آنحضرتﷺ پر آنے والے 38قسم کے ابتلاؤں میں پاکیزہ تجلیات (قسط دوم)
ابتلاؤں میں تری زندگی پروان چڑھی
تیری جاں آگ میں پڑ کر بھی سلامت آئی
20۔ مقامی حکومت کی مخالفت کا ابتلا
اہل مکہ نے محض انفرادی طور پر ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور دشمنی نہیں کی بلکہ اجتماعی طور پر بھی ہرممکن عداوت کا مظاہرہ کیا۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق اہل مکہ کے متعدد وفود حضرت ابو طالب سے ملے اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دستبردار ہونے کا مشورہ دیا اور اس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں دھمکیاں دیتے رہے۔ اس کے متعلق تاریخی ریکارڈ کی گواہی یہ ہے کہ سب سے پہلی کوشش قریش کی یہ تھی کہ جس طرح بھی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کی ہمدردی اور حفاظت سے محروم کر دیں۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب تک ابوطالب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں اس وقت تک وہ بین القبائل تعلقات کو خراب کیے بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔ ابوطالب قبیلہ بنو ہاشم کے رئیس تھے اور باوجود مشرک معاشرہ کے فرد ہونے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مربی اور محافظ تھے اس لیے ان کے ہوتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہاتھ اٹھانا بین القبائل سیاست کی رو سے بنو ہاشم کے ساتھ جنگ چھیڑنے کے متراد ف تھا جس کے لیے دوسرے قبائل قریش ابھی تک تیار نہ تھے۔ لہٰذا پہلی تجویز انہوں نے یہ کی کہ ابوطالب کے پاس دوستانہ رنگ میں ایک وفد بھیجا کہ وہ اپنے بھتیجے کو اشاعت اسلام سے روک دیں۔ چنانچہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، عتبہ بن ربیعہ، ابو جہل بن ہشام، ابوسفیان وغیرہ جو سب رؤسائے قریش میں سے تھے ابوطالب کے پاس آئے او رنرمی کے طریق پر کہا کہ آپ ہماری قوم میں معزز ہیں۔ اس لیے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کو اس نئے دین کی اشاعت سے روک دیں اور یا پھر اس کی حمایت سے دستبردار ہو جاویں۔ اور ہمیں اور اس کو چھوڑ دیں کہ ہم آپس میں فیصلہ کر لیں۔ ابو طالب نے ان کے ساتھ بہت نرمی کی باتیں کیں اور ان کے غصہ کو کم کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بالآخر انہیں ٹھنڈا کر کے واپس کر دیا۔ لیکن چونکہ ان کی ناراضگی کا سبب موجود تھا بلکہ دن بدن ترقی کرتا جاتا تھا اور قرآن شریف میں بڑی سختی سے شرک کے رد میں آیات نازل ہو رہی تھیں۔ اس لیے کوئی لمبا عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ لوگ پھر ابو طالب کے پاس جمع ہوئے اور ان سے کہا کہ اب معاملہ حد کو پہنچ گیا ہے اور ہم کو رجس اور پلید اور شَرُّالْبَرِیَّہ اور سفہاء اور شیطان کی ذریت کہا جاتا ہے اور ہمارے معبودوں کو جہنم کا ایندھن قرار دیا جاتا ہے اور ہمارے بزرگوں کو لایعقلکہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس لیے اب ہم صبر نہیں کر سکتے اور اگر تم اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو سکتے تو پھر ہم بھی مجبور ہیں۔ ہم پھر تم سب کے ساتھ مقابلہ کریں گے حتیٰ کہ دونوں فریقوں میں سے ایک ہلاک ہو جاوے۔ ابوطالب کےلیے اب نہایت نازک موقع تھا اور وہ سخت ڈر گئے۔ اور اسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ جب آپ آئے تو ان سے کہاکہ اے میرے بھتیجے ! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کر دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی۔ تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا۔ ان کے بزرگوں کو شَرُّالبَرِیَّہ کہا۔ ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقود النّاررکھا اور خود انہیں رجساور پلید ٹھہرایا۔ میں تجھے خیرخواہی سے کہتا ہوں کہ اس دشنام دہی سے اپنی زبان کو تھام لو اور اس کام سے باز آجاؤ۔ ورنہ میں تمام قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا۔ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا کہ اب ابو طالب کا پائے ثبات بھی لغزش میں ہے اور دنیاوی اسباب میں سے سب سے بڑا سہارا مخالفت کے بوجھ کے نیچے دب کر ٹوٹا چاہتا ہے۔ مگر آپؐ کے ماتھے پر بل تک نہ تھا۔ نہایت اطمینان سے فرمایا:
چچا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو وہ کام ہے جس کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں کہ لوگوں کی خرابیاں ان پر ظاہر کر کے انہیں سیدھے رستے کی طرف بلائوں اور اگر اس راہ مجھے مرنا درپیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتاہوں۔ میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا۔ اور اے چچا !اگر آپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا خیال ہے تو آپ بے شک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جاویں۔ مگر میں احکام الٰہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا اور خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا اور میں اپنے کام میں لگا رہوں گا حتیٰ کہ خدا اسے پورا کرے یا میں اس کوشش میں ہلاک ہو جاؤں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر فرما رہے تھے اور آپ کے چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں تھی اور جب آپ تقریر ختم کر چکے تو آپؐ یکلخت چل پڑے اور وہاں سے رخصت ہونا چاہا مگر ابوطالب نے پیچھے سے آواز دی۔ جب آپؐ لوٹے تو آپ نے دیکھا کہ ابوطالب کے آنسو جاری تھے۔ اس وقت ابو طالب نے بڑی رقت کی آواز میں آپ سے مخاطب ہو کر کہا بھتیجے جا اور اپنے کام میں لگا رہ جب تک میں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا۔
