رسول کریمﷺ دور جدید کے لیے بھی اسوۂ حسنہ ہیں
آپؐ کی بیان کردہ الہامی صداقتیں فطری، ابدی اور ساری دنیا کے لیے قابل عمل ہیں
دَور جدید کےتمام کامیاب سماجی، معاشرتی، اقتصادی، سائنسی اور سیاسی ڈھانچے آپؐ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں
آج سے چودہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن عظیم کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے اپنا عظیم الشان برہان اور نور نازل فرمایا۔
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا (النسا: 175)
تمام سابقہ انبیاء کی شانیں اور کمالات آپؐ کی ذات میں جمع کر دیے۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰٮہُمُ اقۡتَدِہۡ (انعام :91)
سب سابقہ الہامی کتب کی تمام ابدی صداقتیں قرآن کریم میں اکٹھی کر دیں
فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البینہ:4)
مہر ختم نبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دی۔
وَ لٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ(احزاب:41)
ایک کامل ابدی شریعت کا تاج آپ کے سر پر رکھا
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ(المائدہ :4)
ہر اسوَد و احمر کے لیے آپ کو مبعوث فرمایا
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا(سبا:29)
کا امتیازی نشان آپ کو عطا کیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زندگی کے ہر دَور سے گزار کر ہر قسم ہر مرتبہ اور ہر عمر کے انسان کے لیے ہمیشہ کے لیے اسوہ ٔحسنہ بنا دیا۔
تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا(الفرقان:2)
آج کا انسان سوال کرتا ہے کہ کیا آپؐ اس دَور جدید کے لیے بھی اسوۂ ہیں تو خدا کہتا ہے کہ ہاں آپ ہر دَور کے لیے نمونہ ہیں کیونکہ آپ کا دین ’اسلام ‘دینِ فطرت ہے اور انسان کی فطرت نہیں بدلتی اور خالق کائنات نے انسان کی اس فطرت کو ملحوظ رکھ کر ابد الآباد تک کے لیے قرآن نازل کیا ہے۔ یہی قائم رہنے والا دین ہے
فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ (الروم :31)
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی شریعت اور سنت کو دائمی زندگی بخش دی ہے۔ آپؐ قرآن کی عملی تفسیر ہیں جو ہر زمانہ میں غور و فکر کے ساتھ نئے جلوے دکھاتی رہے گی
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (النحل :45)
وہ ایسا شجرہ طیبہ ہے جس کی جڑیں انسانی فطرت کی گہرائیوں میں پیوست ہیں اور شاخیں ہستی باری تعالیٰ سے باتیں کر رہی ہیں
كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ(ابراہیم :25)
وہ نور مجسم ہے جو ہر تاریکی کو روشنی میں بدلتی رہے گی
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ (ابراہیم:2)
انہی فضائل کے نتیجہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسوہ کاملہ قرار دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا(احزاب:22)
یعنی تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ایک عمدہ نمونہ موجود ہے اور اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں جو اللہ اور اخروی دن سے ملنے کی امید رکھتے ہیں ۔
اس حقیقت کی ایک ناقابل تردید دلیل وہ عظیم سچائیاں ہیں جن کو انسان نے صدیوں کی محنت اور تجربے کے بعد تلاش کیامگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے بیان کر دی تھیں ۔وہ سچائیاں انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ خاندانی بھی اور قومی اور بین الاقوامی بھی۔ آئیے ان کا جائزہ لیتے ہیں اور ذاتی زندگی سے شروع کرتے ہیں۔
صفائی اور دَور جدید کی تحقیق
انسان کے ہزاروں سال کے سفر کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کی انفرادی اور قومی ترقی کا آغاز صفائی سے ہوتا ہے ۔جسم کی صفائی، ماحول کی صفائی اور خیالات کی صفائی۔ اور یہ سارے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔سائنسدان کہتے ہیں کہ اکثر بیماریاں گندے ہاتھوں اور گندے منہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ 90فیصد بیماریوں کے جراثیم منہ اور دانتوں میں پلتے ہیں۔صابن سے ہاتھ دھونے کی تحریک کے باعث د نیا میں ہیضہ کی بیماری میں 50فیصد کمی واقع ہوئی ہے اسی لیے ہر سال 15؍اکتوبر کو ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور دن رات میں کم ازکم دو بار دانت صاف کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔
ہمارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذہب کی بنیاد صفائی اور نظافت پر رکھی ہے ۔آپؐ نے فرمایا بنی الدین علی النظافۃ یعنی (میرے )دین کی بنیاد صفائی اور پاکیزگی پر ہے۔ (الشفا عیاض جلد اول صفحہ39) اسلام پہلا اور واحد مذہب ہے جس میں صفائی کو ایمان اور شریعت کا حصہ بنایا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ نمازوں کے لیے پانچ دفعہ وضو کا حکم دیا ۔جس کے مرکزی اجزا ہاتھ، منہ، چہرہ، ناک، کان آنکھیں، بازواورپاؤں ہیں۔ دن میں پانچ دفعہ وضو کرنے کے لیے بیسیوں دفعہ ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری امت کےلیے گراں نہ ہوتا تو میں دن میں پانچ دفعہ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔
(بخاری کتاب الجمعة باب السواک یوم الجمعة حدیث نمبر 838)
آپؐ صبح تہجد کے وقت بھی اٹھتے تو سب سے پہلے دانت صاف کرتے(بخاری کتاب الجمعة باب السواک یوم الجمعة حدیث نمبر 840) اور وفات سے تھوڑی دیر قبل بھی آخری عمل مسواک تھا (بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ووفاتہ حدیث نمبر 4084) فرمایا اپنے گھروں کو بھی صاف ستھرا رکھو۔ نظفواافنیتکم۔ (ترمذی کتاب الادب باب فی النظافة حدیث نمبر 2723)
وبا زدہ علاقے کے متعلق فرمایا کہ اس سے باہر نہ نکلو اور اگر باہر ہو تو اس کے اندر نہ جاؤ إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُوْنِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوْهَا، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلاَ تَخْرُجُوا مِنْهَا (صحیح بخاری کتاب الطب باب فی الطاعونحدیث نمبر5728) یہی بات آج سارے سائنس دان اور ساری حکومتیں کہہ رہی ہیں۔
پھر فرمایا وضو میں اپنے اعضاء کےساتھ اپنے خیالات بھی پاک کرو اور دعا کرو کہ
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ۔
(ترمذی کتاب الطہارة باب مایقال بعد الوضوء حدیث نمبر 50) اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنا اور مجھے پاک صاف رہنے والوں میں سے بنادے۔
اس کو آج کا انسان positive thinkingکہتا ہے۔ فرمایا ان پاک خیالات کے ساتھ نماز پڑھو جو ورزش کے طور پر بھی نہایت اہم ہے اور جسم کے تمام اعضا ٫ کے لیے اکسیر ہے۔ فرمایا نماز سے واپسی پر خدا کے دربار سے تمام انسانوں کے لیے سلامتی کا پیغام لے کر آؤ۔ دائیں جانب بھی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہو اور بائیں جانب بھی یعنی مشرق کے لیے بھی اور مغرب کے لیے بھی۔ انہی تحفوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گھر میں داخل ہوتے ہیں۔
عائلی زندگی کے لیے نمونہ
آج کا انسان عائلی زندگی کے حوالہ سے سے بہت بدامنی کا شکار ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي
تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال سے حسن سلوک کرنے والا ہوں۔
(ابن ماجہ کتاب النکاح باب حسن معاشرة النساء حدیث نمبر 1977)
حضرت عائشہؓ آنحضرتﷺ کے متعلق فرماتی ہیں کان ضحاکا بساما یعنی جب رسول اللہﷺ گھر میں داخل ہوتے تو ہنستے مسکراتے کھلکھلاتے ہوئے داخل ہوتے۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود گھر کے کام کاج میں حصہ لیتے۔کپڑے اور برتن دھو لیتے،صفائی کرلیتے،جانوروں کا خیال رکھتے ،کوئی بلاتا تو لبیک کہہ کر مخاطب ہوتے ۔یہ وہ گھر تھے جو جنت ارضی کا منظر پیش کرتے تھے ۔
(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ 365۔ مسند احمد حدیث نمبر33756۔ شفاعیاض باب تواضعہ)
