فضائل القرآن (2) (قسط ششم)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
روحانی علماء کے ذریعہ قرآن کریم کے مشکل مقامات کا حل
(گذشتہ سے پیوستہ)مثلاً قرآن کریم میں حضرت یونسؑ کے متعلق آتا ہے
وَذَالنُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ(الانبیاء:88)
یعنی یونس کو بھی یاد کرو جب وہ غضب کی حالت میں چلا گیا اور اسے یہ یقین تھا کہ ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے۔ اس آیت میں لَنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ کے جو الفاظ آتے ہیں ان کے متعلق بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یونسؑ نے یہ خیال کیا کہ خدا اسے گرفتار نہیں کر سکتا۔ مگر حضرت محی الدین ابن عربیؒ اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ لَنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ کے معنی ہیں لَنْ نَّضِیْقَ عَلَیْہِ(تفسیر ابن عربی جلد2 صفحہ88 مطبوعہ بار دوم بیروت 1978ء)یعنی حضرت یونس علیہ السلام کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں تنگی میں نہیں ڈالے گا۔ بلکہ ہر مشکل اور مصیبت میں ان کا ساتھ دےگا۔
غرض عصمت انبیاء کے متعلق ظاہری علماء نے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ لیکن صوفیاء اس سے محفوظ رہے ہیں بلکہ انہوں نے عصمت انبیاء ثابت کرنے کے لئے بڑی لطیف بحثیں کی ہیں۔
پیدائش عالم کے متعلق ابن عربیؒ کا ایک کشف
اسی طرح دنیا کی پیدائش کے متعلق حضرت محی الدین صاحب ابن عربیؒ لکھتے ہیں کہ مجھے کشفی طور پر معلوم ہوا کہ دنیا کئی لاکھ سال میں مکمل ہوئی ہے اور مکمل ہونے کے سترہ ہزار سال کے بعد انسان کی پیدائش ہوئی ہے۔ آج لوگ کہتے ہیں کہ علم جیالوجی سے یہ امر ثابت ہوا ہے۔ حالانکہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربیؒ نے پہلے سے یہ بات اپنی کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ وہ اپنی کتاب فتوحات مکیہ جلد اول کے ساتویں باب میں انسان کے متعلق لکھتے ہیں کہ
ھُوَ اٰخِرُ جِنْسٍ مَوْجُوْدٍ مِنَ الْعَالَمِ الْکَبِیْرِ وَاٰخِرُ صِنْفٍ مِنَ الْمُوَلَّدَاتِ
(فتوحات مکیہ مولفہ حضرت محی الدین ابن عربی جلد1 صفحہ121 مطبوعہ مصر)یعنی انسان عالم کبیر کی آخری جنس اور مولّدات ثلاثہ (جمادات، نباتات اور حیوانات) میں سے آخری قسم ہے۔ اور مولّدات ثلاثہ کی پیدائش کا زمانہ وہ اکہتر ہزار سال بتاتے ہیں۔
اسی طرح بعض صوفیاء نے قرآن کریم سے استدلال کر کے لکھا کہ زمین گول ہے۔ چنانچہ کولمبس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اسے امریکہ کی طرف جانے کا خیال محض اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اس نے ہسپانیہ کے مسلمانوں سے سنا تھا کہ زمین گول ہے۔ غرض صوفیاء نے تو زمین کے متعلق لکھا کہ وہ گول ہے مگر ظاہری علوم رکھنے والے اسے نہ سمجھ سکے۔ اسی طرح اجرائے نبوت کے متعلق صوفیاء اور اولیاء نے تو لکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبی آسکتے ہیں۔ جیسے محی الدین صاحب ابن عربیؒ آنے والے مسیح کو امتی بھی اور نبی بھی قرار دیتے ہیں لیکن علماء نے اس کا انکار کیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چیلنج
اب اسی زمانہ میں دیکھ لو کہ ظاہری علوم رکھنے والوں کی سمجھ میں قرآن کریم کی کوئی بات نہ آئی۔ انہوں نے معذرت کے نیچے پناہ لینی چاہی اور لکھ دیا کہ قرآن میں خطابیات ہیں یعنی قرآن نے کئی باتیں ایسی لکھی ہیں جنہیں دوسرے لوگ مانتے تھے۔ ان کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن خود بھی انہیں درست قرار دیتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے ردّ کیا اور اس طرح قرآن کریم کی صداقت ثابت کی۔ اس کے ساتھ ہی آپؑ نے یہ اعلان کیا کہ کوئی ایسی بات بتائو جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہو مگر قرآن میں نہ ہو۔ یا قرآن کریم کی بتائی ہوئی باتوں پر جو اعتراض پڑے وہ پیش کرو۔ آپؑ نے قرآن کریم سے ایسی ایسی معرفت کی باتیں نکالیں کہ انہیں پڑھنے والے سر دھنتے ہیں اور ان لوگوں کی غفلت اور نادانی پر افسوس کرتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کے نہ سمجھنے کی وجہ سے اسے محل اعتراض ٹھہرایا۔ اب آپؑ کی جماعت پر بھی خدا تعالیٰ کا یہ فضل ہے کہ جیسے قرآن کریم کے معارف آپؑ کی جماعت کے لوگ بیان کر سکتے ہیں وہ باقی دنیا کے لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔
قرآن کریم دعویٰ کے ساتھ دلیل بھی پیش کرتا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جن قرآنی علوم اور معارف کا انکشاف ہوا ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم جو دعویٰ کرتا ہے اس کی دلیل بھی خود ہی دیتا ہے وہ اپنی امداد کے لئے انسانوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ ورنہ وہ کتاب کس کام کی جو دعویٰ ہی دعویٰ کرتی جائے اور کوئی دلیل نہ دے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ وہی کتاب خداتعالیٰ کی طرف سے ہو سکتی ہے جو دوسروں کی امداد کی محتاج نہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ دعویٰ تو خود کرے اور دلیل دوسروں پر چھوڑ دے جو زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے لیکن دلیل دینا اور اس دعویٰ کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اخلاق کے متعلق قرآن کریم کی بے نظیر تعلیم
دوسری بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم نے اخلاق کے متعلق جو تعلیم پیش کی ہے اس کی نظیر دنیا کا کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا۔ چنانچہ آپؑ نے قرآنی علوم کی روشنی میں اخلاق کے ایسے اصول بیان کئے کہ اس وقت کے ترقی یافتہ علم النفس کے ماہرین بھی ان کے خلاف لب کشائی کی جرأت نہیں کر سکتے۔ بلکہ اب تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی باتیں جن کی پہلے یہ لوگ مخالفت کیا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمانے کے بعد ان کی تائید کرنے لگ گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخلاق کی تعلیم قرآن کریم سے نکالی اور ان سوالات پر روشنی ڈالی کہ اعلیٰ اخلاق کس طرح پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے حصول میں کون کون سی روکیں ہیں۔ ان کے پیدا کرنے کے کیا ذرائع ہیں۔ یہ سب باتیں قرآن کریم سے آپ نے پیش کیں اور دنیا پر اسلام کی فضلیت ثابت کی۔
حقیقت نبوت کا اثبات
تیسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم سے حقیقت نبوت ثابت کی۔ پہلی ساری کتابیں اس بارے میں خاموش ہیں۔ چنانچہ میں نے اس کے متعلق بڑے بڑے پادریوں کو چٹھیاں لکھیں کہ بائیبل کی رو سے نبوت کی کیا تعریف ہے؟ اس پر بعض کی طرف سے یہ جواب آیا کہ ہماری اس کے متعلق کوئی تحقیق نہیں۔ حالانکہ وہ مسئلہ جس پر مذہب کی بنیاد ہے اس کی حقیقت تو معلوم ہونی چاہئے۔ مگر بڑے بڑے پادریوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں اور ایک نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ میں نبوت کی تعریف لکھتا ہوں مگر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حقیقت نبوت قرآن کریم سے ثابت کی اور بتایا کہ ان شرائط کے ماتحت جن پر وحی نازل ہو انہیں ہم نبی کہہ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔ جن پادریوں نے نبوت کے متعلق کچھ لکھا انہوں نے یہی لکھا کہ نبی وہ ہوتا ہے جو پیشگوئیاں کرے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ بائیبل میں ایسے لوگوں کا بھی ذکر ہے جو پیشگوئیاں کرتے تھے۔ مگر نبی نہ تھے۔ وہ ان میں اور سچے نبیوں میں یہ فرق نہ بتا سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں اس فرق پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب
چوتھی بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں اعلیٰ درجہ کی ترتیب ہے اور اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا۔ حالانکہ اس سے خود مسلمان کہلانے والے بھی انکار کر رہے تھے۔ اور کہتے تھے کہ قرآن کی آیات ایک دوسری سے کوئی جوڑ نہیں رکھتیں۔
قرآنی قصص میں آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئیاں
پانچویں بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کریم میں کوئی قصہ نہیں۔ یہ ایسا عظیم الشان امر ہے کہ پرانی تفسیروں کا اس نے تختہ الٹ دیا۔ وہاں بات بات پر قصہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں ایسی ایسی مضحکہ خیز باتیں بیان کی جاتی ہیں جنہیں عقل انسانی تسلیم ہی نہیں کر سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جس قدر واقعات کا قرآن کریم میں ذکر ہے وہ ساری پیشگوئیاں ہیں۔ کوئی قصہ نہیں۔ یہ آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات تھے جو پورے ہوئے۔
قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم
چھٹے آپ نے قرآن کریم سے قرب قیامت والی پیشگوئیوں کا صحیح مفہوم واضح کیا اور جو لغو باتیں پھیلی ہوئی تھیں ان کو رد کیا۔
تمام مذاہب باطلہ کا رد
ساتویں بات جو نہایت عظیم الشان ہے اور جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیش کی کہ جتنے مذاہب نئے یا پرانے ہیں ان سب کا رد قرآن کریم میں موجود ہے۔ یہ کتنی آسان بات ہے جس سے قرآن کریم کی فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے۔ برہمو سماج والے کہہ سکتے تھے۔ بتائو ہمارے مذہب کا قرآن میں کہاں رد ہے۔ پراٹسٹنٹ فرقہ کے لوگ کہہ سکتے تھے بتائو قرآن ہمارے خلاف کیا دلیل دیتا ہے۔ غرض ہر مذہب والے اس قسم کا مطالبہ کر سکتے تھے مگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج منظور نہ کیا۔ اب بھی یہ چیلنج موجود ہے۔ کوئی معقول آدمی اپنے مذہب کے متعلق مطالبہ کرے ہم اسی وقت قرآن کریم سے اس کے مذہب کا رد نکال کر دکھا دیں گے۔
اپنی ذات میں کامل کتاب
آٹھویں بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی کہ قرآن کسی اور کتاب کا محتاج نہیں بلکہ اپنی ذات میں کامل ہے۔ اور تمام ضروری علوم اس میں موجود ہیں۔ یہ صرف جھوٹے مذاہب کا رد ہی نہیں کرتا بلکہ ہر ضروری چیز بھی پیش کرتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی ایسا ہے جس کا لوگ تجربہ کر سکتے تھے کیونکہ بعض نئے اخلاق اور نئی قابلیتوں کا علم ہوا تھا۔ ان کے متعلق وہ پوچھ سکتے تھے کہ بتائو قرآن میں کہاں ہیں۔ مگر کوئی شخص مقابل میں نہ اٹھا۔
اعلیٰ درجہ کی روحانی ترقیات عطا کرنے والی کتاب
نویں بات آپ نے یہ پیش کی کہ قرآن میں انسان کی اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی ترقیات کے گر موجود ہیں۔ اور اس کے لئے خدا تعالیٰ کے قرب کے دروازے کھولے گئے ہیں۔ اور ہر قسم کی تدابیر بتائی گئی ہیں جن سے وہ ترقیات حاصل کر سکتا ہے۔
بعث بعدالموت کی حقیقت
دسویں آپ نے بعث بعدالموت کی حقیقت ثابت کی۔ دوزخ کا کیا نقشہ ہوگا۔ کون لوگ اس میں جائیں گے۔ کیا کیا تکالیف ہوں گی۔ اسی طرح یہ کہ جنت میں کون لوگ ہوں گے۔ اس کی لذات کیسی ہوں گی۔ جنت دائم ہو گی یا نہیں۔ غرض ساری باتیں بیان کر دیں اس وقت میں ان انکشافات کی مثالیں پیش نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ بالخصوص ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ اور میری کتاب ’’احمدیت‘‘ میں ان کا ذکر ہے۔
مطہر کی تعریف
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ
لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ
میں مُطَھَّر کا لفظ استعمال ہوا ہے نہ کہ طَاھِر کا لفظ۔ اس کی وجہ یہ کہ طاھر وہ شخص ہوتا ہے جو زہد و ورع سے ایک پاکیزگی حاصل کر لیتا ہے۔ اور مطھر وہ ہوتا ہے جو کسی اندرونی نسبت سے اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ اور مطھر کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے قول یا فعل سے ہی ہوتا ہے نہ کہ اس کے کسی عمل یا لوگوں کے کہنے سے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ وہ لوگ جنہوں نے قرآن کریم کی صحیح تفاسیر لکھیں۔ وہ وہی لوگ تھے جو خدا تعالیٰ کے الہام اور اس کے قرب سے مشرف تھے اور خدا تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال تھی۔
٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