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ111)
جب اس دفعہ بھی قریش ناکام رہے تو انہوں نے ایک اَور چال چلی اور وہ یہ کہ قریش کے ایک اعلیٰ خاندان سے ایک ہونہار نوجوان عمارہ بن ولید کو ساتھ لے کر ابو طالب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ ‘‘ہم عمارہ بن ولید کو اپنے ساتھ لائے ہیں۔ اور تم جانتے ہو کہ یہ قریش کے بہترین نوجوانوں میں سے ہے۔ پس تم ایسا کرو کہ محمدکے عوض میں تم اس لڑکے کو لے لو اور اس سے جس طرح چاہو فائدہ اٹھاؤ۔ اور چاہو تو اسے اپنا بیٹا بنا لو۔ ہم اس کے حقوق سے کلیۃً دستبردار ہوتے ہیں اور اس کے عوض تم محمدکو ہمارے سپرد کردو جس نے ہمارے آبائی دین میں رخنہ پیدا کر کے ہماری قوم میں ایک فتنہ کھڑا کر رکھا ہے۔ اس طرح جان کے بدلے جان کا قانون پورا ہوجائے گا اور تمہیں کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ ’’ابوطالب نے کہا :‘‘یہ عجیب انصاف ہے کہ میں تمہارے بیٹے کو لے کر اپنا بیٹا بنائوں اور اسے کھلاؤں اورپلاؤں اور اپنا بیٹا تمہیں دے دوں کہ تم اسے قتل کر دو۔ واللّٰہیہ بھی کبھی نہیں ہوگا۔ ’’ قریش کی طرف سے مطعم بن عدی نے کہا کہ‘‘ پھر اے ابوطالب تمہاری قوم نے تم پر ہر رنگ میں حجت پوری کر دی ہے اور اب تک جھگڑے سے اپنے آپ کو بچایا ہے مگر تم ان کی کوئی بات بھی مانتے نظر نہیں آتے۔’’ ابوطالب نے کہا ‘‘واللّٰہ میرے ساتھ انصاف نہیں کیا جا رہا اور مطعم میں دیکھتا ہوں کہ تم بھی اپنی قوم کی پیٹھ ٹھونکنے میں میرے ساتھ بے وفائی کرنے پر آمادہ ہو۔ پس اگر تمہارے تیور بدلے ہوئے ہیں تو میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ تم نے جو کرنا ہو وہ کرو۔ ’’
(سیرت ابن ہشام مباراة رسول اللّٰہ قومہ جلدنمبر1صفحہ 262)
21۔ مقامات مقدسہ کی توہین کا ابتلا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت خانہ کعبہ 365؍بتوں کی آماجگاہ تھا۔ یہ وہ گھر تھا جسے خدا نے توحید کے اعلان کےلیے قائم کروایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں جا کر عبادت کرتے اور توحید کا پیغام دیتے مگر خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کی کوئی صورت نہ تھی۔ یہ معاملہ واقعۃًآپ کےلیے جذباتی طور پر ابتلا تھا لیکن آپ نے کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو دشمن کو مشتعل کرتا۔ ان کے بتوں کو بھی کبھی گالی نہ دی مبادا وہ خدا کو گالیاں دینے لگیں۔ عرب ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور اسی طرح کئی بدرسومات میں مبتلا تھے مگر آپ ان کی اصلاح کی امن و آشتی سے کوشش کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے آپؐ کو فاتحانہ شان سے مکہ میں داخلہ کی توفیق عطا کی تو آپؐ نے بتوں کی نجاست خانہ کعبہ سے باہر کروا دی اور ببانگ بلند توحید کا نعرہ بلند کیا۔
22۔ بیٹیوں کی طلاق کا ابتلا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت سے قبل آپ کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور ام کلثوم کے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں عتیبہ اور عتبہ سے ہو چکے تھے۔ جب رسول اللہﷺ نے توحید کا اعلان فرمایا تو ابو لہب اور اس کی بیوی نے اپنے دونوں بیٹوں کو حکم دے کر رخصتانہ سے پہلے رسول اللہﷺ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی۔
(اسد الغابہ جلد5صفحہ 612از محمد بن عبدالکریم جزری مکتبہ الامیہ طہران)
23۔ سوشل بائیکاٹ کا ابتلا
مکہ میں محرم 7؍نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب سے رشتہ نہیں کرے گا اور نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا۔ نہ ان سے کچھ خریدے گا اور نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا اورنہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا۔ جب تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر آپ کو ان کے حوالے نہ کر دیں۔ یہ معاہدہ جس میں قریش کے قبائل بنو کنانہ بھی شامل تھے باقاعدہ لکھا گیا اور تمام بڑے بڑے رؤساء کے اس پر دستخط ہوئے اور پھر وہ ایک اہم قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ کی دیوار کے ساتھ آویزاں کر دیا گیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام بنو ہاشم اور بنو مطلب کیا مسلم اور کیا کافر (سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کے جس نے اپنی عداوت کے جوش میں قریش کا ساتھ دیا) شعب ابی طالب میں جو ایک پہاڑی درہ کی صورت میں تھا، محصور ہو گئے اور اس طرح گویا قریش کے دو بڑے قبیلے مکہ کی تمدنی زندگی سے عملاً بالکل منقطع ہوگئے اور شعب ابی طالب میں جو گویا بنو ہاشم کا خاندانی درہ تھا قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیے گئے۔ چند گنتی کے دوسرے مسلمان جو اس وقت مکہ میں موجود تھے وہ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔ جو جو مصائب اور سختیاں ان ایام میں ان محصورین کو اٹھانی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ پڑ جاتا ہے۔ صحابہ کابیان ہے کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی اس وقت ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اسے اٹھا کر نگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز تھی۔
ایک دوسرے موقع پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں ایک سوکھا ہوا چمڑہ زمین پر پڑا ہوا مل گیا تو اسی کو انہوں نے پانی میں نرم اور صاف کیااور پھر بھون کر کھایا اورتین دن اسی غیبی ضیافت میں بسر کیے۔
بچوں کی یہ حالت تھی کہ محلے سے باہر ان کے رونے اور چلانے کی آواز جاتی تھی جسے سن سن کر قریش خوش ہوتے۔ لیکن مخالفین اسلام سب ایک سے نہ تھے بعض یہ دردناک نظارے دیکھتے تھے تو ان کے دل میں رحم پیدا ہوتا تھا۔ چنانچہ حکیم بن حزام کبھی کبھی اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کے لیے خفیہ خفیہ کھانے لے جاتے تھے۔ مگر ایک دفعہ ابوجہل کو کسی طرح اس کا علم ہو گیا تو اس کم بخت نے راستہ میں بڑی سختی سے روکا اور باہم ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی۔ یہ مصیبت برابر اڑھائی تین سال تک جاری رہی اور اس عرصہ میں مسلمان سوائے حج وغیرہ کے موسم کے جبکہ اشہر حرم کی وجہ سے امن ہوتا تھا باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
(سیرة ابن ہشام حالات شعب ابی طالب۔ طبقات ابن سعد ذکر حصر قریش۔ السیرة المحمدیہ صفحہ 129باب اجتماع المشرکین علی منابذة بنی ہاشم۔ الروض الانف جلد دوم صفحہ 160 حالات نقض الصحیفہ۔ تاریخ ابن کثیر جلد 2صفحہ 50,47)
24۔ پیاروں کی تکالیف کا ابتلا
اسلام لانے کے جرم میں مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابہ دشمنوں کے وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنتے رہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آنکھوں کے سامنے یہ ظلم و ستم دیکھنے پر مجبور تھے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کے اور آپ کے ذریعہ دیگر صحابہ کے ہاتھ تلوار اٹھانے سے روک رکھے تھے ان عظیم عاشقان توحید کے سروں سے گزرنے والے ظلم کی ہر لہر یقیناً محمد مصطفیٰﷺ کے دل کو چھیدتی ہوئی گزرتی ہوگی نہ جانے کس طرح آپ کی روح ان کے دکھوں کو دیکھ کر پگھلتی ہو گی مگر زبان سے ان کےلیے سوائے صبر کے اور مستقبل کی خوشخبریوں کے کوئی پیغام نہ تھا۔ ایک دفعہ آل یاسر کو سخت اذیت دی جارہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپؐ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا اے آل یاسر صبر کرو اور خوش ہو جاؤکیونکہ تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے۔
(مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابہ ذکر مناقب عمار جلد3صفحہ 383 مکتبہ النصر الحدیثہ ریاض)
حضرت عمارؓ کو قریش عین دوپہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے اور پانی میں غوطے دیتے۔ ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپؐ نے حضرت عمارؓ کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعا کی کہ اے آگ عمار کےلیے اسی طرح ٹھنڈک کا ،سلامتی کا موجب بن جا جس طرح ابراہیم کےلیے بنی تھی۔
(طبقات ابن سعد جلد3صفحہ 246دارالکتب العلمیۃ بیروت۔ 1957ء)
رسول اللہﷺ کے فدائیوں اور عاشقوں پر اترنے والی قیامتوں کا یہ ایک طویل سلسلہ تھا۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک ان کے چھلنی جسم اور لہولہان وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے دل کو پارہ پارہ کر دیتے تھے۔ بعض معزز گھرانوں کے مظلوم صحابہؓ نے جب جوابی کارروائی کی اجاز ت مانگی تو آپؐ نے صبر کا ارشاد فرمایا ( سنن نسائی کتاب الجہاد باب وجوب الجہاد۔ حدیث نمبر 3036) اور جب بعض صحابہؓ نے بددعاکی درخواست کی تو آپ نے انہیں پہلے نبیوں کی قوموں پر آنے والے ابتلاؤں کی خبر دے کر انہیں راہ وفا میں نئی چوٹیاں سر کرنے کی تلقین کی اور اپنے دین کے غلبہ کی خبر دے کر انہیں صبر واستقامت کے بلندمینار پر فائز ہونے کا ارشاد فرمایا۔
(صحیح بخاری کتاب المناقب باب مالقی النبی۔ حدیث نمبر 3563)
25۔ بے وطنی کا ابتلا
