شکریہ کا خط ارسال کیااور خواہش ظاہر کی حضوراپنی تمام تصنیفات انہیں بھجوائیں۔

(تاریخ احمدیت جلد1صفحہ476)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں پوری دنیا میں کروڑہا مسلمان بستے تھے۔ہزاروں لاکھوں علماء،پیر، سجادہ نشین اور اسلام کا درد رکھنے کے دعویدار موجود تھے۔ان سب کی موجودگی میں کرۂ ارض کی سب سے بڑی حکمران کو اس طرح دعوت اسلام پہنچانے کی توفیق اگر کسی کو ملی تو وہ حضور علیہ السلام تھے۔اس امر سے آپ علیہ السلام کی تبلیغ اسلام کی تڑپ اور ولولہ کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔

جلسہ سالانہ کے متعلق ایک اعتراض کاجواب

جماعت احمدیہ کے ایک مخالف میاں رحیم بخش صاحب نے جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے حوالے سے فتویٰ دیا کہ اس طرح سال میں دن مقرر کرکے جانا بدعت اور معصیت ہے۔اس سلسلہ میں حضوؑر فرماتے ہیں :
‘‘اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض یہ بھی ہے کہ تا ہر یک مخلص کو بالمواجہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات دینی وسیع ہوں اور معرفت ترقی پذیر ہو۔ اب سنا گیا ہے کہ…میاں رحیم بخش صاحب نے ایک طول طویل عبارت ایک غیر متعلق حدیث شد ّرحال کے حوالہ سے لکھی ہے جس کے مختصر الفاظ یہ ہیں کہ ایسے جلسہ پر جانا بدعت بلکہ معصیت ہے اور ایسے جلسوں کا تجویز کرنا محدثات میں سے ہے جس کے لیے کتاب اور سنت میں کوئی شہادت نہیں۔ اور جو شخص اسلام میں ایسا امر پیدا کرے وہ مردود ہے۔’’

(صفحہ606)

‘‘اے ناخدا ترس ذرا آنکھ کھول اور پڑھ کہ اس اشتہار ۷ دسمبر ۱۸۹۲ء کا کیا مضمون ہے کیا اپنی جماعت کو طلب علم اور حل مشکلات دین اور ہمدردی اسلام اور برادرانہ ملاقات کے لیے بلایا ہے یا اس میں کسی اور میلہ تماشا اور راگ اور سرود کا ذکر ہے …آپ کو فتویٰ لکھنے کے وقت وہ حدیثیں یاد نہ رہیں جن میں علم دین کے لیے اور اپنے شبہات دور کرنے کے لیے اور اپنے دینی بھائی اور عزیزوں کو ملنے کے لیے سفر کرنے کو موجب ثواب کثیر و اجر عظیم قرار دیا ہے بلکہ زیارت صالحین کے لیے سفر کرنا قدیم سے سنت سلف صالح چلی آئی ہے ۔’’

(صفحہ608)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button