نبی کریمﷺ کے بعض رؤیا اور تعبیر نبوی (قسط سوم۔ آخری)
نبی کریمﷺ کے قرآن و حدیث میں مذکور پینتالیس (45) رؤیا اور اٹھارہ (18) کشفی واقعات
رؤیا نمبر 34:نبی کریمﷺکا خواب میںاپنے امتیوں کے سولہ نیک اعمال کی جزا دیکھنا
امام سخاوی ؒ(المتوفی 904 ہجری)نے اپنی تصنیف’ القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیعﷺ‘ میں اور امام قیم الجوزی ؒنے اپنی مشہور کتاب :’الروح‘میں نبی کریمﷺکے ایک رؤیا کا ذکر اس طرح کیا ہے،چنانچہ وہ لکھتے ہیںکہ عذاب قبر سے بچانے کے بارے میں تشنگی بجھانے والی ایک حدیث آئی ہے جسے ابو موسیٰ مدینیؒ اپنی کتاب ’ الترغیب والترہیب ‘ میں عذاب قبر کی وضاحت کے لیے لائے ہیں۔فرج بن فضالہ ہلال ابو جبلہ وہ سعید بن مسیّب ؒسے اور وہ عبد الرحمن بن سمرۃؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم مدینے کے ایک چبوترے پر جمع تھے کہ رحمۃ للعالمینﷺہمارے پاس تشریف لائے اور کھڑے ہو کر فرمایاکہ کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا۔میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ ملک الموت اس کی روح قبض کرنے کے لیے اس کے پاس پہنچتے ہیں مگر ماں باپ کی اطاعت آکر ملک الموت کو اس سے جدا کر دیتی ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ شیطانو ں نے اسے بوکھلاہٹ کا شکار کر رکھا ہے لیکن اللہ کا ذکر آکر تمام شیطان اس سے بھگا دیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ اسے عذاب کے فرشتو ں نے وحشی بنا رکھا ہے لیکن نماز آکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑالیتی ہے۔ایک امتی کو دیکھا جو پیاس سے بے چین تھا،جس حوض کے پاس جاتا دھکے دے دیا جاتا ہے اور بھگا دیا جاتا ہے مگر رمضان کے روزے آکر اسے خوب سیراب ہو کر پانی پلاتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ انبیاء ؑ اپنے اپنے حلقے باند ھ کر بیٹھے ہو ئے ہیں۔اور ایک امتی کو دیکھا کہ وہ جس حلقے میں جاتا ہے تو اسے دھتکار دیا جاتا ہے لیکن اس کا غسل جنابت اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لاکر بٹھا دیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ اس کے چارو ں طرف اوپر اور نیچے اندھیرا ہی اندھیرا ہے وہ اس میں حیران وپریشان ہے لیکن اس کا حج اور عمرہ آکر اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی میں پہنچا دیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ وہ آگ کے شعلوں اور انگاروں سے بچنا چاہ رہا ہے،اتنے میں اس کا صدقہ آکر اس کے اور آگ کے درمیان کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بھی کر دیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ وہ مومنوں سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی اس سے بات نہیں کرتا مگر اس کی صلہ رحمی آکر کہتی ہے :مسلمانو! یہ صلہ رحمی میں پیش پیش رہتا تھااس سے بولو۔ایک امتی کو دیکھا کہ اسے جہنم کے فرشتوں نے پریشان کر رکھا ہے لیکن امر بالمعروف اور نہی عن المنکر آکر اسے ان کے ہاتھوں سے چھڑا لیتا ہے اور رحمت کے فرشتو ں میں داخل کر دیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ وہ دو زانو بیٹھا ہے اور اس کے اور اللہ تعا لیٰ کے درمیان پردہ لٹکا ہے۔لیکن اس کا حسن خلق آتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اللہ تعا لیٰ کے پاس لے جاتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ اس کا اعمال نامہ اس کے بائیں طرف سے جاتا ہے لیکن اس کے پاس خوف الٰہی آکر اس کا ا عمال نامہ لے کر دائیں طرف رکھ دیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ اس کی تول ہلکی ہو گئی ہے لیکن اس کے پاس بچپن میں مر جانے والے بچے آتے ہیں اور اس کا وزن بھاری کر دیتے ہیں۔ایک امتی کو دیکھا کہ وہ جہنم کے کنارے کھڑا ہے لیکن اس کے پاس اللہ تعا لیٰ سے امید آتی ہے اور اسے وہاں سے ہٹا لیتی ہے اور وہ چلا جاتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ وہ آگ میں گر گیا ہے لیکن آنسو کا وہ قطرہ آتا ہے جو اللہ تعا لیٰ کے خوف سے گرا تھا اور اسے جہنم سے نکال لیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ پل صراط پر کھڑا ہوا اس طرح کانپ رہا ہے جیسے آندھی میںکھجور کا تنا ہلتا ہے لیکن اس کا اللہ تعا لیٰ کے ساتھ حسن خیال (یعنی اللہ تعالیٰ کے بارےمیں نیک گمان رکھنا) آکر اس کی کپکپاہٹ کو دور کر دیتا ہے۔ایک امتی کو دیکھا کہ وہ پل صراط پر گھسٹ رہا ہے،کبھی گھسٹتا ہے اور کبھی لٹک جاتا ہے لیکن اس کی نماز آکر اسے اس کے پیروں پر کھڑا کر دیتی ہے اور اسے بچالیتی ہے۔اور ایک امتی کو دیکھا کہ جنت کے دروازوں پر پہنچ جاتا ہے مگر دروازے بند ہو جاتے ہیںلیکن کلمہ تو حید آکر دروازے کھلوا کر اسے جنت میں داخل کرا دیتا ہے۔
حافظ ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اعلیٰ درجہ کی حسن ہے۔امام قیم ؒاس حدیث کو درج کر کے لکھتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام (امام ابن تیمیہ ؒ) سے اس حدیث کی بڑائی سنی آپ نے فرمایا:سنت کے اصول اس کی گواہی دیتے ہیں اور یہ بہترین احادیث میں سے ہے۔( کتاب الروح از امام ابن قیم ؒ اردو ترجمہ،شائع کردہ دوست ایسوسی ایٹس لاہور پاکستان صفحہ130تا131)
(نوٹ از مرتب:امام قیم ؒ نے اس مذکورہ بالا حدیث کو امام ابو موسیٰ مدینی ؒکی کتاب ’ الترغیب والترہیب ‘ کے حوالے سے درج کیا ہے۔’الترغیب والترہیب‘ کے نام سے اَور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں سب سے مشہور اور مروج کتاب امام حافظ زکی الدین المنذریؒ (المتو فی656 ہجری) کی ہے باقی کتب معدوم ہو چکی ہیں۔)
