عُسر اور یُسر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
مَیں یہ بیان کررہا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں ان دس شرائط بیعت پر عمل پیرا ہونے کا عہد کرتے ہوئے شامل ہونے کے بعد احمدیوں میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں ۔ کچھ واقعات پیش کئے تھے اب اسی مضمون کو مزید آگے بڑھاتاہوں۔
عُسر اور یُسر میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری
پانچویں شرط میں حضرت اقد س مسیح موعود علیہ السلام نے یہ عہد لیا تھاکہ تم پر تنگی، ترشی، بلا، مصیبت ،ذلت ور سوائی کے جیسے مرضی حالات ہوجائیں کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیں کرنا۔ ہاں اس کے فضل مانگتے رہنا ہے لیکن یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ اس کی رضا پر ہمیشہ راضی رہوں گا ۔ تو اس کے چند عملی نمونے مَیں پیش کرتاہوں۔
سب سے پہلے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓکا نمونہ ہے۔ اگست1905ء کو آپ کے صاحبزادے عبدالقیوم چند دن خسرہ میں مبتلا رہنے کے بعد وفات پاگئے ۔ اور اس وقت ان کی عمر قریباً دو سال تھی ۔حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓنے جو نمونہ دکھایا وہ یہ ہے کہ آپؓ نے سنت نبوی کی متابعت میں پہلے بچے کوبوسہ دیا اس پر آپ کی آنکھیںپرنم ہوگئیں اور فرمایا:
’’مَیں نے بچہ کا منہ اس واسطے نہیں کھولاتھاکہ مجھے کچھ گھبراہٹ تھی بلکہ اس واسطے کہ آنحضرت ﷺکا بیٹا ابراہیم جب فوت ہوا تھاتو آنحضرتؐ نے اس کامونہہ چوماتھا اور آپ کے آنسو بہہ نکلے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کی مد ح کی اور فرمایاکہ جدائی تو تھوڑی دیر کے لئے بھی پسند نہیں ہوتی مگر ہم خدا کے فضلوں پر راضی ہیں ۔اسی سنت کو پورا کرنے کے واسطے مَیں نے بھی اس کا منہ کھولا اور چوما۔ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے اور خوشی کامقام ہے کہ کسی سنت کے پورا کرنے کا موقع عطا ہوا‘‘۔
یہ تو خیر اس شخص کا عمل ہے جس کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ؎
چہ خوش بودے اگر ہر یک زاُمت نورِ دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہردل پُر از نور یقیں بودے
کہ کیاہی اچھا ہو اگر قوم کا ہر فرد نور ِ دین بن جائے مگریہ تو تب ہی ہو سکتاہے جب ہر دل یقین کے نور سے پُر ہو۔
پھر ایک مثال ہے مکر م حضرت چوہدری نصراللہ خان صاحبؓ کی۔چوہدری ظفر اللہ خان صاحبؓ بیان کرتے ہیںکہ
