حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہندوؤں کے ساتھ خوشگوار تعلقات
حضرت مرزاغلام احمد قادیانیؑ قادیان کی بستی میں پیداہوئے جو مختلف مذاہب کی پناہ گاہ ہے۔ یہ بستی ایک خوشکن اور خوشنما باغ کی حیثیت رکھتی ہے جس میں طرح طرح کے پھول کھل رہے ہیں۔ انواع واقسام کے یہ پھول اس باغ کے لیے زینت و رنگت کا باعث ہیں۔ بقول شاعر
گلہائے رنگارنگ سے زینت چمن کی ہے
اے ذوق اس چمن کو ہے زیب اختلاف سے
قادیان کی بستی میں امن و شانتی او ر مذہبی ہم آہنگی کی اس فضا کو بنانے میں جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزاغلام احمد قادیانیؑ کا کلیدی کردار ہے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ایسے وقت میں اسلام کی تجدید و اصلاح کے لیے مامور فرمایاجب اسلام مختلف مذاہب کے حملوں کا نشانہ بنا ہواتھا۔ اور برصغیر پاک و ہند میں مذہبی منافرت اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں اسلام کی امن بخش تعلیمات او ر اپنے ذاتی اسوہ سے آپؑ نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا اور قادیان میں خود آپؑ نے ہندو بھائیوں کے ساتھ احسان و مروت اور ہمدردی و حسن سلوک کی اعلیٰ مثالیں قائم فرمائیں۔ آپؑ نے دوسرے مذاہب خاص کر ہندومذہب کے دوبڑے اوتاروں حضرت رامچندر جی مہاراج اور حضرت شری کرشن جی مہاراج کی عقیدت و محبت اپنے ماننے والوں کے دلوں میں بٹھائی اور ان کو خداکے برگزیدہ وجود تسلیم فرمایا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ ھ قائم کردی۔ اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ ‘‘
(تحفہ قیصریہ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 259)
بین المذاہب گفتگو کے لیے کمرہ بنانے کی تجویز
آپؑ نے بین المذاہب ہم آہنگی کی ایسی بنیاد ڈالی کہ مختلف مذاہب کے پیروکار ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہونا شروع ہوئے۔ چنانچہ منارۃ المسیح جو جماعت احمدیہ مسلمہ کے شعائر میں سے ہے کے بارے میں آپؑ نے فرمایاکہ
’’بالآخر میں ایک ضروری امر کی طرف اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس منارہ سے ہماری یہ بھی غرض ہے کہ مینارکے اندر یا جیسا کہ مناسب ہو ایک گول کمرہ یا کسی اور وضع کا کمرہ بنا دیا جائے جس میں کم سے کم سو آدمی بیٹھ سکے اور یہ کمرہ وعظ اور مذہبی تقریروں کے لئے کام آئے گا۔ کیونکہ ہمارا ارادہ ہے کہ سال میں ایک یا دو دفعہ قادیان میں مذہبی تقریروں کا ایک جلسہ ہوا کرے اور اس جلسے میں ہر ایک شخص مسلمانوں میں اور ہندوؤں اور آریوں اور عیسائیوں اور سکھوں میں سے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے گامگریہ شرط ہو گی کہ دوسرے مذہب پر کسی قسم پر حملہ نہ کرے۔ فقط اپنے مذہب اور اپنے مذہب کی تائید میں جو چاہے تہذیب سے کہے۔ ‘‘
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ زیرعنوان اشتہار چندہ منارۃ المسیح،
روحانی خزائن جلد16صفحہ30)
عام ہمدردی کی تعلیم
حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کے لیے تھی۔ آپؑ مخلوق خداکی خدمت اور ہمدردی کے لیے بغیر امتیاز مذہب و ملت کوشاں رہے اور تادم زیست اس کی تلقین کرتے رہے۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول۔ ‘‘
(اربعین، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 343تا344)
حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت و سوانح کے مطالعہ میں دو ہندودوستوں لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت کا کافی تذکرہ ملتاہے جو اوئل سے آپؑ کی صحبت میں رہتے تھے۔ ان کا بلاتکلف آپ کے گھر میں آنا جاناتھااور وہ آپؑ کے بہت سے نشانات اورمعجزات کے گواہ بھی بنے۔ انہی دو ہندو دوستوں کے ساتھ پیش آئے چند واقعات کا یہاں تذکرہ کرنا مقصود ہے۔ قارئین کرام پر خود واضح ہوجائے گاکہ آپؑ معاشرے میں غیرمسلموں کے ساتھ کس طرح دوستانہ مراسم رکھتے تھے اور ان کے ساتھ کس طرح محبت اور بھائی چارے سے پیش آتے تھے۔
لالہ ملاوامل کے علاج کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی ذاتی کوشش
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ بیان کرتے ہیں:
’’لالہ ملاوامل صاحب… جب ان کی عمر بائیس سال کی تھی وہ بعارضہ عرق النساء (رینگن کا درد) بیمار ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ صبح و شام ان کی خبر ایک خادم جمال کے ذریعہ منگوایا کرتے اور دن میں ایک مرتبہ خود تشریف لے جا کر عیادت کرتے۔ صاف ظاہر ہے کہ لالہ ملاوامل صاحب ایک غیر قوم اور غیر مذہب کے آدمی تھے لیکن چونکہ وہ حضرت اقدسؑ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے اور اس طرح پر ان کو ایک تعلق مصاحبت کا تھا۔ آپ کو انسانی ہمدردی اور رفاقت کا اتنا خیال تھا کہ ان کی بیماری میں خود ان کے مکان پر جا کر عیادت کرتے اور خود علاج بھی کرتے تھے۔ ایک دن لالہ ملاوامل صاحب بیان کرتے ہیں کہ چار ماشہ صِبر ان کو کھانے کے لیے دے دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رات بھر میں انیس مرتبہ لالہ صاحب کو اجابت ہوئی اور آخر میں خون آنے لگ گیا اور ضعف بہت ہو گیا۔ علی الصباح معمول کے موافق حضرت کا خادم دریافت حال کے لیے آیا تو انہوں نے اپنی رات کی حقیقت کہی اور کہا کہ وہ خود تشریف لاویں۔ حضرت اقدس فوراً ان کے مکان پر چلے گئے۔ اور لالہ ملاوامل صاحب کی حالت کو دیکھ کر تکلیف ہوئی فرمایا کچھ مقدار زیادہ ہی تھی مگر فوراً آپ نے اسبغول کا لعاب نکلوا کر لالہ ملاوامل صاحب کو دیا جس سے وہ سوزش اور خون کا آنا بھی بند ہو گیا اور ان کے درد کو بھی آرام آگیا۔ ‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ 170تا171)
دعاسے شفا
حضرت مسیح موعودؑ اپنے دیرینہ ہندو دوست کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف جان کر اس کو دور کرنے کی ہر ممکن سعی کرتے تھے اور خدا کے حضوران کے لیے دعائیں کرتے اور گڑگڑاتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپؑ کی دعاکے نتیجے میں ہی اس ہندو دوست یعنی لالہ ملاوامل کو ایک موذی مرض سے معجزانہ رنگ میں شفا ہوئی۔ یہ واقعہ حضرت مسیح موعودؑ کے اپنے مبارک الفاظ میں کچھ اس طرح ہے:
’’ایک دفعہ ایک آریہ ملاوامل نام مرض دق میں مبتلا ہوگیا ور آثار نوامیدی ہوتے جاتے تھے اور اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک زہریلا سانپ اس کو کاٹ گیاو ہ ایک دن اپنی زندگی سے نوامید ہو کر میرے پاس آکر رویا۔ میں نے اس کے حق میں دعاکی تو جواب آیا قلنا یا نار کونی بردًاو سلامًایعنی ہم نے تپ کی آگ کو کہا کہ سرد اور سلامتی ہوجا۔ چنانچہ بعد اس کے وہ ایک ہفتہ میں اچھا ہوگیااور اب تک وہ زندہ موجود ہے۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22صفحہ277)
بارات میں شرکت
