آیت استخلاف کی پُر معارف تشریح، اطاعت خلافت کی اہمیت اور نظام خلافت کے حوالے سے ایک احمدی کی ذمہ داری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات کی روشنی میں
سورۃالنور کی آیات کی پُر معارف تشریح
سورۃ النور کی آیت 54تا57کی تلاوت اور ان کا ترجمہ بیان کرنے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
’’یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں، ان میں سے ایک آیت جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور ترجمہ بھی آپ نے سُنا، آیتِ استخلاف کہلاتی ہے۔ یعنی وہ آیت جس میں مومنین سے خدا تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی مختلف کتب میں اس آیت کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ اور تفصیل بیان فرماتے ہوئے مختلف طریق پر اُس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اپنی ایک مختصر سی کتاب یا رسالہ ’’الوصیت‘‘میں اس حوالے سے اپنے بعد جماعت احمدیہ میں نظامِ خلافت جاری ہونے کی خوشخبر ی عطا فرمائی۔ یہ رسالہ آپ نے دسمبر 1905ء میں تصنیف فرمایا جس میں تقویٰ، توحید، اپنے مقام، خلافت اور قربِ الٰہی کے حصول کے لئے جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے، مالی قربانی کے جاری رکھنے کے لئے وصیت کا عظیم الٰہی منصوبہ بھی پیش فرمایا جو درحقیقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک ایسا نظام ہے جس کے سامنے تمام معاشی نظام بے حقیقت ہیں کیونکہ وہ تقویٰ سے عاری اور صرف چند لوگوں یا چند ظاہری پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔…
وصیت کا نظام تو جیسا کہ میں نے کہا کہ 1905ء میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی، اُس وقت سے جاری ہو گیا تھا۔ لیکن آیتِ استخلاف کے حوالے سے جو بات آپ علیہ السلام نے اس کتاب میں بیان فرمائی ہے یعنی خلافتِ احمدیہ۔ وہ اس رسالے کے لکھے جانے کے تین سال بعد آج سے ایک سو تین سال پہلے آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد آج کے روز 27؍مئی 1908ء کو جاری ہوئی۔ اور یہ نظامِ خلافت وہ نظام ہے جو چودہ سو سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔…۔
اِن آیات میں اللہ اور رسول کو ماننے والوں کے لئے اور خلفاء کی بیعت کرنے والوں کے لئے بھی ایک مکمل لائحہ عمل سامنے رکھ دیا ہے۔ اور پہلی بات اور بنیادی بات یہ بیان فرمائی کہ اطاعت کیا چیز ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اطاعت کا معیار یہ نہیں ہے کہ صرف قسمیں کھا لو کہ جب موقع آئے گا تو ہم دشمن کے خلاف ہر طرح لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ صرف قسمیں کام نہیں آتیں۔ جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں۔ کامل اطاعت دکھاؤ گے تو تبھی سمجھا جائے گا کہ یہ دعوے کہ ہم ہر طرح سے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں حقیقی دعوے ہیں۔ اگر اُن احکامات کی پابندی نہیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے دئیے ہیں تو بسا اوقات بڑے بڑے دعوے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ پس اصل چیز اس پہلو سے کامل اطاعت کا عملی اظہار ہے۔ اگر یہ عملی اظہار نہیں اور بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات جو ہیں اُن میں بھی عملی اظہار نہیں تو پھر دعوے فضول ہیں۔اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ کہہ کر یہ واضح فرما دیا کہ انسانوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے، ہر مخفی اور ظاہر عمل اُس کے سامنے ہے، اس لئے اُس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس ہمیشہ یہ سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔اور جب ایک انسان کو اس بات پہ یقین قائم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے تو پھر صرف قَسمیں ہی نہیں رہتیں بلکہ دستور کے مطابق اطاعت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر معروف فیصلے کی کامل اطاعت کے ساتھ تعمیل ہوتی ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت بجا لانے کے لئے انسان حریص رہتا ہے۔ اُس کے لئے کوشش کرتا ہے۔
أَطِیْعُوا اللّٰہ وأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کے ساتھ وَاُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ
بھی یعنی امیر اور نظامِ جماعت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ خلیفہ وقت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔پھر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو یہ کامل اطاعت نہیں دکھاتے اور اپنی مرضی کرتے ہیں، فرماتا ہے کہ تمہارے ان احکامات پر عمل نہ کرنے اور پھر جانے کا گناہ جو ہے، یہ بَار جو ہے یہ تم پر ہے اور تمہی اس کے بارے میں پوچھے جاؤ گے۔رسول سے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ اللہ کے رسول پر اس کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ جو احکامِ شریعت تھے وہ اللہ کے رسول نے پہنچا دئیے اور پھر رسول کی اتباع میں خلیفۂ وقت نے اللہ اور رسول کے احکام پہنچا دئیے۔پس نصیحت کرنے والے، شریعت کے احکام دینے والوں نے تو اپنا کام کر دیا۔ اُن پر عمل نہ کر کے عمل نہ کرنے والے جوابدہ ہیں۔ یہاں جو مَیں رسول کے ساتھ خلیفہ کی بات بھی جوڑ رہا ہوں تو ایک تو مَیں نے بتایا ہے قرآنِ کریم میں
اُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ
آتا ہے۔ دوسرے خلافتِ راشدہ جو ہے وہ رسول کے کام کو ہی آگے بڑھانے کے لئے آتی ہے اور یہی نبوت کا تسلسل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ میری سنت پر چلنا اور پھر خلفائے راشدین کے طریق پر چلنا۔ یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ خلفائے راشدین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور سنت اور شریعت کو لے کر ہی آگے بڑھنے والے ہیں۔ یہ جو حدیث ہے یہ پوری اس طرح ہے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عمروسُلَمیؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا پُر اثر وعظ کیا کہ جس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بَہ پڑے، دل ڈر گئے۔ ہم نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! یہ تو ایسی نصیحت ہے جیسے ایک الوداع کہنے والا وصیت کرتا ہے۔ ہمیں کوئی ایسی ہدایت فرمائیے کہ ہم صراطِ مستقیم پر قائم رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں تمہیں روشن اور چمکدار راستے پر چھوڑے جا رہا ہوں۔اس کی رات بھی اُس کے دن کی طرح ہے۔ سوائے بدبخت کے اس سے کوئی بھٹک نہیں سکتا۔ یعنی یہ بڑے واضح راستے ہیں۔ اور تم میں سے جو شخص رہا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا۔ (ساتھ انذار بھی کر دیا کہ باوجود اِن واضح راستوں کے اختلافات پیدا ہو جائیں گے۔) ایسے حالات میں تمہیں میری جانی پہچانی سنت پر چلنا چاہئے اور خلفاء ِراشدین مہدیّین کی سنت پر چلنا چاہئے۔ تم اطاعت کو اپنا شعار بناؤ خواہ حبشی غلام ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے۔اس دین کو تم مضبوطی سے پکڑو۔ مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے۔ جدھر اُسے لے جاؤ وہ اُدھر چل پڑتا ہے اور اطاعت کا عادی ہوتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اطاعت ہے یہ تمہارے لئے ضروری ہے۔
وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا۔
کہ اگر تم اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور ہدایت پاتے رہو گے۔اس کے بعد خدا تعالیٰ نے خلافت سے متعلق احکام دئیے جو آیتِ استخلاف میں درج ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
کہ اللہ تعالیٰ کا اُن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے۔ ایمان اور عمل صالح کا معیار جو ہے وہ پہلی آیت میں بیان فرما دیا کہ کامل اطاعت کا جُوآ اپنی گردن پر رکھو، تبھی حقیقی مومن کہلاؤ گے۔ کامل اطاعت کا جُوآ اپنی گردن پر رکھ کر تبھی نیک اعمال بجا لانے کی طرف بڑھنے والے ہو گے۔ اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا تو پھر خلافت کی نعمت سے فیض پاؤ گے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ضرور مسلمانوں میں خلافت جاری رہے گی بلکہ وعدہ فرمایا ہے جو بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اُن میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کامل اطاعت ہو۔ پہلی خلافتِ راشدہ کا تسلسل تبھی ٹوٹا تھا کہ مسلمان اطاعت سے باہر ہوئے۔ مسلمان حقیقی خلافت سے اُس وقت محروم کئے گئے جب وہ اطاعت سے باہر ہوئے۔ اطاعت سے باہر نکل کر بعض گروہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم اپنی بیعت کو بعض شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں جن میں ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینا تھا یا بعض فتنہ پردازوں کی باتوں میں آ کر اطاعت سے باہر نکلنے والے بنے۔باوجود اس کے کہ اُس وقت صحابہ بھی موجود تھے لیکن جب کامل اطاعت سے باہر نکلے تو خلافت سے محروم کر دئیے گئے۔ اور کیونکہ خلیفہ بنانے کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو پھر اختلافات کے بعد، اطاعت سے نکلنے کے بعد خلیفہ بننے یا بنانے کی ان کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں۔ اور خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کر لی۔
اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جس طرح نظامِ خلافت پہلے اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا تھااس طرح جاری کرے گا، تو اللہ تعالیٰ نے پہلا نظامِ خلافت نبوت کی صورت میں جاری فرمایا تھا۔ اور پہلی قوموں میں نبی خود خدا تعالیٰ بھیجتا تھا۔ اب کیونکہ شریعت کامل ہو گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تاقیامت شرعی نبی ہیں اس لئے خلافتِ راشدہ کا اجراء فرما دیا جس کا ظاہری طور پر چناؤ کا طریق تو بیشک لوگوں کے ہاتھ میں رکھا لیکن اپنی فعلی شہادت اور تائیدات سے اللہ تعالیٰ نے اس خلافت کو اپنی پسند کی طرف منسوب فرمایا۔بہر حال اللہ تعالیٰ نے کیونکہ آخری غلبہ اور کامل شریعت اسلام کے ذریعے سے ہی قائم فرمانی تھی اس لئے یہ پیشگوئی بھی فرما دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ایک نبی مبعوث ہو گا جس کی تفصیل
وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ: 4)۔
میں بیان فرما دی اور جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر فرما دی کہ میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں۔پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسیح و مہدی بھی ہیں، نبی بھی ہیں اور خاتم الخلفاء بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال کے بعد مومنین کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے پھر اس خلیفہ کو بھیجا جو اُمتی ہونے کی وجہ سے نبوت کا اعزاز پا کر پھر خلافت جاری کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک دینِ اسلام تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے لیکن خوف کو امن کی حالت میں بدلنے کے لئے کامل اطاعت کے ساتھ اور خلافت کے نظام کے ساتھ جُڑ کر ہی تم اس کا حقیقی فیض حاصل کر سکو گے اور یہ ضروری ہے۔اور جو اس نظام سے جڑے رہیں گے اُن کے حق میں اس کے ذریعے سے ہر خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی اور اُن خلفاء کے ذریعے سے ہی غلبہ اسلام کے دن بھی قریب آتے چلے جائیں گے۔ لیکن یہاں یہ فرما دیا کہ خلیفۂ وقت اور خلافت سے منسلک ہونے والوں کا یہ کام ہے اور اُن کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خالص ہو کر توجہ دینے والے بنیں۔ نمازوں کا قیام اور توحیدِ خالص کا قیام اور اس کے لئے کوشش اُن کو خلافت کے انعام سے فیضیاب کرتی رہے گی۔ اُن کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنے گا۔ اُن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ اپنے انعامات سے انہیں نوازے گا۔ لیکن جو یہ سب دیکھ کر پھر بھی خلافتِ حقہ کے ساتھ منسلک نہیں ہوں گے، فرمایا: وہ نافرمان ہیں۔اُن کی نافرمانی کی سزا ملے گی۔ وہ اُن انعامات سے محروم ہوں گے جو مومنین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مَیں اکثر کہا کرتا ہوں اور آج آپ عامۃ المسلمین کو دیکھ لیں کہ بے چینیوں نے انہیں گھیرا ہوا ہے اور غیروں کے دباؤ میں آکر اتنی بے حسی طاری ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کو مروانے کے لئے مسلمان خود غیروں کی مدد حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمت کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔
پھر اس تسلسل میں جو آخری آیت مَیں نے پڑھی ہے، اُس میں پھر تین باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی اور کامل اطاعت تاکہ اللہ تعالیٰ رحم فرماتے ہوئے اپنے انعام جاری رکھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جو اپنے انعام کا سلسلہ جاری فرمایا ہے، اس سے فیض پانے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کا وعدہ کامل اطاعت کرنے والوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ کیونکہ کامل اطاعت کرنے والا وہی ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے اور اُس کی عبادت کرنے والا ہو۔ اور عبادت کرنے کے لئے بہترین ذریعہ جو ہمیں بتایا گیا وہ نمازوں کا قیام ہے۔ پس الٰہی جماعت کا حقیقی حصہ وہی بن سکتا ہے جو نمازوں کے قیام کی بھرپور کوشش کرتا ہو۔
