دعوت علماء (قسط دوم)
از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
اسلام کی حالت اس وقت سخت نازک ہے اور مسلمان گرتے گرتے انتہائی ذلّت کو پہنچ گئے ہیں اگر آج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی ترقی کا کوئی سامان نہ ہوتا تو پھر اسلام اور دوسرے مذہبوں میں فرق کیا رہ جاتا؟ اس زمانہ سے پہلے بہت چھوٹے چھوٹے فتنوں کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجدّد آتے رہے ہیں اور قریباً تمام مسلمان اس امر کے قائل ہیں کہ ان مجددوں اور ولیوں کے ذریعے دین اسلام کی حفاظت ہوتی رہی ہے۔ حضرت سید عبدالقادر صاحب جیلانی، حضرت معین الدین صاحب چشتی، حضرت سید احمد صاحب سرہندی رضی اللہ عنھم اور ہزاروں بزرگ ان فتنوں کے فرو کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ اس وقت کے فتنہ کے فرو کرنے کے لئے جس کے مقابلہ میں زمانہ ماضی کے فتنے بالکل بے حقیقت ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بھی شخص نہیں بھیجا گیا اور اگر کوئی شخص بھیجا گیا تو نعوذ باللہ من ذالک وہ ایک دجّال اور مفتری انسان تھا اور پھر غضب یہ ہوا کہ اس نازک موقع پر اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان پر ایسے نشان بھی ظاہر کر دیئے جو مسیح موعود اور مہدی مسعود کے زمانہ کے لئے مقرر تھے۔ اگر یہ بات فی الواقع سچ ہو تو پھر ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا منشاء ہے کہ مسلمان گمراہ ہوں اور دینِ اسلام تباہ ہو۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی شان سے یہ بات بعید ہے کہ وہ ایسا کرے۔ پس حق یہی ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کے قیام اور اس کی مضبوطی کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔
آپ لوگ غور تو کریں کہ کیا جھوٹے آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہوا کرتا ہے جو آپ سے ہوا؟ اور کیا جھوٹے لوگ اسلام کی اسی طرح خدمت کیا کرتے ہیں جو آپ نے کی؟ اس وقت اللہ تعالیٰ آپؑ کی جماعت کے ذریعے سے جو بظاہر نہایت غریب اور کمزور ہے وہ کام لے رہا ہے جو دوسرے تیس کروڑ مسلمانوں سے نہیں ہوسکتا۔ ان کے ذریعے سے دشمنانِ اسلام سے اسلام کی خوبیوں کا اعتراف کروایا جارہا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والوں کی زبانوں سے آپ پر درود بھجوایا جارہا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کے کارنامے کیا ہیں جو تعداد میں، مال میں، رُعب میں، طاقت میں اس جماعت سے ہزاروں گُنے بڑھ کر ہیں سوائے اس کے کہ وہ اس خدا کے برگزیدہ کو اس کی جماعت کو گالیاں دے چھوڑیں اور وہ کیا کام کر رہے ہیں۔ اسلام میں کسی کو داخل کرنا تو ان کے لئے مشکل ہے وہ لوگ جو اسلام کے لئے اپنے اموال اور اپنی جانوں کو قربان کر رہے ہیں ان کی پیٹھ میں خنجرگھونپنااور خدمت اسلام سے باز رکھنے کی کوشش کرنا ان کا شغل بن رہا ہے۔ پس ان حالات پر غور کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق اس خدا کے برگزیدہ کو قبول کریں تا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو عزت نصیب ہو اور اس کے فضل کے آپ لوگ وارث ہوں۔ بیشک اگر آپ لوگ حق کو قبول کریں گے تو ہماری مشکلات اور تکالیف میں بھی آپ کو شریک ہونا ہوگا اور سب دُنیا کی دشمنی آپ کو برداشت کرنی ہوگی اور وہی لوگ جو آج آپ کی باتوں پر مرحبا اور جزاک اللّٰہکے نعرے لگاتے ہیں آپ کو گالیاں دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں گالیاں سننے سے زیادہ اور کونسا شیریں کلام ہوسکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کی خاطر ذلت برداشت کرنا ہی اصل عزت ہے اور یہ بات حق کے قبول کرنے میں آپ کے لئے ہرگز روک نہیں ہونی چاہیئے۔
لیکن اگر باوجود ان تمام دلائل اور براہین کے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمدؑ کی صداقت کے اظہار کے لئے نازل کئے ہیں ابھی آپ کو ان کی صداقت میں تردّد ہے تو پھر میں آپ کو نصیحت کروں گا کہ بجائے ایک خطرناک راستہ پرقدم مارنے کے اور بِلاتحقیق اور بِلا کافی وجوہ کے ایک مدعی ماموریت پر حملہ آور ہونے کے آپ اپنی قادیان کی آمد کو غنیمت سمجھ کر اس تحقیق میں لگ جاویں جو قادیان سے باہر آپ نہیں کر سکتے تھے۔
