قرآنِ کریم

قرآن کریم و احادیث میں مردوں کو جنت کی نعماء کے ملنےکا ذکر ہےعورتوں کو کیوں نہیں؟

سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ بعض آزاد خیال اورنام نہاد حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کا اسلام کے خلاف ایک اعتراض یہ ہے کہ قرآن کریم و احادیث میں مردوں کو جنت میں ملنے والی نعماء از قسم شراب، مختلف الانواع کھانے اور عورتوں کے ملنے کا وعدہ ہے، جبکہ اس دنیا میں جو شخص ان چیزوں کو استعمال کرے وہ بُرا انسان کہلاتا ہے۔ اسی طرح یہ وعدے صرف مردوں کےلیے ہیں اور عورتیں اس دنیا میں جو کچھ بھی کر لیں ان کےلیے ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ اس بارے میں تفصیلی جواب کی درخواست ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 22؍مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضورانورنے فرمایا:

جواب:اصل بات یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراضات اسلام کی نہایت خوبصورت تعلیم سےکلیۃً ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اسلام مخالفین تو اسلام کی تعلیم کو نہ جاننے کی وجہ سے ایسے اعتراضات کرتے ہیں لیکن افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ بہت سے مسلمان کہلانے والے لوگ بھی چونکہ صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں اور قرآن و حدیث میں بیان مذہبی تعلیم کاحصول ضروری نہیں سمجھتے اور مادی دنیا ان کے دل و دماغ پر اس طرح حاوی ہوتی ہے کہ اسی کی چمک دمک کے پیچھے اپنی ساری زندگی گنوا دیتے ہیں اور زندگی کے اصل مقصد اور مدعا ’’عبودیت خداوندی‘‘ کوبالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اور اخروی زندگی کی نہایت مصفیٰ اور پاکیزہ نعماء کو بھی اسی دنیوی زندگی کے میلے کچیلے آئینہ میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے پھر اس قسم کے اعتراضات ان کے دلوں میں جنم لیتے ہیں۔

قرآن کریم میں بیان جنت کی نعماءکو تمثیل کے رنگ میں جہاں اس دنیا کی مختلف اشیاء کے ناموں سے بیان کیا گیا ہے وہاں جنت کی ان نعماء کو ہر قسم کی آلائش اور بداثر سے پاک بھی قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآن کریم نے جنت میں ملنے والی مختلف اقسام کی شراب ہائے طہور کو کئی ناموں اور کیفیتوں کے ساتھ بیان کیا ہے جو عقل، نشاط اور عشق الٰہی پیدا کرتی ہیں۔ خوشبو دار، معطر او رپاک ہیں۔ اور جو لوگ انہیں پیتے ہیں وہ ناقابل بیان روحانی نشہ سے مسرور ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ سورۃ الصافات میں فرمایا:

یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِکَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍۭ۔ بَیۡضَآءَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیۡنَ۔ لَا فِیۡہَا غَوۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ عَنۡہَا یُنۡزَفُوۡنَ۔ (الصافات:46تا48)

یعنی(چشموں کے) پانیوں سے بھرے ہوئے گلاس ان کے پاس لائے جائیں گے۔ نہایت شفّاف، پینے والوں کےلئے سراسر لذت۔ ان (مشروبات) میں نہ کوئی نشہ ہوگا اور نہ وہ ان کے اثر سے عقل کھو بیٹھیں گے۔

سورۃ الواقعہ میں فرمایا:

یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ۔ بِاَکۡوَابٍ وَّ اَبَارِیۡقَ ۬ۙ وَ کَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍ۔ لَّا یُصَدَّعُوۡنَ عَنۡہَا وَ لَا یُنۡزِفُوۡنَ۔ (الواقعہ:18تا20)