نمازوں کے قیام کی ایک بڑی اعلیٰ تشریح اور وضاحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح فرمائی ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں امام خطبہ پڑھتا ہے اور نصائح کرتا ہے۔اور خلیفہ وقت دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کی مختلف قوموں کی وقتاً فوقتاً اُٹھتی ہوئی اور پیدا ہوتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر نصائح کرتا ہے جس سے قومی وحدت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ سب کا قبلہ ایک طرف رکھتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل تصویر ہمارے سامنے ہے۔ اور جماعت احمدیہ میں یہ تصویر ہمیں نظر آتی ہے۔ جبکہ خلیفہ وقت کا خطبہ بیک وقت دنیا کے تمام کونوں میں سُنا جا رہا ہوتا ہے۔ اور مختلف مزاج اور ضروریات کے مطابق بات ہوتی ہے۔ میں جب خطبہ دیتا ہوں، جب نوٹس لیتا ہوں تو اُس وقت صرف آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، وہی مدّ نظر نہیں ہوتے۔ بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی جو مجھے رپورٹس آتی ہیں اُن کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی زیادہ زور یورپ کے حالات کے مطابق خطبہ میں ہو۔ کبھی ایشیا کے کسی ملک کے حالات کے مطابق ہو یا عمومی طور پر اُن کے حالات کے مطابق ہو۔ کبھی افریقہ کے مطابق ہو۔ کبھی جزائر کے مطابق ہو۔لیکن اسلام چونکہ ایک بین الاقوامی مذہب ہے اس لئے ہر بات جو بیان ہو رہی ہوتی ہے وہ ہر ملک اور ہر طبقے کے احمدیوں کے لئے نصیحت کا رنگ رکھتی ہے۔ چاہے کسی کو بھی مدّنظر رکھ کر بات کی جارہی ہو کچھ نہ کچھ پہلو اُن کے اپنے بھی اُس میں موجود ہوتے ہیں۔ مجھے خطبے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک سے خط بھی آتے ہیں، روس کی ریاستوں کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں، افریقہ کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور دوسرے ممالک کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور یہ اظہار ہوتا ہے کہ یوں لگتا ہے یہ خطبہ جیسے ہمارے لئے ہے۔ بہر حال اقامت صلوٰۃ کی ایک تشریح یہ بھی ہے جو خلافت کے ذریعہ سے آج دنیائے احمدیت میں جاری ہے۔
پھر زکوٰۃ کی ادائیگی ہے یا تزکیہ اموال ہے، جس میں زکوۃ بھی ہے اور باقی مالی قربانیاں بھی ہیں۔ یہ بھی آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے سے ہی جاری ہے اور خلیفۂ وقت کی ہدایت کے ماتحت دنیا میں چندے کے نظام کے ذریعے سے افرادِ جماعت اور جماعتوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ ایک مُلک میں اگر کمی ہے تو دوسرے ملک کی مدد سے اُس کمی کو پورا کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ اگر زیادہ مالی کشائش ہے تو غریب ملکوں کی تبلیغ کی، اشاعتِ لٹریچر کی، مساجد کی تعمیر کی جو ضروریات ہیں وہ اَور مختلف طریقوں سے پوری کی جاتی ہیں۔ تو یہ ایک نظام ہے جو خلیفۂ وقت کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ کہیں غریبوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ کہیں طبی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ کہیں تعلیمی ضروریات پوری کی جا رہی ہوتی ہیں۔ کہیں تبلیغِ اسلام کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو نظامِ وصیت اور نظامِ خلافت کو اکٹھا بیان فرمایا ہے تو اس میں ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اور پھر لوگ جو چندہ دیتے ہیں وہ خلافت کے نظام کی وجہ سے اس اعتماد پر بھی قائم ہیں کہ اُن کا چندہ فضولیات میں ضائع نہیں ہو گا بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے استعمال ہو گا۔ بلکہ غیر از جماعت بھی یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ اگر ہم زکوٰۃ احمدیوں کو دیں تو اِس کا صحیح مصرف ہو گا۔ گھانا میں مجھے کئی لوگ اپنی فصلوں کی زکوٰۃ دے کر جایا کرتے تھے کہ آپ صحیح استعمال کریں گے یا وہاں مشن میں جمع کرا دیا کرتے تھے۔ کئی زمیندار میرے واقف تھے وہ جنس کی صورت میں مجھے دے جایا کرتے تھے کہ آپ جمع کروا دیں۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ہم اگر یہ زکوٰۃ اپنے مولویوں کو دیں گے، اماموں کو دیں گے تو وہ کھا جائیں گے اور اس کا صحیح استعمال نہیں ہو گا۔ بلکہ آج بھی مختلف جگہوں سے مجھے جماعتوں کی طرف سے یہ خط آتے ہیں کہ غیرازجماعت زکوٰۃ یا صدقہ دینا چاہتے ہیں تو اس بارے میں کیا ہدایت ہے۔ جہاں تک زکوٰۃ اور صدقات کا تعلق ہے جماعت اُن کو لے سکتی ہے اور لیتی ہے لیکن دوسرے طوعی اور لازمی چندے جو ہیں وہ صرف احمدیوں سے لئے جاتے ہیں۔ بہر حال زکوٰۃ کا نظام بھی خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔
آخر پر اس میں پھر اطاعت کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے حقیقی تعلق اور اُس کے نتیجے میں خلافت سے تعلق کا نقطہ اور محور کامل اطاعت ہے، جب یہ ہو گی تو مومن انعامات کا وارث بنتا چلا جائے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍مئی2011ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍جون2011ءصفحہ5تا7)