اس حدیث کو امام طبرانی نے الکبیر میں،الدیلمی نے مسند الفردوس میں اور امام سخاوی ؒ (المتوفی 904 ہجری)نے اپنی تصنیف’ القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیعﷺ‘ میںدرج کیا ہے۔امام سخاوی ؒ یہ حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ابو موسیٰ المدینی نے بھی’ ’ الترغیب ‘‘ میں ذکر کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث انتہائی حسن ہے۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے بارے میں عارف شیخ ابوثابت محمد بن مالک الدیلمی اپنی کتاب ’’ اصول مذاہب العرفاء باللہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اہل حدیث کے نزدیک اگر چہ یہ حدیث غریب ہے مگر اس کا معنی صحیح ہے اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہے۔اور اس حدیث کے بہت سے واقعات اور احوال ایسے ہیں کہ کشف کے ذریعہ ان کی صحت کا قطعی علم حاصل ہوا ہے۔(القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیعﷺاز امام محمد بن عبد الرحمن السخاوی ؒ المتوفی 904 ہجری،باب الثانی فی ثواب الصلوٰۃ علیٰ رسول اللہﷺحدیث نمبر25،صفحہ 265-267،شائع کردہ مؤسسۃ الرّیّان المدینہ المنورہ 2002ء)
رؤیا نمبر35:نبی کریمﷺکا خواب میں خزانوں اور فتنوں کو دیکھنا
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ بیان فرماتی تھیں کہ ایک رات رسول اللہﷺگھبرائے ہو ئے بیدار ہوئے اور فرمایاکہ اللہ کی ذات پاک ہے اللہ تعا لیٰ نے کیا خزانے نازل کیے ہیں اور کتنے فتنے نازل کیے گئے ہیں۔ان حجرہ والیو ں (ازواج النبیﷺ) کو کون بیدار کرے گا ؟آپؐ کی مراد ازواج مطہرات سے تھی کہ تا کہ وہ نماز پڑھیں۔دنیا میں بہت سی کپڑے پہننے والیاںہیں جو آخرت میں ننگی ہو ں گی۔( صحیح بخاری کتاب الفتن باب لا یاتی زمان الا الذی بعدہ شر منہ)
رؤیا نمبر36:نبی کریمﷺکا خواب میں عربوں کی تباہی کا نظارہ دیکھنا
ام المومنین حضرت زینب بنت جحش ؓ بیان فرماتی تھیں کہ ایک رات رسول اللہﷺنیند سے بیدار ہوئے تو آپؐ کا چہرہ سرخ تھا اور فرما رہے تھے اللہ کے سو اکو ئی معبود نہیں،ہلاکت اور بربادی ہو عرب کے لیے اس شر اور برائی کی وجہ سے جو قریب آچکی ہے۔آج یاجوج ماجوج کی دیوار سے اتنا سا سوراخ کھل گیا ہے۔آپؐ نے (وضاحت کے لیے) اپنی دو انگلیوں اور ان سے ملتی ہوئی انگلی کا حلقہ بنایا۔میں نے عرض کی،اے اللہ کے رسولﷺکیا ہم ہلاک ہو جائیں گے جبکہ ہم میں نیک لو گ بھی موجود ہیں؟آپؐ نے فرمایاکہ ہاں اس صورت میں جب برائی بڑھ جائے گی (تو ایسا بھی ہو جائے گا)۔( صحیح بخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺویل للعرب۔کتاب الانبیاء باب قصۃ یاجوج وماجوج۔جامع ترمذی کتاب الفتن۔سنن ابن ماجہ کتاب الفتن)
رؤیا نمبر37:نبی کریمﷺکا خواب میں خانہ کعبہ کی تباہی کا نظارہ دیکھنا
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ وہ منظر میری نظروں کے سامنے ہے کہ ایک حبشی چری ہو ئی رانو ں والا کعبہ کا ایک ایک پتھر اکھاڑ رہا ہے۔رواہ البخاری۔(تفسیر مظہری اردو،از قاضی محمد ثناء اللہ مجددی پانی پتی،متوفی 1225 ہجری،جلدہشتم،صفحہ65،مطبوعہ دارالاشاعت کراچی1999ء)
(نوٹ:مذکورہ بالا روایت تفسیر مظہری میں صحیح بخاری کے حوالہ سے درج کی گئی ہے لیکن راقم کو یہ روایت صحیح بخاری میں نہیں مل سکی۔)
رؤیا نمبر38:نبی کریمﷺکا خواب میں ابو جہل کے لیے جنت میں کھجور کا خوشہ دیکھنا
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ نبی کریمﷺسے روایت کرتے ہو ئے بیان فرماتی تھیں کہ میں نے خواب میں ابو جہل کے لیے جنت میں کھجور کے درخت دیکھے ہیں۔جب عکرمہ ؓ اسلام لائے تو نبی کریمﷺنے فرمایاکہ یہ تمہارے خواب کی تعبیر ہے۔(مشکوۃ المصابیح،اکمال فی اسماء الرجال تذکرہ عکرمہ ؓ بن ابی جہل)
یہ خواب ابو جہل کے بیٹے حضرت عکرمہ ؓکے قبول اسلام سے پورا ہوا۔اس تعلق میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ’’آپ نے یہ بھی فرمایاکہ ابو جہل کے لئے مجھے بہشتی خوشہ انگور دیا گیا مگر اس پیشگوئی کا مصداق عکرمہ نکلا۔اورجب تک خدائے تعا لیٰ نے خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگو ئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اُس کی کسی شق خاص کا کبھی دعویٰ نہ کیا۔‘‘( ازالہ اوہام حصہ اول،روحانی خزائن جلد3صفحہ 310)
رؤیا نمبر39:نبی کریمﷺکو ایک فرشتہ کا وادی عقیق میں نماز پڑھنے کا حکم دینا
حضرت عمر ؓبیان فرماتے تھے کہ مجھ سے نبی کریمﷺنے فرمایاکہ ایک رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے آنے والا آیا،آپؐ اس وقت وادی عقیق میں تھے۔اور اس نے مجھے کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھیئے اور کہیئے کہ میں عمرہ اور حج کی نیت کرتا ہو ں۔(صحیح بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب،باب ما ذکر النبیﷺو حض علی اتفاق)
رؤیا نمبر40:نبی کریمﷺسے خواب میں ایک فرشتہ کا آپﷺاور آپﷺکی امت کی مثال بیان کرنا
حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺپوچھا کرتے تھے کہ کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تا تو وہ اس کو بیان کر دیتا۔ایک دفعہ صبح کے وقت نبی کریمﷺنے اپنا خواب صحابہؓ سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ رات میرے پاس دو فرشتے آئے،ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے قدموں کی جانب بیٹھ گیا۔جو فرشتہ میرے قدموں کے پاس تھا اُس نے اُس فرشتے سے کہا جومیرے سر کے قریب تھا کہ اِن کی اور اِن کی امت کی کوئی مثال بیان کریں۔اس نے کہا کہ ان کی اور ان کی امت کی مثال یہ ہے کہ جیسے کچھ مسافر اپنی منزل کے بالکل قریب ایک جنگل کے آغاز میں ہوں۔ان کے پاس اتنا زادراہ نہ ہو جس سے وہ اس جنگل کو عبور کر سکیں اور نہ ہی وہ وہاں سے واپس جا سکتے ہو ں۔وہ ابھی اس مخمصہ میں ہو ں کہ ان کے پاس ایک آدمی آئے وہ قیمتی جبہ زیب تن کیے ہوئے ہو،بالوں میں کنگھی کی ہو ئی ہو اور وہ ان سے کہے :اگر میں تمہیں پھلدار باغ اور بھرے ہوئے چشموں تک پہنچا دوں (تو کیا)تم میرے پیچھے چلوگے؟وہ لوگ کہیں گے جی بالکل۔وہ ان کو ساتھ لے کر چل پڑے اور ان کو پھلدار باغات اور پانی سے بھرے حوضوں تک پہنچا دے،وہ وہاں سے خوب سیر ہو کر کھائیں اور پئیں۔وہ آدمی ان سے کہے کہ کیا تم سے میری ملاقات تمہاری کس مپرسی کے عالم میں نہیں ہو ئی؟اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ اگر میں تمہیں پھلدار باغات تک اور پانی سے بھرے چشموں تک لے جاؤں تو کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟تم نے کہا تھا جی بالکل چلیں گے۔اس نے کہا :تمہارے اگلے زمانے میں اس سے بھی زیادہ پھلدار باغات ہیں اور اس سے بھی زیادہ پانی سے بھرے چشمے ہیں،اس لیے تم میرے پیچھے چلو۔تب ایک جماعت نے کہا :اللہ کی قسم یہ سچ کہہ رہا ہے،ہم ضرور اس کے پیچھے چلیں گے۔اور ایک جماعت نے کہا ہم تو انہی باغات پر راضی ہیں ہم تو یہیں رہیں گے۔( المستدرک للحاکم،کتاب تعبیر الرؤیا حدیث نمبر8200۔مسند احمدبن حنبلؒ۔الطبرانی الکبیر)
یہ حدیث نقل کر کے امام حاکم لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاریؒ اور امام مسلم ؒکے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین ؒنے اس کو نقل نہیں کیا ہے۔
نبی کریمﷺ کے بعض کشفی واقعات
نبی کریمﷺکے بعض کشفی واقعات کے ذکر سے قبل کشف کا مفہوم سمجھ لینا ضروری ہے۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشف کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’جب سماع کے ذریعہ کوئی خبر دی جا تی ہے تو اسے وحی کہتے ہیں اور جب رؤیت کے ذریعہ سے کچھ بتلایا جاوے تو اسے کشف کہتے ہیں۔اِس طرح مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض وقت ایک ایسا امر ظاہر ہو تا ہے کہ اس کا تعلق صرف قوت شامہ سے ہو تا ہے مگر اس کا نام نہیں رکھ سکتے جیسے یو سف ؑکی نسبت حضرت یعقوبؑ کو خوشبو آئی تھی
اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(یوسف:95)
اور کبھی ایک امر ایسا ہو تا ہے کہ جسم اسے محسوس کرتا ہے گویا کہ حواس خمسہ کے ذریعہ سے اللہ تعا لیٰ اپنی باتیں اظہار کرتا ہے۔‘‘(البد ر جلد 2نمبر15مورخہ یکم مئی 1903ء صفحہ 114بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلد 4صفحہ115)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں:’’کشف کیا ہے یہ رؤیا کا ایک اعلیٰ مقام اور مرتبہ ہے۔اس کی ابتدائی حالت کہ جس میں غیبتِ حس ہو تی ہے صرف اس کو خواب (رؤیا) کہتے ہیں جسم بالکل معطل بیکار ہو تا ہے اور حواس کا ظاہری فعل بالکل ساکت ہو تا ہےلیکن کشف میں دوسرے حواس کی غَیبت نہیں ہو تی۔بیداری کے عالَم میں انسان وہ کچھ دیکھتا ہے جو کہ وہ نیند کی حالت میں حواس کے معطل ہو نے کے عالَم میں دیکھتا تھا۔کشف اسے کہتے ہیں کہ انسان پر بیداری کے عالَم میں ایک ایسی ربودگی طاری ہو کہ وہ سب کچھ جانتا بھی ہو اور حواس خمسہ اس کے کام بھی کر رہے ہو ں اور ایک ایسی ہوا چلے کہ نئے حواس اسے مل جاویں جن سے وہ عالم غیب کے نظارے دیکھ لے۔وہ حواس مختلف طور سے ملتے ہیںکبھی بصر میں،کبھی شامہ(سونگھنے) میں،کبھی سمع میں۔شامہ میں اسی طرح جیسے کہ حضرت یو سفؑ کے والد نے کہا
اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ
( کہ مجھے یوسفؑ کی خوشبو آتی ہے اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا)اس سے مراد وہی نئے حواس ہیں جو کہ یعقوب ؑکو اس وقت حاصل ہو ئے اور انہو ں نے معلوم کیا کہ یو سف ؑزندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے۔اس خوشبو کو دوسرے پاس والے نہ سونگھ سکے کیونکہ ان کو وہ حواس نہ ملے تھے جو کہ یعقوب ؑکو ملے،جیسے گُڑ سے شکر بنتی ہے اور شکر سے کھانڈ اور کھانڈ سے اور دوسری شیرینیاں لطیف در لطیف بنتی ہیں ایسے ہی رؤیا کی حالت ترقی کرتی کرتی کشف کا رنگ اختیار کرتی ہے اور جب وہ بہت صفائی پر آجاوے تو اس کا نام کشف ہوتاہے۔‘‘(البدر جلد4نمبر8مورخہ13؍مارچ 1905ء صفحہ 2بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود ؑجلد 4صفحہ115تا116)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک اَور مقام پر مزید فرماتے ہیں:’’وحی کئی قسم کی ہے۔عادت اللہ ہے کہ جب وہ سماع پر موقوف ہو تو اسے وحی کہتے ہیں۔رؤیت کے متعلق ہو تو اس کو کشف کہتے ہیں۔ایک قوت شامہ سے ہو تی ہے جیسے اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ۔کبھی قوت حاسہ سے بھی ہو تی ہے۔غرض تمام حواس خمسہ سے وحی ہو تی ہے اور ملہم کو قبل از وقت بذریہ وحی ان باتو ں کی اطلاع دی جاتی ہے۔مثنوی رومی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک دفعہ چند قیدی آ نحضرتﷺکے پاس پا بجولاں آئے ان قیدیوں نے خیال کیا کہ آنحضرتﷺاس حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہو ں گے۔آپؐ نے فرمایاکہ نہیں یہ خیال تمہارا غلط ہے جس وقت تم لو گ گھوڑوں پر سوار اور ناز و نعمت میں بآرام چلتے تھے میں تو اس وقت تمہیں پا بہ زنجیردیکھ رہا تھا اب مجھے تمہارے دیکھنے کی کیا خوشی ہے ؟پھر مطلب یہ کہ الہام کے ساتھ عموماً کشوف بھی ہوا کرتے ہیں۔(الحکم جلد7نمبر15مورخہ24؍اپریل1903ءصفحہ12 بحوالہ تفسیرحضرت مسیح موعود ؑجلد4صفحہ119تا120)