یعنی ان کے پاس خدمت کے لئےکثرت سے نو عمر لڑکےآئیں گے جو کہ ہمیشہ اپنی نیکی پر قائم رکھے جائیں گے۔ کٹورے اور صراحیاں اور شفاف پانی سے بھرے ہوئے پیالے لئے ہوئے۔ ا س کے اثر سے نہ وہ سردرد میں مبتلا کئے جائیں گے، نہ بہکی بہکی باتیں کریں گے۔

سورۃ الدھر میں فرمایا:

اِنَّ الۡاَبۡرَارَ یَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ کَاۡسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوۡرًا۔

فرمایا:

وَ یُسۡقَوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنۡجَبِیۡلًا۔

پھر فرمایا:

وَ سَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابًا طَہُوۡرًا۔ (الدھر:6، 18، 22)

یعنی خدا کے نیک بندے ایسے پیالے پیئیں گے جن میں کافور کی خاصیت ملائی گئی ہوگی۔ اور (مومنوں ) کو ان (جنتوں ) میں ایسے گلاسوں سے پانی پلایا جائے گا جن میں سونٹھ ملی ہوئی ہوگی۔ ان کا ربّ انہیں پاک کرنے والی شراب پلائے گا۔

سورۃالمطففین میں فرمایا:

یُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِیۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍ۔ خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ۔ وَ مِزَاجُہٗ مِنۡ تَسۡنِیۡمٍ۔ عَیۡنًا یَّشۡرَبُ بِہَا الۡمُقَرَّبُوۡنَ۔ (المطففین:26تا29)

یعنی انہیں خالص سر بمہر شراب پلائی جائے گی۔ اس کے آخر میں مشک ہوگا۔ اور چاہیے کہ خواہش رکھنے والے (انسان) ایسی (ہی) چیز کی خواہش کریں۔ اور اس میں تسنیم کی آمیزش ہوگی۔ (ہماری مراد اس) چشمہ (سے) ہے جس سے مقرب لوگ پیئیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنت کی شراب کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’شراب صافی کے پیالے جو آب زُلال کی طرح مصفّٰی ہوں گے بہشتیوں کو دیئے جائیں گے۔ وہ شراب ان سب عیبوں سے پاک ہوگی کہ دردسر پیدا کرے یا بیہوشی اور بدمستی اس سے طاری ہو۔ بہشت میں کوئی لغو اور بیہودہ بات سننے میں نہیں آئے گی اور نہ کوئی گناہ کی بات سنی جائے گی بلکہ ہر طرف سلام سلام جو رحمت اور محبت اور خوشی کی نشانی ہے سننے میں آئے گا…اب ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ وہ بہشتی شراب دنیا کی شرابوں سے کچھ مناسبت اور مشابہت نہیں رکھتی بلکہ وہ اپنی تمام صفات میں ان شرابوں سے مبائن اور مخالف ہے اور کسی جگہ قرآن شریف میں یہ نہیں بتلایا گیا کہ وہ دنیوی شرابوں کی طرح انگور سے یا قندسیاہ اور کیکر کے چھلکوں سے یا ایسا ہی کسی اور دنیوی مادہ سے بنائی جائے گی بلکہ بار بار کلام الٰہی میں یہی بیان ہوا ہے کہ اصل تخم اس شراب کا محبت اور معرفت الٰہی ہے جس کو دنیا سے ہی بندہ مومن ساتھ لے جاتا ہے۔ اور یہ بات کہ وہ روحانی امر کیونکر شراب کے طور پر نظر آجائے گا۔ یہ خدائے تعالیٰ کے بھیدوں میں سے ایک بھید ہے جو عارفوں پر مکاشفات کے ذریعہ سے کھلتا ہے اور عقلمند لوگ دوسری علامات و آثار سے اس کی حقیقت تک پہنچتے ہیں۔ ‘‘

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ 156-157)

اسی طرح جنت میں ملنے والے جوڑوں کی پاکیزگی کو بھی صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ وہ نہایت پاک اور نیک ساتھی ہوں گےجنہیں بیش قیمت موتیوں کی طرح خیموں میں چھپا کر رکھا گیا ہو گا انہیں ان جنتیوں سے پہلے کسی جن و انس نے مَس تک نہیں کیا ہو گا۔ اور سب سے اہم بات یہ فرمائی کہ