ایک اَور موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آیت استخلاف کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پیش کرنے کے بعد فرمایا:
’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کا وعدہ کیا ہے لیکن ساتھ شرائط عائد کی ہیں کہ ان باتوں پر تم قائم رہو گے تو تمہارے اندر خلافت قائم رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود خلافت راشدہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں صرف تیس سال تک قائم رہی۔ اور اس کے آخری سالوں میں جس طرح کی حرکات مسلمانوں نے کیں اور جس طرح خلافت کے خلاف فتنے اٹھے اور جس طرح خلفاء کے ساتھ بیہودہ گوئیاں کی گئیں اور پھر ان کو شہید کیا گیا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ختم ہو گئی اور پھرملوکیت کا دور ہوا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرما دیا تھا اور اس ارشاد کے مطابق ہی تھا کہ اگر تم ناشکری کرو گے تو فاسق ٹھہرو گے۔ اور فاسقوں اور نافرمانوں کا اللہ تعالیٰ مدد گار نہیں ہوا کرتا تو بہرحال اسلام کی پہلی تیرہ صدیاں مختلف حالات میں اس طرح گزریں جس میں خلافت جمع ملوکیت رہی پھر بادشاہت رہی پھر اس عرصہ میں دین کی تجدید کے لئے مجدد بھی پیدا ہوتے رہے۔ یہ ایک علیحدہ مضمون ہے، اس کا ویسے تو میں ذکر نہیں کر رہا۔
لیکن جو بات میں نے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خوشخبریاں دی تھیں اور جو پیشگوئیاں آپؐ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنی امت کو بتائی تھیں اس کے مطابق مسیح موعود کی آمد پر خلافت کا سلسلہ شروع ہونا تھا اور یہ خلافت کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دائمی رہنا تھا اور رہنا ہے انشاء اللہ۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اٹھا لے گا اور خلافت علیٰ مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اٹھا لے گا۔ پھر اس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کر آپؐ خاموش ہو گئے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ مشکوٰۃ کتاب الرقاق باب الانذار والتحذیر الفصل الثالث)
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اس دور میں اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اس دائمی خلافت کے عینی شاہد بن گئے ہیں بلکہ اس کو ماننے والوں میں شامل ہیں اور اس کی برکات سے فیض پانے والے بن گئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ایک مبارک امت ہے۔ یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اس کا اول زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ، یعنی دونوں زمانے شان و شوکت والے ہوں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍مئی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل4؍جون2004ءصفحہ5)
اطاعت کی اہمیت
اطاعت کا مضمون بیان کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’کسی بھی قوم یا جماعت کی ترقی کا معیار اور ترقی کی رفتار اس قوم یا جماعت کے معیار اطاعت پر ہوتی ہے۔ جب بھی اطاعت میں کمی آئے گی ترقی کی رفتار میں کمی آئے گی۔ اور الٰہی جماعتوں کی نہ صرف ترقی کی رفتار میں کمی آتی ہے بلکہ روحانیت کے معیار کے حصول میں بھی کمی آتی ہے۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار دفعہ اطاعت کا مضمون کھولا ہے۔ اور مختلف پیرایوں میں مومنین کو یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ کی اطاعت اس وقت ہو گی جب رسول کی اطاعت ہو گی۔ کہیں مومنوں کو یہ بتایا کہ بخشش کا یہ معیار ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور تمام احکامات پر عمل کریں تو پھر مغفرت ہو گی۔ پھر فرمایا کہ تقویٰ کے معیار بھی اس وقت قائم ہوں گے بلکہ تم تقویٰ پر قدم مارنے والے اس وقت شمار ہوگے جب اطاعت گزار بھی ہو گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍اگست2004ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2004ءصفحہ5)
