خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ نومبر 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابہ حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ انصاری اور حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہما کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ انصاری ؓ ان چھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے مکّہ آکر بیعت کی
ایک دفعہ حضرت ابوایوبؓ نے رسول کریمﷺ کی ریشِ مبارک سے کوئی تنکا وغیرہ الگ کیا تو نبی کریمﷺ نے انہیں دعا دی کہ اللہ ابوایوب سے وہ چیز دُور کرےجسے وہ ناپسند کرتا ہے
چار مرحومین مکرم عبدالحئی منڈل صاحب معلم سلسلہ بھارت،مکرم سراج الاسلام صاحب معلم سلسلہ ضلع مرشدآباد بنگال، حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے نواسے مکرم شاہد احمد خان پاشا صاحب اور مکرم سیّد مسعود احمد شاہ صاحب آف شیفیلڈ ،یوکےکا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ نومبر 2020ء بمطابق 20؍ نبوت 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 20؍ نومبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم رانا عطاء الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آج جن صحابی کا پہلےذکر ہوگا ان کا نام ہے حضرت عوف بن حارث بن رفاعہ انصاریؓ۔ آپؓ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو نجار سے تھا۔ حضرت معاذؓ اور حضرت معوذؓ حضرت عوفؓ کے بھائی تھے۔آپؓ ان چھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے سب سے پہلے مکّہ آکر بیعت کی۔ اسی طرح آپؓ بیعتِ عقبہ میں بھی شامل تھے۔ غزوۂ بدر کے روز رسول خداﷺ نے حضرت عوفؓ کے استفسار پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندے سے سب سے زیادہ اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کا ہاتھ جنگ میں مصروف ہو اور زرہ کےبغیربےخوف لڑ رہا ہو۔ یہ سن کر حضرت عوفؓ نے اپنی زرہ اتاردی اور جاں فشانی سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔کتب احادیث و سیَر میں ابوجہل پر حملہ کرنے والے صحابہ میں آپؓ کا نام بھی ملتا ہے۔
حضورِانور نے اس کے بعد اگلے بدری صحابی حضرت ابوایوب انصاریؓ کا ذکر فرمایا۔ آپ کا نام خالد اور تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنونجار سے تھا۔آپؓ کو بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شمولیت کی توفیق ملی تھی۔ رسول خداﷺ نے حضرت ابوایوب انصاریؓ کی مؤاخات حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ساتھ قائم فرمائی تھی۔ ہجرتِ مدینہ کےفوری بعد آنحضرتﷺ آپؓ کے گھر قیام فرما رہے۔
حضورِانورنے حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے حوالےسےان واقعات کی تفصیل بیان فرمائی۔ آنحضرتﷺ کی میزبانی کا فخر حاصل کرنےکے لیے بنو نجار کے قبیلے کا ہر شخص متمنی تھا چنانچہ وہ لوگ آگے بڑھ بڑھ کر آپؐ کی اونٹنی کی باگوں پر ہاتھ ڈال دیتے۔آپؐ نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ اس وقت مامور ہے۔ اونٹنی چلتے چلتے دوبچوں کی افتادہ زمین پر بیٹھ گئی۔ حضورِاکرمﷺ نے فرمایا کہ خدا کی منشا میں یہی ہماری مقام گاہ ہے اور چونکہ ہم کسی کامال مفت نہیں لےسکتے چنانچہ اس زمین کی قیمت مقرر کی گئی اور بعدادائیگی اس جگہ پر مسجد اور مکانات بنانے کا فیصلہ ہوا۔ حضورِاکرمﷺ نےقریب ترین مسلمان کے گھر کے متعلق دریافت فرمایا توحضرت ابوایوب انصاریؓ لپک کر آگے بڑھے۔ رسولِ خداﷺ حضرت ابوایوب انصاریؓ کے گھر کی نچلی منزل پر فروکش ہوئے۔ رات میں اتفاقاً پانی کا کوئی برتن ٹوٹ گیاتو اس خیال سے کہ کہیں پانی کا کوئی قطرہ نچلی منزل پر نہ گِر جائے حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اپنا لحاف پانی پرگراکر اسےخشک کردیا۔ اگلی صبح آپؓ نےبکمال اصرار رسولِ خداﷺ کو اوپر کی منزل پر قیام پذیر ہونےکے لیے رضامند کرلیا۔ آنحضورﷺ اس مکان میں سات ماہ قیام فرما رہے۔ حضرت ابوایوبؓ کھانا تیار کرکے بھجواتے پھر جو بچاہوا کھانا آتا سارا گھرانہ وہ کھاتا۔