وَ زَوَّجۡنٰہُمۡ بِحُوۡرٍ عِیۡنٍ۔ (سورۃ الطور:21)

یعنی ہم جنتیوں کو ان نہایت خوبصورت ساتھیوں کے ساتھ بیاہ دیں گے۔

پس جنت صرف عیش و طرب کی جگہ نہیں بلکہ نہایت قابل قدر اور ایک روحانی مقام ہے۔ اگرچہ جنت کی نعمتوں کے نام دنیاوی چیزوں جیسے رکھے گئے ہیں لیکن ان سے مراد روحانی نعمتیں ہیں نہ کہ کوئی جسمانی اشیاء۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی دولتمند شخص کسی عالم سے کہے کہ میرے پاس مال ہے تو وہ عالم اپنے کتب خانہ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ میرے پاس تم سے بھی بڑھ کر خزانہ ہے۔ اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہ ہو گا کہ ان کتابوں میں روپیہ بھرا ہوا ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ جس چیز کو تم خزانہ کہتے ہو اس سے زیادہ فائدے والی چیز میرے پاس موجود ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تفسیرکبیر میں اسی قسم کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:

’’اوّل تو یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اگلے جہان کے انعامات کا سمجھنا انسانی عقل سے بالا ہے پس اس دنیا کی زندگی سے اُخروی زندگی کا قیاس کرنا درست نہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ۔ (السجدہ:18)

یعنی کوئی انسان بھی اس کو نہیں سمجھ سکتا کہ ان کےلئے اگلے جہان میں کیا کیا نعمتیں مخفی رکھی گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے اور اس سے وہ مفہوم نکالنا درست نہیں جو اس دنیا میں اسی قسم کے الفاظ سے نکالا جاتا ہے…جب قرآن کریم نے یہ کہا کہ مومنوں کو وہ جنتیں ملیں گی جن میں سایہ دار درخت اور نہریں اور نہ خراب ہونے والا دودھ اور نہ سڑنے والا پانی اور موم اور آلائش سے پاک شہد اور نشہ نہ دینے والی بلکہ دل کو پاک کرنے والی شراب ہو گی تو اس سے ان کے اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ جن چیزوں کو تم نعمت سمجھتے ہو وہ حقیقی مومنوں کو ملنے والے انعامات سے ادنیٰ ہیں۔ جن نہرو ں کو تم نعمت سمجھتے ہو ان کا پانی تو سڑ جاتا ہے مومنوں کو وہ نہریں ملیں گی جن کا پانی سڑنے والا نہ ہو گا۔ اور جن باغوں کو تم نعمت خیال کرتے ہو وہ اصل نعمت نہیں اصل نعمت تو وہ باغ ہیں جو کبھی برباد نہ ہوں گے اور وہ مومنوں کو ملیں گے۔ جس شراب کو تم نعمت سمجھتے ہو اس کی مومنوں کو ضرورت نہیں وہ شراب تو گندی اور عقل پر پردہ ڈالنے والی شئے ہے۔ مومنوں کو تو خدا وہ شراب دے گا جو عقل کو تیز کرنے والی اور پاکیزگی بڑھانے والی ہو گی۔ اور جس شہد پر تم کو ناز ہے اس میں تو آلائش ہوتی ہے خدا تعالیٰ مومنوں کو وہ شہد دے گا جو ہر آلائش سے پاک ہو گا۔ اورجن ساتھیوں پر تم کو نا زہے وہ نعمت نہیں کیونکہ وہ گندے ہیں۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ وہ ساتھی دے گا جو پاک ہوں گے۔ جن پھلوں پر تم کو ناز ہے وہ تو ختم ہو جاتے ہیں مومنوں کو تو وہ پھل ملیں گے جو کبھی ختم نہ ہوں گے اور ہر وقت اور خواہش کے مطابق ملیں گے۔ یہ مضمون ایسا واضح ہے کہ ہر شخص جو تعصب سے خالی ہو کر غور کرے اس کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے اور اس کے لطیف اشارہ کو پا سکتا ہے مگر جو متعصب ہو یا جاہل۔ اس کا علاج تو کوئی ہے ہی نہیں …خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں جن باغوں اور نہروں اورپھلوں اور جس دودھ اور شہد اور شراب کا ذکر آتا ہے وہ اس دُنیا کے باغوں اور نہرو ں اور پھلوں سے بالکل مختلف ہیں اور وہاں کا دودھ اور شہد اور شراب اس دُنیا کے دودھ اور شہد اور شراب سے بالکل مختلف ہے اور قرآن کریم نے ان امور کی خود ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے بعد اس امر میں شک کرنا محض تعصب کا اظہار ہے اور یہ محاورات چونکہ پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لئے ان آیات میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا لوگوں کےلئے مشکل ہو۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلداوّل صفحہ 241تا 246)