ایک سفر میں آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہؓ بھی آپؐ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھیں کہ اونٹ نے ٹھوکر کھائی اور دونوں پاک وجود گر گئے۔ ایک صحابی حضرت ابو طلحہؓ رسول اللہؐ کو سہارا دینے کے لیے دوڑے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیک بالمرءۃ پہلے عورت کا خیال کرو۔ ابو طلحہؓ یہ سن کر منہ پر کپڑا ڈال کر حضرت صفیہؓ کے پاس آئے اور ان پر کپڑا ڈال دیا۔ پھر ان دونوں کے لیے سواری کو درست کیا۔ اور رسول اللہﷺ اور حضرت صفیہؓ اس پر سوار ہو گئے۔
(بخاری کتاب الجھاد و السیر باب مایقول اذا رجع من الغزوہ حدیث نمبر2856)
پس ladies firstکا جملہ جس پر مغرب فخر کرتا ہے اوّل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا اور ضرب المثل بن گیا۔
میرا ہتھیار علم ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے اصل ہتھیار تلواریں اور نیزے نہیں بلکہ علم میرا اسلحہ ہے العلم سلاحی (الشفا۔ عیاض جلد 1 صفحہ 86)اور صحابہ کو ترغیب دیتے تھے اطلبوا العلم من المهد الى اللحد۔ (کشف الظنون جلد 1صفحہ 52)یعنی پیدائش سے لے کر قبر میں جانے تک علم حاصل کرتے رہو اور آپ یہ دعا بھی کرتے رہتے تھے کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا یعنی اے میرے رب!میرے علم میں اضافہ کرتا چلا جا (سورۃ طٰہٰ :115) آپ نے اپنے ان پڑھ صحابہ کو بدر کے پڑھے لکھے قیدیوں سے علم حاصل کرنے کا ارشاد فرمایا اور واضح کر دیا کہ علم سیکھنے سکھانے کے لیے کسی مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تمیز نہیں (شرح الزرقانی علیٰ المواھب اللدنیہ جلد2صفحہ324باب غزوہ بدر) اس طرح تعلیم بالغاں کا پہلا سکول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھولا۔ پس آج جب سوسالہ معمر مرد اور عورتیں یورپ اور جاپان کے سکولوں میں جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہ نما بنانے کا اعلان کر رہے ہوتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے (کشف الظنون جلد 1 صفحہ 52) آج سے 70، 80 سال پہلے بھی دنیا میں چین کی کوئی وقعت نہ تھی مگر آج دنیا بھر کے لوگ چین سے سیکھ رہے ہیں اور چینیوں سے سیکھنے کے لیے ہزاروں طالب علم دنیا بھر میں چینی زبان سیکھ رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا اقرار کر رہے ہیں۔
کھانے کے متعلق ہدایات
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال قبل کھانے پینے کے متعلق نہایت اعلیٰ تعلیم عطا فرمائی ۔آپ نے فرمایا حلال کھاؤ آپ نے خدا کے حکم سے صرف چند چیزوں کو حرام قرار دیا کیونکہ ان کے کھانے سے انسان کی روحانیت اور اخلاق اور جسم پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ حلال کے ساتھ طیب ہونا بھی ضروری ہے یعنی وہ چیز جو آپ کے موافق ہے۔ پھر فرمایا کہ کھاؤ اور پیئو مگر اسراف نہ کرو۔
کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا(اعراف:32)۔
پس وہ دنیا جو آج کل balanced food پر زور دیتی ہے دراصل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور زبان حال سے کہتی ہے کہ آپ اس جدید دَور کے لیے بھی اسوہ ٔحسنہ ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے متعلق یہ بھی ہدایت دی کہ اچھی طرح بھوک لگ جائے تو پھر کھاؤ اور یہ بھی کہ پیٹ بھر کر نہ کھاؤ۔ آپؐ نے کھانوں کے درمیان مناسب وقفہ کی تلقین کی۔آپؐ نے فرمایا کہ یہ فاقہ تمہیں جسمانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچاتا ہے۔آپؐ نے خدا کے حکم سے ایک ماہ کے روزے فرض کیے اور نفلی روزوں کی بھی تلقین فرمائی تھی۔ آج غیرمسلم ممالک کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ فاقہ کشی جسمانی نظام کے لیے نہایت ضروری ہے اس سے بہت سی بیماریاں ختم ہوتی ہیں اور انسانی جسم ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے اور روزہ کے اوقات کے مطابق کام کرتا ہے ۔سال بھر میں تیس دن کی یہ ٹریننگ انسان کو حیات نو عطا کرتی ہے وہ ڈاکٹر جو مریضوں کو فاقہ کشی اور روزوں کی تلقین کرتے ہیں وہ رسول اللہ ﷺکو اپنا رہ نما تسلیم کرتے ہیں۔
نیند کے لیے رہ نمائی
