متفرق مضامین

سائنسدانوں کی ناقابل یقین دھوکے بازیاں

(محمد ذکریا ورک۔ کینیڈا)

سا ئنسدانوں کو عموماََ ایمان دار، سمجھ دار، اچھے کردار والے تصور کیا جاتا ہے۔ مگر بعض ایسے سائنسدان بھی ہو گزرے ہیں جنہوں نےفراڈ اور دھوکے سے سا ئنس میں ایسے نتائج پیدا کیے جن کا پیداہو ناممکن نہیں تھا۔

آج سے آٹھ سال قبل پا کستانی خود ساختہ موجد آغا وقاراحمدنے جولائی 2012ء میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ واٹر مالیکیول کواللہ کے فضل سے آکسیجن اور ہائیڈروجن ایٹمزمیں بغیر انرجی کے تقسیم کر سکتا ہے۔اس ایجاد سے پاکستان کا انرجی کا بحران ختم ہوجائےگا اور لوگوں کےلیے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔ کا بینہ کے اجلاسوں میں وفاقی وزراء نے پروفیسر احمد اور اس کی نئی ایجادسے چلنے والی کار کی بےحدتعریف کی۔ مذہبی امور کے وزیر خورشید شاہ ٹیلی ویژن پر مسٹر احمد اور اس کی سوزوکی کےساتھ شان و شوکت سے جلوہ گر ہوئے جو واٹر کٹ سے چل رہی تھی۔ ملک کے عالمی ‘شہرت یافتہ’ سائنسدان عبدالقدیر خاں نے کہا کہ میں نے اس معاملہ کی تحقیق کی ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا فراڈ نہیں ہے۔بس اس کے بعد تو پروفیسر کی شہرت آسمان تک پہنچ گئی۔پروفیسرآغا احمد نے کہا کہ اس نے دس لیٹر پر 250میل تک کار چلائی ہے۔ یادرہے کہ پروفیسر موصوف نے 1990ء میں خیرپور سے میکینکل انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی، مقامی پولیس میں ملازم رہے اور اس اعلان کے وقت بے روزگار تھے۔ اس سنسنی خیز خبر پر اپنے رد عمل کا اظہار پروفیسر ہود بھائی نے یوں کیا کہ ملک اس وقت جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرچکا ہے۔یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ پا کستان میں ایسے دعوے کرنا عام بات ہے۔ 2010ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ پر وفیسر عطاء الرحمٰن نے کہا تھاکہ امریکی حکومت الاسکا میں ایسے سائنس پروجیکٹ پر کام کررہی ہے تا کہ دنیا کا موسم تبدیل کیا جا سکے۔ اس کے بعد دنیا میں زبردست سیلاب، سونامی اور زلزلے آئیں گے۔

(نیویارک ٹائمز،5؍اگست2012ء)

سائنسدانوں کے اس قسم کے فراڈ، فریب اور دھوکا بازی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس مضمون میں ہم عہد قدیم سے لے کر عہد جدید تک کے سائنسدانوں کے دھوکے بازیوں پر مبنی بعض ناقابل یقین،حیران کن واقعات پیش کررہے ہیں۔