’’ہمارے ایک بھائی عزیزم چوہدری شکراللہ خان صاحبؓ مرحوم سے چھوٹے عزیزم چوہدری عبداللہ خان صاحبؓ(مرحوم ) سے بڑے تھے جن کانام حمید اللہ خان تھا۔ وہ آٹھ نو سال کی عمر میں چند دن بیمار رہ کرفوت ہوگئے۔ ان کی وفات فجرکے وقت ہوئی ۔والد صاحب تمام رات ان کی تیمارداری میں مصروف رہے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کی تجہیزو تکفین ، جنازہ اور دفن سے فارغ ہوکر عدالت کھلنے پر حسب دستور عدالت میں اپنے کام پرحاضر ہوگئے ۔ نہ موکلوں میں سے کسی کو احساس ہوا، اور نہ افسر عدالت یا آپ کے ہم پیشہ اصحاب میں سے کسی کو اطلاع ہوئی کہ آپ اپنے ایک لخت جگرکو سپردخاک کرکے اپنے مولا کی رضا پرراضی اور شاکر اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے حسب معمول کمر بستہ حاضر ہوگئے ہیں‘‘۔
(اصحاب احمدجلد 11صفحہ 165-166۔ مطبوعہ 1962ء)
حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’(اہلیہ اور تین بچوں کی وفات ہوئی) ادھر مخالفوں نے اور بھی شور مچا دیا تھا۔ آبرو ریزی اور طرح طرح کے مالی نقصانوں کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ۔ غریب خانہ میں نقب زنی کا معاملہ بھی ہوا۔ اب تمام مصیبتوں میں یکجائی طورپر غور کرنے سے بخوبی معلوم ہو سکتاہے کہ عاجز راقم کس قدر بلیہ دل دوز سینہ سوز میں مبتلا رہا اوریہ سب الٰہی آفات و مصائب کا ظہور ہوا جس کی حضور ؑ نے پہلے سے ہی مجمل طورپر خبرکر دی تھی۔ اسی اثناء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازارہ نوازش تعزیت کے طورپر ایک تسلی دہندہ چٹھی بھیجی۔ وہ بھی ایک پیشگوئی پرمشتمل تھی جو پوری ہوئی اور ہو رہی ہے ۔لکھاتھاکہ واقع میں آپ کو سخت ابتلا پیش آیا ۔ یہ سنت اللہ ہے تاکہ وہ اپنے مستقیم الحال بندوں کی استقامت لوگوں پرظاہر کرے اور تاکہ صبرکرنے سے بڑے بڑے اجر بخشے ۔خداتعالیٰ ان تمام مصیبتوں سے مخلصی عنایت کردے گا ۔دشمن ذلیل و خوارہوں گے جیساکہ صحابہ ؓکے زمانہ میں ہوا کہ خداتعالیٰ نے ان کی ڈوبتی کشتی کو تھام لیا۔ ایسا ہی اس جگہ ہوگا ۔ان کی بددعائیں آخران پرپڑیں گی ۔سو بارے الحمدللہ کہ حضور ؑکی دعا سے ایسا ہی ہوا۔ عاجز ہرحال میں استقامت وصبر میں بڑھتا گیا‘‘۔(اصحاب احمد جلد 6صفحہ 12-13)
حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کانمونہ:
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتداء میںجب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو حضور لیکچر دینے کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ تشریف لے جا رہے تھے اور دیگر احباب بھی حضور کے ہمراہ تھے۔ گلی سے گزرتے ہوئے کسی نے ازراہ شرارت کوٹھے پرسے راکھ کی ٹوکری پھینک دی۔ حضور تو خداکے فضل سے بچ گئے کیونکہ آپ گزرچکے تھے۔ ٹوکری کی راکھ والد صاحب کے سر پرپڑی۔(یہ ان کے بیٹے بیان کررہے ہیں)۔ بس پھرکیاتھا بوڑھا آدمی، سفیدریش، لوگوں کے لئے تماشا بن گیا۔چونکہ آپ کو حضرت صاحب سے والہانہ اور عاشقانہ محبت تھی ۔بس پھر کیاتھا اسی جگہ کھڑے ہو گئے اور ایک حالت وجد طاری ہو گئی اورنہایت بشاشت سے کہنا شروع کیا:’’پا مائیے پا، پا مائیے پا‘‘ ۔ یعنی مائی یہاں ڈالو یہاں۔ فرماتے تھے شکرہے خدا کا کہ حضرت صاحب کے طفیل یہ انعام حاصل ہوا۔