رسول اللہﷺ نے جب سونے اور جاگنے کے آداب سکھائے تو پیٹ کے بل سونے سے بھی منع فرمایا (ترمذی کتاب الاستیذان باب کراہیۃ الاضطجاع علیٰ البطن )گذشتہ2 دہائیوں میں جو تحقیق دنیا بھر میں ہوئی وہ بتاتی ہے کہ پیٹ کے بل سونے سے دماغ کو آکسیجن کی سپلائی کم ہو جاتی ہے اور دماغ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایک سال سے کم عمر بچہ اسی حالت میں فوت ہو جاتا ہے اور پوسٹ مارٹم میں کوئی وجہ بھی معلوم نہیں ہوتی۔
قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں اور نہ رسول اللہ کا دعویٰ طبعی علوم کے ماہر ہونے کا ہے مگر جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے قرآنی اصولوں اور سنت مصطفویﷺ کی شان زیادہ نمایاں ہوتی چلی جا رہی ہے۔ وہ فزکس کا میدان ہو یا کیمسٹری کا۔ معیشت کاہو۔ آرکیالوجی کا ہو یا سماجی علوم کا۔ ہر شعبے میں اسلام کی رہ نمائی اور برتری نظر آتی ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جو وقت سے پیچھے رہ گئی ہو۔ ہر نئی تحقیق اس امر پر مہر لگاتی ہے کہ یہ مذہب عالم الغیب خدا کی طرف سے ہے جس کی تمام انسانوں پر اور تمام جہانوں پر نظر ہے۔ آئیے کچھ اور مثالیں دیکھتے ہیں:
سود کی مناہی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے سود کو حرام قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم سود سے باز نہیں آؤگے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ ( البقرۃ: 279۔ 280) دنیا دو عالمی جنگوں اور بیسیوں علاقائی جنگیں کر کے اور مدتوں معیشت بربادکر کے سود کے خلاف پالیسی بنا رہی ہے اور سود کو کم سے کم کرتی چلی جا رہی ہے۔ پس ماہرین معاشیات یہ گواہی دے رہے ہیں کہ خدا کا رسول سچا اور ہمارا رہ نما ہے۔
سب انسان برابر ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ میرا یہ پیغام تمام انسانوں کو پہنچا دو کہ سب انسان بحیثیت انسان برابر ہیں کسی گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں اور کسی قوم کو دوسرے پر کوئی برتری نہیں (مسند احمد جلد 38 صفحہ 474 حدیث نمبر 23489)آپؐ نے غلاموں کو آزاد کر دیا اور نئے غلام بنانے سے منع کردیا اور فرمایا کہ عظمت کا معیار تقویٰ اور قابلیت ہے۔ انہی کے بل پر سینکڑوں غلاموں نے مسلم معاشرے میں عزت پائی جن میں حبشہ کے بلال بھی شامل تھے۔
دنیا نے لاکھوں غلام بنائے بیسیوں ممالک پر قبضہ کرکے غلامی کی نئی نئی شکلیں ایجاد کیں مگر آج انسان اعلان کرتا ہے کہ غلامی ناقابل قبول ہے وہ غلامی کی یادگاروں کو مٹا رہا ہے اور غلامی سے منسوب پرانے ہیروز کے مجسمے گرا رہا ہے غلامی کی زنجیریں کٹ رہی ہیں اور قابلیت معیار بن رہی ہے ۔
امور مملکت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قومی معاملات مشورے سے سر انجام دینے کا حکم دیا۔
أَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَيْنَهُمْ (الشوریٰ: 39)
صحابہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے بڑھ کر کوئی مشورہ کرنے والا نہیں تھا(سنن ترمذی کتاب الجہاد باب المشورۃ حدیث نمبر 1714)۔ اوربسا اوقات صحابہ کے مشورے کو اپنی رائے پر بھی مقدم کر لیتے۔ آج انسان ہزاروں تجربات کے بعد اس نتیجے پرپہنچا ہے کہ نہ مطلق العنان بادشاہت بہتر ہے اور نہ فوجی ڈکٹیٹر شپ بلکہ سب سے بہتر جمہور ی شورائی نظام ہے۔ پس آج دنیا بھر کی تمام پارلیمنٹس اور تمام تھنک ٹینک Think Tank اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے آج بھی اسوہ ٔحسنہ ہیں اور یہی خدا تعالیٰ کا انسانیت کے نام پیغام ہے ۔
قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ۔ (الاعراف:159)
تُو کہہ دے کہ اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ پس ایمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی اُمّی پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اُسی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔
امن عالم کا مسئلہ
