امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ طلبہ مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا کی (آن لائن) ملاقات
جب تک آپ طالب علم ہیں، آپ کو زیادہ وقت پڑھائی کو دینا چاہیے۔ اور اپنے weekends جماعت کو دینے چاہئیں۔ کیونکہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ جماعت کے لیے زیادہ مفید وجود ثابت ہوں گے
مورخہ 3؍اکتوبر 2021ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طلبہ مجلس خدام الاحمدیہ کینیڈا سے آن لائن ملاقات فرمائی۔ حضور انور نے اس ملاقات کو اپنے اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوزسے رونق بخشي جبکہ 165طلبہ نے ایوانِ طاہر، پیس ویلج سے شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد طلبہ مجلس خدام الاحمدیہ کو حضور انور سے اپنے عقائد اور عصر حاضر کے مسائل کے حوالہ سے راہنمائی طلب کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ایک طالب علم نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے اور اپنی سچائی، دلائل اور نشانات کے ذریعہ لوگوں کے منہ بند کر دیں گے۔ پیارے حضور ہم ایسے مبارک وجود کس طرح بن سکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو خوب محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر ایک طالب علم محنتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والا ہے اور ایک دوسرا طالب علم ہے جواللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا، دونوں اپنے علم اور فہم و ادراک کو بڑھانے میں خوب محنت اور لگن سے کام کر رہے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان دونوں کو اس کا اجر دے گا۔ کیونکہ دونوں اپنے اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ لیکن ایک ایسا آدمی جو مذہبی آدمی ہے، جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور جو سمجھتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کے ماننے والوں کو علم اور معرفت میں خوب بڑھائے گا، پھر (اس کے حصول کے لیے) آپ کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی ہوگی کہ ہم دونوں اپنے ہدف کو حاصل کرنے کے لیےمحنت کر رہے ہیں لیکن میں تیرے پر ایمان رکھتا ہوں، اس لیے میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے زیادہ معرفت عطا فرما اور میری محنت کا بہترین نتیجہ عطا فرما۔ اس طرح آپ بہتر نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر اگر آپ اللہ تعا لیٰ کے حضور دعا گو نہیں ہیں، اور اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے جو حقوق اللہ کی صورت میں آ پ کو ادا کرنی چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کے احکات پر عمل پیرا نہیں ہیں تو پھر آپ کے لیے ان چیزوں کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ مت خیال کریں کہ یہ ایک منفی پوائنٹ ہے، یہ ایک مثبت پوائنٹ ہے کیونکہ آپ ان تمام اہداف کا حصول صرف اس دنیا میں نہیں کر رہے ہوں گے بلکہ آخرت میں یہ سعی آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگی۔ ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگر آپ محنت کریں گے اور جو بھی فیلڈ آپ نے اپنے لیے چنی ہے اس میں بڑھنے کی بھرپور کوشش کریں تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کامیاب ہوجائیں گے اور خوب ترقی کریں گے۔ لیکن اگر آپ بد دلی سے حقوق اللہ کی ادائیگی کریں گے تو پھر نتیجہ اتنا مثبت یا اچھا نہیں ہوگا جتنا آ پ چاہتے ہوں گے۔ اس لیے ایک سچے مومن کے طور پر آپ کو یہ بات ذہن نشین کرنی ہوگی کہ آپ کو حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی کی فیلڈ میں بھی خوب محنت کر نی ہوگی۔
