دعوتِ علماء (قسط اوّل)
از: سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
مارچ 1922ء میں قادیان میں غیر احمدیوں نے اپنا سالانہ جلسہ منعقد کیا۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس جلسہ پر آنے والے غیر از جماعت علماء کو تحقیق حق اور تبادلۂ خیالات کے لیے دعوتِ علماء کے عنوان سے 25؍ مارچ کو ایک خصوصی پیغام تحریر فرمایا۔
حضورنے اپنے اس پیغام میں علماء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ چونکہ ہمارا اختلاف دنیاوی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ لہٰذا اس اختلاف کو اسی رنگ میں مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق ہو۔ حضور نے علماء کو یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہوئے باہم فیصلہ کے تین طریق پیش فرمائے۔
حضرت مصلح موعودؓ کا یہ خصوصی پیغام قارئینِ الفضل انٹرنیشنل کے استفادے کے لیے اس دعا کے ساتھ بالاقساط شائع کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کی متلاشی سعید روحوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی سچائی کو پرکھنے اور اسے پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔(مدیر)
اے علماء کرام! جو جلسہ غیر احمدیان کے موقع پر قادیان تشریف لائے ہیں مَیں آپ لوگوں سے چند باتیں خلوصِ نیت اور محبت بھرے دل کے ساتھ کہنی چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ بھی اسی محبت اور اخلاص کے ساتھ ان پر غور کریں گے جس محبت اور اخلاص سے کہ مَیں ان کو پیش کرنے لگا ہوں۔
آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارا اختلاف ایک مذہبی اختلاف ہے کوئی دنیاوی جھگڑا یا حق رسی کا سوال ہمارے اور آپ کے درمیان پیدا نہیں ہوا۔ یہی لوگ جو اس جلسہ کے بانی ہوئے ہیں کچھ عرصہ پہلے اپنی خوشیوں اور اپنے غموں میں ہمارے آباء کی طرف رجوع کرتے تھے اور وہ بھی جس طرح باپ اپنے بیٹے سے محبت کا سلوک کرتا ہے عُسر اور یُسر میں ان کے شریک ہوتے اور خود تکلیف اُٹھا کر ان کو آرام پہنچاتے تھے۔ حالات سے ناواقف نوجوان جو چاہیں کہیں اور کریں مگر قادیان اور اس کے ارگرد کے بوڑھے اس امر کی شہادت دیں گے کہ ہمارے آباء نے اپنے عروج کے وقت بھی جب ان کو قادیان اور اس کے اردگرد کے علاقہ پر حکومت حاصل تھی ان سے محبت کا تعلق ہی رکھا تھا اور جب وہ اپنی حکومت کھو بیٹھے اور صرف زمینداروں اور جاگیرداروں کی حیثیت ان کی رہ گئی تب بھی وہ ان سے حُسن سلوک ہی کرتے رہے اور یہ لوگ بھی ان سے اعزاز و اکرام ہی کے ساتھ پیش آتے رہے۔ یہ اختلاف جو اَب نظر آرہا ہے اسی وقت سے شروع ہوا ہے جب حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ماموریت کا دعویٰ کیا اور دنیا کی اصلاح کا کام شروع کیا۔ پس جب ان لوگوں سے جو قادیان اور اس کے نواح کے رہنے والے ہیں ہمارا کوئی دنیاوی اختلاف نہیں تو آپ لوگ جو دُور دُور کے شہروں سے آئے ہیں آپ کے اور ہمارے درمیان کوئی دنیاوی اختلاف کیونکر ہوسکتا ہے اور جب کہ ہمارا اختلاف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے تو چاہیئے کہ اس اختلاف کو ہم اسی رنگ میں مٹانے کی بھی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے منشاء کے مطابق ہو اور جس سے ان کی خوشنودی ہمیں حاصل ہو۔ یہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہوگا اگر ہم خدا تعالیٰ کے لئے آپس میں اختلاف کریں اور پھر اپنے اعمال اور اپنے اقوال سے اس کو ناراض کردیں۔ اس صورت میں ہماری مثال شاعر کے اس مقولہ کے مطابق ہوجائے گی کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
دنیا تو ہم نے اختلاف سے کھو دی اور دین اختلاف کے مٹانے کے لئے جو طریق ہم نے اختیار کیا اس سے برباد کر دیا۔
