احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد(حصہ ہشتم)
حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحبؒ
[پیدائش:اندازاً1791ءوفات:جون1876ء]
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ
آپ کی زندگی کا ایک عظیم الشان کارنامہ
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کا اپنے خداسے ایک خاص تعلق ہی تھا کہ جس کی بنا پر انہیں اپنے خداپرایک بھروسہ تھا،ایک مَان تھا،ایک توکل تھا۔کہ وہ خدابھی آپ کی لاج رکھتا تھا۔ آپ کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ
’’آپ ایک دفعہ سخت بیمار ہوئے اوربیماری بہت طوالت پکڑگئی۔اسی اثناء میں ان کے ہاں ایک ملاں آیا اوراس نے سمجھا کہ مرض کا بہت زورہے تووہ باہر نکل کر کواڑ کے پیچھے اس انتظار میں کھڑاہوگیا کہ کب دم نکلتاہے اور عورتیں رونا شروع کرتی ہیں۔وہ دیر تک اسی حالت میں کھڑاتھا کہ اچانک آپ کی نظر اس پر پڑگئی۔فرمانے لگے ملاں چلے جاؤابھی تومیرے بیس سال باقی ہیں تُو کب تک انتظار کرے گا۔چنانچہ سچ مچ آپ اس کے بعد ایک عرصہ تک زندہ رہے۔‘‘
(تاریخ احمدیت جلداول ص142)
اپنے خداپر حسن ظن کا یہ ایک اَور واقعہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ؓ بیان فرماتے ہیں :
’’ایک مرتبہ ایک بغدادی مولوی صاحب قادیان تشریف لائے۔حضرت مرزا صاحب (جو علماء کی قدر کرتے تھے ) نے ان کی بڑی عزت کی۔اور ہر طرح سے ان کی خاطر داری کی۔بغدادی مولوی صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ نماز نہیں پڑھتے۔ فرمایا قصور ہے۔مگر مولوی صاحب کو اس پر زیادہ ضد اور اصرار ہوا۔اور بار بار انہوں نے کہا۔کہ آپ نماز نہیں پڑھتے۔وہ ہر مرتبہ کہہ دیتے کہ قصور ہے۔آخر مولوی صاحب نے کہا۔کہ ’’آپ نماز پڑھتے نہیں خدا تعالیٰ آپ کو دوزخ میں ڈال دے گا۔‘‘
اس پر مرزا صاحب کو جوش آگیا۔اور فرمایا۔کہ تم کو کیا معلوم ہے۔کہ وہ مجھے دوزخ میں ڈالے گا۔یا کہاں؟میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بدظن نہیں۔میری امید وسیع ہے۔ اس نے فرمایا ہے۔لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِاللّٰہِ تم مایوس ہو گے۔میں نہیں۔اتنی بے اعتقادی میں نہیں کرتا۔میں خدا تعالیٰ کے رحم و کرم پر بھروسہ کرتا ہوں۔یہ تمہاری اپنی بد اعتقادی ہے۔تم کو خدا پر ایمان نہیں۔‘‘
(حیات احمدجلداول ص64)
نہ جانے وہ کون سی گھڑی تھی اور اپنے خداپر
لَمْ اَکُنْ بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیَّا
والا وہ کون سامان تھا کہ خدا نے اس کو یوں پوراکیا کہ آپ کو ایک ایسا عظیم الشان کام کرنے کی توفیق بخشی کہ جو قیامت تک کے لئے ان کے نیک انجام ہونے اورخاتمہ بالخیر کی گواہی دیتا رہے گا۔قارئین کرام !آپ کا یہ کارنامہ تھا مسجد اقصیٰ کی تعمیر!