بڑے بڑے ممتاز سائنسدان دھوکے بازی سے باز نہیں رہے۔مغربی دنیا ایک ہزار پا نچ سو سال تک یونانی سائنسدان بطلیموس(Ptolemy) کے نظام ہیئت کو مقدس و مکمل جان کر اس پر یقین کرتی رہی۔اس نظام ہیئت میں زمین کائنات کا مرکز تھی۔ اپنی تھیوریز کو اس نے جس طرح تجربات کے ذریعہ ثابت کیا اس کےلیے اس پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسائے جاتے رہے۔ کو پرنیکس کے نظام ہیئت نے اس کے نظام کا ئنات کو غلط ثابت کردیا اس کے باوجود سکالرز اس کی قدربحیثیت عظیم المرتبت سائنسدان کر تے رہے۔مگربیسویں صدی میں ہیئت دانوں نے اس کے نتائج کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کیا۔ کیونکہ یہ نتائج اتنے اعلیٰ تھے کہ ان کی سچائی پر شک ہوتا تھا۔ مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ جن تجربات کا اس نے دعویٰ کیا تھا، ان کا کیے جانا ہی محال تھا۔ جب اس کے نتائج کو مکمل طور پر جانچا گیا تو معلوم ہوا کہ اگر یہ مشاہدات بحیرہ روم کے جزیرہ رھوڈ Rhodeسے کیے جاتے تو ان کا ہونا ممکن تھا جبکہ بطلیموس اسکندریہ (مصر)میں رہتا تھا۔بطلیموس سے چند صدیاں قبل یونانی سائنسدان ہپارکس نے یہی مشاہدات جزیرہ رھوڈ میں کیے تھے۔ بجائے اس کے کہ بطلیموس باہر جاتا اور مشاہدات خود کرتا اس نے اسکندریہ کی مشہور لا ئبریری کی پر شکوہ عمارت کے اندربیٹھ کر ہپارکس کے نتائج کو نقل کر کے ان کو اپنی طرف منسوب کر دیا۔ اس کے بعد فیصلہ کن معاملہ اس وقت سامنے آیا جب محققین نے132ء میں خزاں کے اعتدالین کا صحیح وقت کیلکولیٹ کیا۔ بطلیموس نے کہا تھا کہ اس نے 25؍ستمبر2بجے اس کا مشاہد ہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ24؍ستمبر کو 9:54amکو واقع ہوا تھا۔

بطلیموس ہی ایسا کا سمالو جسٹ نہیں تھا جس نے دھوکا بازی کی تھی۔اطالوی سا ئنسداںگیلی لیو (Galileo) کے بارے میں اب پتہ چلا ہے کہ اس نے بہت سارے تجربات نہیں کیے تھے جو کشش ثقل کی تحقیقات کے دوران اس کے بقول کیے گئے تھے۔ ان تجربات کےلیے اس نے جو خام مواد استعمال کیا تھا اگر اس نے واقعی وہی استعمال کیا ہوتا تو تجربات ہرگزکا میاب نہ ہوتے۔ اس کے بہت سارے ہم عصر سائنسدانون نے اس کے مزعومہ تجربات کو دوبارہ اپنے طور پر کرنا چاہا تو وہ کا میاب نہ ہوئے۔

جان ڈالٹن (Dalton)کی شہرت اس وجہ سے ہےکہ اس نے مادہ کی اٹامک تھیوری پیش کی تھی۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے تھیوری کی سپورٹ کےلیے تجرباتی ڈیٹا میں ادل بدل کیا تھا۔ حتیٰ کہ آئزک نیوٹن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ‘پر نسپیا ’میں میتھے میٹکس (حساب) میںگڑ بڑ کی تھی تا کہ قانون ثقل کی تھیوری کےلیے قائل کر نےوالا کیس بنایا جا سکے۔

مارکو پولو کا مزعومہ سفر چین

ما رکو پولو (Marco Polo)کی کتاب جو اس نے مزعومہ طور پر چین کے سفر کے بعد لکھی تھی یعنی ڈسکرپشن آف دی ورلڈ (1298ء) وہ شاید کسی بھوت نے لکھی تھی۔ کتاب میں کہیں بھی چینی قوم کے پاؤں کو باندھنے، چاپ سٹکس یا دیوار چین کا ذکر نہیں ہے۔ ہاں اس نے چند ایک چینی اختراعات وایجادات کا ذکر کیا جس کا یورپین اقوام کو علم نہ تھا۔ جیسے پیپر منی اور کوئلے کا جلایا جانا۔ ممکن ہے اس کو ان باتوں کا علم ان تاجروں کے ذریعہ ہوا ہو جن سے اس کے خاندان کے افراد بزنس کرتے تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا گھوسٹ رائٹر Rustichello da Pisa ہوجس کو مارکو نے اپنی یادداشت جے نووا Genoaمیں قید کے دوران املا کروائی تھی۔ یا پھر اس نے اصلیت سے مشابہت پیدا کرنے کےلیے مواد میں خود ہی اضافہ کر دیا ہو۔