کشف نمبر1:نبی کریمﷺ کا کشفاً جنت اور جہنم کو دیکھنا
حضرت عمرانؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ میں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو وہاں کے رہنے والے اکثر غریب لوگ تھے۔اور میںنے جہنم میں جھانک کر دیکھا تو ان میں اکثر عورتیں تھیں۔(صحیح بخاری کتاب الرقاق با ب صفۃ الجنۃ والنار)
حضرت اسامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا:میں جنت کے دروازہ پر کھڑا ہوا تو کیا دیکھتا ہو ں کہ اس میں داخل ہو نے والے اکثر مسکین و محتاج اور محنت مزدوری کرنے والے لوگ تھے۔اہل جہنم کے سوا جنہیں جہنم میں لے جانے کا حکم دیا گیا تھا۔اور میں نے جہنم کے دروازہ پر کھڑے ہو کر دیکھا کہ اس میں داخل ہونے والی اکثر عورتیں تھیں۔(صحیح بخاری کتاب الرقاق با ب صفۃ الجنۃ والنار)
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب مدینہ میں ایک دن سورج کو گرہن لگا اور نبی کریمﷺنے نماز خسوف با جماعت پڑھائی تھی۔جب آپؐ نماز سے فارغ ہو ئے تو نبی کریمﷺنے فرمایاکہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیو ں میں سے دو نشانیاں ہیں،ان میں گرہن کسی کی موت یا کسی کی حیات کی وجہ سے نہیں ہوتا اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرو۔صحابہ ؓنے عرض کیا :یا رسول اللہﷺ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپؐ نے اپنی جگہ سے بڑھ کر کوئی چیز لی ہے اور پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے۔(اس پر) آپؐ نے فرمایاکہ مجھے جنت دکھلائی گئی (یا میں نے جنت دیکھی تھی)۔میں نے اس کا خوشہ توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔اور اگر میں اسے توڑ لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے۔اور مجھے دوزخ دکھلائی گئی۔آج تک اس سے زیادہ ہیبت ناک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔میں نے دیکھا کہ اس میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! ایسا کیوں ہے تو آپؐ نے فرمایا:کیونکہ وہ کفر کرتی ہیں۔آپؐ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں ؟آپؐ نے فرمایا :نہیں وہ (اپنے)شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں۔اور (ا س کا)احسان نہیں مانتیں۔(صحیح بخاری کتاب الایمان باب کفران العشیر،کتاب النکاح باب:کفران العشیر)
کشف نمبر2:نبی کریمﷺکا کشفاً نماز کے دوران جنت و جہنم کا نظارہ فرمانا
حضرت انسؓ بیان فرماتے تھے کہ ایک دن رسول اللہﷺنے ہمیں نماز پڑھائی پھر منبر پر چڑھے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایاکہ اس وقت جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے جنت اور دوزخ متمثل صورت میں اس دیوار پر دکھائی گئیں۔آج سے پہلے میں نے اچھائی اور برائی اس شکل میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔آج سے پہلے اچھائی اور برائی میں نے اس شکل میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔(صحیح بخاری کتاب العلم باب من اجاب الفتیا۔کتاب الوضوء باب من لم یتوضا۔کتاب الرقاق با ب القصد والمداومۃ)
کشف نمبر3:نبی کریمﷺکا کشفاً قبروں میں مدفون دو افراد کو ملنے والے عذاب کا نظارہ فرمانا
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺمکہ یا مدینہ کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔وہاں آپؐ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جارہا تھا۔تو آپؐ نے فرمایاکہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں بلکہ ان میں سے ایک شخص پیشاب سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا۔اور دوسرا شخص چغلخور تھا۔پھر آپؐ نے کھجور ایک ٹہنی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ایک ایک ٹکڑا اُن کی قبروں پر لگا دیا۔لوگوں نے آپؐ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺیہ آپؐ نے کس لیے کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا :تاکہ جب تک یہ ٹہنیاں خشک ہو ں ان پر سے عذاب کم کردیا جائے۔(صحیح بخاری کتاب الوضوء باب من الکبائر،باب ما جاء فی غسل البول،کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر)
کشف نمبر4:نبی کریمﷺکا کشفاً بیت المقدس کو دیکھنا
حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان فرماتے تھے کہ انہو ں نے رسول اللہﷺکو یہ فرماتے ہو ئے سنا کہ جب قریش نے مجھے جھٹلایا( واقعہ معراج کے سلسلے میں) تو میں حجر میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعا لیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہر کردیا اور میں اس کی تمام جزئیات اسے دیکھ دیکھ کر قریش کو بتانے لگا۔(صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب:حدیث الاسراء)
کشف نمبر5:نبی کریمﷺکا سفر طائف کے دوران کشفاً جبریل ؑاور دو فرشتو ں کو دیکھنا
