حضرت مصلح موعود ؓ

ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے (قسط اول)

از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 9؍ اکتوبر 1917ء کو پٹیالہ کے مقام پر یہ معرکہ آرا خطاب فرمایا۔ حضورؓ نے اللہ تعالیٰ کی ہستی، اسلام اور قرآنِ کریم کی صداقت اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو اللہ تعالیٰ کی صفتِ ربوبیت کے حوالہ سے ثابت فرمایا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو زندہ خدا کو پیش کرتا ہے اور اس میں زندگی کا ثبوت مل رہا ہے۔ نیز یہ کہ جس طرح پہلے اس کی ربوبیت کے فیض سے انسان روحانی ترقی کر کے انعامات کا وارث بنتا تھا آج بھی بالکل ویسے ہی بن سکتا ہے۔ حضورؓ کا یہ مختصر خطاب قارئین الفضل انٹرنیشنل کے استفادے کے لیے قسط وار شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)

خدا کی عنائتیں اس کی ہستی کا ثبوت ہیں

سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنے کے بعد حضور نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جو تمام بنی نوع انسان کا خالق، مالک اور رازق ہے۔ اس کی صفات پر جب ہم غور کرتے ہیں، اس کی عنائتوں اور انعاموں کو جب ہم دیکھتے ہیں، اس کے فضلوں اور رحمتوں کو جب ہم ملاحظہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس کی عنائتوں، فضلوں اور رحمتوں کا کوئی شمار نہیں ہو سکتا۔ جس قدر اس کی صفات پر غور کیا جائے اسی قدر اس کے جلال اور اس کی شان کا زیادہ سے زیادہ علم ہوتا ہے اور معرفت پیدا ہوتی ہے۔ مختلف بداعتقادیاں جو دنیا میں پھیل رہی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل غور نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہیں۔ دہریت بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اس وقت لوگ نئے نئے علوم کے غلط استعمال یا غلط فہمی کی وجہ سے اس طرف چلے گئے ہیں کہ دنیا خودبخود ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ لوگ صفاتِ الٰہیہ پر غور کرتے اور ان زبردست قدرتوں کا مشاہدہ کرتے جن کا ظہور ہمیشہ ہوتا رہتا ہے تو انہیں ماننا پڑتا کہ ضرور ایک زبردست عالم، دانا، رحیم و کریم ہستی موجود ہے۔

خدا کی ذات

دنیا میں بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو نظر نہیں آتیں بلکہ آثار اور علامات سے ان کا پتہ لگتا ہے۔ مثلاً خوشبو ہے جو کبھی کسی کو نظر نہیں آتی اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے گلاب کی خوشبو کو دیکھا ہے یا میں نے اسے سنا ہے یا اسے چکھا ہے لیکن اس سے کسی کو انکار نہیں کہ خوشبو ہوتی ضرور ہے۔ پھر دیکھیے انگور کی شیرینی کو کسی نے نہیں دیکھا۔ نہ سنا نہ سونگھا ہے۔ کسی خوش الحان گویے کی آواز کو کسی نے نہیں دیکھا، نہ چکھا نہ سونگھا نہ ہاتھ سے ٹٹولا ہے۔ لیکن باوجود اس کے کسی کو انکار نہیں ہے کہ آواز میں خوش الحانی، پھولوں میں خوشبو، انگور میں شیرینی ہوتی ہے۔ پس یہ ان لوگوں کی غلطی ہے جو نئے علوم کو اچھی طرح اپنے دماغ میں قائم نہیں رکھ سکے اور کہتے ہیں کہ ہم اس چیز کو مانتے ہیں جس کو ہم دیکھتے ہیں۔ خدا کو چونکہ ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا اس لیے ہم اسے مان بھی نہیں سکتے۔ حالانکہ انہوں نے کبھی اپنی آواز کو نہیں دیکھا۔ کبھی عطر کی خوشبو کو نہیں دیکھا لیکن ان کو مانتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ بعض ایسی چیزیں ہیں جن کو انسان دیکھ نہیں سکتا بلکہ ان کے آثار سے پتہ لگاتا ہے اور انہیں سے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کونسی چیز اچھی ہے اور کونسی بری۔ گلاب کے پھول کئی قسم کے ہوتے ہیں جن کی خوشبو کو کسی نے نہیں دیکھا۔ مگر ان کے سونگھنے سے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کونسا پھول اعلیٰ قسم کا ہے اور کونسا ادنیٰ قسم کا۔ یہ تو میں نے ان اشیاء کے متعلق بتایا ہے جن کو حواس خمسہ میں سے کوئی ایک حواس محسوس کر سکتا ہے لیکن کئی ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن کا ان حواس سے بھی علم نہیں ہو سکتا مثلاً حافظہ ہے۔ کبھی کسی نے اسے نہیں دیکھا، نہ چکھا، نہ سنا، نہ ٹٹولا اور نہ سونگھا ہے لیکن معمولی سے معمولی عقل کا انسان بھی جانتا ہے کہ حافظہ کی ایک طاقت ضرور ہے۔ چنانچہ بہت لوگ حکیم یا داکٹروں کو جا کر کہتے ہیں کہ ہمارا حافظہ کمزور ہو گیا ہے۔ ہمیں بات یاد نہیں رہتی وغیرہ وغیرہ۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ حافطہ ضرور کوئی شَے ہے۔ یہ کیوں مانتے ہیں؟ اس لیے کہ انہوں نے حافظہ کے آثار اور علامات دیکھی ہیں۔

