ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 49)
ہمارا مدّعا تو صر ف آنحضرتﷺ کی نبوّت اور عزت کو دوبارہ قائم کرنا ہے
یقیناً یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کر ے۔ جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپؐ کو خاتم النبیین نہیں مانتا۔ کچھ نہیں۔ سعدی نے کیااچھا کہا ہے۔
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفےٰ
ہمارا مدّعا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے۔ جوا ن لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعہ قائم کی ہیں۔ ان ساری گدیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو۔ کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ۔
یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو۔ اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو۔ بغدادی نماز، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں۔کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتہ لگتا ہے۔ اور ایسا ہی ’’یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئًا لِلّٰہ‘‘ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے۔ آنحضرت ﷺکے وقت تو شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا وجود بھی نہ تھا۔ پھر یہ کس نے بتایا تھا۔ شرم کرو۔ کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التز ا م اسی کا نا م ہے۔ اب خود ہی فیصلہ کرو۔ کہ کیا ان باتوں کو ما ن کر اورایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہوکہ مجھے الزام دو کہ میں نے خاتم النبین کی مہر کو توڑا ہے۔ اصل اور سچی با ت یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجدمیں بدعا ت کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبو ت پر ایما ن لا کر آپ کے طرز عمل اور نقش قدم کو اپنا ا ما م بنا کر چلتے۔ تو پھر میر ے آ نے ہی کی کیا ضرو ر ت ہوتی۔ تمہار ی ان بد عتو ں اور نئی نبوّ تو ں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیر ت کو تحریک دی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبوّتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابُودکرے۔ پس اسی کام کے لئے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجاہے۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 90-91)
اس گفتگو میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کے مشہور شاعر شیخ سعدی کا یہ شعر استعمال کیا ہے۔
بِزُہْدُ و وَرَعْ کُوْشْ و صِدْق و صَفَا
وَلِیْکِن مَیْفَزَائے بَرْ مُصطفےٰ
ترجمہ: ترکِ دنیا، پرہیز گاری اور صدق وصفاکے لیے ضرور کوشش کر مگر مصطفیﷺ (کے بتائے ہوئے طریقوں)سے تجاوز نہ کر۔
تارک دنیا، پرہیز گار اور دین دار بننے سے متعلق بوستان سعدی میں ایک قطعہ ہے جس کایہ ایک شعر ہے۔
٭…٭…٭