آپؓ کھانا کھاتے ہوئے شوقِ محبت میں اسی جگہ سے کھانا کھاتے جہاں حضورِاکرمﷺ نےانگلیاں ڈالی ہوتیں۔ ایک دفعہ حضرت ابوایوبؓ نے کھانا تیار کیاجس میں لہسن شامل تھا۔ جب وہ کھانا واپس آیا تو عِلْم ہوا کہ رسول اللہﷺ نے آج کھانا تناول نہیں فرمایا۔ ابوایوبؓ نے دریافت کیا کہ کیا لہسن حرام ہے؟ نبی کریمﷺ نے فرمایا نہیں! لیکن مَیں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں ذکر ہےکہ نبی اکرمﷺ کے پاس فرشتے آتے تھے اس وجہ سےآپؐ بُو والی چیز پسند نہیں کرتے تھے۔
حضرت ابوایوب انصاریؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ حضرت صفیہؓ کے رخصتانے کی شب آپؓ اس ڈرسے کہ حضرت صفیہؓ ابھی نئی نئی کفر سے نکل کر اسلام میں آئی ہیں، کہیں ان سے رسول کریمﷺکو کوئی خطرہ نہ ہو؛ ساری رات رسول اللہﷺ کے خیمے کے باہر، حفاظت کی غرض سے پہرہ دیتے رہے۔آنحضورﷺ نے آپؓ کو دعا دی کہ اے اللہ! ابو ایوب کی حفاظت فرما جس طرح اس نے پوری رات میری حفاظت کرتے ہوئے گزاری۔
حضورِانور نے حضرت محمود بن ربیع سے مروی ایک طویل روایت بیان فرمائی جس میں ذکر تھا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ہر اس شخص پر آگ حرام کردی ہے جو سچی نیت سے خدا کی رضا کی خاطر لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا اقرار کرتا ہے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ نے اس روایت کے متعلق فرمایا ہے کہ بخدامَیں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہﷺ نے کبھی ایسا کہا ہو۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ روایت کے اصول کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے لیکن حضرت ابوایوب انصاریؓ نے درایت یعنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس روایت کو قبول نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام یونہی ہر روایت کو قبول نہ کرلیا کرتے تھےبلکہ روایت اور درایت ہر دو کےاصول کے ماتحت پوری تحقیق کرلینے کے بعد قبول کرتے تھے۔
حضرت سیّد ولی اللہ شاہ صاحب اس روایت میں مذکور ان الفاظ کو بنیادبناتے ہوئے کہ ’’جو دل سے چاہتے ہوئے خدا کی رضا کی خاطر لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھتا ہے‘‘ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ خود بتارہا ہے کہ یہ اقرارِ توحید کس قسم کا ہے۔
ایک دفعہ حضرت ابوایوبؓ نے رسول کریمﷺ کی ریشِ مبارک سے کوئی تنکا وغیرہ الگ کیا تو نبی کریمﷺ نے انہیں دعا دی کہ اللہ ابوایوب سے وہ چیز دُور کرےجسے وہ ناپسند کرتا ہے۔آپؓ جنگِ جمل، جنگِ صفین اور جنگِ نہروان میں حضرت علیؓ کے لشکر کے اگلے حصّے میں شامل تھے۔جب حضرت علیؓ نے کوفے کو دارالخلافہ بنایا اور وہاں منتقل ہوئے تو حضرت ابوایوب انصاریؓ کو مدینے کا گورنر بنادیا اور آپؓ چالیس ہجری تک مدینے کے گورنر رہے۔ جب امیر معاویہ کی شامی فوج مدینے پر حملہ آور ہوئی تو آپؓ مدینہ چھوڑ کر حضرت علیؓ کے پاس کوفہ چلے گئے ۔ عہدِ امیرمعاویہ میں حضرت ابوایوبؓ بصرہ چلے گئے جہاں حضرت ابن عباسؓ نے آپؓ کے لیے اپنا گھر خالی کیا اور فرمایا کہ مَیں آپؓ کے ساتھ ضرور ویسا ہی سُلوک کروں گا جیسا آپؓ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت ابنِ عباس نے نہایت عمدہ مہمان نوازی کے علاوہ آپؓ کو چالیس ہزار درہم اوربیس غلام بھی دیے۔