پس وہ لوگ جنہوں نے خدا کےا نکار کی بنا ان حواس خمسہ سے معلوم نہ ہونے پر رکھی ہے ان کی غلطی ہے۔ خداتعالیٰ کی ہستی ان حواس سے بہت بالا ہے اس لیے ان کے ذریعہ اس کو نہیں معلوم کیا جاسکتا۔ ہاں اس کے معلوم کرنے کے اور ذریعے ہیں اور وہ اس کی صفات کا ظہور ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سارے عالم میں خداتعالیٰ کی صفات کا ظہور اس زور شور سے ہورہا ہے کہ کوئی دانا اور عقلمند اس سے انکار نہیں کر سکتا اور اس بات کا علم بھی کہ خداتعالیٰ کی کیا کیا صفات ہیں آثار سے ہی ہو جاتا ہے۔ جب ہم اس کی قدرتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو رحیم و کریم ہے، رازق ہے، خالق ہے، مالک ہے، مارنے اور جلانے کی طاقت رکھتا ہے، کسی پر ظلم نہیں کرتا کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا وغیرہ۔ غرض دہریت بھی صفاتِ الٰہیہ پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے اور اس کا علاج صفات الٰہیہ پر غور ہے دیگر بداعتقادیاں اور باطل پرستیاں بھی صفات الٰہیہ پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہیں چنانچہ سورہ فاتحہ جو اُمّ القرآن ہے اور اس میں تمام ان مضامین کو اختصاراً بیان کر دیا گیا ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں بنی نوع انسان کو اسی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ مذہب کے متعلق حق معلوم کرنے کے لیے اور اعمال کی درستی کے لیے صفات الٰہیہ پر غور ضروری ہے اور اس سورۃ کے ابتداء میں ان چار صفات کو بیان کیا گیا ہے جو خلاصہ ہیں تمام صفات کا اور جن پر غور کرنے سے انسان تمام قسم کی بداعتقادیوں اور بدعملیوں سے بچ سکتا ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے فرمایا ہے۔

خدا کی ربوبیت

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ(الفاتحہ:2)سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ کس اللہ کے لیے؟ اُس کے لیے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ یہ ایک ایسا چھوٹا سا فقرہ ہے کہ بظاہر معمولی معلوم ہوتاہے لیکن جتنا اس پر غور کیا جائے اتنا ہی خداتعالیٰ کی رحمت اور انعام کا پتہ لگتا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ کہتا ہے سب تعریف اللہ کے لیے ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ سارے جہانوں کا رب ہے یعنی انسانوں کا ہی رب نہیں بلکہ حیوانوں کابھی رب ہے۔ اور حیوانوں کا ہی نہیں نباتا ت اور جمادات کا بھی رب ہے اور ہر چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے اس کی وہ ربوبیت کر رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ شفقت کرنے والا ہے۔