آج کل انسان عالمی امن کے لیے پریشان ہے ۔ہر وہ قدم جو امن کے لیے اٹھایا جاتا ہے وہ مزید بد امنی پیدا کرتا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہےگا جب تک محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل نہیں کیا جائے گا یہ تعلیمات مذہبی امن کے لحاظ سے بھی ہیں سیاست کے لحاظ سے بھی اور معاشی امن کے لحاظ سے بھی۔
مذہبی امن کے لیے تعلیمات اور نمونہ
مذہبی امن کے لیےرسول اللہؐ کی تعلیمات کا ایک خلاصہ درج ذیل ہے:
٭…ہر شخص کو آزادی ہے جو مذہب چاہے اختیار کرے
الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ (الکہف:30)
٭…مذہب میں شامل کرنے یا نکالنے کے لیے طاقت کا استعمال منع ہے لَاِ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن (البقرۃ:257)
٭…اسلام سے ارتداد پر دنیا میں کوئی سزا نہیں
اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ کَفَرُوۡا ثُمَّ ازۡدَادُوۡا کُفۡرًا لَّمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ سَبِیۡلًا (النسا٫:138)
٭…ہر قوم میں نبی آئے ہیں اس لیے سب قوموں کے مذہبی پیشواؤں کی عزت کی جائے۔
إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد:8)
٭…دوسروں کے مقدسین اور جھوٹے معبودوں کو بھی برا بھلا نہ کہا جائے۔
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللّٰهِ فَيَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام :109)
٭…مشترک عقائد کی بنیاد پر تعاون کی دعوت دی جائے۔
قُلْ يٰٓا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلٰی كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ(آل عمران:65)
٭…بلا لحاظ مذہب و دشمنی عدل کیا جائے
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰٓى أَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى (المائدہ:9)
٭…امن کے قیام کے لیے بلا امتیاز تعاون کیا جائے
فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ (التوبہ:6)
٭…غیروں کی خوبیوں کا بھی کھلے دل سے اعتراف کیا جائے
وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ (آل عمران :76)
٭…جو غیر مذہب کے لوگ امن سے رہنا چاہتے ہیں ان کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہ کی جائے۔
لَا يَنْهَاكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ (الممتحنہ: 9)
رحمۃ للعالمین کا نمونہ
ان عظیم اصولوں کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ حسب ذیل ہے:
٭…عام تمدنی اور معاشرتی تعلقات میں کسی قوم کا فرق نہیں کیا ۔سب کو سلام کرتے تھے۔
(بخاری کتاب الاستیذان )
٭…غیر مسلم مہمان کو سات بکریوں کا دودھ پلایا اور اپنے اہل خانہ کو بھوکا رکھا۔
(ترمذی کتاب الاطعمہ)
٭…یہودی عورت کی دعوت بھی قبول کی جس نے کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔
(السیرۃ الحلبیہ)
٭…ایک یہودی مخیر کے باغ کا تحفہ بھی قبول کیا۔
(روض الانف جلد 2صفحہ 143)
٭…یہودی بیمار نوجوان کی عیادت بھی کی ۔
(بخاری کتاب الجنائز باب عیادۃ المشرک)
٭…یہودی کے جنازہ کے لیے احتراماً کھڑے ہوگئے۔
(بخاری کتاب الجنائز باب من قام لجنازۃ الیہودی)
٭…بدر میں مقتول دشمنوں کو دفن کر ا یا۔
(بخاری کتاب المغازی )
خندق میں ہلاک ہونے والے سردار نوفل کی لاش کو واپس کرنے کے لیے کفار نے دس ہزار درہم کی پیشکش کی مگر آپؐ نے بغیر کسی رقم کے واپس کر دی۔
(سیرت ابن ھشام جلد 3 صفحہ 273)
ابولہب اور عتبہ جیسے پڑوسی کی ایذا پر صبر کیا۔
(طبقات ابن سعد)
یہودیوں سے لین دین اور قرض کا سلسلہ بھی جاری رہا اور بوقت وفات بھی آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔
(بخاری کتاب المغازی)
٭… مخالفین، بدوؤں اور یہودیوں کی سختی اور بدتمیزی بھی برداشت کی جس کےمتعدد واقعات ہیں۔
٭…معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے ایک غیر مسلم اراشی نام کے لیے جانی دشمن ابوجہل کے پاس گئے اور قرض واپس د لوایا۔
(السیرة النبویہ ابن کثیر جلد اول صفحہ 469 قصة الاراشی داراحیاء التراث العربی بیروت)