’’ایک بہت بڑی تعداداللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں یہ ریزولیوشنز، یہ خط، یہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے، تب سچے ثابت ہوں گے جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ نہ کہ وقتی جوش کے تحت نعرہ لگا لیا اور جب مستقل قربانیوں کا وقت آئے، جب وقت کی قربانی دینی پڑے، جب نفس کی قربانی دینی پڑے تو سامنے سو سو مسائل کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں۔ پس اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کوخداتعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے تقویٰ پر قائم رہنے کی جو تلقین کی جاتی ہے اور یقینا ًیہ خداتعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہی ہے، اس پر عمل کریں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور کی جس آیت میں خلافت کا انعام دئیے جانے کا وعدہ فرمایاہے اس سے پہلی آیتوں میں یہ مضمون بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اللہ سے ڈرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو تو پھر تمہاری کامیابیاں ہیں۔ ورنہ پھر کھوکھلے دعوے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے۔ ہم آگے بھی لڑیں گے، ہم پیچھے بھی لڑیں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جولائی2005ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل15؍جولائی2005ءصفحہ6)
’’ایک بہت بڑا حق جو ایک احمدی مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کا حق ہے، وہ نظام جماعت کی اطاعت ہے۔ نمازوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ زکوٰۃ بھی ادا کرو اور رسول کی اطاعت بھی کرو۔ فرمایا
وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ (النور:57)
کہ اگر چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے تو پھر نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی اطاعت کرو۔ اس آیت سے پہلے جو آیت ہے اس میں مومنوں سے اللہ تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے خلافت کا وعدہ ہے جو عبادت کرنے والے ہوں گے او رنیک عمل کرنے والے ہوں گے۔ اور عبادت کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے وہ لوگ ہیں جیسا کہ اس آیت میں فرمایا جو نمازوں کو قائم کرتے ہیں، اس طرف توجہ رکھتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر کی گئی مالی قربانی بھی عبادت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر آپ مالی قربانیاں کرتے ہیں زکوٰۃ دیتے ہیں، چندے دیتے ہیں تو وہ بھی عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بے شمار جگہ نمازوں کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ مالی قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ آج اگر آپ دیکھیں تو بحیثیت جماعت صرف جماعت احمدیہ ہے جوزکوٰۃ کے نظام کو بھی قائم رکھے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر مالی قربانیاں کرنے والی بھی ہے۔ اور اس میں خلافت کا نظام بھی رائج ہے۔ پس اس نظام کی برکت سے آپ تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب حقیقی معنوں میں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے اور عاشق صادق کی تعلیم پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے۔ آپ نے بیعت کرکے ایک معاملے میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر لی، آپ کے اس حکم کو مان لیا کہ جب میرا مسیح و مہدی ظاہر ہو تو اگر تمہیں برف کی سلوں پر بھی چل کر جانا پڑے تو اس کے پاس جانا اور میرا سلام کہنا۔ اللہ نے فضل فرمایا یہاں آپ تک یہاں احمدیت کا پیغام پہنچا اور آپ نے احمدیت کو قبول کر لیا لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اتنا کر لینا ہی کافی نہیں ہے کہ ہم نے مان لیا اور سلام کہہ دیا۔ بلکہ اپنے اندر تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہیں۔ خلافت اور نظام جماعت سے تعلق بھی قائم کرنا ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کے مطابق بندوں کے حقوق ادا کرنے کی کوشش بھی کرنی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ28؍اپریل2006ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل19؍مئی2006ءصفحہ7)
’’جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اس دائمی قدرت کے ساتھ وابستہ رہنے کے لئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے جُڑے رہنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے، اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں جن سے باہر نکلنے کا کسی احمدی کے دل میں خیال تک پیدا نہ ہو۔ بہت سارے مقام آسکتے ہیں جب نظام جماعت کے خلاف شکوے پیدا ہوں۔ ہر ایک کی اپنی سوچ اور خیال ہوتا ہے اور کسی بھی معاملے میں آراء مختلف ہوسکتی ہیں، کسی کام کرنے کے طریق سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن نظام جماعت اور نظام خلافت کی مضبوطی کے لئے جماعتی نظام کے فیصلہ کو یا امیر کے فیصلہ کو تسلیم کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ خلیفۂ وقت نے اس فیصلے پر صاد کیا ہوتا ہے یا امیر کو اختیار دیا ہوتا ہے کہ تم میری طرف سے فیصلہ کردو۔ اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور اس سے جماعتی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو خلیفۂ وقت کو اطلاع کرنا کافی ہے۔ پھر خلیفۂ وقت جانے اور اس کا کام جانے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ذمّہ دار اور نگران بنایا ہے اور جب خلیفہ، خلافت کے مقام پر اپنی مرضی سے نہیں آتا بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کو اس مقام پر اس منصب پر فائز کرتی ہے تو پھر خداتعالیٰ اس کے کسی غلط فیصلے کے خود ہی بہتر نتائج پیدا فرمادے گا۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ خلافت کی وجہ سے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا۔ مومنوں کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کریں، اس کے احکامات کی بجاآوری کریں اور اس کے رسول کے حکموں کی پیروی کرنے کی کوشش کریں اور کیونکہ خلیفہ نبی کے جاری کردہ نظام کی بجاآوری کی جماعت کو تلقین کرتا ہے اور شریعت کے احکامات کو لاگو کرنے کی کوشش کرتاہے اس لئے اس کی اطاعت بھی کرو اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی کرو۔ اور افراد جماعت کی یہ کامل اطاعت اور خلیفہ ٔوقت کے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے کئے گئے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اپنے بنائے ہوئے خلیفہ کو دنیا کے سامنے رُسوا ہونے سے بچانے کے لئے برکت ڈال دے گا۔ کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمادے گا اور اپنے فضل سے بہتر نتائج پیدا فرمائے گا اور من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو ہمیشہ بڑے نقصان سے بچالیتا ہے اور یہی ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا جماعت سے اور خلافت احمدیہ سے سلوک دیکھا ہے اور دیکھتے آئے ہیں۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ…(النساء :60)
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکّام کی بھی۔ اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو۔ اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھاہے۔ یعنی تمہارا کام اطاعت کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پوری پیروی کرو۔ پہلے اپنے آپ کو دیکھو کہ تم اللہ کے حکموں کی پیروی کررہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے جو احکامات اتارے ہیں، پہلے تو ان کا فہم و ادراک حاصل کرو، کیا وہ تمہیں حاصل ہوگیا ہے۔ اور جب مکمل طور پر حاصل ہوگیا ہے تو پھر اُن احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ اور جب ایک شخص خود اس پر عمل کرنے لگ جائے گا اور اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بھی عمل کررہا ہوگا تو پھر وہ شاید اپنے خیال میں یہ کہنے کے قابل ہوسکتا ہے کہ ہاں اب مَیں ایمان لانے والوں میں سے ہوں۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، یہ آیت ہمیں کچھ اور بھی کہتی ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم علمی اور عملی لحاظ سے احکام شریعت کے بہت پابند ہیں اور علم رکھنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو غیب کا علم بھی رکھتا ہے اور حاضر کا علم بھی رکھتاہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے اس کا علم بھی رکھتاہے اس کو پتہ تھا کہ اگر صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا کہہ دیا تو کئی نام نہاد علماء اور بزعم خویش سنت رسولؐ پر چلنے والے پیدا ہوں گے اور جو جماعت کی برکت ہے وہ نہیں رہے گی اور ہر ایک نے اپنی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوگی اور اپنے محدود علم کو ہی انتہا سمجھیں گے اور آج ہم مسلمانوں میں دیکھتے ہیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے۔ لیکن یہ جو زعم ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکم پر عمل کررہے ہیں، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوا کر ختم کردیا کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد اس کو ماننا ضروری ہے اور پھر اس کے بعد جو خلافت عَلٰی مِنْہَاجِ النُّبُوَّۃ قائم ہونی ہے اس کی اطاعت بھی ضروری ہے۔ ورنہ یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کرلی۔ اور پھر اس سے آگے اللہ تعالیٰ نے نظام جماعت میں یک رنگی پیداکرنے کے لئے اور اس نظام کی حفاظت کے لئے یہ بھی فرمادیا کہ اولوالامر کی بھی اطاعت کرو۔ صرف مسیح موعودؑ کو جو مان لیا اس کے بعد جو نظام مسیح موعودؑ کی جماعت میں، نظام خلافت کے قائم ہونے سے قائم ہوا ہے اس کی بھی اطاعت کرو۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ9؍جون2006ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل30؍جون2006ءصفحہ5تا6)