خدا کی ربوبیت کا یقین گناہوں سے دور کر دیتا ہے

مسلمانوں میں سے بہت لوگ ایسے ہیں جو یہ تو کہتے ہیں کہ خدا رب العالمین ہے۔ مگر غور نہیں کرتے کہ کس طرح ہے۔ اسی طرح اہلِ ہنود میں سے ایسے لوگ ہیں جو خداتعالیٰ کو رب العالمین مانتے ہیں مگر غور نہیں کرتے کہ کس طرح ہے۔ ایسے ہی عیسائیوں میں بھی لوگ ہیں۔ اگر یہ سب لوگ غور کریں تو ان کےد ل خدا کی محبت اور پیار سے ایسے بھر جائیں کہ وہ کبھی گناہ اور برائی کا نام تک نہ لیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس سے محبت اور پیار ہوتا ہے اس کی بات انسان رد نہیں کر سکتا۔ پھر جب کوئی پیارا اور محبوب ایسی بات کہے جو مفید اور فائدہ مند بھی ہو تو اس کو کس طرح رد کیا جا سکتا ہے۔

فرض کر لو بیٹا باپ سے کوئی ایسی چیز مانگتا ہے جس کے دینے میں اس کا کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے۔ ایسی صورت میں تو اگر دشمن بھی کچھ مانگے تو دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چہ جائیکہ بیٹا مانگے اور باپ نہ دے۔ پس جس سے محبت اور الفت ہوتی ہے اس کی بات قبول کر لی جاتی ہے۔ اس لیے اگر خداتعالیٰ کی ایسی شان بندوں پر ظاہر ہو جیسی کہ ہے تو وہ کبھی کوئی گناہ نہ کریں اور ان میں خدا کے کسی حکم کے توڑنے کی ہرگز جرأت نہ ہو بلکہ خداتعالیٰ کے احسانوں اور انعاموں کو دیکھ کر ان کے دل جوش محبت سے بھر جائیں۔ اس کی مَیں ایک مثال سناتا ہوں۔

ایک مثال

ہمارے بزرگوں میں سے ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ان کے پاس ایک شخص کچھ لڈو لایا۔ انہوں نے اپنے شاگرد کو ان میں سے دو اٹھا کر دیے اور اس نے کھا لیے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے پوچھا لڈو کھا لیے اس نے کہا جی ہاں کھا لیے ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کیا ایک ہی دفعہ کھا لیے ہیں۔ اس نے کہا ہاں۔ پھر انہوں نے پوچھا دونوں کے دونوں کھا لیے ہیں۔ اس نے کہا ہاں۔ اسی طرح آپ بار بار پوچھتے رہے جس سے شاگرد کو خیال پیدا ہوا کہ میں ان سے پوچھوں کہ کس طرح لڈو کھانے چاہئیں تھے۔ اس نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کسی دن بتائیں گے۔ ایک دن پھر جو اُن کے پاس لڈو آئے توانہوں نے لڈو اٹھا کر رومال پر رکھا اور اس سے ایک ریزہ توڑ کر لگے خداتعالیٰ کے انعاموں کو گننے کہ اس میں جو میٹھا پڑا ہے وہ کس طرح پیدا ہوا ہے کتنے آدمیوں نے اس کی تیاری کے لیے کوشش کی ہے۔ گرمی کے موسم میں جب تپش کی وجہ سے باہر نکلنا محال ہوتا ہے۔ زمیندار کام کرتے رہے ہیں اور سردی کے موسم میں جب رضائی سے نکلنا کوئی پسند نہیں کرتا وہ ٹھنڈے پانی کو کیاریوں میں ڈالتے رہے ہیں کیا انہوں نے یہ سب کچھ میرے لیے یہ لڈو تیار ہونے کے لیے کیا۔ میں نے تو کوئی عمل ایسا نہیں کیا تھا کہ خدا نے اتنے آدمیوں کو میرے لیے یہ لڈو تیار کرنے پر لگا دیا اسی طرح انہوںنے لڈو کے ہر ایک جزو کو لے کر بیان کرنا شروع کیا اور خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے۔ ظہر کی نماز پڑھ کر لڈو کھانے بیٹھے تھے اور ابھی ایک ہی ذرہ منہ میں ڈالا تھا کہ عصر کی اذان ہو گئی اور اٹھ کر وضو کرنے چلے گئے۔ تو جو لوگ خداتعالیٰ کے انعامات پر غور کرنے والے ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بہت بڑے بڑے سبق حاصل کر لیتے ہیں۔