جب سے آدم علیہ السلام کی نسل دنیا میں پھیلی ہے اختلاف خیالات چلا آتا ہے اور جب تک اس زمین پر انسان بسے گا اختلاف ہوتا رہے گا۔ پس یہ چاہنا کہ اختلاف خیالات دُنیا سے مٹ جائے ایک عبث خیال ہے جو نہ آج تک کسی سے پورا ہوسکا اور نہ آئندہ ہوسکے گا۔ اختلاف طبائع ہی انسان کی ترقی کا باعث ہے۔ اگر طبائع کا اختلاف نہ ہوتا تو آج اس قدر پیشے اور مشاغل دنیا میں کیونکر نظر آتے اور اس قدر علمی ترقی کس طرح ہوتی۔ اسی امر کو مدنظر رکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ (کنز العمال جلد10 صفحہ 136 حدیث نمبر 28686 مطبوعہ حلب 1971ء)میری امت کا اختلاف بھی رحمت ہوگا یعنی وہ اختلاف جو اختلاف طبائع کی حد کےاندر محدود رہے گا۔ غرض اختلاف کا ہونا تو ضروری ہے لیکن ناپسند بات یہ ہے کہ اختلاف بڑھتے بڑھتے حق و باطل کا اختلاف ہوجائے یا یہ کہ اختلاف کے وقت انسان اپنے آپ سے اس قدر باہر ہوجائے کہ تقویٰ اور دیانت کو بالکل چھوڑ بیٹھے اور اپنی بات کی پچ اسے اس قدر ہوجائے کہ وہ اس کے ثابت کرنے اور منوانے کے لئے جھوٹ اور دھوکے سے بھی پرہیز نہ کرے اور خدا کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر اپنی غلطی کو سمجھ کر بھی اس پر مُصر رہے۔ یاجیت ہار کا خیال اس قدر اس کے دامنگیر ہوجائے کہ وہ دوسرے کی بات پر غور ہی نہ کرے یا اگر غور کرے تو اس خیال سے نہیں کہ اگر وہ سچی ہو تو اسے تسلیم کر لوں بلکہ اس خیال سے کہ اس میں سے کوئی نقص نکالوں اور اس کا کوئی عیب پکڑوں اور پھر اس وہمی عیب یا نقص کو لوگوں کے سامنے پیش کر کے ان کو حق کے قبول کرنے سے باز رکھوں۔ جب اختلاف یہ رنگ اختیار کر لے تو یہ اختلاف باوجود مذہبی اختلاف ہونے کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا موجب ہوتا ہے اور اس کی غیرت کو بھڑکاتا ہے کیونکہ اس کا مرتکب اپنی عزت کو اللہ تعالیٰ کی عزت پر اور اپنی کامیابی کو اللہ تعالیٰ کے دین کی کامیابی پر مقدم کر لیتا ہے۔ اسے یہ فکر نہیں رہتی کہ خدا کا جلال دُنیا میں ظاہر ہو بلکہ یہ فکر لگ جاتی ہے کہ میری عزت ہو اور لوگ سمجھیں کہ یہ بڑا عقل مند اور دانا انسان ہے۔ یہ مقام نہایت ہی خطرناک ہے لیکن لوگوں کی تعریف اور اپنے نفس کی بڑائی کا خیال بہت سے لوگوں کو اس مقام پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے اور اس دنیا کی عزت کی خواہش آخرت کی وسیع زندگی کی ترقیات کو آنکھوں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ اس لئے خدا پر یقین رکھنے والے بندوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک اختلاف کے موقع پر اپنی نیتوں اور ارادوں کو ٹٹولتے رہیں اور اپنے طریق عمل کو جانچتے رہیں تا ایسا نہ ہو کہ اختلاف مٹاتے مٹاتے اپنے آپ کو مٹا دیں اور بدی کا قلع قمع کرتےکرتے صداقت اور راستی کے گلے پر چُھری پھیر دیں۔ خصوصاً وہ لوگ جن کی باتوں کی طرف لوگ کان رکھتے ہیں اور جن کے فیصلہ کا لوگ احترام کرتے ہیں ان کو تو بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ان کی غلطی کا اثر ان کی ذات تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ بہت سے دوسرے لوگ بھی ان کے پیچھے چل کر ہلاک ہوجاتے ہیں اور اس سے زیادہ قابل شرم کیا بات ہوگی کہ ایک شخص دوسرے پر اعتبار کر کے اپنا دین اور ایمان بھی اس کے سپرد کر دے اور وہ فخر و مباہات کی بازی میں اس کو بھی ہار دے۔ پس مَیں آپ لوگوں کو نہایت محبت اور اخلاص سے مشورہ دیتا ہوں کہ جبکہ ہمارا اختلاف محض اللہ کے لئے ہے تو آپ کو اس کے دُور کرنے کے لئے وہی طریق اختیار کرنا چاہیئے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا موجب ہو اور اس کی خوشنودی کا باعث ہو۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگ تمام کے تمام محض فتنہ کی نیت سے قادیان میںآئے ہیں یا آپ کا ظاہر اور باطن ایک نہیں ہے۔ مَیں مانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے تہ دل سے یقین رکھتے ہوں گے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ غلط تھا یا یہ کہ انہوں نے خدا پر افتراء کیا تھا لیکن کسی بات کے باطل ہونے کا یقین اگر وہ سچی ہو تو اللہ تعالیٰ کے مؤاخذہ سے انسان کو بچا نہیں دیتا۔ یہ بھی ضرور ہوتا ہے کہ اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کو انسان ان دلائل کے ذریعے سے پرکھے جن دلائل کے ذریعہ سےکہ اسی قسم کی صداقتیں پرکھی جاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ایک بات کی سچائی کو اس ذریعہ سے نہیں معلوم کرتا جو اللہ تعالیٰ نے اس قسم کی سچائی کے معلوم کرنے کے لئے مقرر کیا ہے تو وہ لاکھ یقین رکھتا ہو کہ وہ بات جھوٹی ہے خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو نہیں ہوسکتا اور اس کا یہ کہنا کافی نہیں کہ میں اس بات کو جھوٹا سمجھتا تھا اس لئے میں نے اسے نہیں مانا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب مخالف آپؐ کا مقابلہ شرارت سے ہی نہیں کرتے تھے بہت تھے جو واقعہ میں آپؐ کو جھوٹا سمجھتے تھے لیکن کیا وہ اس یقین کی وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ جھوٹے ہیں خدا تعالیٰ کے مؤاخذہ سے بچ جائیں گے۔ اس وقت بھی لاکھوں کروڑوں ہندو اور عیسائی (مسیحی) سچے دل سے یقین کرتے ہیں کہ رسول کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) نعوذ باللہ من ذالک سچے نہ تھے تو کیا ان کا یہ یقین ان کو سزا سے بچا لے گا ہرگز نہیں۔ کیونکہ ان سے یہ سوال کیا جائے گا کہ نبیوںؑ کے پہچاننے کے لئے جو طریق مقرر ہیں کیا انہوں نے ان طریقوں کو استعمال کیا تھا کہ ان کو معلوم ہوا کہ آپؐ جھوٹے تھے؟ ابوجہل کی نسبت تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹے ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ اس نے جنگ بدر جیسے نازک موقع پر جبکہ دونوں فریق مقابلہ کے لئے تیار کھڑے تھے مباہلہ تک سے گریز نہ کیا (سیرت ابن ہشام عربی جلد 2 صفحہ 280 مطبوعہ مصر 1936ء)اور دعا کی کہ جو جھوٹا ہو اس پر آسمان پرسے پتھر برسیں یا کوئی اور سخت عذاب نازل ہو۔ چنانچہ قرآن کریم میں سورۃ انفال میں ابوجہل کی اس دُعا کا ان الفاظ میں ذکر ہے:
وَاِذْ قَالُوْا اللّٰهُمَّ إِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ (الانفال:33)
مگر باوجود اس یقین کے جو اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹا ہونے پر تھا(نعوذ باللہ) وہ اللہ تعالیٰ کے حضور بری الذمہ نہیں ہوگا کیونکہ اس سے کہا جائے گا کہ خالی یقین کافی نہیں تو یہ بتا کہ کیا تو نے اس رسولؐ کو ان ذریعوں سے پہچاننے کی کوشش کی تھی جن سے کہ سچے نبی پہچانے جاتے ہیں اور اس سوال کا جواب اس کے پس کچھ نہ ہوگا۔
غرض صرف کسی شخص کے جھوٹے ہونے کا یقین اس بات کے لئے کافی نہیں ہوتا کہ اس کی مخالفت کی جائے اور یہ یقین اللہ تعالیٰ کی گرفت سے آدمی کو بچا نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس قسم کے یقین کی وجہ کیا تھی؟ کوئی شخص دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے اور دوپہر کو سحری کھالے تو اس کا روزہ نہیں ہوجائے گا اس کا یہ بھی فرض تھا کہ دروازہ کھول کر دیکھتا کہ سحری کا وقت کب آیا۔ اسی طرح جو لوگ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے متعلق لوگوں کااسی قدر فرض نہیں کہ وہ دیکھیں کہ ان کا دل ان کے متعلق کیا کہتا ہے؟ یا یہ کہ ان کے بعض خیالات سے اس کی صداقت کا کیا ثبوت ملتا ہے؟بلکہ ان کا فرض ہے کہ منہاج نبوت سے اس کے دعویٰ کو پرکھیں اور اگر دعویٰ سچا پائیں تو اس کو قبول کرلیں ورنہ رد کر دیں۔
پس آپ لوگ جو قادیان تشریف لائے ہیں۔ مَیں آپ کو مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ منہاجِ نبوت پر حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعویٰ کو پرکھیں اور انکار کرنے سے پہلے اس بات کو اچھی طرح سوچ لیں کہ یہ بات معمولی نہیں ہے۔ اگر مرزا صاحب سچے تھے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے اور وہ لوگ جو آپ لوگوں کے کہنے سے حق کے قبول کرنے سے محروم رہ جائیں ان کے گناہ کا وبال بھی آپ کی گردنوں پر پڑتا ہے۔
(جاری ہے)