خلافت دائمی ہے
’’یہ قدرت ثانیہ یا خلافت کا نظام اب انشاء اللہ تعالیٰ قائم رہنا ہے۔ اور اس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اگر یہ مطلب لیا جائے کہ وہ تیس سال تھی تو وہ تیس سالہ دور آپؐ کی پیشگوئی کے مطابق تھا۔ اور یہ دائمی دور بھی آپؐ ہی کی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ قیامت کے وقت تک کیا ہونا ہے یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن یہ بتا دوں کہ یہ دور خلافت آپ کی نسل در نسل درنسل اور بےشمار نسلوں تک چلے جانا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ، بشرطیکہ آپ میں نیکی اور تقویٰ قائم رہے۔ اسی لئے اس پر قائم رکھنے کے لئے میں پہلے دن سے ہی مسلسل تربیتی مضامین پر اپنے خطبات وغیرہ دے رہا ہوں۔ یہ وعدہ یا خبرجو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی اس کی تجدید حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دے کر بھی اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍مئی2005ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍جون2005ءصفحہ6)
نظام خلافت اور ہماری ذمہ داری
نظام خلافت کے حوالے سے افراد جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پس ہر احمدی کو اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ سے ان فضلوں کو سمیٹنا چاہئے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے۔اپنے بزرگوں کی اس قربانی کو یاد کریں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ انہوں نے جو قیام اور استحکام خلافت کے لئے بھی بہت قربانیاں دیں۔ آپ میں سے بہت بڑی تعداد جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یا جو میری زبان میں میری باتیں سمجھ سکتے ہیں اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کریں۔ پہلے سے بڑھ کر ایمان و اخلاص میں ترقی کریں۔ ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو باوجود زبان براہ راست نہ سمجھنے کے، باوجود بہت کم رابطے کے، بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں پہلی دفعہ کسی خلیفہ کو دیکھا ہو گا اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں۔ مثلاً یوگنڈا میں ہی جب ہم اترے ہیں اور گاڑی باہر نکلی تو ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے، دو اڑھائی سال کا بچہ تھا، ساتھ ساتھ دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ اس کی اپنی نظر میں بھی پہچان تھی، خلافت اور جماعت سے ایک تعلق نظر آ رہا تھا، وفا کا تعلق ظاہر ہو رہا تھا۔ اور بچے کی میری طرف توجہ نہیں تھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا منہ اس طرف پھیرتی تھی کہ دیکھو اور کافی دور تک دوڑتی گئی۔ اتنا رش تھا کہ اس کو دھکے بھی لگتے رہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی۔ آخر جب بچے کی نظر پڑ گئی تو بچہ دیکھ کے مسکرایا۔ ہاتھ ہلایا۔ تب ماں کو چین آیا۔ تو بچے کے چہرے کی جو رونق اور مسکراہٹ تھی وہ بھی اس طرح تھی جیسے برسوں سے پہچانتا ہو۔ تو جب تک ایسی مائیں پیدا ہوتی رہیں گی جن کی گود میں خلافت سے محبت کرنے والے بچے پروان چڑھیں گے اس وقت تک خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں۔
تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ تو کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ وہ تو ایسے ایمان لانے والوں کو جو عمل صالح بھی کر رہے ہوں، اپنی قدرت دکھاتا ہے اور اپنے وعدے پورے کرتا ہے۔ پس اپنے پر رحم کریں، اپنی نسلوں پر رحم کریں اور فضول بحثوں میں پڑنے کی بجائے یا ایسی بحثیں کرنے والوں کی مجلسوں میں بیٹھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اور وعدے پر نظر رکھیں اور حضرت مسیح موعود ؑ کی جماعت کو مضبوط بنائیں۔ جماعت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت پھیل چکی ہے اس لئے کسی کو یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ہمارا خاندان، ہمارا ملک یا ہماری قوم ہی احمدیت کے علمبردار ہیں۔ اب احمد یت کا علمبردار وہی ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہے اور خلافت سے چمٹا رہنے والا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ27؍مئی2005ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍جون2005ءصفحہ8)
٭…٭…٭