اسی طرح ایک اور واقعہ ہے ۔حضرت صاحب جب سیالکوٹ سے واپس آئے تو خدا م آپ کو گاڑی پر چڑھانے کے بعد واپس گھروں کو جارہے تھے تو یہ کسی وجہ سے اکیلے پیچھے رہ گئے ۔ تو مخالفوں نے پکڑ لیا اور نہایت ذلت آمیز سلوک کیا۔ یہاں تک کہ منہ میں گوبر ڈالا۔ مگروالد صاحب اسی ذلت میں عزّت اور اسی دکھ میں راحت محسوس کرتے تھے۔ اورباربار کہتے تھے ’’برہانیا ، ایہہ نعمتاں کیتھوں‘‘۔ یعنی اے برہان الدین! یہ نعمتیں کہاں میسر آ سکتی ہیں۔ یعنی دین کی خاطرکب کوئی کسی کو دکھ دیتاہے ۔یہ تو خوش قسمتی ہے ۔‘‘
(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ۔ ستمبر1977ء صفحہ14-15)
حضرت مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب (یعنی آپ کے بیٹے)تحریر فرماتے ہیں کہ ’’احمدیت قبول کرنے کے بعد مالی حالت کا یہ حال تھاکہ مہینوں اس ارزانی کے زمانہ میں ہم گھروالوں نے کبھی گھی کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ ایندھن خریدنے کی بجائے شیشم کے خشک پتے جلایا کرتے تھے۔ مگر خشک پتوں سے ہانڈی نہیں پکتی۔ اس لئے پہلے دال کو گھر ہی میں بھون لیاکرتے تھے ۔ اس کے بعد اسے پیس لیتے تھے ۔اب ہانڈی میں پانی ، نمک، مرچ ڈال کر نیچے پتے جلانے شروع کرتے ۔ جب پانی جوش کھاتا تو وہ بھنی اور پسی ہوئی دال ڈال دیتے۔ یہ ہماری ترکاری ہوتی جس سے روٹی کھاتے ‘‘۔
’’عام طورپر جوار،باجرہ اور گیہوں کی روٹی کبھی کبھار۔ بجائے گھی کے تلوں کا تیل استعمال ہوتا تھا۔ساگ کی بجائے درختوں کی کونپلیں ساگ کے طور پر پکاکرکھاتے تھے۔لباس پرانے زمانہ کے زمینداروں کا تھا نہ کہ مولویوں کا۔ (کہتے ہیں کہ) دراصل والد صاحب کو حضرت صاحب سے مل کر ایک عشق اور محبت، شوق اور جوش پیدا ہوگیاتھااوراس عشق ومحبت اور وارفتگی کی وجہ سے آپ کو اپنے آرام و آسائش اور خوراک کی قطعاً پرواہ نہ تھی۔ بس ایک ہی دھن تھی کہ جو عشق کی آگ ان کے اندر تھی وہی عشق الٰہی ، محبت رسول اور حضرت صاحب کا عشق لوگوں کے دلوں میں لگا دوں۔ اور بس ہر وقت یہی خیال، یہی جذبہ ، یہی عشق ، یہی غم اور یہی فکر کہ کس طرح احمدیت پھیل سکتی ہے ۔ کھانے کی نہ پینے کی نہ پہننے کی پرواہ۔جس طرح مَیں نے اور میری والدہ نے ان حالات میں وقت گزاراہے وہ ا للہ تعالیٰ ہی بہتر جانتاہے۔ باوجود اس قدر تنگ دستی اور ناداری کے خود داری اور صبر اور استقلال کی ایک مضبو ط چٹان تھے ۔ اور دین کے معاملہ میں ایسے غیور کہ کوئی لالچ اور کسی قسم کا دوستانہ اور رشتہ دارانہ تعلق درمیان میں حائل نہیں ہوسکا، الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ۔ اورہماری بھی ایسے ماحول میں پرورش ہوئی کہ دنیا اور مافیہا ہماری نظروں میں ہیچ۔ اس استغناء کودیکھ کر آخر لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ مرزا صاحب مولوی صاحب کو تنخواہ دیتے ہیں۔‘‘
(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ۔ ستمبر1977ءصفحہ11-12)
(باقی آئندہ)