ام المومنین حضرت عائشہؓ بیان فرماتی تھیں کہ ایک دفعہ انہو ں نے نبی کریمﷺسے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپؐ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟توآپؐ نے فرمایاکہ تمہاری قوم کی طرف سے میں نے کتنی ہی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دَور میں یوم عقبہ کا واقعہ مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا۔یہ وہ موقعہ ہے جب میں نے (طائف کے سردار) ابن عبد یا لیل بن عبد کلال کی پناہ کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔لیکن اس نے میرے مطالبےکو رد کر دیا تھا۔میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ اور ملول واپس ہوا۔پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا تب میرا غم کچھ ہلکا ہوا۔میں نے اپنا سر اٹھایاتو میں نے دیکھا کہ ایک بادل ہے جس نے مجھ پر سایہ کیا ہوا ہے۔میں نے دیکھا کہ جبریل ؑاس میں موجود ہیں انہوں نے مجھے آواز دی اور کہاکہ اللہ تعا لیٰ آپؐ کے بارے میں آپؐ کی قوم کی باتیں سن چکا ہے اور جو انہو ں نے ردّ کر دیا ہے وہ بھی۔اللہ تعا لیٰ نے آپؐ کے پاس پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے آپ ان(طائف والوں) کے بارے میں جو چاہیں اس کا حکم دیجیے۔اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی،مجھے سلام کیا اور کہااے محمدؐ ! پھر انہو ں نے مجھے وہی بات کہی جو جبریل ؑنے کہی تھی۔اگر آ پؐ چاہیں تو اخشبین (مکہ کے دو پہاڑ) ان پر لاد کر گرا دوں ؟نبی کریمﷺنے فرمایاکہ مجھے تو اس بات کی امید ہے کہ اللہ تعا لیٰ ان کی صلب سے ایسی اولاد پیدا کرے گاجو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب:اذا قال احدکم آمین)
(نوٹ از مرتب:مذکورہ بالا حدیث میں اخشبینکا لفظ آیا ہے اس سے مراد مکہ کے دو پہاڑ ہیں ؛ جبل ابو قبیس اور قعیقعان یا جبل احمر۔)
کشف نمبر6:نبی کریمﷺکے پاس مسجد میںجبریل ؑ کا تشریف لانا اور دین کی بنیادی باتیں سکھلانا
کتب حدیث میں حدیث جبریل ؑکو اصول دین کے بیان میں بنیا دی حیثیت حا صل ہے۔یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں کتب حدیث میں موجود ہے اور صاحب مشکوٰۃ نے اس حدیث کو اپنے اس مجموعہ حدیث کی سب سے پہلی کتاب،کتاب الایمان میں سب سے پہلے اسی حدیث کو درج فرمایا ہے۔اس حدیث میں حضرت جبریلؑ نے صحابہؓ رسولﷺکی موجودگی میں رسول اللہﷺسے چار سوال پو چھے تھے ؛ اوّل یہ کہ مجھے اسلام کے بارے میں خبر دیجیے،دوم یہ کہ مجھے ایمان کے بارے میں خبر دیں،تیسرے یہ کہ مجھے احسان کے بارے میں بتا ئیں اور چہا رم یہ کہ قیامت کے متعلق مجھے بتایئے۔جب رسول اللہﷺنے ان با تو ں کا جواب بتا دیا تو آپؐ نے صحا بہ ؓسے مخاطب ہو کر فرمایا کہ یہ جبریل ؑتھے جو تمہار پا س تمہارا دین سکھا نے آئے تھے۔
حضرت عمر ابن الخطاب ؓبیان فرماتے تھے کہ ایک دن ہم (صحابہؓ) رسول اللہﷺکی مجلس میں بیٹھے ہو ئے تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے درمیان آیا جس کا لباس نہایت صاف ستھرے اور سفید کپڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے بال نہایت سیاہ (اور چمکدار)تھے۔اس شخص پر نہ تو سفر کی کوئی علامت تھی اور نہ ہم میںسے کوئی اسے پہچانتا تھا۔وہ شخص نبی کریمﷺکے اتنے قریب آکر بیٹھا کہ آپﷺکےگھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا لیے اور پھر اس نے اپنے دو نو ں ہاتھ اپنی را نوں پر رکھ لیے۔اس کے بعد اس نے عرض کیا اے محمد ؐ! مجھ کو اسلام کی حقیقت سے آگاہ فرمائیں۔نبی کریمﷺنے فرمایا:اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔اور یہ کہ تو نماز پڑھے،زکوٰۃ دے،رمضان کے روزے رکھے اور اگر تجھے سفر کی طاقت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔اس پر اس شخص نے کہا :آپؐ بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔(حضرت عمر ؓکہتے ہیں کہ)ہمیں تعجب ہوا کہ یہ شخص خودہی پوچھتا بھی ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے۔اس کے بعد اس نے کہا ایمان کے متعلق کچھ بتائیں۔آپﷺنے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ کو ایک مانے اور اس کے فرشتو ں اس کی کتا بوں،اس کے رسولوں،یوم آخرت اور قدرِ خیر اور قدرِ شر پر یقین رکھے۔اس پر اس کہا :آپؐ ٹھیک کہتے ہیں۔پھر اس نے کہا مجھے احسان کے متعلق کچھ بتائیں۔اس پر آپﷺنے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے کہ گو یا تو اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔اور اگر تجھے یہ درجہ حاصل نہیں تو کم از کم یہ خیال رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔پھر اس نے کہا مجھے قیامت کی گھڑی کے متعلق کچھ بتائیں۔آپﷺنے فرمایاکہ جواب دینے والاسوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔اس کے بعد اس نے کہا مجھے اس کی علامات ہی بتا دیں۔آپﷺنے فرمایاکہ آثار قیامت میں سے ایک یہ ہے کہ لونڈی اپنے مالک کو جنے گی۔اور تو ننگے پاؤں والے،ننگے جسم والے بھوک کے مارے بکریاں چرانے والے لوگوں کو بڑی بڑی اونچی عمارتیں بناتے دیکھے گا۔حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص چلا گیا،میں کچھ دیر اسی تعجب میں رہا کہ نبی کریمﷺنے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ اے عمر ! تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟میں نےعرض کیا :اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔آپﷺنے فرمایا:یہ جبرئیل تھے جو تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔
صحیح بخاری کی روایت میں آخری بات یہ درج ہے کہ اس کے بعد وہ شخص واپس چلا گیا۔تو آپﷺنے (صحابہؓ سے) فرمایا:اسے واپس لاؤ۔تو صحابہ ؓنے وہاں کسی کو نہ پایا۔تب آپﷺنے فرمایا :یہ جبرئیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔(جامع ترمذی کتاب الا یمان باب فی وصف جبریل النبیﷺ٭… صحیح بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبیﷺ٭… صحیح مسلم کتاب الایمان۔سنن نسائی کتاب الایمان و شرائعہ)
کشف نمبر7:نبی کریمﷺکا حضرت جبریل ؑکو زمین و آسمان کے درمیان کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھنا
حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ بیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ میں ایک بار جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی میں نے آنکھ اٹھائی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ ہے جو حرا میں میرے پاس آیا تھا زمین و آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے۔(یہ دیکھ کر) مجھ پر ایک دہشت طاری ہو گئی اور میں (گھرواپس)لوٹ آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو،مجھے کپڑا اوڑھا دواور انہو ں نے مجھے کپڑا اوڑھا دیا۔اور پھر اللہ تعا لیٰ نے(یہ آیتیں) نازل فرمائیں:یٰآ یُّہَا الْمُدَّثِّرُ…۔(صحیح بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی،کتاب التفسیرباب و ثیابک فطہر،باب وربک فکبر،باب قولہ والرجز فاہجر)
کشف نمبر8:نبی کریمﷺکا غزوہ ٔاحزاب(خندق) میں ایک چٹان پر تین ضربات کے وقت فتوحات اسلامیہ کے تین کشفی نظارے دیکھنا
غزوہ احزاب یا جنگ خندق شوال 5؍ہجری میں پیش آیا تھا۔اس جنگ کے لیے عرب کے سب قبائل اکٹھے ہو کر اسلام کے خلاف صف آرا ہوئے تھے۔اس موقع پر اس لشکر عظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے نبی کریمﷺکے صحابی حضرت سلمان الفارسی ؓنے جنگی حکمت عملی کے لیے اور دفاعی نکتہ نگاہ سے خندق کھودنے کی تجویز دی جو قبول ہوئی۔اور اسلامی لشکر نے رسول اللہﷺکی راہ نمائی میں یہ خندق کھودی۔حضرت ابو سکینہ ؓسے روایت ہے کہ جب نبی کریمﷺنے خندق کھودنے کا حکم فرمایا تو سامنے ایک بہت بڑا پتھر حائل ہو گیا،جس نے صحابہ کرام ؓ کو خندق کی کھدائی سے روک دیا۔رسول اللہﷺکدال لے کر کھڑے ہو ئے اور اپنی چادر خندق کی ایک جانب رکھ دی اور آپؐ نے پڑھا:
وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔(الانعام:116)
یہ پڑھتے ہی اس پتھر کا ایک تہائی گر پڑا۔حضرت سلمان فارسی ؓ کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے کہ آپؐ کی پہلی ہی ضرب سے ایک بجلی سی چمکی۔پھر آپؐ نے دوسری ضرب لگائی اور پڑھا :
وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔(الانعام:116)
یہ پڑھتے ہی اس پتھر کا دوسرا تہائی گر پڑااور ایک بجلی سی چمکی جس کو حضرت سلمان فارسی ؓ نے دیکھا۔پھر آپؐ نے تیسری ضرب لگائی اور پڑھا :
وَ تَمَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدۡقًا وَّ عَدۡلًا ؕ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہٖ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔(الانعام:116)
یہ پڑھتے ہی اس پتھر کاباقی تہائی ٹکڑا بھی گر پڑا۔رسول اللہﷺخندق سے باہر تشریف لے آئے،اپنی چادر لی اور بیٹھ گئے۔حضرت سلمانؓ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں نے دیکھا کہ آپؐ کی کو ئی ضرب ایسی نہیں تھی جس کے ساتھ بجلی چمکتی ہو ئی دکھائی نہ دی ہو۔آپؐ نے فرمایا:اے سلمان!کیا تم نے یہ چمک دیکھ لی؟حضرت سلمانؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہﷺ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق دے کر بھیجا ہے ہاں دیکھ لی۔آپؐ نے فرمایا :جب میں نے پہلی ضرب لگائی تو میرے لیے کسریٰ کے شہر اور اس کا ماحول اور بہت سے شہر واضح کر دیے گئے یہاں تک کہ میں نے انہیں اپنی آنکھو ں سے دیکھا۔آپؐ کے بعض اصحاب ؓ نے آپؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ سے دعا کیجئے کہ ان شہروں کو اللہ ہمارے ہاتھو ں فتح کرائے اور ان کی اولاد ہمارا مال غنیمت ہو ںاور ان کا شہر ہمارے ہاتھوں تباہ ہو جائے۔چنانچہ آپؐ نے اس کی دعا فرمائی۔پھر آپؐ نے فرمایا:پھر میں نے دوسری ضرب لگائی تو میرے لیے قیصر کے شہر اور اس کا ماحول واضح کردیا گیا یہاں تک کہ میں نے انہیں اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔صحابہؓ نے آپؐ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ سے دعا کیجئے کہ ان شہروں کو اللہ ہمارے ہاتھوں فتح کرائے اور ان کی اولاد ہمارا مالِ غنیمت ہو ںاور ان کا شہر ہمارے ہاتھوں تباہ ہو جائے۔چنانچہ آپؐ نے اس کی دعا فرمائی۔اس کے بعد پھر آپؐ نے فرمایا:میں نے تیسری ضرب لگائی تو میرے لیے حبشہ کے شہر اور اس کے آس پاس کی آبادیاں ظاہر کر دی گئیں یہاں تک کہ میں نےانہیں اپنی آنکھو ں سے دیکھا۔(سنن نسائی کتاب الجہاد،حدیث:3176۔صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندق)
ایک دوسری روایت جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ’’ سیرت خاتم النبیین ‘‘ میں درج فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ’’خندق کھودتے کھودتے ایک جگہ سے ایک پتھر نکلا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آتا تھا اور صحابہ ؓکا یہ حال تھا کہ وہ تین دن کے مسلسل فاقہ سے سخت نڈھال ہو رہے تھے۔آخر تنگ آکر وہ آنحضرتﷺکی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا کہ ایک پتھر ہے جو ٹوٹنے میں نہیں آتا۔اس وقت آپؐ کا بھی یہ حال تھا کہ بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا مگر آپؐ فوراً وہاں تشریف لے گئے اور ایک کدال لے کر اللہ کا نام لیتے ہو ئے اس پتھر پر ماری۔لوہے کے لگنے سے پتھر میں سے ایک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے زور کے ساتھ اللہ اکبر کہا۔اور فرمایاکہ مجھے مملکت شام کی کنجیاں دی گئی ہیں۔اور خدا کی قسم اس وقت شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔اس ضرب سے وہ پتھر کسی قدر شکستہ ہو گیا۔دوسری دفعہ آپؐ نے پھر اللہ کا نام لے کر کدال چلائی اور پھر ایک شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرمایا اس دفعہ مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں۔اس دفعہ پتھر کسی قدر زیادہ شکستہ ہو گیا۔تیسری دفعہ آپؐ نے پھر کدال ماری جس کے نتیجہ میں پھر ایک شعلہ نکلا اور آپؐ نے پھر اللہ اکبر کہا اور فرمایااب مجھے یمن کی کنجیاں دی گی ہیں۔اور خدا کی قسم صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے جارہے ہیں۔اس دفعہ وہ پتھر بالکل شکستہ ہو کر اپنی جگہ سے گر گیا…۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد ؓصفحہ 577،ایڈیشن 1996ء۔دلائل النبوۃ از امام ابی بکر احمد بن حسین البیہقی(اردو ترجمہ) باب66،حدیث2تا4،جلددوم صفحہ274تا277،دارالاشاعت کراچی،پاکستان مئی 2009ء)