پھر اُخروی زندگی کی ان نعمتوں کویہ دنیاوی نام بھی لوگوں کو سمجھانے اور ان کی طرف انہیں راغب کرنے کےلیے دیے گئے ہیں۔ کیونکہ مذہب ہر قسم کے لوگوں کےلیے ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی چیزوں کو جن کا سمجھنا لوگوں کےلیے مشکل ہو ضروری ہوتا ہے کہ انہیں ایسے الفاظ میں بیان کیا جائے کہ انہیں ہر سطح کے لوگ سمجھ جائیں اور ہر درجے کے لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ اس حکمت کو مدنظر رکھ کر قرآن کریم نے اُخروی زندگی کی نعماء کےلیے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جو ہرقسم کے لوگوں کےلیے ان کی عقل اور درجے کے مطابق تشفی کا موجب ہوں۔ پھر کفار چونکہ مسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ یہ لوگ خود بھی ہر قسم کی نعمتوں سے محروم ہیں اور ہم سے بھی یہ سب نعمتیں چھڑوانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُخروی زندگی کی نعمتوں کو ان کے ذہن کے قریب کرنے کےلیے ان دنیوی اشیاء کا نام دےدیا جن کو وہ نعمت سمجھتے تھے اور انہی چیزوں کے نام لے کر بتایا کہ مومنوں کو یہ سب کچھ حاصل ہو گا۔ ورنہ قرآن و حدیث میں یہ مضمون خوب کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ جنت میں ایسی نعماء ہوں گی جنہیں پہلے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا، نہ کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہو گا اور نہ کسی کےدل میں ان کے متعلق کبھی کوئی خیال گزرا ہو گا۔ ہاں صرف وہ نیک اور پارسا لوگ جو اس دنیا میں رہتے ہوئےان دنیوی آلائشوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے روحانی پروازیں کرنے والے ہوں گےانہیں اسی دنیا میں ان نعمتوں کا مزا چکھا دیا جائے گا اور ایسے لوگ جب جنت میں ان نعماء کواپنی پوری کیفیت کے ساتھ پائیں گے تو برملا پکار اٹھیں گے کہ

ھٰذَا الَّذِیۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ (البقرۃ:26)

یعنی یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں اس سے پہلے بھی دیا گیا تھا۔ سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام اُخروی زندگی کی اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ (السجدۃ:18)

یعنی کوئی نفس نیکی کرنے والا نہیں جانتا کہ وہ کیا کیا نعمتیں ہیں جو اس کےلئے مخفی ہیں۔ سو خدا نے ان تمام نعمتوں کو مخفی قرار دیا جن کا دنیا کی نعمتوں میں نمونہ نہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا کی نعمتیں ہم پر مخفی نہیں ہیں اور دودھ اور انار اور انگور وغیرہ کو ہم جانتے ہیں۔ اور ہمیشہ یہ چیزیں کھاتے ہیں تو اس سے معلوم ہوا کہ وہ چیزیں اور ہیں اور ان کو ان چیزوں سے صرف نام کا اشتراک ہے۔ پس جس نے بہشت کو دنیا کی چیزوں کا مجموعہ سمجھا۔ اس نے قرآن شریف کا ایک حرف بھی نہیں سمجھا۔