مکہ کے رؤسا ٫اور برسر اقتدار نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے کےلیے تیار نہ تھے بلکہ مکہ میں آپؐ کا رہنا دوبھر کر دیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے کہ شاید وہاں کوئی حق کو قبول کر لے اوروہاں اسلام کے قدم جم جائیں مگر وہ سارے ہی بد نصیب نکلے۔ واپسی پر مکہ کے دروازے آپؐ کےلیے بند ہو چکے تھے اور اس زمانہ کے دستور کے مطابق آپؐ جلا وطن ہو گئے تھے مگر آپ پھر بھی اپنی عظیم ذمہ داریوں اور قوم کی محبت میں مطعم بن عدی کی پناہ لے کر مکہ میں داخل ہو گئے۔ مگر تھوڑے عرصہ بعد ہی خدا تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا۔ آپؐ کو وطن چھوڑنے کا جو دکھ اور قلق تھا اس کا اندازہ ان دو جملوں سے ہو سکتا ہے جو آپؐ نے مکہ چھوڑتے وقت ارشاد فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘اے مکہ تو اللہ کی بہترین زمین ہے اور اللہ کی زمینوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ کی قسم اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی یہاں سے نہ نکلتا۔’’
(سنن ابن ماجہ۔ کتاب المناسک باب فضل مکہ حدیث نمبر3099)
26۔ تعاقب کا ابتلا
سفر ہجرت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ غار ثور میں پناہ لی۔ قریش پہلے تو آپ کو مکہ میں ادھر ادھر ڈھونڈتے رہے مگر ناکام رہے۔ آخر انہوں نے عام اعلان کیا کہ جو کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا، اس کو ایک سو اونٹ انعام دیے جاویں گے۔ چنانچہ کئی لوگ انعام کی طمع میں مکہ کے چاروں طرف اِدھر اُدھر نکل گئے۔ خود رئوسائے قریش بھی سراغ لیتے لیتے آپ کے پیچھے نکلے اور عین غار ثور کے منہ پر جا پہنچے۔ قریش اس قدر قریب پہنچ گئے تھے کہ ان کے پاؤں غار کے اندر سے نظر آتے تھے اور ان کی آواز سنائی دیتی تھی۔ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے گھبرا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قریش اتنے قریب ہیں کہ ان کے پائوں نظر آ رہے ہیں۔ اور اگر وہ ذرا آگے ہو کر جھانکیں تو ہم کو دیکھ سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا۔ یعنی ‘‘ہرگزکوئی فکر نہ کروا للہ ہمارے ساتھ ہے۔ ’’پھر فرمایا:‘‘اے ابوبکر تم ان دو شخصوں کے متعلق کیا گمان کرتے ہو جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے۔’’
(بخاری کتاب المناقب باب مناقب المہاجرین حدیث نمبر3380)
ایک اور روایت میں آتا ہے کہ جب قریش غار کے منہ کے پا س پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ سخت گھبرا گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گھبراہٹ کو دیکھا تو تسلی دی کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے رقت بھری آواز میں کہا:‘‘یا رسول اللہ! اگر میں مارا جائوں تو میں تو بس ایک اکیلی جان ہوں لیکن اگر خدانخواستہ آپؐ پر کوئی آنچ آئے تو پھر تو گویا ساری امت کی امت مٹ گئی۔ ’’اس پر آپؐ نے خدا سے الہام پا کر یہ الفاظ فرمائے کہ ‘‘اے ابوبکر! ہرگز کوئی فکر نہ کرو کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہم دونوں اس کی حفاظت میں ہیں۔ ’’یعنی تم تو میری وجہ سے فکر مندہو اور تمہیں اپنے جوش اخلاص میں اپنی جان کا کوئی غم نہیں۔ مگر خداتعالیٰ اس وقت نہ صرف میرا محافظ ہے بلکہ تمہارا بھی۔ اور وہ ہم دونوں کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
(شرح المواہب زرقانی جلد اول صفحہ 236)
غار ثور سے نکل کر مدینہ کے رستہ میں آپؐ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑا دوڑائے ان کے پیچھے آ رہا ہے اس پر حضرت ابوبکر نے گھبرا کر کہا ‘‘یارسول اللہ! کوئی شخص ہمارے تعاقب میں آ رہا ہے’’آپؐ نے فرمایا ‘‘کوئی فکر نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ’’(بخاری کتاب المناقب باب مناقب المہاجرین حدیث نمبر3379) یہ تعاقب کرنے والا سراقہ بن مالک تھا جو اپنے تعاقب کا قصہ خود اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے کہ میں گھوڑے کو تیز کر کے محمد اور ان کے ساتھیوں کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور میں زمین پر گر گیا، لیکن میں جلدی سے اٹھا اور اپنا ترکش نکال کر میں نے ملک کے دستور کے مطابق تیروں سے فال لی۔ فال میرے منشاء کے خلاف نکلی۔ مگر (اسلام کی عداوت کا جوش اور انعام کا لالچ تھا) میں نے فال کی پروا نہ کی اور پھر سوار ہو کر تعاقب میں ہو لیا اور اس دفعہ اس قدر قریب پہنچ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی (جو اس وقت قرآن شریف کی تلاوت کرتے جا رہے تھے)قراء ت کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک دفعہ بھی منہ موڑ کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔ مگر ابوبکر (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فکر کی وجہ سے) باربار دیکھتے تھے۔ میں جب ذرا آگے بڑھا تو میرے گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور اس دفعہ اس کے پائوں ریت کے اندر دھنس گئے اور میں پھر زمین پرآ رہا۔ میں نے اٹھ کر گھوڑے کو جو دیکھا تو اس کے پائوں زمین میں اس قدر دھنس چکے تھے کہ وہ انہیں زمین سے نکال نہیں سکتا تھا۔ آخر بڑی مشکل سے وہ اٹھا اور اس کی اس کوشش سے میرے اردگرد سب غبار ہی غبار ہو گیا۔ اس وقت میں نے پھر فال لی اور پھر وہی فال نکلی۔ جس پر میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کو صلح کی آواز دی۔ اس آواز پر وہ ٹھہر گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچا۔ اس سرگزشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گزری تھی میں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غالب رہیں گے۔ چنانچہ میں نے صلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپؐ کی قوم نے آپ کو قتل کر نے یا پکڑلانے کے لیے اس قدر انعام مقرر کر رکھا ہے اور لوگ آپ کے متعلق یہ یہ ارادہ رکھتے ہیں اورمیں بھی اسی ارادے سے آیا تھا مگر اب میں واپس جاتا ہوں اس کے بعد میں نے انہیں کچھ زاد راہ پیش کیا مگر انہوں نے نہیں لیا اور نہ ہی مجھ سے کوئی اور سوال کیا۔ صرف اس قدر کہا کہ ہمارے متعلق کسی سے ذکر نہ کرنا۔ اس کے بعد میں نے (یہ یقین کرتے ہوئے کہ کسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک میں غلبہ حاصل ہو کر رہے گا) آپ سے عرض کیا کہ مجھے ایک امن کی تحریر لکھ دیں جس پر آپؐ نے عامر بن فہیرہ کو ارشاد فرمایا اور اس نے مجھے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امن کی تحریر لکھ دی۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی آگے روانہ ہو گئے۔ (بخاری کتاب المناقب باب ہجرة النبی حدیث نمبر3616) جب سراقہ واپس لوٹنے لگا۔ تو آپؐ نے اسے فرمایا:‘‘سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے؟’’سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ ‘‘کسریٰ بن ہرمز شہنشاہ ایران؟’’ آپؐ نے فرمایا :‘‘ ہاں ’’ سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہاں عرب کے صحرا کا ایک بدوی اور کہاں کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن ! مگر قدرت حق کا تماشا دیکھو کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کا خزانہ غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو کسریٰ کے کنگن بھی غنیمت کے مال کے ساتھ مدینہ میں آئے۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ کوبلایا جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو چکا تھا۔ اور اپنے سامنے اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن جو بیش قیمت جواہرات سے لدے ہوئے تھے پہنائے۔
(اسد الغابہ، ذکر سراقہ)
27۔ جنگوں کا ابتلا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمةللعالمین تھے۔ کائنات کے ہر ذرہ کےلیے آپ کا دل محبت اور شفقت سے بھرپور تھا۔ ایسا درد کسی بچے نے اپنی ماں سے بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر دشمن نے آپ پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ مکہ میں 13سال آپؐ اور آپ کے ساتھیوں نے دکھ اٹھائے مگر دم نہ مارا اور باوجود صحابہؓ کی خواہش کے رسول اللہؐ نے انہیں عفو ہی کی تعلیم دی یہاں تک کہ خدا نے آپ کو مدینہ ہجرت کر جانے کی اجازت دی۔ مگر دشمنوں نے وہاں بھی آپؐ کا پیچھا نہ چھوڑا تب مجبوراً خدا کے حکم پر آپ کو تلوار اٹھانا پڑی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اور شخصیت کے لحاظ سے یہ یقینا ًبہت بڑا ابتلا تھا کہ آپ جن کے غم میں راتوں کو ہلکان رہتے تھے دن کو ان پر تلوار اٹھائیں۔ جن کےلیے آپؐ سراپا خیر ہیں ان کے خون بہائیں۔ مگر تقدیر الٰہی کے اس ابتلامیں بھی آپ سرخرو ہو کر گزرے۔ رحمت کا حق بھی ادا کیا اور شجاعت اور جوانمردی کے نظارے بھی دکھائے۔ کم و بیش 82غزوات و سرایا آپ کو پیش آئے۔ جن میں سے 19 کے قریب غزوات میں آپؐ کو بنفس نفیس شرکت کرنا پڑی۔ رسول اللہﷺ کی خواہش تھی کہ کم سے کم قتل و غارت ہو اس لیے امن کے قیام کےلیے ہر ممکن جدوجہد فرماتے تھے۔ چنانچہ عملاً جن جنگوں میں آپ کی موجود گی میں قتال ہوا وہ آٹھ نو سے زیادہ نہیں اور آپؐ نے ان تمام مواقع پر اپنے ہاتھ سے جو قتل کیا وہ صرف ایک تھا۔ جو اپنی بدبختی سے اس محسن کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔ کہ جنگ احد میں آپؐ شدید زخمی ہوئے۔ چہرہ مبارک لہولہان تھا۔ دو دانت ٹوٹ گئے تھے۔ ابی بن خلف ایک کافر مدت سے اس جنگ کے لیے تیاری کر رہا تھا۔ اس نے ایک گھوڑا خاص اس مقصد کے لیے ہی پالا تھا۔ اس کو روزانہ جوار کھلاتا کہ اس پر چڑھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کروں گا (نعوذ باللہ)۔ اس بدبخت کی نظر جب رسول اللہﷺ پر پڑی تو گھوڑے کو ایڑھ لگا کر آگے آیا اور یہ نعرہ لگایا کہ اگر محمد بچ جائیں تو میری زندگی عبث ہے۔ صحابہؓ نے یہ دیکھا تو رسول اللہﷺ اور ا س کے درمیان حائل ہونا چاہا۔ مگر رسول اللہ نے فرمایا ہٹ جاؤ اسے آنے دو اور میرے زخمی آقاؐ نے جن کے زخم سے ابھی خون رس رہا تھا نیزہ تھام کر اس کی گردن پر وار کیا۔ وہ چنگھاڑتا ہوا واپس مڑا۔ کسی نے کہا بھئی معمولی زخم ہے کیا چیختا اور واویلا کرتا ہے۔ اس نے کہا یہ معمولی زخم نہیں محمد کالگایا ہوا ہے۔ اسی زخم سے وہ بعد میں ہلاک ہو گیا۔
(سیرة ابن ہشام زیر عنوان قتل ابی خلف جلد3 صفحہ 89)