1884ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی شادی دہلی کے مشہور زمانہ بزرگ سید خواجہ میردرد کے خاندان میں ہوئی۔ بارات کے لیے حضرت مسیح موعودؑ نے صرف اپنے دودیرینہ رفیقوں کا انتخاب فرمایا۔ ان میں ایک حضرت حامد علی صاحبؓ تھے اور دوسرے آپ کے پرانے رفیق لالہ ملاوامل۔ حضرت مسیح موعودؑ کانکاح اہل حدیث کے مشہور عالم اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے استاد مولوی سید نذیر حسین نے پڑھایا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے مولوی صاحب کو تحفہ میں ایک مصلیٰ اور پانچ روپے دیے۔
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ والی انگوٹھی میں لالہ ملاوامل کا کردار
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
کی انگوٹھی جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ الہام حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے والدصاحب کی وفات پر1887ء میں ہواتھا۔ یہ الہام حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے دو ہندو دوستوں لالہ ملاوامل اور لالہ شرمپت کو بھی سنایا اور لالہ ملاوامل کو امرتسر بھجواکر نگین پر کھدوایا چنانچہ لالہ ملاوامل اس تاریخی الہام کی مہر بنواکر لائے۔ اور آج یہ انگوٹھی جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرز ا مسروراحمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز پہنتے ہیں۔ اور جماعت کے اکثر احباب
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ
کی انگوٹھیاں پہنتے ہیں اور یہ ایک احمدی کی نشانی بن گئی ہے۔ آج حضرت مسیح موعودؑ کی جو بھی تائید و نصرت مشاہدے میں آرہی ہے و ہ دراصل اسی الہام کی عملی تصویر ہے۔
لالہ ملاوامل کے لیے کنڈی کھولنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحب رضی اللہ عنہ نے سیرت المہدی میں ایک روایت مولوی عبداللہ سنوری صاحب کے حوالے سے لکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیت الفکر میں (مسجد مبارک کے ساتھ والا حجرہ جو حضرت صاحب کے مکان کا حصہ ہے) لیٹے ہوئے تھے اور مَیں پاؤں دبا رہا تھا کہ حجرے کی کھڑکی پر لالہ شرمپت یا شاید ملاوامل نے دستک دی۔ مَیں اٹھ کر کھڑکی کھولنے لگا مگر حضرت صاحب نے بڑی جلدی اٹھ کر تیزی سے جا کر مجھ سے پہلے زنجیر کھول دی اور پھر اپنی جگہ بیٹھ گئے اور فرمایا آپ ہمارے مہمان ہیں اور آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ۔ جلد اول صفحہ 160۔ مؤلفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بحوالہ خطبہ جمعہ 17؍جولائی 2009ء)
حضرت مسیح موعودؑ کالالہ شرمپت کی عیادت اور علاج کے لیے ڈاکٹر مقرر فرمانا
حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک لالہ شرمپت رائے ہوتے تھے۔ قادیان کے رہنے والے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آپؑ کی بعثت کے ایام سے بھی پہلے آیا کرتے تھے۔ اور آپؑ کے بہت سے نشانات کے وہ گواہ تھے…ایک مرتبہ وہ بیمار ہوئے (تو عرفانی صاحبؓ کہتے ہیں کہ) مجھے اس وقت قادیان ہجرت کرکے آجانے کی سعادت حاصل ہو چکی تھی۔ ان کے پیٹ پر ایک پھوڑا نکلا تھا اور اس دُنبل نے، بہت گہرا پھوڑا تھا، اس نے خطرناک شکل اختیار کر لی تھی۔ حضرت اقدسؑ کو اطلاع ہوئی۔ آپؑ خود لالہ شرمپت رائے کے مکان پر تشریف لے گئے جو نہایت تنگ اور تاریک سا چھوٹا سا مکان تھا۔ اکثر دوست بھی آپؑ کے ساتھ تھے، عرفانی صاحب کہتے ہیں کہ مَیں بھی ساتھ تھا، جب آپ نے لالہ شرمپت رائے کو جا کے دیکھا تو وہ نہایت گھبرائے ہوئے تھے اور ان کو یقین تھا کہ میری موت آنے والی ہے۔ بڑی بے قراری سے باتیں کر رہے تھے، جیسے انسان موت کے قریب کرتا ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کو بڑی تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں اور ایک ڈاکٹر عبداللہ صاحب ہوا کرتے تھے، فرمایا کہ مَیں ان کو مقرر کرتا ہوں وہ اچھی طرح علاج کریں گے۔ چنانچہ دوسرے دن حضرت اقدسؑ ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے گئے اور ان کو خصوصیت کے ساتھ لالہ شرمپت رائے کے علاج پر مامور کیا۔ اور اس علاج کا بار یا خرچ لالہ صاحب پر نہیں ڈالا۔ اور روزانہ بلاناغہ آپؑ ان کی عیادت کو جاتے تھے اور جب زخم مندمل ہونے لگے اور ان کی وہ نازک حالت بہتر حالت میں تبدیل ہو گئی۔ توپھر آپؑ نے وقفہ سے جانا شروع کیا۔ اور اُس وقت تک عیادت کا یہ سلسلہ جاری رکھا جب تک وہ بالکل اچھے نہیں ہو گئے۔
(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ
از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ161)
حضرت مسیح موعودؑ کی دعاسے لالہ شرمپت کے بھائی کی مخلصی
حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں پر ان دو ہندودوستوں کویقین تھااور اکثر حضورؓ سے اپنی حاجات اور ضروریات کے لیےدعاکی درخواست کرتے تھے۔ چنانچہ لالہ شرمپت نےایک مرتبہ اپنے بھائی کے فوجداری مقدمے میں مخلصی کے لیے حضرت مسیح موعودؑ سے دعاکی درخواست کی۔ اس اجمال کی تفصیل حضرت مسیح موعودؑ کچھ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’شرمپت کا ایک بھائی بشمبرداس نام ایک فوجداری مقدمہ میں شاید ڈیڑھ سال کے لئے قید ہو گیا تھا تب شرمپت نے اپنی اضطراب کی حالت میں مجھ سے دعا کی درخواست کی۔ چنانچہ میں نے اس کی نسبت دعا کی تو میں نے بعد اس کے خواب میں دیکھا کہ میں اس دفتر میں گیاہوں جس جگہ قیدیوں کے ناموں کے رجسٹر تھے اور ان رجسٹروں میں ہر ایک قیدی کی میعادِ قید لکھی تھی۔ تب میں نے وہ رجسٹر کھولا جس میں بشمبرداس کی قید کی نسبت لکھا تھا کہ اتنی قید ہے اور میں نے اپنے ہاتھ سے اس کی نصف قید کاٹ دی اور جب اس کی قید کی نسبت چیف کورٹ میں اپیل کیا گیا تو مجھے دکھلایا گیا کہ انجام مقدمہ کا یہ ہوگا کہ مثل مقدمہ ضلع میں واپس آئے گی اور نصف قید بشمبرداس کی تخفیف کی جائے گی مگر بری نہیں ہو گا۔ اور میں نے وہ تمام حالات اس کے بھائی لالہ شرمپت کو قبل از ظہور انجام مقدمہ بتلا دئیے تھے اور انجام کار ایسا ہی ہوا جو میں نے کہا تھا۔ ‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 232)
آخری کتاب میں ہندومسلم اتحاد کی پیشکش
حضرت مسیح موعودؑ زندگی کی آخری سانس تک ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں رہے۔ آپ کی آخری تصنیف ’’پیغام صلح‘‘کے نام سے موسوم ہے جو1908ء میں اپنی وفات سےصرف دو دن قبل لاہور میں آپؑ نے تصنیف فرمائی ہندو مسلم اتحاد اور ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کی تاریخ میں ایک درخشندہ باب ہے اس کتاب میں آپؑ نے ہندوؤں کو صلح کے لیے اس قدر بھی پیشکش کر دی کہ اگر وہ آنحضرتﷺ کو سچامان لیں (یعنی جس طرح ہم ہندوؤں کے اوتاروں حضرت رام چندر اور سری کرشن جی کو سچا اور خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں گوہم ان کی شریعت پر عمل نہیں کرتے۔ اسی طرح اگر ہندو بھی آپﷺ کو سچا مان لیں اور آپﷺ کی ہتک چھوڑ دیں ) تو ہم بھی گائے کا گوشت ان کے لئے چھوڑ دیں گے۔
(ماخوذ از پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 458)
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو امن وامان کا گہوارہ بنائے اوراس ملک سے جو حضرت مسیح موعودؑ نے عالمگیر امن کی جوت جلائی ہے اللہ تعالیٰ اس نور سے سب کو منور فرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