سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم
نویں شرط بیعت
’’یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض لِلّٰہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خداداد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا‘‘۔
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے:
وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّ بِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡجَارِ الۡجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِۙ وَ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا(النساء:آیت37)
اس کا ترجمہ یہ ہے: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔
سب کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم
اس آیت (النساء :37۔ناقل)میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں، عزیزوں، رشتہ داروں، اپنے جاننے والوں،ہمسایوں سے حسن سلوک کرو،ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچاسکتے ہو فائدہ پہنچائو۔ بلکہ ایسے لوگ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے، تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طورپر ملے ہو ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتاہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچائو۔اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا۔ ہمدردیٔ خلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا وصف اور خوبی اپنے اندر پیدا کرلوگے اور اس خیال سے کرلوگے کہ یہ نیکی سے بڑھ کر احسان کے زمرے میں آتی ہے اوراحسان تو اس نیت سے نہیں کیا جاتا کہ مجھے اس کا کوئی بدلہ ملے گا۔احسان تو انسان خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتاہے۔تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہو جائے گاجس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا، ہر فریق دوسر ے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کر رہا ہوگا اور اس کے حقوق محبت کے جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوگا۔ اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت،اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے اس پر عمل کر رہاہوگا۔آج کل کے معاشرہ میں تو اس کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔فرمایا:اگر یہ باتیں نہیں کروگے تو پھر متکبر کہلائو گے اور تکبر کو ا للہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا۔ تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس سے تمام فسادوں کی ابتدا ہوتی ہے۔ …ساتویںشرط میں اس بارہ میں تفصیل سے پہلے ہی ذکر آچکاہے ا س لئے یہاں تکبر کے بارہ میں تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں۔ خلاصۃً یہ ہے کہ ہمدردی ٔخلق کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں پسندیدہ بنو اور دونوں جہانوں کی فلاح حاصل کرو۔اور یہ جو احسان ایک دوسرے پر کرو یہ محبت کے تقاضے کی وجہ سے کرو،احسان جتانے کے لئے نہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتاہے
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(سورۃ الدھر: آیت9)۔
اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت کے ہوتے ہوئے، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔
اس کا ایک تو یہ مطلب ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کو اپنی ضروریات ہوتی ہیں وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے ضرورتمندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں، آپ بھوکے رہتے ہیں اور ان کو کھلاتے ہیں۔ تھڑدلی کا مظاہر ہ نہیں کرتے کہ جو دے رہے ہیں وہ اس کو جس کو دیا جارہاہے اس کی ضرورت بھی پوری نہ کرسکے، اس کی بھوک بھی نہ مٹاسکے۔بلکہ جس حد تک ممکن ہومدد کرتے ہیں اور یہ سب کچھ نیکی کمانے کے لئے کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کرتے ہیں۔ کسی قسم کا احسان جتانے کے لئے نہیں کرتے۔ اوراس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ چیز دیتے ہیں جس کی ان کو ضرورت ہے یعنی اس دینے والے کو جس کی ضرورت ہے جس کو وہ خود اپنے لئے پسند کرتے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ کی خاطر وہی دو جس کو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ یہ نہیں کہ جس طرح بعض لوگ اپنے کسی ضرورتمندبھائی کی مددکرتے ہیں تو احسان جتاکے کررہے ہوتے ہیں۔بلکہ بعض تو ایسی عجیب فطرت کے ہیں کہ تحفے بھی اگر دیتے ہیں تو اپنی استعمال شدہ چیزوں میں سے دیتے ہیں یاپہنے ہوئے کپڑوں کے دیتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کو اپنے بھائیوں، بہنوں کی عزت کاخیال رکھناچاہئے۔ بہتر ہے کہ اگر توفیق نہیں ہے تو تحفہ نہ دیں یا یہ بتاکر دیں کہ یہ میری استعمال شدہ چیزہے اگر پسند کرو تو دوں۔پھر بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے اچھے کپڑے دینا چاہتے ہیں جو ہم نے ایک آدھ دن پہنے ہوئے ہیں۔اور پھر چھوٹے ہوگئے یا کسی وجہ سے استعمال نہیں کرسکے۔ تو اس کے بارہ میں واضح ہوکہ چاہے ایسی چیزیں ذیلی تنظیموں، لجنہ وغیرہ کے ذریعہ یا خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہی دی جا رہی ہوں یاانفرادی طورپر دی جارہی ہوںتو ان ذیلی تنظیموں کو بھی یہی کہا جاتاہے کہ اگر ایسے لو گ چیزیں دیں تو غریبوں کی عزت کا خیال رکھیں اور اس طرح، اس شکل میں دیں کہ اگر وہ چیز دینے کے قابل ہے تو دی جائے۔ یہ نہیں کہ ایسی اُترن جو بالکل ہی ناقابل استعمال ہووہ دی جائے۔ داغ لگے ہوں،پسینے کی بُو آرہی ہو کپڑوں میںسے۔ غریب کی بھی ایک عزت ہے اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اور ایسے کپڑے اگر دئے جائیں تو صاف کروا کر، دھلا کر، ٹھیک کرواکر،پھر دئے جائیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا ہماری ذیلی تنظیمیں بھی، لجنہ وغیرہ بھی دیتی ہیں کپڑے تو جن لوگوں کو یہ چیزیں دینی ہوں ان پر یہ واضح کیاجاناچاہئے کہ یہ استعمال شدہ چیزیں ہیں تاکہ جو لے اپنی خوشی سے لے۔ ہرایک کی عزت نفس ہے، مَیں نے جیسے پہلے بھی عرض کیا ہے اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور بہت خیال رکھنا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا
کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’…یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نیکی کو بہت پسند کرتا ہے او روہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق سے ہمدردی کی جاوے۔ اگر وہ بدی کو پسند کرتا تو بدی کی تاکید کرتا مگر اللہ تعالیٰ کی شان اس سے پاک ہے (سبحانہ تعالیٰ شانہ) …۔پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔
وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا (الدھر:9)
وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے۔ اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے۔ میری رائے میں کامل اخلاقی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی۔ مجھے صحت ہو جاوے تومیںاخلاقی تعلیم پر ایک مستقل رسالہ لکھوں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میرا منشا ہے وہ ظاہر ہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لئے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اللہ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں۔ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ۔ میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی۔ میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اٹھاتا ہے تو چار قدم گرتا ہے لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کر دے گا۔ اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اور دعائوں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیرکچھ بنتا ہی نہیں۔ جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے۔‘‘
(ملفوظات۔ جدید ایڈیشن۔ جلدچہارم۔ صفحہ218-219)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسیہ سے اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے بہت سی بیماریاں جن کا آپ کو اس وقت فکر تھا جماعت میں ختم ہو گئی تھیں اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑا حصہ ان سے بالکل پا ک تھااورہے لیکن جوں جوں ہم اُس وقت،اُس زمانے سے دور ہٹتے جارہے ہیں، معاشرے کی بعض برائیوں کے ساتھ شیطان حملے کرتارہتاہے اس لئے جس فکر کا اظہار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے آپ کی تعلیم کے مطابق ہی تدبیر اور دعا سے اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے ان برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو ہمیشہ کامل رکھے۔
(باقی آئندہ)