ایک اَور مثال

اسی قسم کی ایک مثال ہم نے سکول کی ریڈر میں پڑھی تھی کہ ایک شخص تھا اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ ہم کل تمہیں کھانے کے بعد ایک لڈو کھلائیں گے جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہو گا۔ وہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور دل میں خوش ہوئے کہ وہ لڈو جو کئی لاکھ آدمیوں نےبنایا ہو گا بہت ہی بڑا اوراعلیٰ قسم کا ہو گا۔ دوسرے دن جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو ہر ایک نے کھانے میں سے ایک ایک دو دو لقمہ کھا کر چھوڑ دیا تا ایسا نہ ہو کہ مختلف کھانوں سے پیٹ بھر جائے اور اس لڈو کا مزا پورے طور پر نہ لے سکیں۔ جب کھانے سے فارغ ہو چکے تو بھتیجوں نے کہا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ کل تمہیں ایک لڈو کھلائیں گے جسے ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہو گا اب وہ لڈو دیجیے۔ اس نے کہا مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اور یہ کہہ کر اسی طرح کا ایک لڈو جس طرح کے بازار میں بکتے ہیں نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ اسے دیکھ کر لڑکوں کو سخت مایوسی ہوئی اور کہا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ ایسا لڈو کھلائیں گے جو ایک لاکھ آدمیوں نےبنایا ہو گا لیکن اب آپ نے ایک معمولی سا لڈو سامنے رکھ دیا ہے یہ کیا بات ہے۔ چچا نے کہا۔ قلم لے کر حساب کرنا شروع کرو مَیں بتاتا ہوں کہ اس لڈو کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہے۔ دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا ہے پھر اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئی ہیں ان میں سے ہر ایک چیز کو کئی کئی آدمیوں نے بنایا ہے۔ مثلاً شکر ہی کو لے لو اوردیکھو کہ اس کی تیاری پر کتنے ہزار آدمیو ں کی محنت خرچ ہوئی ہے کوئی شکر کو ملنے والے ہیں کوئی رس نکالنے والے، کوئی نیشکر بونے والے۔ پھر ہل جوتنے پانی دینے حفاظت کرنے والے۔ اسی طرح ہل میں جو لوہا اور لکڑی خرچ ہوئی ان کے تیار کرنے والوں کو گنیےاسی طرح اگر تم تمام چیزوںکے بنانے والوں کا شمار کرو تو کیا لاکھ سے بھی زیادہ آدمی بنتے ہیں یا نہیں؟ بھتیجوں نے یہ بات سن کر کہا جو آپ کہتے تھے وہ ٹھیک اور درست ہے۔

غور کرنے کا نتیجہ

تو بعض باتیں بظاہر چھوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن اگر غورو فکر سے کام لیا جائے تو پتے پتے سے خدا تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی اور شان و شوکت، جلال اور جبروت، قدرت اور حکمت ظاہر ہوتی ہے۔ جن کو خدا نے غور کرنے والا دل و دماغ دیا ہے وہ غور کر کے معمولی سے معمولی چیزوں سے بڑے بڑے عظیم الشان فوائد حاصل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب لوگ کئی ایک چیزوں کو کہہ دیتے تھے کہ یہ ردی ہیں۔ کسی کام کی نہیں۔ کسی مصرف میں نہیں آسکتیں۔ مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسی قوم جو غور وفکر سے کام لینے والی ہے۔ وہ ردی سے ردی اور ادنیٰ سے ادنیٰ چیزوں کو بھی استعمال میں لا کر فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پاخانے سے بڑھ کر اور کیا چیز ردی اور فضول ہو سکتی ہے لیکن اس سے بھی ہزاروں روپے حاصل کیے جاتے ہیں۔ ہڈیوں کو فروخت کر کے لاکھوں روپے کما لیے جاتے ہیں۔ اسی طرح درختوں کے پتے جنہیں بالکل فضول سمجھا جاتا ہے اور بھڑ بھونجے اکٹھا کر کے لے جاتے ہیں۔ ان سے بڑے بڑے کام لیے جاتے ہیں۔ پھر گلیوں کے کوڑا کرکٹ کو فروخت کیا جاتا ہے یہ کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے غور وفکر کے ذریعہ معلوم کر لیا ہے کہ ان اشیاء میں بھی فائدے ہیں تو جو لوگ غور کرنے والے ہوتے ہیں وہ ادنیٰ سے ادنیٰ بات سے بھی اعلیٰ سے اعلیٰ نتیجہ نکال لیتے ہیں۔

(…………………باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button