مثلاً یہ کہ کیا ان لوگوں کے جو مولوی اور عالم کہلاتے تھے اور کہلاتے ہیں بیانات درست ہیں جنہیں وہ آپؑ کے خاندان کے متعلق شائع کر کے لوگوں کو آپؑ پر بدظن کرتے تھے کیا فی الواقع آپ کا خاندان قادیان اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں اسی عزت کا مستحق نہیں رہا جو آپؑ نے اپنی کتابوں میں تحریر فرمائی ہے؟ اور پھر یہ سوچیں کہ جس شخص کے خلاف لوگوں کو بھڑکانے کے لئے بعض علماء کو اس قدر عرقریزی کرنی پڑی کہ جھوٹ سے بھی پرہیز نہ کیا۔ کیا وہ اپنی شان میں اس قدر بالا نہ تھا کہ حق کے ذریعے سے اس پر حملہ نہیں کیا جاسکتا تھا؟ پھر یہ بھی لوگوں سے دریافت کریں کہ کیا ٓاپ کی ذاتی وجاہت ایسی ہی گری ہوئی تھی جیسی کہ آپؑ کے مخالف علماء بیان کیا کرتے ہیں؟ اور اس سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ آپ نے دنیاوی فوائد کا کوئی راستہ کھلا نہ دیکھ کر مذہبی پیشوائی کی تجویز نکالی؟ اور اگر واقعات اور شہادت سے اس الزام کو سراسر جھوٹ پائیں تو واپس جا کر ان علماء کو خاص طور پر ملیں جو اس قسم کی باتیں آپ کی نسبت لکھا کرتے ہیں اور بیان کیا کرتے ہیں اور ان سے کہیں کہ آپ لوگ اس قدر جھوٹ بول کر اور افتراء سے کام لے کر اسلام کو بدنام نہ کریں اور کچھ تو عالم کہلا کر اپنے نام کی لاج رکھیں اور سچ سے بھی کام لیا کریں۔
اسی طرح آپ اس معیار قرآنی کی تحقیق کریں جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت قرآنی میں بیان فرمایاہے
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہٗ عَلَیْکُمْ وَلَا اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔(یونس:17)
یعنی ان سے کہہ دے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو میں ہرگز اس تعلیم کو تمہارے سامنے پیش نہ کرتا اور نہ اللہ ہی اس تعلیم کو تمہارے لئے ظاہر کرتا تم خود ہی غور کر کے دیکھ لو کہ اس سے پہلے ایک عمر میں نے تم لوگوں میں گزاری ہے کیا اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتا ہوں۔ اگر میری گذشتہ زندگی صاف طور پر بتا رہی ہے کہ میں جھوٹ سے بکلی پرہیز کرنے والا اور سچ کو کسی حالت میں چھوڑنے والا نہیں ہوں تو پھر سوچو کہ تم کیا کہہ رہے ہو اور میری تکذیب میں کہاں تک حق بجانب ہو۔ اس معیار صداقت کی آپ لوگ باہر اس طرح تحقیق نہیں کرسکتے جس طرح کہ قادیان میں۔ پس تعصب اور ضد کو اپنے دل سے دور کر کے اس معیار کی آپ لوگ اچھی طرح تحقیق کریں اور دیکھیں کہ کیا فی الواقع آپ دعویٰ سے پہلے ہر مذہب وملت کے لوگوں کی نظروں میں اعلیٰ درجہ کے راستباز اور سچے تھے یا نہیں۔ قادیان اور اس کے گردونواح میں ہندو بھی بستے ہیں اور سکھ بھی اور آریہ بھی اور غیر احمدی بھی اور سب مذہبوں کے پیروؤں میں ایسے لوگ زندہ موجود ہیں جو آپؑ کی جوانی سے بلکہ بعض تو بچپن سے بھی آپ کے حالات سے واقف ہیں۔ ان سے آپؑ کی زندگی کے حالات دریافت کیجئے۔ قادیان کے آریہ صاحبان میں سے لالہ بڈھے مل صاحب ہیں جو شروع سے آپؑ کی مخالفت پر آمادہ رہے ہیں ان سے دریافت کیجئے لالہ ملاوامل صاحب ہیں جو اکثر آپ کی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ان سے پوچھئے، سناتن دھرمیوں میں سے پنڈت جے کشن صاحب ہیں ان سے دریافت کیجئے، سکھ صاحبان میں سے بھائی بوڑ سنگھ و بھائی گنیشا سنگھ، بھائی بھگوان سنگھ صاحبان، غیر احمدیوں میں سے میاں امام الدین صاحب برادر میاں شادی صاحب قوم کشمیری و میاں علی بخش صاحب نائی، نواب راجپوت، چراغ شاہ قریشی، نکو ارائیں، حسینا راجپوت، پاس کے گاؤں والوں سے مثلاً کالہواں کے بھائی جھنڈا سنگھ صاحب سے اور بٹالہ کے شرفاء سے دریافت کیجئے مگر حلفی بیان لیجئے اور پھر سوچئے کہ کیا اس قسم کے راستباز انسان کی نسبت یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جھوٹا تھا۔ رات کو تو وہ راستی اور صداقت کا مجسمہ بن کر لیٹا اور صبح جُھوٹ اور افتراء کا پتلا بن کر اُٹھا۔ کیا سچ کے لئے تکلیف اُٹھانے والوں اور نقصان برداشت کرکے بھی حق نہ چھوڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی بدلا ملا کرتا ہے کہ ان کو دجّال اور مفسد ین بنا دیا جایا کرتا ہے اور ان کے ایمان کو سلب کر دیا جاتا ہے؟ اور اگر ایسا ممکن ہے تو پھر قرآن کریم کی آیت مذکورہ کا کیا مطلب ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر راستبازوں کی راستبازی کا کیا ثبوت ہے؟ اسی طرح آپ لوگ قادیان کے باشندوں اور اردگرد کے لوگوں سے یہ بھی دریافت کریں کہ دعویٰ کے بعد بھی دنیاوی معاملات میں وہ لوگ مرزا صاحبؑ کو کیسا سمجھتے تھے سچا یا جھوٹا؟ دنیاوی معاملات کی شرط میں اس لئے لگاتا ہوں کہ جب مخالفت ہوجاتی ہے تو جس امر میں مخالفت ہوتی ہے اس میں عام طور پر کمزور طبع لوگوں کو اپنے جوشوں کو حد کے اندر رکھنے کی طاقت حاصل نہیں ہوتی اور اختلاف کی وجہ سے دوسروں کی اچھی بات بھی ان کو بُری معلوم ہوتی ہے اور جب اس تحقیق کے بعد بھی اسی نتیجہ پر پہنچیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ کی زندگی بے لوث اور صادقوں کی زندگی تھی تو سمجھ لیں کہ ان پر جس قدر الزامات بعض مولوی صاحبان لگاتے ہیں وہ صرف ضد اور تعصب کا نتیجہ ہیں ان کی حقیقت کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ بات عقل میں نہیں آسکتی کہ ایک شخص کی زندگی شروع سے لے کر آخر تک صدق و راستی کا نمونہ ہو لیکن آخری عمر میں وہ اس بات کا عادی ہوجائے کہ دین کے معاملہ میں اور اللہ تعالیٰ کے متعلق وہ جھوٹ بولنے لگ جائے اگر یہ ممکن ہو تو قرآن کریم کی سچائی مشتبہ ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر حرف آتا ہے۔
نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔
اسی طرح آپ لوگ اپنے ورود قادیان سے فائدہ اُٹھا کر یہ تحقیق بھی کریں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے جو اپنے دعویٰ کے ثبوت میں آیت
فَلَا یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ (الجّن:27 28-)
کوپیش کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کثرت سے غیب کی خبریں سوائے اپنے رسولوں کے دوسروں کو نہیں بتایا کرتا اور پھر اپنی بہت سی پیشگوئیوں کا ذکر کر کے قادیان کے ہندوؤں، سکھوں اور ان مسلمانوں میں سے جو آپ کے مخالف ہیں بعض کو بطور گواہ پیش کیا ہے آیا وہ لوگ حضرت مرزا صاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات کی تصدیق کرتے ہیں یا اس سے انکار کرتے ہیں؟ اس وقت بھی ان گواہوں میں سے کئی آدمی زندہ موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ احمدی نہیں بلکہ احمدیت کے سخت دشمن ہیں۔ ان سے آپ لوگ حلفیہ طور پر حضرت مسیح موعودؑ کے بیان کے متعلق شہادت لے سکتے ہیں اور اگر وہ لوگ شہادت دینے سے انکار کریں یا آپؑ کے بیان کی تصدیق کریں تو پھر آپ لوگ غور کریں کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر بھی کثرت سے غیب کی خبریں ظاہر کرے اور قرآن کریم کی آیت
فَلَا یُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ
کو اپنے فعل سے جھوٹا کر دے؟ میں ان لوگوں میں سے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہادت کے طور پر پیش کیا ہے خصوصیت کے ساتھ لالہ ملاوامل صاحب کو پیش کرتا ہوں وہ آریہ ہیں اور ان کا خاندان قادیان میں آریہ مت کے قیام کے لئے خاص طور پر جوش رکھتا ہے۔ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے وہ حوالہ جات سنا کر جن میں انہوں نے لالہ صاحب کی شہادت کو پیش کیا ہے آپؑ کی مقرر کردہ حلف کے مطابق پوچھا جائے کہ کیا فی الواقع وہ ان باتوں کی تصدیق کرتے ہیں یا نہیں؟ اور جب آپ دیکھیں کہ لوگ شہادت سے جی چراتے ہیں یا یہ کہ دبی زبان سے ان امور کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر سمجھ لیں کہ وہ مولوی جنہوں نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہوا ہے کہ تقویٰ اور دیانت کو ایک طرف رکھ کر بعض متشابہات کی بنا پر جن کا وجود ہر نبی کی پیشگوئیوں میں پایا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اعتراض کرتے رہتے ہیں کہاں تک حق بجانب ہیں اور ان کے اس خطرناک رویہ سے بیزاری کا اظہار کر کے خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہیں اور خود ہدایت پائیں اور دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بنیں۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