28۔ سفروں کا ابتلا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دعویٰ نبوت سے قبل تجارت کے لیے اور دعویٰ کے بعدتبلیغ حق کےلیے کثرت سے سفر کرنے پڑے۔ غزوات کے سفر ان کے علاوہ ہیں۔
سفر تو عذاب کا ٹکڑا ہوتا ہے اور عرب جیسے گرم اور صحرائی علاقے کا سفر آسان نہیں ہوتا مگر آپ کے سفروں کے ابتلا نے آپؐ کے اخلاق کو اجاگر کیا۔ حضرت خدیجہؓ کا مال لے کر سفر کیا تو وہ آپؐ کی امانت ودیانت کی گرویدہ ہو گئیں۔ ایک سفر میں پڑاؤ کے دوران صحابہ نے مختلف ڈیوٹیاں اپنے ذمہ لیں تو آپ نے فرمایا میں بھی لکڑیاں اکٹھی کر کے لاؤں گا۔ (شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیہ جلد4صفحہ 265 دارالمعرفہ بیروت) ایک سفر میں پانی ختم ہو گیا تو آپؐ کی دعا سے سوکھا چشمہ ابل پڑا۔ کبھی آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی ابلنے لگا۔ ایک سفر میں پانی کی کمی تیمم کے احکامات کے نزول کا موجب بن گئی۔ غزوہ ذات الرقاع میں صحابہ کو پاؤں پر پٹیاں باندھنی پڑیں۔ تبوک کا فاصلہ مدینہ سے کم و بیش 400میل ہے اور آپ کو 9ھ میں 61سال کی عمر میں یہ لمبا سفر اختیار کرنا پڑا جو 3ماہ کے عرصہ پر مشتمل تھا۔ موسم خراب تھا۔ خشک سالی تھی اور تیس ہزار کا لشکر لے کر نکلنا بہت مشکل مرحلہ تھا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی شجاعت اور حسن انتظام کے ساتھ نکلے مگر دشمن کو مقابل پر آنے کی جرأت نہ ہوئی۔
29۔ جسمانی مشقت کا ابتلا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھوک پیاس اور ذہنی اذیت کے علاوہ جسمانی مشقت کا ابتلابھی برداشت کرنا پڑا اور یہ بھی دو پہلوؤں میں منقسم ہے۔
1۔ وہ مشقت جو آپ نے اپنی عاجزی وا نکساری کی بنا پر اختیار کی۔ مثلاً گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کے ساتھ شریک رہے یا صحابہؓ کے ساتھ مل کر اجتماعی کاموں میں پورا پورا حصہ لیا اور مشقت اٹھائی۔
2۔ وہ جسمانی مشقت جو دشمنوں کی اذیتوں کے تسلسل میں آپؐ کو برداشت کرنی پڑی۔
حضور اکرمﷺ گھر کے جو کام کرتے تھے ان کا نقشہ حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس طرح کھینچا ہے کہ حضور اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے اور اپنا کپڑا سی لیا کرتے تھے۔ (مسند احمد حدیث نمبر24176) دوسری روایات میں ہے کہ آپ اپنے کپڑے صاف کر لیتے، ان کو پیوند لگاتے بکری کا دودھ دوہتے، اونٹ باندھتے، ان کے آگے چارہ ڈالتے، آٹا گوندھتے اوربازار سے سودا سلف لے آتے۔ (شفاعیاض باب تواضعہ) مزید بیان کیا گیا ہے کہ ڈول مرمت کر لیتے۔ خادم اگر آٹا پیستے ہوئے تھک جاتا تو اس کی مدد کرتے اور بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے تھے۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد4صفحہ264۔ اسد الغابہ)بازار جاتے تو اپنی خرید کردہ اشیا خود اٹھاتے۔ (شفاء عیاض باب تواضعہ) طواف کے وقت آپ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا تو خود مرمت فرمائی۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللد نیہ جلد4صفحہ 265)
حضرت سلمان فارسیؓ نے جب اسلام قبول کیا اس وقت وہ مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے۔ اور اس نے حضرت سلمان فارسیؓ کی آزادی کی یہ قیمت مقرر کی کہ وہ کھجور کے تین سو درخت لگائیں۔ نلائی گوڈی کر کے پانی دے کر انہیں تیار کریں اور مالک کے حوالے کر دیں نیز چالیس اوقیہ (ایک پیمانہ) چاندی اس کو اداکریں۔ حضرت سلمانؓ نے جب حضورؐ کو یہ اطلاع دی تو آپ نے صحابہؓ سے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو۔ چنانچہ صحابہؓ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کھجور کے پودے لے آئے۔ کوئی تیس کوئی بیس کوئی دس۔ یہاں تک کہ تین سو پودے جمع ہو گئے۔ پھر رسول اللہﷺ نے ان کےلیے گڑھے کھودنے کا حکم دیا۔ چنانچہ صحابہؓ نے اپنے بھائی کی پوری پوری مدد کی اور تمام گڑھے اجتماعی وقار عمل سے کھود لیے گئے۔ جب رسول اللہﷺ کو اطلاع کی گئی تو آپ نے تمام پودے اپنے ہاتھوں سے گڑھوں میں لگائے۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک ایک پودے کو حضورﷺ کے قریب لاتے اور آپ اسے اپنے دست مبارک سے گڑھے میں رکھ دیتے۔ حضرت سلمان کہتے ہیں خدا کی قسم ان پودوں میں سے ایک بھی نہیں مرا اور سارے کے سارے پھولنے پھلنے لگ گئے۔ اس طرح اس یہودی کی شرط پوری ہو گئی۔ اسی طرح آپؐ کو کسی نے سونا پیش کیا جو آپؐ نے حضرت سلمانؓ کو دے دیااور انہوں نے آزادی حاصل کر لی۔
(سیرة ابن ہشام باب اسلام سلمان جلد1صفحہ 234مطبة مصطفی البابی الحلبی مصر 1936ء)
مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اللہﷺ نے سب سے پہلے ایک مسجدکی تعمیر کی طرف توجہ فرمائی۔ خاندان بنو نجار کے دو یتیم بچوں سے زمین خریدی گئی اور شہنشاہ عالم اپنے قدوسیوں کے ساتھ پھر مزدوروں کے لباس میں آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے۔ اور صحابہ کو دعا دیتے یہ اشعار پڑھتے۔
ھذا الحمال لا حمال خیبر