کشف نمبر9:نبی کریمﷺکا منبر بننے کے بعد کشفاً ستون سے رونے کی آواز کا سننا
حضرت جابر بن عبداللہ ؓبیان فرماتے تھے کہ ایک تنا تھا جس پر نبی کریمﷺ(خطبہ کے دوران) سہارا لیا کرتے تھے۔جب آپؐ کے لیے منبر بن گیا (اور آپؐ نے اس پر سہارا نہ لیا)تو ہم نے اس سے قریب الولادت اونٹنی کے سے رونے کی آواز سنی۔پھر نبی کریمﷺنے منبر سے اتر کر اپنا دست مبارک اس پر رکھا۔(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب الخطبۃ علی المنبر)
یہ مذکورہ روایت حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓاور حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے مختلف الفاظ میں مروی ہے۔یہ کشفی نظارہ صرف نبی کریمﷺتک محدود نہ تھا بلکہ جو صحابہ ؓاس جمعہ پر حاضر تھے انہو ں نے بھی یہ کشفی منظر دیکھا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ اس کھجور کے تنے سے بچوں کی طرح رونے کی آواز آنے لگی۔نبی کریمﷺمنبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے اپنے آپ سے لگایا جس طرح بچوں کو چپ کروانے کے لیے کیا جاتا ہے اسے اسی طرح چپ کرایا۔اور پھر فرمایاکہ یہ تنا اس لیے رو رہا تھا کہ یہ ا للہ تعا لیٰ کے اس ذکر کو سنتا تھا جو اس کے قریب ہوا کرتا تھا۔( صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب علامات النبوۃ فی الاسلام)
(نوٹ:امام ابی بکر احمد بن حسین البیہقی ؒنے اپنی تصنیف ’دلائل النبوۃ‘میں اس تعلق میں اٹھارہ18مختلف روایات کو جمع کیا ہے۔ملاحظہ ہو:دلائل النبوۃ از امام ابی بکر احمد بن حسین البیہقی(اردو ترجمہ) باب110،حدیث1تا 18،جلداوّل صفحہ 581تا585،دار ا لاشاعت کراچی،پاکستان مئی 2009ء)
کشف نمبر10:نبی کریمﷺکے سامنے کشفاً آپﷺکی امت کے نیک وبد اعمال کا پیش کیا جانا
حضرت ابو ذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ میرے سامنے میری امت کے نیک وبد اعمال پیش کیے گئے۔میں نے اس کے نیک اعمال میں تو راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا پایا اور برے اعمال میں مسجد کے اندر تھوکنا دیکھا جس کو دبایا نہ گیا ہو۔(مشکوٰۃ المصابیح کتاب الصلوٰۃ باب المساجد حدیث نمبر 657)
حضرت انس بن مالک ؓبیان فرماتے تھے کہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ میرے سامنے میری امت کے نیک اعمال پیش کیے گئے جن پر اجر و ثواب ملتا ہے،یہاں تک کہ وہ کوڑا کرکٹ بھی پیش کیا گیا جسے آدمی مسجد سے نکالتا ہے۔اور میرے سامنے میری امت کے گناہ بھی پیش کیے گئے تو میں نے اس سے بڑا گناہ کوئی اور نہ دیکھا کہ قرآن کی کوئی سورت یا قرآن کی کسی آیت کا علم کسی بندے کو دیا گیا ہو اور پھر وہ بندہ اسے بھول گیا ہو۔(الترغیب والترھیب لامام حافظ زکی الدین المنذری المتوفی656 ہجری،کتاب الصلوٰۃ باب الترغیب فی تنظیف المساجد،حدیث6 مجموعی حدیث نمبر429۔مشکوٰۃ المصابیح کتاب الصلوٰۃ باب المساجد حدیث نمبر667)
کشف نمبر11:نبی کریمﷺکا کشفاً ایک ایسے فرشتےکو دیکھنا جو اس سے پہلے کبھی نازل نہ ہوا تھا
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ (ایک دن) جب حضرت جبریل ؑنبی کریمﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے اوپر کی طرف دروازہ کھلنے کی سی آواز سنی،چنانچہ انہوں نے اپنا سر اوپر اٹھا لیا اور کہا کہ یہ آسمان کا دروازہ ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھو لا گیا۔تب اس دروازہ سے ایک فرشتہ اترا۔حضرت جبرئیل ؑنے کہا کہ یہ فرشتہ آج سے پہلے کبھی زمین پر نہیں اترا۔پھراس فرشتے نے( نبی کریمﷺکو)سلام کیا اور کہاکہ خوشخبری ہو کہ آپؐ کو وہ دو نور عطا کیے گئے ہیں جو آپؐ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔اور وہ سورت الفاتحہ اور سورت البقرہ کا آخری حصہ (دو آیات) ہیں۔آپؐ اس کا جو حرف بھی پڑھیں گے اس کا آپؐ کو اجر وثواب ملے گا یا آپؐ کی دعا قبول کی جائے گی۔(سنن نسائی کتاب الافتتاح حدیث نمبر912مشکوٰۃ المصابیح کتاب فضائل القرآن حدیث نمبر:2021 بحوالہ صحیح مسلم)
کشف نمبر12:نبی کریمﷺکا کشفاً بعض قبروں سے قبر والو ں کو ملنے والے عذاب کا سننا
حضرت زید بن ثابت ؓبیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہﷺکے ساتھ بنو نجار کے ایک باغ کے پاس تھے آپﷺایک خچر پر سوار تھے کہ اچانک خچر بدک گیا اور قریب تھا کہ آپؐ کو گرا دے۔وہاں پانچ چھ قبریں تھیں۔آپﷺنے فرمایا:کسی کو ان قبروالو ں کا علم ہے؟ایک شخص نے کہا مَیں جانتا ہو ں۔آپؐ نے فرمایا:یہ کب مرے تھے؟اس شخص نے بتایا کہ یہ (حالت) شرک میں مرے ہیں۔تو آپؐ نے فرمایاکہ یہ امت قبروں میںآزمائی جاتی ہے۔اگرمجھ کو یہ خوف نہ ہو تا کہ تم (مردوں کو) دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں ضرور اللہ سے دعا کرتا کہ وہ تم کو بھی عذاب قبر کی( اس آواز) کو سنا دے جس کو میں سن رہا ہوں۔اس کے بعد آپؐ ہماری طرف متوجہ ہو ئے اور فرمایا:آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔صحابہؓ نے عرض کیا :ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپؐ نے فرمایا:قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگو۔صحابہؓ نے فرمایا:عذاب قبر سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں!آپؐ نے فرمایا:ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔صحابہؓ نے فرمایا:ہم ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں! آپؐ نے فرمایا:دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگو۔صحابہؓ نے فرمایا:ہم دجال کے فتنے سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبرحدیث نمبر:121)