جرمن عضویات دان ارنسٹ ہائینرک ہیکل (Haeckel) متروک شدہ بائیو جینیٹک لاء کی وجہ سے مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قانون نے ڈارون کی ارتقائی سائنسی سوچ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ڈارون نے کتاب اوریجن آف سپیشیز (1859ء) میں اس قانون کا بالکل ارداۃََ ذکر نہ کیا البتہ ہیگل Hegelنے vertebrae physiologyمیں اہم سائنسی کام کا ذکر کیا تھا۔ برطانیہ کے ما ہر جینیات مائیکل رچرڈ سن نے 1990ء کی وسط دہائی میںدیکھا کہ ایک ڈایاگرام میں ہیکل نے ڈیویلپنگ ایمبریوdeveloping embryoکی اشکال میں کافی حد تک حقیقت کے بر عکس تبدیلی کی تھی تا کہ اس کے بائیو جینیٹک لاء کو صحیح ثابت کیا جا سکے۔

فرنچ سا ئنسدان کی دھوکے بازی

لو ئیس پا سٹور (Pasteur)نے دوموقعوںپر دھوکے بازی کی تھی۔ ایک تو1881ء میں بھیڑوں کے انتھریکس کے خلاف ٹیکہ، اور دوسرے 1885ء میںانسانوں کے باؤلے کتے کے کاٹنے کے جنون کےلیے ٹیکہ۔بھیڑوں کےلیے ٹیکے کے متعلق اس نے کہا کہ ٹیکہ اس نے خود بنا یا تھا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اس کے معاون شریک کار چارلس چیمبر لینڈ (1908ء) نے ٹیکے کا طریق کار وضع کیا تھا۔

دوسرے واقعے میں دھوکے بازی یہ تھی کہ اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کتوں پر تجربات کیے تھے قبل اس کےکہ جنون سے مزاحمت اور بچاؤ کےلیے ٹیکہ لگایاجاتا۔ جس شخص کو باؤلے کتے کی کاٹ سے بچاؤ کا ٹیکہ لگایا گیا تھا وہ جوزف مائسٹر Meisterتھا جو خوش قسمتی سے بچ گیا حالانکہ کتوں پر تجربات نہیں کیے گئے تھے۔ ٹیکے کے بغیر مائسٹر نے مر تو جانا ہی تھا مگر لوئیس پاسٹور دراصل ٹیکہ لگا کر رسک لے رہا تھا۔ بچ گیا تو شہرت ورنہ مرنا تو اس نے ہے ہی۔ دونوں صورتوں میں دھوکے بازی کا مقصد یہ تھا کہ پاسٹور خود کو ماسٹر سائنٹسٹ ثابت کر سکے۔

سر چارلس وھیٹ سٹون (Sir Charles Wheatstone)کی شہرت بجلی میں تجربات اور ٹیلی گرافی کی بنا پر ہے نیز اس کا نام وھیٹ سٹون برج کی وجہ سے بھی زبان زد عام ہے۔ اس کا پس منظریوں ہے کہ سکاٹش موجد الیگزنڈر بین کا دماغ زرخیز ترین تھا جس نے نئی ایجاد شدہ بجلی کی فیلڈ میں نت نئے اضافے کیے۔ جیسے اس نے الیکٹرک کلاک بنائی، ٹیلی گراف سسٹم، ریلوے سیفٹی سسٹم، دور سے گھڑیوں کے اوقات ایک جیسے کرنا، الیکٹرک کیبلز کو انسولیٹ کرنا وغیرہ۔ مکینکس میگزین کے مدیر نے اس کا تعارف وھیٹ سٹون سے کروایا۔ بین(Bain) لندن آیا اور وھیٹ سٹون سے ملاقات کے دوران اسے اپنی ایجادات دکھائیں جن میں الیکٹرک کلاک بھی شامل تھی۔ بوڑھا سائنسدان ان ایجادات سے متاثر نہ ہوا، اس کے نزدیک ان کی وقعت کھلونوں سے زیادہ نہیں تھی۔بین نے اس کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہ دی اور پیٹنٹ کےلیے اپلائی کردیا۔ کچھ مہینوں بعد وھیٹ سٹون نے رائل سوسائٹی کو الیکٹرک کلاک دکھائی جو اس نے ایجاد کی تھی۔ اس کے بعد وھیٹ سٹون نے، بین کے دیگر پیٹنٹ کے خلاف درخواست دی جومسترد کر دی گئی۔اب اس نے الیکٹرک ٹیلی گراف کمپنی قائم کرلی اور بین کی بہت ساری ایجادات کا استعمال شروع کردیا۔ اس نے حکومت سے انوسٹمنٹ کےلیے درخواست دی تو ہاؤس آف لارڈز نے انکوائری شروع کردی جس میں بین بطور گواہ کے پیش ہوا۔ وھیٹ سٹون کی چوری پکڑی گئی اور کمپنی کو مجبور کیا گیا کہ وہ بین کو رقم ادا کرے۔ امریکہ میں بین کی ایجادات کی بڑے پیمانے پر چوری کی گئی اور لوگ دولت مند ہوگئے۔