اس آیت کی شرح میں جو ابھی میں نے ذکر کی ہے ہمارے سید و مولیٰ نبیﷺ فرماتے ہیں کہ بہشت اور اس کی نعمتیں وہ چیزیں ہیں جو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھیں اور نہ کسی کان نے سنیں اور نہ دلوں میں کبھی گذریں۔ حالانکہ ہم دنیا کی نعمتوں کو آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور کانوں سے بھی سنتے ہیں اور دل میں بھی وہ نعمتیں گذرتی ہیں۔ پس جبکہ خدا تعالیٰ اور رسول اس کا ان چیزوں کو ایک نرالی چیزیں بتلاتا ہے تو ہم قرآن سے دور جا پڑتے ہیں اگر یہ گمان کریں کہ بہشت میں بھی دنیا کا ہی دودھ ہوگا جو گائیوں اور بھینسوں سے دوہا جاتا ہے۔ گویا دودھ دینے والے جانوروں کے وہاں ریوڑ کے ریوڑ موجود ہوں گے۔ اور درختوں پر شہد کی مکھیوں نے بہت سے چھتے لگائے ہوئے ہوں گے اور فرشتے تلاش کرکے وہ شہد نکالیں گے اور نہروں میں ڈالیں گے کیا ایسے خیالات اس تعلیم سے کچھ مناسبت رکھتے ہیں جس میں یہ آیتیں موجود ہیں کہ دنیا نے ان چیزوں کو کبھی نہیں دیکھا اور وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت بڑھاتی ہیں اور روحانی غذائیں ہیں۔ گو ان غذاؤں کا تمام نقشہ جسمانی رنگ پر ظاہر کیا گیا ہے مگر ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ ان کا سرچشمہ روح اور راستی ہے۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 397۔ 398)

حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:

’’اسلامی بہشت کی یہی حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظل ہے وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آ کر انسان کو ملے گی بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندر ہی سے نکلتی ہے اور ہر ایک کی بہشت اُسی کا ایمان اور اُسی کے اعمال صالحہ ہیں جن کی اِسی دنیا میں لذت شروع ہو جاتی ہےا ور پوشیدہ طور پر ایمان اور اعمال کے باغ نظر آتے ہیں۔ اور نہریں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن عالم آخرت میں یہی باغ کھلے طور پر محسوس ہوں گے۔ خداتعالیٰ کی پاک تعلیم ہمیں یہی بتلاتی ہے کہ سچا اور پاک اور مستحکم اور کامل ایمان جو خدا اور اس کی صفات اور اس کے ارادوں کے متعلق ہو وہ بہشت خوش نما اور بارآور درخت ہے اور اعمال صالحہ اس بہشت کی نہریں ہیں۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 390)

باقی جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصہ کا تعلق ہے کہ اخروی زندگی میں صرف مردوں سے انعامات کا وعدہ کیا گیا ہے عورتوں سے ایسا کوئی وعدہ نہیں۔ یہ سوال بھی اسلامی تعلیمات سے لاعلمی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے کیونکہ قرآن وحدیث میں جگہ جگہ جہاں نیک اور صالح مردوں کو ان اُخروی انعامات کا وارث قرار دیا گیا ہے وہاں نیک اور صالحہ خواتین کو بھی ان انعامات کا حقدار قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ نَقِیۡرًا۔ (النساء:125)

یعنی اور جو لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں مومن ہونے کی حالت میں نیک کام کریں گے تو وہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر (بھی) ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اسی طرح فرمایا:

مَنۡ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَلَا یُجۡزٰۤی اِلَّا مِثۡلَہَا ۚ وَ مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدۡخُلُوۡنَ الۡجَنَّۃَ یُرۡزَقُوۡنَ فِیۡہَا بِغَیۡرِ حِسَابٍ۔ (المومن:41)

یعنی جو برا عمل کرے گا۔ اس کو اسی کے مطابق نتیجہ ملے گا اور جو کوئی ایمان کے مطابق عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان میں سچا ہو وہ اور اس کے ہم مشرب لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کو اس میں بغیر حساب کے انعام دیا جائے گا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی امر کی وضاحت کرتےہوئے فرماتے ہیں:

’’پہلی قوموں نے مردوں کے متعلق بے شک قوانین تجویز کئے تھے مگر عورتوں کے حقوق کا انہوں نے کہیں ذکر نہیں کیا تھا۔ رسول کریمﷺ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے یہ تعلیم دی کہ جیسے مردوں کے حقوق عورتوں کے ذمہ ہیں اسی طرح عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ہیں۔

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ

جس طرح عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں، اسی طرح عورتوں کے بھی بہت سے حقوق ہیں جو مردوں کو ادا کرنے چاہئیں۔ پھر ہر شعبۂ زندگی میں عورت کی ترقی کے راستے آپ نے کھولے۔ اسے جائداد کا مالک قرار دیا۔ اس کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھا۔ اس کی تعلیم کی نگہداشت کی۔ اس کی تربیت کا حکم دیا۔ اور پھر فیصلہ کردیا کہ جس طرح جنت میں مرد کےلئے ترقیات کے غیرمتناہی مراتب ہیں اسی طرح جنت میں عورتوں کےلئے بھی غیرمتناہی ترقیات کے دروازے کھلے ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 26؍نومبر 1937ءمطبوعہ الفضل 4؍دسمبر1937ء صفحہ 5)

ایک اور موقع پر حضورؓ نے فرمایا:

’’قرآن کریم کوشروع سے آخر تک پڑھ کر دیکھ لوتمام مسائل، احکام اور انعامات میں عورت اور مرد دونوں کا ذکرہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جاتا ہے کہ نیک مرد تو ساتھ ہی کہا جاتا ہے نیک عورتیں۔ اگر کسی جگہ ذکر ہے کہ عبادت کرنےوالے مرد تو ساتھ ہی یہ ذکر ہوگاکہ عبادت کرنےوالی عورتیں۔ پھر اگر یہ ذکر ہے کہ جنت میں مرد جائیں گے تو ساتھ ہی یہ ذکر ہو گا کہ جنت میں عورتیں بھی جائیں گی۔ مرد کی اگر اعلیٰ درجہ کی نیکیاں ہیں اور وہ جنت میں ایک اعلیٰ مقام پر رکھاجاتاہے تو اُس کی بیوی جس کی نیکیاں اُس مقام کے مناسب حال نہیں اپنے خاوندکی وجہ سے اسی مقام میں رکھی جائیں گی۔ اسی طرح اگر عورت اعلیٰ نیکیوں کی مالک ہے اور ان کی وجہ سے وہ جنت میں اعلیٰ مقام پر رکھی جاتی ہے تو اس سے ادنیٰ نیکیاں رکھنے والاخاوند بھی اس کی وجہ سے اُسی مقام پررکھا جائے گا۔ ‘‘

(خطاب ارشاد فرمودہ 31؍جولائی 1950ءمطبوعہ الفضل ربوہ14؍نومبر1962ء صفحہ 4)

اسلام کی رو سے خواتین کی ذمہ داریاں اور ان کے اس دنیا میں حقوق اور اُخروی زندگی میں ملنے والے انعامات کے موضوع پر میں نے بھی مختلف جلسوں میں مستورات سے خطابات کیے ہیں۔ جلسہ سالانہ جرمنی 2019ء میں بھی میں نے مستورات سے اسی موضوع پر خطاب کیا تھا، اسے بھی دیکھ لیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button