ابھی بیان ہوچکاہے کہ حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کو اپنی زندگی دنیاوی دھندوں میں ضائع کرنے کاازحد افسوس تھا۔اور آخری عمر میں چشم گریاں اوردل بریاں کے ساتھ اس پرہم وغم کااظہار فرماتے رہتے تھے۔خداکو آپکے تاسف اور ندامت کے آنسو ایسے پسندآئے کہ ان کے دل میں قادیان کی بستی کے عین درمیان میں ایک جامع مسجد بنانے کا ارادہ پیداہوا۔اس سے پہلے انہوں نے اس مسجد کے حصول کے لئے کوشش کی جس مسجدکو قادیان پر قبضہ کرنے کے بعد سکھوں نے دھرم سالہ میں تبدیل کردیاتھا۔لیکن بعض ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے ان کے خلاف شہادت دی جس کی وجہ سے یہ مسجد آپ کو نہ مل سکی۔جس پر انہوں نے نئی زمین خرید کرمسجدبنانے کا ارادہ کیا۔جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ موجودہے۔یہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی۔[ کاردار: سکھ حکومت میں صوبے کا ناظم اعلیٰ کہلاتا تھا۔اوراس کے ماتحت کاردارتھے جن کافرض تھا کہ زمینداروں سے لگان وصول کریں اورعدالت وانصاف کاقیام کریں۔گویا کاردار ناظم صوبہ کا نائب ہواکرتے تھے۔] یہ جگہ جب نیلام ہونے لگی تو اہالیان قادیان کو چونکہ معلوم ہوچکاتھا کہ میرزاصاحب اس جگہ مسجد بنانے کا عزم کئے ہوئے ہیں اس لئے ان لوگوں نے حضرت مرزاصاحب کا خوب مقابلہ کیا۔معمولی سی قیمت والی جگہ کی سینکڑوں روپے تک بولی پہنچ گئی۔ایسی صورت حال کو دیکھ کر اس اولوالعزم دل نے عہد کیاکہ مجھے اگراپنی ساری جائداد بھی فروخت کرناپڑی تو میں وہ فروخت کردوں گا لیکن خداکے گھر کی تعمیرکرنے کے لئے یہ جگہ خرید کے رہوں گا۔
اس مسجدکی تعمیرکے متعلق مزیدیہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس جگہ کوجب انگریزحکومت نے نیلام کرناچاہاتو یہاں کے مقامی ہندوؤں نے اس جگہ ٹھاکردوارہ بنانے کامنصوبہ بنایا۔حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب ؒکی غیرت دینی نے یہ گوارانہ کیااور میاں جان محمدصاحب جوکہ مسجداقصیٰ کے مؤذن اورامام وغیرہ بھی تھے ان کوحضرت مرزاصاحب نے فرمایاکہ تم بولی میں کھڑے ہوگے اوریادرکھناکہ آخری بولی ہماری ہی ہونی چاہیے۔
[الحکم 7؍اپریل1937ء صفحہ3]
چنانچہ پھرایساہی ہوا بولی کاوقت آیاتومعمولی سی قیمت والی زمین کی بولی ایک سوسے دوسوسے تین سویہاں تک کہ سات سوروپے تک چلی گئی۔لیکن دینی غیرت رکھنے والایہ مردمومن اپنے عزم کاپکارہااور خانۂ خداکے لئے اس جگہ کوحاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