ایک قتل کے مقدمہ میں مسلمانوں کے مقابلہ پر یہودیوں کے حق میں فیصلہ کیا۔
(بخاری کتاب الجہاد)
مدینہ کے دو یہودی قبیلوں بنو قینقاع اور بنو نضیر کو ان کے جرائم کی پاداش میں جلا وطن کیا تو سارا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت دی حتیٰ کہ ان کے وہ بچے بھی جو نذر کے طور پر یہودی بنائے گئے تھے اور درحقیقت یہودی نہ تھے وہ بھی ساتھ لے گئے۔
(ابو داؤد کتاب الجہاد)
جرائم کی بیخ کنی اور عفو
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جرائم کے بارے میں فرمایا کہ ظلم کا بدلہ اسی کے برابر ہے مگر جو معاف کرے اور اصلاح کی نیت رکھے اس کا اجر اللہ کے پاس ہے یعنی جہاں سزا دینے سے اصلاح ہو سزا دو اور جہاں عفو کرنا بہتر ہو وہاں عفو کرو وہاں ترجیح عفو کو دو
جَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ (الشوریٰ :41)
فرمایا۔ ہر سوموار اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور انسانوں کے اعمال خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ تو شرک سے بیزار تمام لوگوں کو خدا کی مغفرت کی چادر ڈھانپ لیتی ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جن کے درمیان عداوت اور دشمنی ہو۔ ان کا معاملہ مؤخر کردیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ سب صلح کرلیں۔ تب ان کی گمشدہ جنت انہیں واپس کردی جاتی ہے ۔اور دو ناراض بھائیوں میں سے زیادہ بہتر اور رضائے الٰہی کا مورد وہ ہوتا ہے جو سلام کرنے میں پہل کرتا ہے اور صلح کے لیے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ اس کی جنت زیادہ شاداب ہوتی ہے۔ ( مسلم کتاب البر باب النھی عن الفحشاء حدیث نمبر4652) اس سے بڑھ کر انسان کو کون سی تعلیم درکار ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عفو وکرم سے دل جیت لیے اور صدیوں کے دشمنوں کو اپنا جاںنثار بنا لیا۔
ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کو معاف کر کے مکہ میں اپنے مذہب پر رہنے کی اجازت دی تو اس نے اسلام قبول کیا ۔اور کہا یارسول اللہ میں نے آج تک آپ کی مخالفت میں اپنا جتنا مال خرچ کیا ہے اب میں اللہ کی راہ میں بھی اس سے دگنا خرچ کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور جتنی لڑائیاں خدا کی مخالفت میں لڑیں اس سے دگنی خدا کی راہ میں لڑوں گا۔
وہ جو کترا کے گزرتا تھا مرے سائے سے
اب سنا ہے کہ مرے نقش قدم ڈھونڈتا ہے
عفو کے اس نظارہ نے عکرمہ کے دل میں رسول اللہﷺ کی عزت کی ایسی شمع روشن کی کہ ساری عمر میدان جہاد اور تلافی مافات میں گزاری اور اپنے کردار میں ایسی تبدیلی کی کہ قرآن کریم سے والہانہ عشق پیدا کیا اور قرآن کریم کو سینے پر رکھ کر کلام ربی، ھٰذا کتاب ربی، یہ میرے رب کا کلام ہے کہہ کر زار زار رویا کرتے تھے۔ ان کی شہادت کا واقعہ بھی نہایت دلگداز ہے۔ جنگ یرموک میں زخموں سے چور جاںبلب تھے کہ ایک شخص پانی لے کر آیا۔ جس کے چند گھونٹ ممکن تھا کہ انہیں زندگی عطا کرجاتے مگر انہوں نے دیکھا کہ قریب ہی ایک اور زخمی پڑا ہے تو انہوں نے پانی لانے والے سے کہا پہلے اسے پلاؤ مگر جب وہ شخص اس کے پاس پہنچا تو اس نے آگے اشارہ کر دیا مگر آخری مجاہد اس دوران جام شہادت نوش کر چکا تھا واپس پلٹا تو پہلے دونوں مجاہد بھی خدا کے حضور حاضر ہو چکے تھے۔ ایثار کی یہ اعلیٰ ترین مثال قائم کرنے والوں میں ایک حضرت عکرمہؓ بھی تھے۔
(مستدرک حاکم کتاب مناقب الصحابہ مناقب عکرمہ جلد3 صفحہ270تا272)
سیاسی امن کے اصول
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاسی امن کے رہ نما اصول بھی قائم فرمائے۔ قرآن کہتا ہے کہ جب دو قومیں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ اور اگر صلح کے بعد پھر کوئی دوسرے پر زیادتی کرے تو سب مل کر اس کے خلاف جنگ کریں حتیٰ کہ وہ باز آ جائے تو پھر عدل اور انصاف کے ساتھ صلح کراؤ اور اپنے مفادات نہ دیکھو بلکہ انسانیت کا فائدہ دیکھو(الحجرات:10)۔