امیو نالوجی کا موجد

برطانوی فزیشن اور سائنسدان ایڈورڈ جینر (Edward Jenner) کو چیچک کے ٹیکے کو متعارف کروانے والا اور امیونالوجی کا جد امجد کہاجاتا ہے۔ تاریخ میں یہ بات محفوظ ہے کہ جینر کو احساس ہوا کہ چیچک سے بچاؤ اور دفاع اس کی milder strainیعنی گائے کو لگنے والی بیماری کاؤ پاکسCowpox کا ٹیکہ لگا نے سے ممکن ہو سکتا ہے۔مئی 1796ء میں اس نے اپنے مالی کے بیٹے آٹھ سالہ بچے جیمز فپسPhippsکودونوں بازوؤںمیں کاؤ پاکس کا ٹیکہ لگا یا اور کچھ ہفتوں بعد چیچک کا۔ جینر نے دعویٰ کیا کہ فپس میں کاؤ پاکس کے ٹیکے سے قوت مدافعت پیدا ہوگئی ہے اور وہ مزید بیماریوں سے مامون ہوگیا ہے۔ جینر کو معلوم تھا کہ بچہ مر بھی سکتا ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ بیس سال قبل 1774ء میں ڈورسٹ کے کسان بنجمن جیسٹی(Jesty) نے مایوس ہو کر اپنی بیوی اوردو بچوں کو بھی کاؤ پاکس کا ٹیکہ لگا یا تھا کیونکہ اس وقت چیچک کی مہلک وبا کاؤنٹی میں پھیلی ہوئی تھی۔ جینر نے بنجمن کے ٹیکہ لگانے کا انکشاف کھل کر نہ کیا، حالانکہ1802ء میںپارلیمنٹ کی طرف سے اس کو انعام دیا گیا۔ نہ ہی اس کا اظہار اس کے ہم عصر ڈاکٹروں نے کیا۔