ھذا ابر ربنا و اطہر
اللّٰھم انّ الاجر اجر الآخرة
فاغفر الانصار و المہاجرة
(صحیح بخاری کتاب المناقب باب ہجرة النبی حدیث نمبر3616)
یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں جو جانوروں پر لد کر آیا کرتا ہے بلکہ اے ہمارے مولیٰ یہ بوجھ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں۔
اے ہمارے اللہ اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے۔ پس تو اپنے فضل سے انصار و مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما۔
مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی جس کا نام قبا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے قبل کئی مہاجرین مکہ سے آکر اس بستی میں ٹھہر گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خود ہجرت فرمائی تو مدینہ جانے سے قبل اس بستی میں قیام فرمایا۔ یہاں آپؐ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جسے مسجد قبا کہتے ہیں۔ مسجد کی تعمیر میں آپؐ نے خود صحابہؓ کے ساتھ مزدوروں کی طرح حصہ لیا۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا قریب کی پتھریلی زمین سے پتھر جمع کر کے لاؤ۔ پتھر جمع ہو گئے تو آپؐ نے خود قبلہ رخ ایک خط کھینچا۔ اور خود اس پر پہلا پتھر رکھا۔ پھر بعض بزرگ صحابہؓ سے فرمایا اس کے ساتھ ایک ایک پتھر رکھو۔ پھر عام اعلان فرمایا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر رکھے۔ صحابہ بیان کرتے ہیں کہ آپ خود بھاری پتھر اٹھا کر لاتے یہاں تک کہ جسم مبارک جھک جاتا۔ پیٹ پر مٹی نظر آتی۔ صحابہ عرض کرتے ہمارے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں آپؐ یہ پتھر چھوڑ دیں ہم اٹھا لیں گے مگر آپؐ فرماتے نہیں تم ایسا ہی اور پتھر اٹھا لاؤ۔
(المعجم الکبیر للطبر انی جلد24صفحہ 318مکتبة ابن تیمیة قاہرہ) حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اس موقع پر جوش دلانے والے شعر پڑھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافیہ کے ساتھ بلند آواز سے آواز ملاتے تھے۔
(وفاء الوفاء جلد اول صفحہ 179تا181 نورالدین سمہودی۔ مطبع آداب مصر1326ھ)
شوال 5ھ میں کفار مکہ کی سرکردگی میں پندرہ ہزار کا لشکرمدینہ پر حملہ آور ہوا۔ جس کی روک تھام کےلیے مدینہ کے غیر محفوظ حصہ کے سامنے خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی نگرانی میں موقع پر نشان لگا کر پندرہ پندرہ فٹ کے ٹکڑوں کو دس دس صحابہ کے سپرد فرما دیا۔ (فتح الباری شرح بخاری جلد7صفحہ 397۔ ازابن حجر عسقلانی دارنشرالکتب الاسلامیة لاہور 1981ء) ان ٹولیوں نے اپنے کام کی تقسیم اس طرح کی کہ کچھ آدمی کھدائی کرتے تھے اور کچھ کھدی ہوئی مٹی اور پتھروں کو ٹوکریوں میں بھر کر کندھوں پر لاد کرباہر پھینکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیشتر وقت خندق کے پاس گزارتے اور بسااوقات خود بھی صحابہ کے ساتھ مل کر کھدائی اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے تھے۔ اور ان کی طبائع میں شگفتگی قائم رکھنے کےلیے بعض اوقات آپؐ کام کرتے ہوئے شعر پڑھنے لگ جاتے جس پر صحابہ بھی آپ کے ساتھ سُرملا کر وہی شعر یا کوئی دوسرا شعر پڑھتے۔ ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے وقت میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا کہ آپ کا جسم مبارک مٹی اور گردوغبار کی وجہ سے بالکل ڈھکا ہوا تھا۔ (بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندق حدیث نمبر3793) سخت فاقے اور سردی کے ان ایام میں صحابہ تھکن سے چور تھے اور ایک پتھر توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ نے بھی صحابہ کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپؐ نے کدال لے کر تین دفعہ اس پتھر پر ماری تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ہر ضرب کے ساتھ ایک شعلہ نکلا اور عظیم فتوحات کی خوشخبریاں آپؐ کو دی گئیں۔
(سیرت ابن ہشام جلد3صفحہ 704مکتبہ محمد علی صبیح۔ مصر 1963ء)
30۔ بیوی بچوں کے مطالبات کا ابتلا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سادہ اور مشکل زندگی گزاری اور ہمیشہ اپنی ازواج اور اولاد کو بھی سادگی اور قناعت کی تعلیم دی۔ فتوحات کے دَور میں ازواج نے متفق ہو کر آپ سے دنیاوی اموال مانگے تو آپ نے قرآنی حکم کی روشنی میں فرمایا اگر دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مالی فائدہ پہنچاؤں اور رخصت کر دوں اور اگر تم اللہ اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو خوشی سے میرے ساتھ رہ سکتی ہو۔ (الاحزاب آیت 29-30)حضرت فاطمہؓ کی طرف سے ایک غلام مانگنے پر فرمایا کہ اس سے بہتر ہے کہ تم ذکر الٰہی کیا کرو۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب علی حدیث نمبر 3429) حضرت حسن نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈال لی تو آپؐ نے فوراً اسے ان کے منہ سے نکال لیا اور فرمایا کہ آل محمد صدقہ نہیں کھاتے۔ (بخاری کتاب الزکوٰة باب اخذ صدقة التمرحدیث نمبر1390)