ایک دوسرے خادم نے بتایا کہ وہ post-graduation کے طالب علم ہیں اور ان کا سوال یہ ہے کہ ایک طالب علم کے لیے بہترین طریقہ کیاہے کہ وہ خلافت سے وفا، اپنی فیملی، اپنی پڑھائی اور اپنے جسمانی اور ذہنی سکون کے حصول کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آپ کا سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم حقوق اللہ کی ادائیگی میں اپنی ذمہ داریاں کس طرح بہترین طریقہ سے ادا کرسکتے ہیں۔ اس طرح اگر آپ حقوق اللہ ادا کرنے والے ہوں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلےگا کہ آپ خلافت کے لیے بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے والے ہوں گے۔ خلیفہ کیا کہتا ہے، یہی ناں کہ آپ اپنی زندگی میں ایک تبدیلی پیدا کریں، اللہ تعالیٰ سے قرب پید اکریں، پنجوقتہ نماز ادا کریں، روزانہ تلاوت قرآن کریم کریں، قرآن کریم میں بیان فرمودہ احکامات تلاش کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، قرآن کریم میں مذکور احکامات اور نواہی تلاش کریں اور یہ کہ کون سی چیزیں آپ کو کرنی چاہئیں اور کون سی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ تو یہ آپ کی ذمہ داریاں ہیں۔ دوسرا یہ کہ آپ پڑھائی کریں، جب تک آپ طالب علم ہیں بھرپور پڑھائی کریں اور خوب محنت کریں، آپ کا مقصد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ آپ نے پڑھائی میں خوب ترقی کرنی ہے۔ جیساکہ میں نےپہلے بھی توجہ دلائی ہے۔ اس کے لیے آپ کو بہت محنت کرنی ہوگی۔ ایک اچھا رشین طالب علم ایک دن میں بارہ سے تیرہ گھنٹے پڑھائی کرتا ہے۔ کیا آ پ اپنی پڑھائی میں اتنا وقت صرف کرتے ہیں؟ اگرنہیں تو ا س کا مطلب ہے کہ ابھی کچھ کمی باقی ہے اور آپ کو اس کمی کو دور کرنا ہوگا۔ آپ کو محنت کرنی ہوگی۔ ایک طالب علم جو اپنی پڑھائی میں خوب ترقی کرتا ہے وہ بارہ سے چودہ گھنٹے پڑھائی کرتا ہے۔ آپ کو دیکھنا ہوگا کہ آپ اتنی دیر کے لیے پڑھائی کر رہے ہیں یا نہیں۔ اگر نہیں، تو پھر اس کا مطلب ہے کہ آپ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ اپنی پنجوقتہ نمازو ں کی ادائیگی کے لیے آپ روزانہ دو گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ اگرا ٓپ نوافل بھی ادا کریں جو اضافی آدھا گھنٹہ یا 45 منٹ ہوں گے تو کل تین گھنٹے بن گئے۔ اور آپ کے جسم کا بھی آپ پر حق ہےاور وہ یہ ہے کہ آپ کو ضرور کچھ دیر سونا اور آرام کرنا چاہیے جس کا دورانیہ چھ گھنٹے تک ہونا چاہیے۔ ٹھیک ہے۔ اس طرح چھ اور تین ملا کر نو گھنٹے بنتے ہیں۔ اور اگر آپ مستقل تین گھنٹےکے لیے نماز پڑھ رہے ہیں، اور آپ اس طرح نماز پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ نے پڑھنے کا حکم دیاہے تو پھر اگر آپ نو سے دس گھنٹے کے لیے بھی کام کر رہے ہوں تو وہ ایک مشرک کے چودہ گھنٹے کام کرنے کے برابر ہو گا۔ یوں آپ تین گھنٹے یہاں بچا رہے ہوں گے۔ یوں نو گھنٹے جمع د س گھنٹے، کل انیس گھنٹے بنتے ہیں۔ پھر مزید ڈیڑھ گھنٹا آپ کے کھانے اور پینے میں صرف ہو تو کل بیس گھنٹے اور تیس منٹ بنتے ہیں۔ اور ایک گھنٹہ کسی بھی کھیل یا تفریح کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ یوں اکیس گھنٹے اور تیس منٹ بنتےہیں۔ پھر کچھ وقت اپنی فیملی کو دیں، ایک گھنٹہ ان سے باتیں کریں اور یہ کافی ہے۔ اب بائیس گھنٹے اور تیس منٹ بن گئے۔ پھر جنرل نالج اور اپنے علم کو بڑھانے کے لیے تیس منٹ سے ایک گھنٹہ دیں۔ اس طرح آپ کو وقت کو manage کرنا پڑے گا۔ اگر آپ اس طرح وقت کو manage کریں گے تو آپ علم میں غیر معمولی بڑھیں گے، اللہ تعالیٰ کے حقوق اداکرنے والے ہوں گے اور اس کے نتیجے میں خلافت، مذہب اور جماعت (کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہوں گے)۔ پھر ہر ہفتہ وار چھٹی کے دن جماعت کو کچھ وقت دیں۔ خدام الاحمدیہ کو وقت دیں۔ پھر ساتھ ساتھ اپنے فیملی ممبرز کے ساتھ بھی وقت گزاریں۔ اس طرح پانچ دنوں کے لیے کام کا پلان بنائیں اور weekends کا بھی۔ اس طرح آپ manage کر سکتےہیں اور justice کر سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ کیا فیملی ممبرز یا عزیزوں کو دی جانے والی رقم کو صدقہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ جو رقم آپ بھیج رہے ہیں وہ صدقہ ہے تو پھر وہ صدقہ ہے۔ لیکن اگر آپ کی نیت یہ ہے کہ جو رقم آپ اپنے رشتہ داروں کو یادوستوں کو بھجوا رہے ہیں، وہ صدقہ نہیں ہے بلکہ ان کے لیے ایک تحفہ ہے۔ انما الاعمال بالنیات (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)، تو یہ سب اسی پر منحصر ہے۔ ایک مرتبہ کوئی شخص آنحضرتﷺ کے لیے بکری کا گوشت لایا اور آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے یہ کہاں سے لیا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ کسی نے بطور صدقہ یہ گوشت مجھے بھجوایا تھا۔ اور صدقہ قبول کرنا نبیوں اور ان کے افراد خانہ کے لیے جائز نہیں ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ (گوشت) تمہارے لیے صدقہ تھا، اب تم اسے میرے پاس (بطور تحفہ)لے آئے ہو نہ کہ صدقہ کے طور پر۔ اس لیے میں اسے کھا سکتا ہوں۔ اس لیے اس سب کا تعلق نیت سے ہے۔ آپ کو سخی ہونا چاہیے۔ آپ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو صدقہ کیوں دیتے ہیں۔ اگر آپ ان کی مدد کرتے ہیںتو آپ کو انہیں تحفہ دینا چاہیے۔
ایک خادم نے سوال کیاکہ ہم خدام یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ جب ہم جماعت کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جماعت اور سکول کے کام میں توازن برقرا ر رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے موقع پر ہماری ترجیح کیا ہونی چاہیے۔ جماعت یا سکول کاکام؟
حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں، جب تک آپ طالب علم ہیں، آپ کو زیادہ وقت پڑھائی کو دینا چاہیے۔ اور اپنے weekends جماعت کو دینے چاہئیں۔ کیونکہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ جماعت کے لیے زیادہ مفید وجود ثابت ہوں گے۔ اس وقت سے زیادہ صلاحیتوں کے مالک ہوں گے۔ اس لیے اپنے علم میں اضافہ کریں۔ اپنی پڑھائی میں غیرمعمولی نتائج حاصل کریں، اپنی تعلیم مکمل کریں۔ اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ جماعت کا زیادہ کام کرسکتے ہیں۔ اس وقت پہلے اپنی پڑھائی کے ساتھ انصاف کریں پھر اگر آپ کے پاس زائد وقت ہے تو ہفتے کے دوران بھی جماعت کو وقت دیں بصورت دیگر آپ ہفتہ وار چھٹی کے دن وقت دے سکتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تعلیم کے نام پر آپ اِدھر اُدھر، گپیں مارتے ہوئے وقت ضائع کر تے پھریں اور فضول کاموں میں اور انٹر نیٹ پر اور فحش چیزیں دیکھنے میں وقت ضائع کرتے رہیں اور پھر کہیں کہ میں بہت مصروف ہوں۔ ایسی مصروفیت مراد نہیں ہے۔ اس لیے آپ کو دیکھنا ہوگا کہ دیانتداری سے آپ کیا کر رہے ہیں۔ اگر تو واقعی پڑھائی کر رہے ہیں تو پھر ٹھیک ہے۔ آپ ضرور پڑھائی کریں۔ پھر دوسرے نمبر پر ترجیح جماعت کی ہوگی۔
لیکن بیک وقت یہ عہد کہ میں دین کو دنیاپر ترجیح دوں گا کا یہ بھی مطلب ہے کہ جہاں کہیں بھی ایسا ہو کہ کوئی آپ سے کہے کہ آپ نے پنجوقتہ نماز نہیں پڑھنی تو آ پ نے انکار کردینا ہے کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں نماز پڑھنے سے رک نہیں سکتا۔ اور ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے آپ اپنے دین کو دنیا پر یوں ترجیح دیں کہ جب کبھی بھی نماز کا وقت ہو ظہر کی نمازکا یا عصر کی نماز کا تو اسے ادا کریں اور پھر اپنی پڑھائی شروع کردیں۔ اس وقت دین کو دنیا پر ترجیح دینے کا یہی مطلب ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی کریں اور وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پنجوقتہ نماز ادا کرو اور اگر ممکن ہو تو با جماعت ادا کرو۔ اگر یونیورسٹی میں آپ باجماعت ادا نہیں کر سکتے، اگر وہاں صرف چار پانچ احمدی طلبہ ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ جب بھی نماز کا وقت ہو پہلے اپنے پروفیسر یا ٹیچر سے پوچھیں کہ یہ میری نمازکا وقت ہے، مجھے دس منٹ چاہئیں تاکہ میں اپنی نماز ادا کر سکوں اور پھر اپنی ظہر اور عصر کی نماز ادا کریں پھر واپسی پر اپنی پڑھائی شروع کریں۔ اس وقت اس عہد کو نبھانے کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی نماز کا وقت ہو نماز ادا کریں اور اس کے بعد اپنی پڑھائی مکمل کریں۔ لیکن جہاں تک دیگر جماعتی کام کا تعلق ہے تو آپ کو اپنے weekends دینے چاہئیں اور اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ٹھیک ہے؟ جہاں تک حقوق اللہ کا تعلق ہے تو وہاں سمجھوتے کی کوئی شکل نہیں۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ ہم کس طرح اپنے نوجوان خدام بھائیوں کو توجہ دلا سکتے ہیں کہ وہ post-secondary ایجوکیشن حاصل کریں اور کام کرنے میں جلدی نہ کریں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ دیکھیں، میں بھی یہی بتا رہا ہوں اور میرے سے پہلے خلفاء بھی طلبہ کو اس طرف توجہ دلاتے رہے ہیں کہ انہیں اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہیے۔ اور سیکنڈری سکول کے بعد اپنی تعلیم کو خیر باد نہیں کہہ دینا چاہیے۔ کم از کم انہیں گریجویٹ ہونا چاہیے۔ اسی لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے گولڈ میڈل دینے کے پروگرام کا آغاز فرمایا تھا۔ اور یہ آپ کی خواہش تھی کہ ہمیں کم از کم ایک سو نوبیل انعام یافتہ (لوگ) چاہئیں۔ اور اپنی جماعت کے کم ازکم ایک ہزار بہترین سائنسدان چاہئیں جو اس وقت تک ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اسی لیے امورِ طلبہ اور تعلیم کا شعبہ خدام الاحمدیہ میں اور جماعتی نظام میں قائم کیا گیاہے۔ تاکہ طلبہ کو ترغیب دلائی جائے کہ بجائے اس کےکہ وہ اپنی تعلیم سیکنڈری ایجوکیشن تک چھوڑدیں، انہیں یونیورسٹی جانا چاہیےاور مزید پڑھنا چاہیے۔ اور اگر انہیں لگتا ہے کہ وہ ریسرچ میں نہیں جا سکتے یا دیگر سائنس کے مضامین نہیں پڑھ سکتے یا پروفیشنل فیلڈز میں نہیں جا سکتےجیسے انجینئرنگ، میڈیسن تو کم از کم مقابلے کے امتحان میں بیٹھیں اور سول سروس میں جائیں۔ یوں ہمارے پاس گورنمنٹ کی سول سروس میں کام کرنے والوں کی بھی ایک بھاری تعداد ہونی چاہیے۔ اس لیے ہر فیلڈ میں ایک احمدی کو ہونا چاہیے۔ اور اس کے لیے آپ کو انہیں ابھارنا ہوگا، اسی لیے امور طلبہ کا شعبہ قائم کیا گیا تھا کہ وہ طلبہ کو جوش و خروش دلائیں۔ یہ ماں باپ کی بھی ذمہ داری ہے، اگر ماں باپ پڑھے لکھے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ سکول میں پڑھائی مکمل ہونے کے بعد، اپنے بچوں کو مزید پڑھنے کی طرف توجہ دلائیں۔ ایک احمدی طالب علم کی کم ازکم تعلیم گریجوایشن ہونی چاہیے۔ پھر اس کے بعد وہ مختلف فیلڈز میں جا سکتا ہے۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ انہیں ابھاریں۔ آپ ایک نوجوان خادم ہیں۔
ایک خادم نے حضور انور سے کووڈ19 کے دوران ذہنی امراض کے مسائل کے حوا لہ سے راہنمائی طلب کی کہ احمدی مسلمان نوجوان کس طرح ان ذہنی امراض کے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس ذہنی دباؤ کی بنیادی وجہ طلبہ میں کووڈ ہے کیونکہ طلبہ باہر نہیں نکل رہے، انہیں اپنی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا، پڑھنے کا یا دیگر غیر نصابی سرگرمیوںمیں شامل ہونے کا موقع نہیں مل رہا جیسے کھیل وغیرہ۔ لیکن ایک احمدی مسلمان طالب علم کے لیے، آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ فرما تا ہے کہ ‘اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ’ یعنی اللہ کے ذکر سے دل اطمینان حاصل کرتے ہیں (13:29)۔ اس لیے ایک احمدی مسلمان طالب علم کو ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا چاہیے۔ اسے پنجوقتہ نماز یں پہلے سے بہتر طور پر ادا کرنی چاہئیں۔ اسے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور اللہ سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بہترین طریق اللہ کو یاد کرنا ہے۔
نیز فرمایا کہ اس لیے جو دنیاوی چیزوں میں پڑے ہوئے ہیں، قدرتی طور پر اور یقیناً وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے کیونکہ انہیں بے چینی ہے۔ ان کی ترجیحات مختلف ہیں، اور اسی لیے وہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ اگر آپ کی ترجیح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو آپ کی بے چینی ختم ہو جا تی ہے۔