پینی سیلین کا موجد

الیگزنڈر فلیمنگ (Fleming)نے پینی سیلین دریافت کی جس سے اینٹی بائیوٹکس بنانے کا آغاز ہوا۔ اس کے نتیجہ میں دنیا میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بننے سے بچ گئے۔ فلیمنگ نے یہ دریافت1928ء لندن میںحادثاتی طور پر کی تھی جب کلچر ڈش اتفاقاََ آلودہ ہو گئی تھی۔ اس نے اس دریافت کونام بھی دیا اور بیکٹیریا مارنے والے کے طور پرچند تجربات بھی کیے تھے، مگر جلد ہی اس نے دلچسپی چھوڑ دی اور دیگر کاموں میں مصروف ہو گیا۔ پینی سیلین کا ایک نمونہ آکسفورڈ یو نیورسٹی کے پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کو تجربہ میں استعمال کےلیے بھیجا گیا مگر اس تجربہ کےلیے یہ بے سود ثابت ہوئی۔ مگر اس نمونہ کو ضائع نہیں کیا گیا کہ شاید آئندہ کسی جگہ کام آجا ئے۔ پروفیسر ہاورڈ فلوری Florey نے 1968میںڈیپارٹمنٹ کا چارج لیا، اس کو بھی پین سیلین کاعلم تھا مگر اس کے نزدیک بھی اس کی کوئی میڈیکل پوٹینشل نہیں تھی۔ مگر جرمنی سے آئے رفیوجی بائیو کیمسٹ ارنسٹ چین (Ernst Chain)اس کے بارے میں جان کر بہت متجسس ہواجب اس نے فلیمنگ کی دریافت اور تجربات کے متعلق ریفرنس پڑھا۔ فلیمنگ کے خیال میں پینی سیلین بیکٹیریا کو مار دیتی تھی مگر کچھ عر صہ کےلیے۔ نیز یہ کہ unstableتھی۔ چین نے محنت کر کے اس کا stable versionبنا لیااور یوں اینٹی با ئیوٹکس کے دور کا آغاز ہوا۔ یہ خبر ملنے پر فلیمنگ کو اپنی زبردست دریافت کی اہمیت کا احساس ہوا۔ یہ دریافت لندن کے سینٹ میری ہاسپٹل میں کی گئی تھی جہاں وہ کام کرتا تھا۔ اخبارات کے رئیس التجار لارڈ بیوربروک (Beaverbrook)نے سوچا کہ اینٹی با ئیوٹک انقلاب سے سینٹ میری ہا سپٹل کا تعلق ہونا فائدہ مند ہوگا اس لیے اس نے اس ایجاد کا تمام کریڈٹ فلیمنگ کو دے دیا۔ فلیمنگ کو بھی یہ بھلا لگا اور اس نے فلوری Floreyاور چین Chainکی کنٹری بیوشن کو تسلیم نہ کیا۔ فلوری کو یہ بات بالکل نہ بھائی اور اس نے رائل سوسائٹی اور میڈیکل ریسرچ کونسل میں شکایت درج کرادی۔ دونوں مذکورہ اداروں نے فلیمنگ کے اس فراڈ کا انکشاف اپنے مفادات کے خلاف جانا۔ تا ہم 1945ء کا میڈیسن کا نوبیل انعام چین، فلوری اور فلیمنگ کو دیا گیا۔اتفاقی دریافت تو کوئی بھی کر سکتا ہے مگر اس کی اہمیت کو جاننا اور زندگیاں بچانے میں مدد گار ثابت کرنا اصل بات ہے۔

نوبیل انعام کی تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ انعام ایک سائنسدان کو دیا گیا جبکہ اصل کام کسی اَور سائنسدان نے کیا تھا۔ اس کی واضح مثا ل برطانوی ریڈیواسٹرونومر اینتھونی ہوئش (Anthony Hewish)ہے جس کو فزکس کا 1974ء کا انعام دیا گیا کیونکہ اس نے پلسار ز Pulsarsکی ٹھوس تحقیق کی اور ان کو دریافت کیا تھا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نیوٹران سٹارز یعنی پلسارز اس کی گریجوایٹ خاتون طالبعلم جوائسلین بیل (Jocelyn Bell) نے دریافت کیے تھے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہوئش نےاس کی تحقیق کو سپروائز کیا، اس کو گائیڈ کیا تھا، نیز حاصل ہونےوالے نتائج کی تعبیر میں بھی بڑا کردار ادا کیا تھا۔ اس لیے اس کو نوبیل انعام کا حق دار قرار دینا مناسب تھا مگر اس کے ساتھ بیل کو انعام دیا جانا چاہیے تھا۔