31۔ ایفائے عہد کا ابتلا
وعدہ وفائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیادی صفت تھی لیکن بعض مواقع آپ کی زندگی میں ایسے بھی آئے جب وعدہ وفا کرنا قانونی طور پر ممکن نہ تھا اور بعض حالات میں ایفائے عہد کی کوشش کے نتیجہ میں سوائے تمسخر اور بدنامی کے اور کچھ حاصل ہونے کا امکان نہ تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حالت میں وعدہ وفا کرنے کی عظیم مثالیں قائم فرمائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جوانی میں معاہدہ حلف الفضول میں شرکت کی تھی جس کے سب شرکاء نے وعدہ کیا کہ ہم ہمیشہ ظلم کو روکیں گے اور مظلوم کی مدد کریں گے۔ اس عہد کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی پاسداری کی۔ بلکہ سب سے بڑھ کر کی اور حقیقت میں ایفائے عہد کے شاندار نظارے بعثت کے بعد دکھلائے جب شدید دشمنوں اور ظالموں کے مقابل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان اور عزت کی کوئی پروا نہ کرتے ہوئے معاہدہ حلف الفضول کے تحت مظلوموں کا حق دلوانے کی بھرپور سعی کی۔ اس کی تائید میں یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔
اراش قبیلہ کا ایک فرد مکہ میں اونٹ بیچنے کے لیے لایا۔ ابوجہل نے اس سے ایک اونٹ خریدا اور رقم ادا کرنے کےلیے ٹال مٹول کرنے لگا۔ وہ شخص دہائی دیتا ہوا قریش کے سرداروں کی مجلس میں پہنچ گیا۔ اور بلند آواز سے کہنے لگا۔ اے سردارو! مجھ غریب مسافر کا حق ابوالحکم نے مار لیا ہے۔ مجھے اونٹ کی قیمت دلا دو۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے۔ اور وہ سب سردار جانتے تھے کہ ابوجہل رسول اللہ سے سخت دشمنی رکھتا ہے۔ انہوں نے اس شخص سے استہزاء کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ شخص تجھے حق دلا سکتا ہے۔ وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور اپنی داستان سنائی۔ رسول اللہﷺ اس کی بات سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجہل کی طرف جانے لگے۔ قریشی سرداروں نے ایک شخص سے کہا کہ تو ان کے پیچھے جا اور دیکھ کیا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے ساتھ ابوجہل کے دروازہ پر پہنچے۔ دستک دی۔ اس نے پوچھا کون ہے فرمایا میں محمد ہوں تم باہر آؤ۔ ابوجہل باہر آیا تو فرمایا اس شخص کا حق ادا کرو۔ وہ کہنے لگا آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی اس کی رقم لے کر آتا ہوں۔ چنانچہ وہ گھر گیا اور رقم لے آیا۔ وہ شخص واپس جاتے ہوئے اہل قریش کی اسی مجلس کے پاس ٹھہرا اور کہا اللہ محمد کو جزا دے مجھے میرا حق مل گیا۔ اتنی دیر میں وہ شخص جو رسول اللہ کے تعاقب میں بھیجا گیا تھا واپس آ گیا اور ابوجہل کے متعلق سارا واقعہ بیان کیا تو سب سخت حیران ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد ابوجہل آیاتو سب نے اسے لعن طعن کی۔ اس نے کہا جب میں محمد کے بلانے پر باہر آیا تھا تو میں نے دیکھا کہ محمد کے پیچھے قوی الجثہ خوفناک زبردست جبڑوں والا اونٹ ہے اور اگر میں انکارکرتا تووہ مجھے نگل جاتا۔
(السیرة النبویہ ابن کثیر جلد اول صفحہ 469 قصة الاراشی داراحیاء التراث العربی بیروت)
صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ تھی کہ مکہ سے جو مسلمان ہو کر مدینہ چلا جائے گا وہ اہل مکہ کے مطالبہ پر واپس کر دیا جائے گا عین اس وقت جب معاہدہ کی شرطیں زیر تحریر تھیں اور آخری دستخط نہ ہوئے تھے حضرت ابوجندل پابہ زنجیر اہل مکہ کی قید سے بھاگ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریادی ہوئے۔ تمام مسلمان اس درد انگیز منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باطمینان تمام ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا ‘‘اے ابوجندل! صبر کرو ہم بدعہدی نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔ ’’
(صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد حدیث نمبر2529)
حضرت حذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ میں غزوہ بدر میں شامل نہ ہو سکا اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں اور میرا ایک ساتھی ابوحُسیَل سفر میں تھے کہ کفار مکہ نے ہمیں پکڑ لیا کہ تم محمد کے پاس جا رہے ہو (تاکہ آپ کے لشکر میں شامل ہو جاؤ) ہم نے کہا ہم تو مدینہ جا رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے ہم سے یہ عہد لے کر چھوڑا کہ ہم مدینہ چلے جائیں گے اور کفار کے خلاف لڑائی میں شامل نہ ہوں گے۔ یہ عہد گو جارحانہ حملہ آوروں نے جبراً لیا تھا اور کسی معروف ضابطہ اخلاق میں اس کا ایفا لازمی نہیں تھا مگر رسول اللہ کو عہدکا اتنا پاس تھا کہ ایسے نازک وقت میں جبکہ ایک ایک سپاہی کی ضرورت تھی آپؐ نے فرمایا ‘‘تو پھر تم جاؤ اور اپنے عہد کو پورا کرو۔ ہم اللہ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور اسی کی نصرت پر ہمارا بھروسہ ہے۔ ’’
(صحیح بخاری کتاب الجہاد باب الوفاء بالعہد حدیث نمبر3342)
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