امیرمعاویہ کے عہدِ حکومت میں حضرت ابوایوبؓ نے صرف ایک حدیث کی روایت کےلیے بڑھاپے میں مصر کے سفر کی زحمت گوارا کی۔ ایک جنگ میں اموالِ غنیمت کی تقسیم کے موقعے پرحضرت ابوایوبؓ نے کسی عورت کو روتے ہوئے دیکھ کر وجہ جاننی چاہی۔ معلوم ہوا کہ اسے اور اس کے بیٹے کو جدا کردیا گیا ہے۔ آپؓ نے اس عورت کے بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس عورت کے حوالے کیا اور کہا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے ماں اور اس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی تو اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے پیاروں کے درمیان قیامت کے دن جدائی ڈال دے گا۔
حضورِانور نے عہدِ حاضر میں امریکہ وغیرہ ممالک میں پناہ گزینوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا حوالہ دےکر فرمایا کہ یہ اسلام پر اعتراض کرنے والے دیکھیں کہ خود کیا کر رہے ہیں۔ اسلام تو اس حد تک خیال رکھتا ہے ، تلقین کرتا ہے کہ ماؤں کو بچوں سے جدا نہ کرو۔
حضرت ابوایوب انصاریؓ کا فضل وکمال اس قدر مسلّم تھا کہ خود صحابہ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ اسی طرح جلیل القدر تابعین کی ایک وسیع جماعت بھی آپؓ کے ارادت مندوں میں داخل تھی۔ حضرت ابو ایوبؓ رسول کریمﷺ کے بعد اپنی وفات تک جہاد سے چمٹے رہے یہاں تک کہ آپؓ کی وفات باون ہجری میں قسطنطنیہ میں ہوئی۔یزید بن معاویہ نے ان کا نمازِ جنازہ پڑھایا۔آپؓ کا مزار ترکی کے شہر استنبول میں ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ اب بدری صحابہ کا ذکر تو ختم ہوگیا لیکن چاروں خلفاء کا تفصیلی ذکر ان شاءاللہ بیان کروں گا۔ اسی طرح شروع میں بعض صحابہ کا مختصر ذکر ہوا تھا اگر ان کے متعلق کچھ اَور مواد میسر آیا تو وہ بھی بیان کروں گا۔
خطبے کے اختتام پر حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے چار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:
پہلا ذکر مکرم عبدالحئی منڈل صاحب معلم سلسلہ بھارت کا تھا۔ آپ 25؍ستمبر کو 53 برس کی عمر میں حرکتِ قلب بند ہوجانے کی وجہ سے وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
دوسرا ذکرِ خیر مکرم سراج الاسلام صاحب معلم سلسلہ ضلع مرشدآباد بنگال کا تھا۔ آپ 14؍اکتوبر کو 60برس کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
مرحوم نے اہلیہ کے علاوہ تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔
تیسرا ذکرِ خیر مکرم شاہد احمد خان پاشا صاحب کا تھا جو 26؍ اکتوبر کو 85 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
آپ حضرت مسیح موعودؑ کے نواسے ، حضرت نواب محمد علی خان صاحب کےپوتے ؛ حضرت نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ اور حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کےبیٹے تھے۔ مرحوم کی دو شادیاں تھیں۔ پہلی شادی مکرمہ امة الشکور صاحبہ بنت حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس شادی سے آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ دوسری شادی مکرمہ ثمینہ سعید صاحبہ سے ہوئی ۔ اس شادی سے ایک بیٹا ہے۔
آخری ذکرِ خیر مکرم سیّد مسعود احمد شاہ صاحب آف شیفیلڈ ،یوکے کا تھا۔ آپ 8؍ستمبر کوحرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے وفات پاگئے ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
پسماندگان میں اہلیہ کےعلاوہ ایک بیٹی شامل ہیں۔
حضورِانورنے جملہ مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