ایک طرف تو زمین خریدنے کی مخالفت کا یہ عالم تھا دوسری طرف اس مسجد کے جو کہ نسبتاً ایک بڑی مسجدیعنی جامع مسجد بنائے جانے پر تمسخراور طنز کرنے والے بھی تھے جو یہ کہنے لگے کہ اتنی بڑی مسجد کی کیا ضرورت تھی۔یہاں نماز کس نے پڑھنی ہے۔اس مسجد میں چمگادڑ ہی رہا کریں گے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ اخلاص وندامت کے جذبات سے جس مسجد کی بنیاد اٹھائی جارہی ہے خدا نے اس کو ایسا قبولیت کا فخروشرف عطاکرناہوگا کہ روئے زمین پر وہ خداکی منظور ومقبول مسجد شمار ہوگی۔اور خداکے نبی کی وہ مسجدکہلائے گی اورجس میں وہ مینار تعمیرہوگا کہ جس کی خبر نبی اکرمﷺ نے چودہ سوسال پہلے دی تھی اورعین اس مینارکے نیچے اس مسجدکے صحن میں اس خدا کے پیارے کی آخری آرامگاہ ہوگی کہ دن میں پانچ وقت اس کے کانوں میں آواز پڑاکرے گی کہ اللہ اکبر! اللہ اکبر! سب سےبڑاہے وہ اللہ،سب سے بڑاہے وہ اللہ،کتنا بڑاہے کہ اس کےنام سے محبت کرنے والا،اس پرحسن ظن رکھنے والا بھی اتنا بڑاہوجاتاہے کہ دنیا کے کونے کونے سے لوگ آآکر اس مسجد میں اپنی جبین نیاز جھکانا اپنی عین سعادت سمجھیں گے اور جب وہ واپس جانے لگیں گے تو اس کی روح ان دعائیں کرنے والوں کوپکارے گی کہ
اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو اِدھربھی
اوروہ جو دوردرازملکوں سے اس مسجد کی طرف کھچے چلے آئے ہوئے ہوں گے وہ جاتے ہوئے اس کی مغفرت کے لئے بھی دعا کرتے ہوئے جائیں گے کہ :
اے خدا برتربتِ او ابرِ رحمت ہاببار
داخلش کن ازکمال فضل در بیت النعیم
[اے رحیم وکریم خدا! تواس کی قبرپراپنی رحمتوں کی بارشیں برساتے رہنا اوراپنے فضل سے نعمتوں والی جنت میں اس کوداخل فرمانا]
بہرحال مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔اورآپ نے وصیت کرتے ہوئے مسجد کے صحن کے باہر ایک جگہ نشان کیا کہ میری قبر اس جگہ بنائی جائے۔اور ملفوظات جلد 5صفحہ 426 کے مطابق اپنی وفات سے صرف بائیس 22 دن پہلے اپنی قبر کا نشان بتلایا کہ اس جگہ ہو۔حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے والدماجد کے اس جذبہ ٔ محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قریباً چھ ماہ پہلے حضرت والد صاحب نے اس قصبہ کے وسط میں ایک مسجد تعمیر کی کہ جو اس جگہ کی جامع مسجد ہے۔ اور وصیّت کی کہ مسجد کے ایک گوشہ میں میری قبر ہو تا خدائے عزّوجلّ کا نام میرے کان میں پڑتا رہے کیا عجب کہ یہی ذریعہ مغفرت ہو۔ چنانچہ جس دن مسجد کی عمارت بہمہ وجوہ مکمل ہوگئی اور شاید فرش کی چند اینٹیں باقی تھیں کہ حضرت والد صاحب صرف چند روز بیمار رہ کر مرض پیچش سے فوت ہوگئے اور اس مسجد کے اسی گوشہ میں جہاں انہوں نے کھڑے ہوکر نشان کیا تھا دفن کئے گئے۔ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّة آمین۔ قریباً اسی 80یا پچاسی 85 برس کی عمر پائی۔‘‘
(کتاب البریہ :روحانی خزائن 13صفحہ191حاشیہ)
اور یوں آخری عمر میں رقت کےساتھ پڑھنے والا ان کا اپنا ہی یہ شعر کس طرح ایک دعائے مستجاب بن گیا:
ازدرِ تو اے کسِ ہر بیکسے
نیست امیدم کہ روم نا امید
[اے ہر بے سہاروں کے سہارے ! مجھے ہرگز امیدنہیں کہ مَیں تیرے دَر سے ناامید جاؤں گا۔]
جس کے لئے نہ جانے ان کافرزنددلبندگرامی ارجمند،خداکاوہ فرستادہ کتنی دعائیں کرتاہوگا کہ جس میں سے ایک دعایہ بھی ہے کہ اللّٰھم ارحمہ و ادخلہ الجنّة۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