اس آیت میں ایک عالمی اقوام متحدہ کا تصور پیش کیا گیا ہے جس میں سب قومیں برابر کا حق رکھتی ہیں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں سب انصاف کے قیام کے لیے اکٹھے ہیں ۔اگر دو قوموں میں لڑائی ہو جائے تو باقی سب صلح کرانے کے لیے مستعد ہو جائیںاور اگر کوئی اس عہد کو توڑے تو باقی سب مل کر اسے صلح پر مائل کر یں۔یہ آیت اقوام متحدہ کی ناکامی کی وجہ بھی بیان کرتی ہے۔ اسلام کسی نسلی اور قومی برتری کا قائل نہیں سب کو برابر قرار دیتا ہے اور اپنے گروہی مفادات کے لیے ویٹو پاور کو غلط قرار دیتا ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 1924ء میں انگلستان کا دورہ فرمایا تو اس وقت لیگ آف نیشنز قائم تھی ۔آپ نے انگلستان میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم سب کو برابر کے حقوق نہیں دوگے تو لیگ ناکام ہو جائے گی اور جب 1945ء میں یونائیٹڈ نیشنز قائم ہوئی تو حضورؓ نے پھرمتنبہ فرمایاکہ اگر تم اسے قرآنی اصولوں پر قائم نہیں کرو گے تو یہ بھی انصاف کے قیام میں ناکام ہو جائے گی۔
آج 75سال کے بعد یونائیٹڈ نیشنز کئی معاملات میں مفید ہونے کے باوجود اپنے بنیادی مقاصد میں بری طرح ناکام ہے۔دنیا میں فتنے اور فساد اسی طرح جاری و ساری ہیں اور مظلوم بلبلا رہے ہیں۔ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دوروں اور تقریروں اور پیس سمپوزیم میں خطابات اور عالمی لیڈروں کے نام خطوط میں بار بار یاددہانی کرواتے ہیں کہ اگر بڑی طاقتیں مل کر ظالم کا ہاتھ نہیں روکیں گی تو پھر انسانیت کا خون بہتا رہے گا اور اسی خون میں یہ بڑی طاقتیں بھی ڈوب جائیں گی۔
سیاسی امن کے لیے رسول اللہ کے معاہدات بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ جب آپ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں اور یہود کے مابین امن کا معاہدہ ہوا اور اس کے آغاز میں لکھا گیا کہ مسلمان اور یہودی (سیاسی لحاظ سے )امت واحدہ ہیں سب مل کر رہیں گے اور مل کر دشمن کے حملہ کا جواب دیں گے ۔
(عہد نبوی کا نظام حکمرانی صفحہ99از ڈاکٹر حمید اللہ )
اس میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ایک ملک کے تمام شہری اپنے حقوق اور فرائض کے لحاظ سے برابر ہیں اور مذہب کی بنا پر کوئی امتیازی سلوک نہیں ہو گا۔ آج تمام قومی ریاستوں کی بنیاد اسی فارمولے پر ہے اور وہی ملک کامیاب اور امن سے ہیں جو سب شہریوں کے ساتھ بلا تمیز رنگ ونسل معاملہ کرتے ہیں۔
بے لاگ انصاف
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف کے قیام کا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہ انصاف کے معاملہ میں امیر اور غریب میں فرق کرتی تھیں ۔خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو دوسروں کی طرح وہ بھی سزا کی مستحق ہوتی اور کسی کی سفارش اس کے کام نہ آتی۔
(صحیح البخاری کتاب المناقب۔ ذکر اسامۃ حدیث نمبر 3799)
آپؐ نے اپنی ذات کو بھی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ا ور وفات سے کچھ عرصہ قبل فرمایا کسی نے مجھ سے بدلہ لینا ہو تو وہ لے لے۔ ایک صحابی کھڑے ہوئےاور کہا یا رسول اللہ! ایک جنگ میں صفیں درست کرتے ہوئے آپ کے نیزے کی نوک مجھے لگ گئی تھی بدلہ چاہیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا آ ؤبدلہ لے لو ۔اس نے کہا میرے جسم پر اس وقت کپڑا نہیں تھا۔آپؐ نے جسم سے کپڑا اٹھا دیا تو اس صحابی نے آگے بڑھ کر آپ کا جسم چوم لیا اور کہا یا رسول اللہ آپ سے تو بے انصافی ناممکن ہے اور کسی کا بدلہ لینا بھی ناممکن ہے۔ میں تو صرف یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح آپ کے جسم مبارک کو بوسہ دے لوں۔
(مجمع الزوائدجلد9صفحہ27۔ کتاب علامات النبوۃ باب فی وداعہ)
وہ جو حقیقی انصاف قائم کرتے ہیں ان کے جسم اسی طرح چومے جاتے ہیں اور ان کی روحوں کی اسی طرح تعریف کی جاتی ہے۔ پس انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انصاف کے عالمی ادارے بھی رسول اللہ کی عظمت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اعلیٰ اخلاق کا قیام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں اعلیٰ اخلاق کو بھی ان کی معراج تک پہنچانے آیا ہوں إنما بعثت لأتمم مكارم الأخلاق۔