پروفیسر کا شاگرد کو دھوکا دینا

پروفیسر اور شاگرد کے ایک اَور واقعے کا تعلق امریکی سائنسدان رابرٹ ملیکن(Millikan) سے تعلق رکھتا ہے جس کو1923ء میں الیکٹران کا الیکٹرک چارج معلوم کرنے پر نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ کیمبرج یو نیورسٹی میں اس کےلیے ایک تجربہ تیار کیا گیا تھا جس میں پانی کے قطرے استعمال کیے گئے تھے لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے تھے کیونکہ قطرے فوراََ بخارات بن کر ختم ہو جاتے تھے۔ اس دوران 1909ء میںملیکن کی ٹیم شکاگومیں لیبارٹری تجربہ کو ریفائن کر کے اچھے نتائج کی امیدوار تھی۔ کئی ماہ کی نا امیدی کے بعد یہاں حسن اتفاق سے ایک گریجوایٹ طالب علم ہاروی فلیچر (Fletcher) آگیا۔ اس نے تجربہ میں پانی کے قطروں کی بجائے تیل کے قطرے استعمال کیے اور تجربہ نہایت خوبصورتی کےساتھ کامیاب رہا۔ اس کے بعد پروفیسر اور شاگرد باہمی تعاون سے کام کرتے رہے، دونوں نے ایک مقالہ تیار کیا جو1910ء میں شائع ہوا۔ تاہم ملیکن نے فلیچر سے کہا کہ یونیورسٹی پروٹوکول کے مطابق مقالہ پر صرف اس کا نام ہوگا۔ اس مقالہ کی وجہ سے اس کو نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔ فلیچر کی فراخدلی دیکھیے وہ تمام عمر اس معاملے کے متعلق حرف شکایت زبان پر نہ لایا۔

ایسٹرو فزکس کے بانی مبانی سر ایڈورڈ ایڈنگٹن (Sir E. Eddington)نے جس طریق سے نوجوان ہندوستانی طبیعیادت دان سبرا منیم چندرا شیکھر(Chandrasekhar) کےساتھ ذلت آمیز سلوک کیا وہ بھی ایک المیہ ہے۔ 1935ء میں چندرا نے، ایڈنگٹن کے ماتحت کام کر نے کے دوران ایک پیپر پیش کیا کہ وہ ستارے جو سورج سے 1.4 timesبڑ ے ہوتے ہیں وہ اپنی زندگی کے آخر پر خودہی منہدم یا ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا جس سے انکشاف ہواکہ بلیک ہولز پائے جاتے ہیں۔ چندرا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ چند سالوں سے ایڈنگٹن گرینڈ یونیورسل تھیوری پر کام کر رہا تھا جو بالکل بیکار ہوجاتی اگر یہ ثابت ہوجاتا کہ واقعی ستارے collapse یا منہدم ہوجاتے ہیں۔ جس اجلاس میں چندرا نے اپنا مقالہ پیش کیا وہاں ایڈنگٹن نے خوب بد تمیزی کی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ وہاں موجود لوگوں میں سے کوئی اس کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ خوش قسمتی سے چندرا نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اگلے کئی سالوں تک اپنی کیلکو لیشنز کے صحیح ہونے پر اصرارکرتا رہا۔ اس کی کیلکولیشنزکی فزکس کے قد آور سائنسدانوں نیلز بوھر، پال ڈائراک نے تصدیق کی تھی۔ اس سارے عرصہ میں ایڈنگٹن ہر موقع پرہر اجلاس میں چندرا کےساتھ ذلت آمیز سلوک کرتارہا، اور اس کے میتھے میٹکس کو نا اہل قرار دیتا رہا۔ اور طرفہ یہ کہ اپنی تھیوری کو ثابت کرنے کےلیے ہر قسم کی دھوکے بازی کرتا رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چندرا کی ستاروں کی پیش گوئی کہ یہ خودبخود ڈھیر ہوجاتے، چالیس سال تک پردۂ اخفا میں پڑی رہی۔ تا ہم1983ء میں اس کو اس قابل تعریف سائنسی کام کےلیے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ چالیس سال تک صرف ایڈنگٹن کی ہٹ دھرمی اور سائنسی کمیونٹی کی خاموشی اور چاپلوسیوں کی وجہ سے اسٹرو فزکس بلیک ہولز کو تسلیم کرنے سے محروم رہی۔

اینٹی بائیو ٹکس کی دریافت

فزیالوجی یا میڈیسن کا 1952ء کانوبیل انعام برطانوی بائیو کیمسٹ سلمان واکس مین (Selman Waksman)کو دیا گیا تھاکیونکہ اس نے اینٹی بائیو ٹک دوائی سٹریپٹو مائی سینstreptomycin دریافت کی تھی۔ اس اینٹی با ئیوٹک کی وجہ سے تپ دق کا قابل تشفی علاج ملا تھا۔یہ دریافت دراصل اس کے ڈاکٹریٹ کے طالبعلم البرٹ شاٹز (Albert Schatz) نے واکس مین کی زیر نگرانی کی تھی۔ اس کے بعد دونوں نے اس اینٹی بائیوٹک پر مزید تحقیق کی، اور شائع ہونےوالے سائنسی مقالے پر دونوں کے نام بطور مصنف درج تھے۔اس کے باوجود نوبیل انعام صرف واکس مین کو دیا گیا۔ اب اس نے دوائی کا پیٹنٹ اپنے نام درج کروالیا، اور دوا ساز کمپنیوں سے رائیلٹی لینا شروع کردی۔ یہ رائیلٹیز اس قدر تھیں کہ اس نے امریکہ کی رٹگر Rutgerیونیورسٹی میں واکسمین انسٹی ٹیوٹ آف مائیکرو بائیالوجی قائم کردیا۔یہ معلوم ہونے پر شاٹزکو احساس ہواکہ رائیلٹی میں اس کا بھی حصہ ہو نا چاہیے اور اس کےساتھ ہی مقدمہ دائر کردیا۔ یہ دریافت دونوں نے کی تھی اس لیے دونوں کا اس میں حصہ ہونا چاہیے تھا۔ سائنسی کمیونٹی اس بات پر سراسیمہ ہوگئی کہ شاگرد نے پروفیسر پر مقدمہ کر دیا ہے۔ تعلیمی اور ریسرچ اداروں کے دروازے شاٹز پر بند کر دیے گئے، حتیٰ کہ وہ ساؤتھ امریکہ ہجرت کر جانے پر مجبور ہو گیا۔

امریکی میڈیکل ریسرچر ولیم سمرلن (W. Summerlin) کی دھوکے بازی کی کہانی بھی مضحکہ خیز ہے۔ 1970ء کی شروع دہائی میں یہ سائنسدان یو نیورسٹی آف منی سوٹا،پاؤلو آلٹو ہاسپٹل اور نیویارک کے سلون (Sloan) انسٹی ٹیوٹ میں برسر روزگار تھا۔ اس کی تحقیق کی فیلڈ ڈرماٹالوجی تھی خاص طور پرکھال کی پیوندکاری(skin grafting)۔ ٹرانس پلانٹ اور گرافٹنگ میں مریض کا امیون سسٹم گرافٹڈ ٹیشو کو عام طور پرمسترد کردیتا ہے۔ سمر لن اس موضوع پر کام کر رہا تھا جس کےلیے اس نے سیاہ اور سفید چوہے بطور معطی اور میزبان چن لیے تا پیوند کی ہوئی کھال نمایاں طور پر نظر آجائے۔ اس میں وہ صر یح دھوکا بازی کر رہا تھا جس کا کھوج اس کے نائب جیمز مارٹن نے لگایا۔ مارٹن نے سیاہ ٹرانس پلانٹ میں عجیب چیز دیکھی جو سفید چوہے نے وصول کیا تھا۔اس نے دیکھا کہ یہ کھال کی ٹرانس پلانٹ نہیں تھی بلکہ اس کو سیاہ رنگ کے قلم felt-tipped pen سے بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد جوتحقیقات ہوئی اس کے مطابق سمرلن کا ٹرانس پلانٹیشن کاتمام کیرئیر مشکوک نتائج سے بھرپور تھا۔ سائنس میں فراڈ، اور دھوکے بازی کی یہ بد ترین مثال تھی۔ اس کی قبیح حرکت کی وجہ سے ریسرچ میں فراڈ کو اب painting the mice کی اصطلاح سے موسوم کیا جاتا ہے۔

