ایشیا (رپورٹس)حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ارضِ مقدّسہ کے افرادِ جماعت کی تاریخی (آن لائن) ملاقات

امام جماعت احمدیہ عالمگیر، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے5؍جون2021ءکوحیفا (کبابیر) کی جماعت احمدیہ مسلمہ کے مرد حضرات کے ساتھ 65 منٹ دورانیہ کی آن لائن ملاقات کی صدارت فرمائی۔

یہ پہلا موقع تھا کہ ارض مقدسہ کے افراد، کبابیر سے آنحضرتﷺ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نمائندہ سے آن لائن ملاقات کا شرف پا رہے تھے۔ یوں ایک مرتبہ پھر سر زمین انبیاء خلیفۃ الرسول (دور آخرین) سے مستفید ہو رہی تھی۔

حضور انور نے اس ملاقات کی صدارت اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ ) سے فرمائی جبکہ فلسطینی احباب جماعت نے تاریخی مسجد محمود جو 1931ء میں بنی تھی، سے شرکت کی۔

پروگرام کے مطابق چند ابتدائی تقاریر پیش کیے جانے کے بعد، کبابیر کے رہائشی احمدی مسلمانوں کو حضور انور سے سوالات کرنے کا موقع ملا۔

ایک دوست نے بتایا کہ کبابیر میں جماعت احمدیہ کی صدسالہ تقریبات 2028ء میں منائی جا ئیں گی اور حضور انور سے راہنمائی طلب کی کہ کس طرح وہ اس تاریخی سنگ میل اور یادگار کو بہترین رنگ میں منا سکتے ہیں۔

حضور انور نے فرمایا: بات یہ ہے کہ کوئی دن آنے سے یا ایک مدت پوری ہونے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ اصل چیز یہ ہے کہ سو سال پورے ہونے کے لیے آپ لوگ کیا تیاری کر رہے ہیں؟ … کتنے ہیں آپ میں سے جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنایا ہے؟ کتنے ہیں آپ میں سے جو حقیقی رنگ میں عبادالرحمٰن بن گئے ہیں؟ کتنے ہیں آپ میں سے جن کی عبادتوں کے معیار اعلیٰ ہیں، جو فرائض کے ساتھ نوافل کی ادائیگی بھی کرنے والے ہیں؟ کتنے ہیں آپ میں سے جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو آگے اپنے خاندان میں، اپنے قبیلے میں، اپنے لوگوں میں پھیلانے کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے کوشش بھی کر رہے ہیں؟ کتنے ہیں آپ میں سے جن کے بنیادی اخلاق پہلے سے بہت بڑھ کر بہتر ہوچکے ہیں؟ کتنے ہیں آپ میں سے جن کے گھروں میں ایک امن اور صلح اور محبت اور پیار کی فضا قائم ہے؟ کتنے ہیں آپ میں سے جنہوں نے اپنے بچوں کو احمدیت یا حقیقی اسلام کی تعلیم کے بارے میں آگاہ کیا ہے؟ کتنے ہیں آپ میں سے جنہوں نے اس بات پر نظر رکھی ہے کہ آپ کے بچے اسلام کی حقیقی تعلیم کے مطابق پروان چڑھیں؟ کتنے ہیں آپ میں سے جنہوں نے انتظام کیا ہے کہ آپ کے بچوں کے لیے اسلام کی حقیقی تعلیم کو حاصل کرنے کا انتظام کیا جائے؟ کتنے ہیں آپ میں سے جنہوں نے اپنے اردگرد کے ماحول میں یہ اثر قائم کیا کہ یہ وہ مسلمان ہیں جو حقیقی اسلام کا نمونہ ہیں؟ پس یہ باتیں ہیں اور بہت ساری باتیں، اگر یہ آپ کر رہے ہیں اور کرلی ہیں اور ان باتوں کو حاصل کرتے ہوئے آپ سو سال میں داخل ہورہے ہیں تو پھر آپ سمجھیں کہ آپ اپنی سو سالہ جوبلی کو بڑے اعلیٰ رنگ میں منانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اگر یہ نہیں تو پھر ان سات سالوں میں کوشش کریں کہ ان باتوں کو حاصل کریں اور اس کے علاوہ بھی جو اسلامی تعلیمات ہیں ان کو حاصل کریں۔ اور ساتھ یہ بھی کہ کتنے ہیں آپ میں سے جو خلافت سے حقیقی تعلق رکھنے والے ہیں اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہیں۔ پس یہ باتیں جب آپ کرلیں گے اور اگر نہیں کی تو اس کے لیے کوشش کرلیں گے تو سمجھیں کہ آپ نے اپنی سو سالہ جوبلی حقیقی رنگ میں منائی ہے۔ اور آپ ان سات سالوں میں حقیقی رنگ میں اس کو حاصل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

حیفا میں رہنے والے ایک اور فلسطینی نے سوال کیاکہ کس طرح حیفا میں رہتے ہوئے وہ فلسطین کے ساتھ وفاداری نبھا سکتا ہے۔