(مسند البزار جلد 15صفحہ 364 حدیث نمبر8949)
آپؐ نے جو اخلاق سکھائے آج وہی دنیا میں عزت کے قابل سمجھے جاتے ہیں اور آپ نے ایسا کر کے دکھا دیا۔ اخلاق کی ایک لمبی فہرست ہے جو قرآن کریم اور آپؐ کی سنت سے ظہور پذیر ہوئی جن میں سچائی، امانت داری، پڑوسیوں سے حسن سلوک، انسانیت کی فلاح، معاہدات کی پابندی اور دوسرے بیشمار اخلاق شامل ہیں انہی اخلاق کی پابندی کر کے انسان ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
پیشگوئیوں کی دنیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کا تو ایک الگ جہان ہے ۔آپؐ کی پیشگوئیاں چودہ سو سال سے پوری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ آج بھی جب دجال کے ہوائی جہاز ہوا میں اڑتے ہیں تو وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ خلاؤں پر بھی محمد مصطفیٰﷺ کی حکمرانی ہے اور جب وہ جہاز سمندروں کو پھاڑتے ہیں تو وہ بھی یہی اعلان کرتے ہیں اور جب سطح زمین پر تیز رفتار سواریاں چلتی ہیں تو وہ بھی محمد مصطفٰیﷺ کی عظمت کا اعلان کرتی ہیں۔ مسلم امہ کا زوال اور عیسائیت کا عروج، پرانے ذرائع سفر کا متروک ہونا اور جدید سواریوں کا استعمال، انسانوں کا امت واحدہ اور زمین کا گلوبل ولیج بن جانا۔ ان سب امور کی پیشگوئیاں قرآن اور فرمودات رسولﷺ میں موجود ہیں اور ہر پیشگوئی اس دَور کے انسان کو یاد کراتی ہے کہ یہ رسولؐ اس زمانہ کے لیے بھی رہ نما اور اسوۂ حسنہ ہیں۔
دانشوروں کا اعتراف
دنیا کے غیر متعصب دانشور اور اہل علم رسول اللہﷺ کی عظمت کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں اور ان کا ایک لمبا سلسلہ ہے۔ انگلستان کے مشہور مفکر برنارڈ شا نے لکھا تھا:
’’مجھے یقین ہے کہ محمد جیسا انسان آج کی جدید دنیا کو مطلق العنان حکمران کے طور پر مل جاتا تو وہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور انسانیت کو مطلوب امن اور خوشحالی کی نعمت نصیب ہو جاتی۔ ‘‘
(Muhammad and Teachings of Quran by John Devenport page 127)
یہ تلاش اور خواہش اس قرآنی پیشگوئی کے عین مطابق ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ خدا تجھے مقام محمود پر فائز کرے گا
عَسَى أَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (بنی اسرائیل: 80)
یعنی مشرق سے مغرب تک تیری تعریف ہوگی اور ہر فرد بشر تجھے اپنا رہ نما تسلیم کرے گا۔
سب گواہی دو
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں اسی زمانہ کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسول کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسول شناخت کیا جائے چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو …اے سننے والو اور اے سوچنے والو سوچو اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہو گا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد2صفحہ9)
آج وہ حق اور نور ظاہر ہو رہا ہے ۔اہل مغرب لفظوں میں اقرار کریں یا نہ کریں ان کے عمل یہ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ہر نیک اور پائیدار عمل میں رسول اللہﷺ ہی کی پیروی کر رہے ہیں اور جہاں جہاں ناکام ہیں وہی مقامات ہیں جہاں وہ رسول اللہﷺ کے راستے سے ہٹے ہیں وہ وقت بھی آئے گا جب وہ منہ سے بھی رسول اللہؐ کی صداقت کا اقرار کریں گے اور آپ پر درود بھیجیں گے ہمارا کام تو حضرت مسیح موعودؑ کی اتباع میں یہ پیغام دینا ہے کہ
’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اے تمام وہ انسانی روحو! جو مشرق اور مغرب میں آباد ہو! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدّس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہے۔ ‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15صفحہ141)
ہم پہاڑوں کی بلندی سے پڑھیں گے قرآں
کفر و الحاد نگوں سار نظر آئیں گے
اتنی رفعت پہ محمدؐ کا رکھیں گے پرچم
اس کے سائے میں جہاندار نظر آئیں گے
٭…٭…٭