نماز کی حقیقت (حصہ پنجم۔ آخری)
سنو !وہ دعا جس کے لئے
اُدْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ(المؤمن:61)
فرمایا ہے اس کے لئے یہی سچی رُوح مطلوب ہے۔ اگر اس تضرّع اور خشوع میں حقیقت کی رُوح نہیں۔ تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ہے۔ پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسباب کی رعایت ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے اور سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب نہیں؟ یااسباب دعا نہیں؟ تلاشِ اسباب بجائے خود ایک دعا ہے۔ اوردعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا چشمہ ہے۔ انسان کی ظاہری بناوٹ اس کے دو ہاتھ دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا ایک قدرتی راہنما ہے۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے۔ پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ
تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى (المائدۃ: 3)
کے معنے سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے۔
ہاں ! میں کہتا ہوں کہ تلاش اسباب بھی بذریعہ دعا کرو۔ امداد باہمی۔ میں نہیں سمجھتا۔ کہ جب میں تمہیں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں۔ تم اس سے انکار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اسباب کو اَور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لیے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے۔ مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ
وہمَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ (اٰلصف:15)
کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا وہ ایک ٹکڑگدا فقیر کی طرح صدا دیتے ہیں؟ نہیں مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں۔ جو دعا کا ایک شعبہ ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اور اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (المؤمن:52)
ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد کرسکتا ہے۔
اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان
نِعْمَ الْمَوْلیٰ وَ نِعْمَ النَّصِیْر۔ (الانفال:41)وَ نِعْمَ الْوَکِیْل (آل عمران:174)
دنیا اور دنیا کی مددیں ان لوگوں کے سامنے کالمیّت ہوتی ہیں۔ اور وہ مردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔ لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لیے وہ یہ راہ بھی اختیارکرتے ہیں۔ حقیقت میں وہ اپنے کاروبار کا متولی خدا تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں۔ اور یہ بات بالکل سچ ہے۔
وَھُوَ يَتَوَلَّى الصّٰلِحِيْنَ۔
اللہ تعالیٰ ان کو مامور کر دیتاہے۔ کہ وہ اپنے کاروبار کو دوسروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے۔ اس لیے کہ وقت نصرت الٰہی کا تھا۔ اس کو تلاش کرتے تھے کہ وہ کس کے شاملِ حال ہوتی ہے۔ یہ ایک بڑی غور طلب بات ہے۔ دراصل مامور من اللہ لوگوں سے مدد نہیں مانگتا۔ بلکہ
مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ (اٰلصف:15)
کہہ کر وہ اس نصرت کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بے قراردل کی طرح اس کی تلاش میں رہتا ہے۔ نادان اور کوتہ اندیش لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے مدد مانگتا ہے۔ بلکہ اسی طرح پر اس شان میں وہ کسی دل کے لیے جو اس نصرت کا مو جب ہوتا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے۔ پس مامور من اللہ کی طلب امداد کا اصل سر اور راز یہ ہی ہے جو قیامت تک اسی طرح پر رہے گا۔ اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے مدد چاہتے ہیں۔ مگر کیوں ؟ اپنے ادائے فرض کے لئے۔ تاکہ دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت پیدا کریں۔ ورنہ یہ ایک ایسی بات ہے کہ قریب بہ کفر پہنچ جاتی ہے۔ اگر غیر اللہ کو متولّی قرار دیں اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا امکان؟ محالِ مطلق ہے۔ میں نے ابھی کہا ہے کہ توحید تبھی پوری ہوتی ہے کہ کل مرادوں کا معطی اور تمام امراض کا چارہ اور مدار وہی ذات واحد ہو۔
لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ
کے معنی یہی ہیں۔ صوفیوں نے اس میں اِلٰہَ کے لفظ سے محبوب، مقصود، معبود مراد لی ہے۔
بے شک اصل اور سچ یونہی ہے۔ جب تک انسان کامل طور پر توحید پر کار بند نہیں ہوتا۔ اس میں اسلام کی محبت اور عظمت قائم نہیں ہوتی۔ اور پھر میں اصل ذکر کی طرف رجو ع کرکے کہتا ہوں کہ نماز کی لذت اور سرور اسے حاصل نہیں ہوسکتا۔ مداراسی بات پر ہے کہ جب تک برے ارادے، ناپاک اور گندے منصوبے بھسم نہ ہوں۔ انانیت اور شیخی دُور ہو کر نیستی اور فروتنی نہ آئے۔ خدا کا سچابندہ نہیں کہلا سکتا اورعبودیتِ کاملہ کے سکھانے کے لیے بہترین معلّم اور افضل ترین ذریعہ نماز ہی ہے۔
میں پھر تمہیں بتلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ سے سچا تعلق۔ حقیقی ارتباط قائم کرنا چاہتے ہو تو نمازپر کاربند ہو جائو۔ اور ایسے کاربند بنو کہ تمہارا جسم نہ تمہاری زبان بلکہ تمہاری روح کے ارادے اور جذبے سب کے سب ہمہ تن نماز ہو جائیں۔ (ملفوظات جلدنمبر 1 صفحہ 168-170۔ ایڈیشن 1984ء)