کیا عورتیں اپنے مخصوص ایام میں موبائل فون پر قرآن کریم پڑھ سکتی ہیں؟
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عورتوں کے مخصوص ایام میں موبائل فون پر قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا ہے۔ نیز پوچھا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت مریمؑ کےلیے ’’اصطفاء‘‘کا لفظ استعمال کیوں کیا گیا ہے جبکہ وہ عورت تھیں اور نبی نہیں تھیں؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 14؍ جنوری 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: عورت کوقرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو، وہ اسےایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہرا سکتی ہے۔ نیز بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کےلیے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی۔ اسی طرح ان ایام میں عورت کوکمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا باقاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کےلیے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کےلیے کمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔
جہاں تک قرآن کریم میں حضرت مریمؑ کےلیے ’’اصطفاء‘‘کے لفظ کے استعمال کی بات ہے تو قرآن کریم اور احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لفظ صرف انبیاء کےلیے استعمال نہیں ہوا بلکہ کسی بھی غیر معمولی اور اہم کام کےلیے کسی کو منتخب کرنے کےلیے اس لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یعقوبؑ کے اپنے بچوں کو یہ بتانے کےلیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کےلیے اس غیر معمولی دین کو چن لیا ہے، اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰی لَکُمُ الدِّیۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۔ (البقرۃ: 133)
یعنی اے میرے بیٹو! اللہ نے یقیناً اس دین کو تمہارے لئے چن لیا ہے۔ پس ہر گز نہ مرنا مگر اس حالت میں کہ تم (اللہ کے) پورے فرمانبردار ہو۔
پھر آل ابراہیم اور آل عمران کی اُس زمانہ کے لوگوں پر فضیلت بیان کرنے کےلیے قرآن کریم نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا :
اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (آل عمران: 34)
یعنی اللہ نے آدم اور نوح (کو) اور ابراہیم کے خاندان اور عمران کے خاندان کو یقیناً سب جہانوں پر فضیلت دی تھی۔
اسی طرح حدیث میں بھی آتا ہے کہ حضورﷺ سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا ذکر سب سے زیادہ پسند ہے تو آپؐ نے فرمایا:
مَا اصْطَفَاهُ اللّٰهُ لِمَلَائِكَتِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ۔ (سنن ترمذی کتاب الدعوات)
یعنی جو ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کےلیے پسند کیا ہے اور وہ ہے
سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّي وَبِحَمْدِهِ۔
پس ’’اصطفاء‘‘کے معنی اختیار کرنے، پسند کرنے اور چن لینے کے ہیں۔ یعنی کسی کی نہایت اعلیٰ صفات کی بنا پر اسے قریب کرنے یا اس کے نیک اعمال کی وجہ سے اسے اپنے قرب میں جگہ دینے کے ہیں۔
حضرت مریمؑ اگرچہ خدا تعالیٰ کی نبی تو نہیں تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی اعلیٰ صفات سے متصف فرمایا تھا کہ ان کی انہیں صفات کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کے ایک نبی حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں ان جیسی اولاد کے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی اور پھر حضرت زکریا کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت یحیٰ علیہ السلام کی صورت میں ایک نبی بیٹے سے نوازا۔
بنی اسرائیل کی خدا تعالیٰ کے انبیاء کی مسلسل نافرمانی کرنے، ان کے ساتھ استہزاکرنے اور ان کی تکذیب کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کے بطن سے ایک نبی بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا۔ اور اس بچےکی پیدائش میں بنی اسرائیل میں سے کسی مرد کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور اس کے بعد بنی اسرائیل سے نبوت جیسی عظیم نعمت ہمیشہ کےلیے چھین لی گئی۔
پس ان غیرمعمولی صفات کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کےلیے قرآن کریم میں ’’اصطفاء‘‘کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