دنیا اور آخرت کی حسنہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس دنیا کی حَسَنَہ آخرت کی حَسَنَہ کا بھی باعث بنتی ہے۔ اگر اس دنیا میں ہر چیز جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور باطن بھی اچھا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا دلانے والا ہے تو آخرت میں بھی ایسی حَسَنَہملے گی جس کا ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب، شدائد، ابتلاء وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اُسے خدا تعالیٰ سے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے۔ تو دنیا کا حَسَنَہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النساء: 29)۔‘‘
(یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے)۔ فرمایا کہ ’’ایک ناخن ہی میں درد ہو تو زندگی بیزار ہوجاتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے۔ (مثلاً) جیسے بازاری عورتوں کا گروہ (ہے) کہ اُن کی زندگی کیسے ظلمت سے بھری ہوئی (ہے) اور بہائم کی طرح ہے‘‘ (جانوروں کی طرح کی زندگی ہے) ’’کہ خدا اور آخرت کی کوئی خبر نہیں۔ دنیا کا حَسَنَہ یہی ہے کہ خدا ہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو، خواہ آخرت کا، ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ اور فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً میں جو آخرت کا پہلو ہے، وہ بھی دنیا کی حَسَنَہ کا ثمرہ ہے۔‘‘ (اُسی کا پھل ہے۔) ’’اگر دنیا کا حَسَنَہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے۔ یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حَسَنَہ کیا مانگنا ہے۔ آخرت کی بھلائی ہی مانگو‘‘۔ فرمایا کہ ’’صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جس سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اس لئے ہی دنیا کو آخرت کا مَزْرَعَۃ کہتے ہیں (یعنی آخرت کی کھیتی کہتے ہیں۔ دنیا میں جو بوؤگے وہی وہاں جاکے کاٹوگے۔ ) اور درحقیقت جسے خدا دنیا میں صحت، عزت، اولاد اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمالِ صالح اُس کے ہوویں تو امید ہوتی ہے کہ اُس کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔‘‘(ملفوظات جلد 2صفحہ 600 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 05؍فروری2010ء)