جواب میں حضور انور نے فرمایا:ایک مسلمان کے لیے تو یہی حکم ہے کہ جس جگہ وہ رہ رہا ہے وہاں کےملکی قانون کی پابندی کرے۔ اور اگر حکومت ظلم کر رہی ہے تو اس ظلم کی جگہ کو چھوڑ دے، ہجرت کرجائے۔ لیکن یہاں رہتے ہوئے بھی اگر آپ کی آواز ارباب حل و عقد تک پہنچ سکتی ہے، حکومتی نمائندوں تک، تو آواز پہنچائیں اور ان کو بتائیں کہ ظلم کبھی نہیں پنپتا اور یہی ہمارا کام ہے، ہر جگہ، ہر حکومت کو، ہر ظالم کو یہ احساس دلانا کہ ظلم کبھی نہیں پنپا کرتا اور ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے ہیں۔ اور اس کے لیے پھر بعض دفعہ سختیاں بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اب پاکستان میں ایک قانون ہے، احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ وہاں کے قانون کا جہاں تک سوال ہے کہ ہم احمدی اپنے آپ کو غیر مسلم مانیں، کوئی احمدی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں۔ قانون یہ کہتاہے کہ تم

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ

نہیں کہہ سکتے۔کوئی احمدی اس کو ماننے کو تیار نہیں۔ قانون یہ کہتاہے کہ تم نمازیں نہیں پڑھ سکتے، پانچ نمازیں نہیں پڑھ سکتے قبلہ رخ ہوکے۔ کوئی احمدی اس کو ماننے کو تیار نہیں۔ اور اس طرح بہت سارے اسلامی احکام ہیں۔ لیکن جو ملک کے دوسرے قوانین ہیں احمدی وہاں ان کی پوری پابندی کرکے رہتے ہیں۔ ایک تو یہ چیز ہے کہ اگر ایسے سخت حالات ہیں ہجرت کرسکیں تو اسلام میں یہ حکم ہے کہ حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کی بجائے ظالم حکومت سے ہجرت کرجاؤ یا اگر وہاں رہنا ہے تو پھر اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا کے اپنا مدعا بیان کرو۔ اور یہی نمونہ اور یہی اسوہ ہمیں آنحضورﷺ کی زندگی میں ملتا ہے۔ باقی ایک احمدی کا یہ کام نہیں کہ توڑ پھوڑ کرے اور ایسی باتیں کرے جس سے ملک اور قوم کو نقصان ہوتا ہو، ایسی حرکتیں کرے جس سے ان لوگوں کا تو کوئی نقصان نہ ہو جو ظلم کرنے والے ہیں بلکہ عوام الناس کا نقصان ہورہا ہو، اس کے خلاف ہمیں بہرحال کچھ کرنا چاہیے اور ہمیشہ یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے حق کی آواز اٹھانی ہے ہر جگہ۔ اور حق کی آواز کے لیے بعض دفعہ ظلم برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ ویسے جب فلسطین کا قیام یا اسرائیل کا قیام ہورہا تھا اس وقت چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے United Nations میں جو تقریر کی تھی انہوں نے یہی کہا تھا کہ جب تک ان دونوں قوموں کو برابری کے حقوق نہیں مل جاتے یہاں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ اور فلسطینیوں کو بھی اور اسرائیلی اگر رہنا ہے تو پھر دو آزاد ملکوں کی حیثیت سے رہیں۔ کہنے کو تو آپ فلسطین سے آئے ہیں، فلسطین میں ایک علیحدہ حکومت ہے لیکن وہ بھی آزاد حکومت تو نہیں ہے۔ اس کو کوئی دنیا کی حکومت تسلیم کرنےکو تیار نہیں ہے۔ نہ اقوام متحدہ اس کو ماننے کو تیار ہے۔ اس لیے فلسطین میں رہتے ہوئے بھی کم و بیش دباؤ کے زیر اثر ہی آپ رہ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اسرائیل میں رہ کر آپ قانون کی پابندی کس طرح کریں، فلسطین میں بھی رہ کے آپ کو سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں بعض۔ اس کے لیے یہی ہے کہ حکمت سے اپنی آواز اٹھائیں اور ایسے لوگ اکٹھے ہوں جو اس آواز کو ایسے فورَم تک لےکر جائیں، بین الاقوامی فورَم تک، جہاں پھر یہ ایک آزاد فلسطینی حکومت قائم ہو۔ نہ یہ کہ دباؤ میں آئی ہوئی ایک فلسطینی حکومت جس کے پاس اختیار ہی کوئی نہیں۔ تو بہرحال ظلم کے خلاف آواز اٹھانا مومن کا ایک بنیادی فرض ہے یا پھر اس ظلم والی سرزمین سے ہجرت کرجانا یہ دوسرا حکم ہے۔ پس یہ دوباتیں ہیں اس کے علاوہ ملک میں بد انتظامی پیدا کرنا، فساد پیدا کرنا یا توڑ پھوڑ کرنا یہ چیزیں ایک حقیقی مومن کو زیب نہیں دیتیں اور نہ اس کی اجازت ہے۔ تو اس کے لیے بہرحال حکمت اور دعا سے کام کرنا پڑے گا۔ دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق پیدا کریں۔ اگر فلسطینی حقیقی رنگ میں ایک ہوکے دعا کرنے والے ہوں اور اپنے اخلاق و عادات اور اپنے ایمان کو اس معیار پہ پہنچائیں جہاں اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے اور مومنین کا مددگار ہوتا ہے تو انشاء اللہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔

ایک دوست نے سورۃ الفتح آیت 28 کے حوالے سے حضور انور سے پوچھا کہ اس میں مذکور پیشگوئی حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے حق میں کب پوری ہو گی؟

حضور انور نے فرمایا: یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام میرے سپرد فرمائے ہیں اور جو میری پیشگوئیاں ہیں اور جو مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً باتیں بتائی ہیں اور جن کے بارے میں مَیں جماعت کو بتا چکا ہوں وہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور پوری ہوں گی۔ یہ کب پوری ہوں گی اُسے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ یہ بھی جب آیت نازل ہوئی تھی تو حضرت عمرؓ کا واقعہ کل ہی میں نے خطبے میں بیان کیا ہے، باقی لوگوں کا بھی بیان کیا ہے، وہاں بھی آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ میں نے یہ کہا تھا رؤیا میری صادق ہے اور حج ہم کریں گے اور خانہ کعبہ کا طواف بھی کریں گے لیکن میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ضرور اسی سال کریں گے۔ وہاں آنحضرتﷺ نے تو اگلے سال کی بات بھی معین نہیں کی تھی لیکن دشمنوں کی طرف سے ہی ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ آخر جلد ہی ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوگئے۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو فرمایا تھا اور آنحضرتﷺ نے بھی اس وقت معین کرکے نہیں بتایا تو میں آپ کو معین کرکے کس طرح بتا سکتا ہوں۔ٹھیک ہے؟ لیکن یہ یقین ہے کہ انشاءاللہ تعالیٰ یہ پیشگوئیاں پوری ہوں گی کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں اور ہم نے دیکھا مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی متعدد پیشگوئیاں پوری ہوئیں، آپ کے الہامات پورے ہوئے، آپ نے جو باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے منسوب کرکےفرمائی تھیں وہ پوری ہوئیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن وہ بھی آئے گا جب امت مسلمہ حضرت مسیح موعودؑ کے جھنڈے کے نیچے خانہ کعبہ میں داخل ہوگی۔

حاضرین میں سے ایک اَور دوست نے پوچھا کہ حضورِانور اگلے دس سال میں احمدیہ مسلم جماعت کی ترقی کو کیسا دیکھتے ہیں؟

حضور انور نے فرمایا: جماعتی ترقی تو ہورہی ہے۔ غیب کا علم تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ انسان تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن جو ترقی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو ہورہی ہے اور جماعت جس طرح پھیل رہی ہے، ہر ملک میں اور ہر ملک کے کئی شہروں میں جماعت کی بنیاد پڑ گئی ہے، جماعت کا تعارف ہوگیا ہے، اور دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں بھی جماعت کا تعارف ہوگیا ہے، جماعت کو پہلے سے زیادہ جانا جانے لگ گیا ہے، تو ہمیں امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ دس سال یا اگلے بیس پچیس سال جو ہیں انشاء اللہ تعالیٰ جماعتی ترقی کے بہت اہم سال ہیں۔ اور اس میں ہم دیکھیں گے کہ اکثریت انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جھنڈے کے نیچے آجائے گی۔ اور یا کم از کم ایک اکثریت ایسی ہوگی جو اس بات کی حقیقت کو تسلیم کرنے والی بن جائے گی کہ احمدیت ہی حقیقی اسلام ہے۔ مسلمانوں میں سے بھی انشاء اللہ۔

ایک اَور دوست نے حضور انور سے ایسے لوگوں کے بارے میں راہنمائی طلب کی جواچھے کام کرنے کی نیت ر کھتے ہیں تاہم وہ قوت ارادی کی کمی کی وجہ سے ایساکر نہیں پاتے۔

حضور انور نے فرمایا: محض یہ کہہ دینا کہ کسی کا ارادہ تھا، کافی نہیں ہے۔ ارادے کا حتمی یقین اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اس بارے میں عملی قدم اٹھانے کا فیصلہ کرلے۔ محض دل میں کسی چیز کا خیال آنا یا ارادہ کر لینا تو متذبذب اور مایوس لوگوں کا شیوہ ہے۔ اگر کسی آدمی کی نیت مصمم ہو تو وہ اس کام کو کرنے کے لیے عملی اقدام بھی اٹھاتاہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم محض اچھی نیتوں کی وجہ سے اجر دیے جاؤ گے۔ بلکہ ہر کسی کو چاہیے کہ محض نیت سے ہی نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ہدف کو حاصل کرنےکی بھرپور کوشش کرے پھر نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button