پو لینڈ کے کیمیکل انجینئرپروفیسر اندریز جند ریزکو (Andrzej Jendryczko) کے ادبی سرقہ کی داستان 1997ء میں آشکار ہوئی تھی۔ اس کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ یورپ اور امریکہ کے سائنسی جرنلز سے انگلش مضامین لے کر ان کو پولش میں ترجمہ کر کے اپنے نام سے شائع کر دیتا تھا۔ پولینڈ سے باہر بہت کم لوگ پولش جرنلز کا مطالعہ کرتے تھے اس لیے اس نے سوچا یہ طریقہ کار محفوظ ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک سو سے زیادہ سرقہ شدہ سا ئنسی مضامین چالیس سال کے عرصہ میں اس کے نام سے شائع ہوئے۔ بعض مضامین میں شریک مصنفین کے نام ان کی اجازت اور علم کے بغیر بھی شامل کردیے گئے۔ کچھ عرصہ کےلیے اس نے سیلسیا میڈیکل یو نیورسٹی (U of Silesia) میں کام کیا تھا۔ جونہی یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اس کے سائنسی فراڈ کا علم ہوا، انہوں نے اس فراڈ کو فاش کر دیا۔ انٹرنیشنل ڈیٹا بیسز سے اس کے مقالے حذف کردیے گئے ہیں، اور جرنلز نے اس کے مضامین منسوخ کر دیے ہیں۔

ساؤتھ کوریا کا ریسرچر ہوانگ ووسوک (Huang Woo suk)،سیؤول (Seoul) نیشنل یو نیورسٹی میں بائیوٹیکنالوجی کاپروفیسر تھا جس نے سٹیم سیل ریسرچ (stem cell research)کے متعلق سلسلہ وار مضامین لکھےجو معتبرجرنلز کے صفحات کی زینت بنے تھے۔ خاص طور پر دو آرٹیکلز جو سائنس میگزین میں شائع ہوئے تھے۔ 2005ء تک اس کو اس فیلڈ میں ایکسپرٹ تسلیم کیاجاتا تھا۔ اس کا لقب پرائیڈ آف کوریا تھا۔ مئی 2006ء میں اس پر خیانت کاا لزام لگا یا گیاجب یہ پتہ چلا کہ اس کی سٹیم سیل ریسرچ جعلی تھی۔ سیؤول نیشنل یو نیورسٹی نے اس کو ملازمت سے برخواست کردیاجبکہ حکومت نے اس کے کسی قسم کی سٹیم سیل ریسرچ کرنے پر پابندی لگا دی۔ ہوانگ کو سیؤول ڈسٹرکٹ کورٹ نے2009ء میں دو سال جیل کی سزا سنائی۔

ہندوستانی کی دھوکے بازی

اس مضمون کو ہم نے پاکستان کے خودساختہ موجد سے شروع کیا تھا اور ہندوستان کے فریبی پروفیسر پر ختم کرتے ہیں۔ چندی گڑھ کی پنجاب یو نیورسٹی کے پروفیسر وسوات جیت گپتا کا فراڈ رسالہ نیچر میں 1989ء میںآسٹریلیا کے جیولوجسٹ جان ٹیلنٹ John Talentنے بے نقاب کیا تھا۔ قریب 25سال سے ہمالیہ کی palaeontology and stratigraphyالجھن بنی ہوئی تھی کیونکہ کرہ ارض کے پرت میں دبے ہوئے زمانہ قدیم کے حیوانوں اور پودوں کے اجسام (فوسلز)ایسی جگہوں پردریافت ہورہےتھے جہاں ان کو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ عہد قدیم کے فوسلز اونچے سٹریٹا پر پائے جا رہے تھے باوجود اس کےکہ ان میں کوئی ارضیاتی انتشار یاتوڑ پھوڑ نہیں ہوئی تھی۔ جان ٹیلنٹ نے پورے وثوق سے کہا کہ تمام کی تمام دریافت شدہ اشیاء ایک شخص گپتا نے رکھی تھیں جس نے ان کا ذکر300سے زیادہ مقالوں میں کیا تھا۔ مزیدتحقیقات سے پتہ چلا کہ گپتا نے یہ فوسلز کشمیر اور بھوٹان کے درمیان خود رکھے تھے اور بعد میں خود ہی دریافت کر کے ان کاکریڈٹ لے لیتا تھا۔

(رسالہ سائنس نمبر244، اپریل 1989ء صفحہ277)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button