کشف نمبر13:نبی کریمﷺکے لیے حضرت سعد بن معاذ ؓکی وفات پر بعض کشفی امور کا ظہور
حضرت جابر ؓبیان فرماتے تھے کہ ہم حضرت سعد بن معاذ ؓکی وفات کے بعد رسول اللہﷺکے ہمراہ ان کے جنازے پر گئے۔جب آنحضرتﷺنماز جنازہ ادا فرماچکے حضرت سعد ؓکو قبر میں اتار کر قبر کی مٹی برابر کر دی گئی تو رسول اللہﷺنے کچھ دیر تک تسبیح پڑھی اور ہم نے بھی تسبیح پڑھی۔پھر آپﷺنے تکبیر کہی اور ہم نے بھی تکبیر کہی۔(اس پر) رسو ل اللہﷺسے پوچھا گیا کہ آپﷺنے تسبیح اور تکبیر کیوں پڑھی ہے؟آپﷺنے فرمایاکہ اس بندۂ صالح پر اس کی قبر تنگ ہو گئی تھی پھر اللہ تعا لیٰ نے( ہماری تسبیح اور تکبیر سے) اسے کشادہ کر دیا۔(مشکوٰۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبرحدیث نمبر 127)
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓبیان فرماتے تھےکہ رسول اللہﷺنے فرمایاکہ یہ (یعنی سعد ابن معاذ ؓ)وہ شخص ہے کہ جس کے لیے عرش نے حرکت کی اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھو لے گئے اور ستر ہزار فرشتے( ان کے جنازے کے لیے) حاضر ہوئے۔ان کی قبر تنگ ہو گئی پھر یہ تنگی دور ہو گئی۔(مشکوٰۃ المصابیح باب اثبات عذاب القبرحدیث نمبر128)
صحیح بخاری میں حضرت سعد بن معاذ ؓکے مناقب کی روایت میں صرف اتنا ہی ذکر ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ سعد بن معاذ ؓکی وفات پر رحمان کا عرش لرز گیاتھا۔(صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب مناقب سعد بن معاذؓ)
کشف نمبر14:نبی کریمﷺکا کشفاً امت میں برپا ہونے والے فتنوں کو دیکھنا
حضرت اسامہ بن زید ؓبیان فرماتے تھے کہ نبی کریمﷺمدینہ کے ٹیلو ں میں سے ایک ٹیلے پر چڑھے اور فرمایاکہ میں جو کچھ دیکھتا ہو ں تم بھی دیکھتے ہو؟لو گوں نے کہا کہ نہیں۔پھر آپؐ نے فرمایا:میں فتنوں کو دیکھتا ہو ں کہ وہ تمہارے گھروں کے درمیان اس طرح گر رہے ہیں جیسے بارش برستی ہے۔( صحیح بخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺویل للعرب)
کشف نمبر15:نبی کریمﷺکے اپنے مقام سے متعلق ایک کشفی نظارہ
حضرت ابو ذر غفاریؓ بیان فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺسے یہ عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ آپؐ کو اپنے نبی ہو نے کا علم کیسے ہوا کہ آپؐ کو اپنے نبی ہو نے کا یقین ہو گیا؟رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اے ابو ذر مَیں مکہ کی ایک وادی میں تھا کہ دو فرشتے آئے۔ایک زمین پر اترآیا اور دوسرا زمین و آسمان کے درمیان لٹکا رہا۔ایک نے دوسرے سے پوچھا کیا یہ وہی ہیں؟اس نے کہا ہاں۔پھر اس نے کہا اس کا ایک آدمی سے وزن کرو۔میرا ایک آدمی کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں بھاری رہا۔پھر اس نے کہا ان کا دس آدمیوں کے ساتھ وزن کرو۔میرا دس آدمیوں کے ساتھ وزن کیا گیا تو میں دس پر غالب رہا۔پھر اس نے کہا سو آدمیو ں کے ساتھ ان کا وزن کرو۔مجھے سو آدمیو ں کے ساتھ تولا گیا تو میں ان پر بھی بھاری تھا۔پھر اس نے کہا ان کا ہزار آدمیوں کے ساتھ وزن کرو۔مجھے ان کے ساتھ تو لا گیا تو میں ان پر بھی غالب آگیا اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ ترازو ہلکا ہو نے کی وجہ سے وہ مجھ پر گر پڑیں گے۔پھر ان (دو فرشتو ں)میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ اگر تم ان کا وزن ان کی امت کے ساتھ کرو گے تو یہ ان پر بھی بھاری ہو ں گے۔(مشکوٰۃ المصابیح باب فضائل سید المرسلینﷺحدیث 5525)
کشف نمبر16:نبی کریمﷺکے اپنے مقام سے متعلق ایک اَور کشفی نظارہ
خادم رسولﷺحضرت انس بن مالک ؓبیان فرماتے تھے کہ نبی کریمﷺنہایت غمگین اور زخموں کے خون میں لتھڑے ہو ئے بیٹھے تھے،جو اہل مکہ نے پہنچائے تھے کہ اتنے میں حضرت جبرائیل ؑآپؐ کے پاس حاضر ہو ئے اور کہا:یارسول اللہﷺ! اگر آپؐ پسند کریں تو میں آپؐ کو (آپؐ کا) ایک معجزہ دکھا ؤں ( جو آپؐ کی نبوت و رسالت کی علامت ہو گی اور جس سے آپؐ کو تسلی ہو جائے گی کہ اللہ کی را ہ میں یہ اذیت و پریشانی اٹھانا آپؐ کے مراتب و درجات کی بلندی میں اضافے کا باعث ہے)۔آپؐ نے فرمایاکہ ہاں۔پھر جبرئیل ؑنے اس درخت کی طرف دیکھا جو ان کے پیچھے تھا اور پھر آپؐ سے فرمایا کہ اس درخت کو بلائیں۔رسول اللہﷺنے اس درخت کو بلایا تو وہ آپؐ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔حضرت جبرئیل ؑنے کہا اب اس کو واپس جانے کا حکم دیں۔رسول اللہﷺنے اسے واپس جانے کا حکم د یا تو وہ درخت واپس(اپنی جگہ) چلا گیا۔رسو ل کریمﷺنے یہ دیکھ کر فرمایا کہ مجھ کو کافی ہے،مجھ کو کافی ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح باب فی المعجزات،حدیث 5670)
کشف نمبر17:نبی کریمﷺکے اپنے منبر پر چڑھتے وقت جبرئیل ؑکا ظاہر ہو نا اور آپﷺکا تین بارآمین کہنا
حضرت کعب بن عجرہ ؓ،حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت جابر بن عبد اللہ ؓبیان فرماتے تھے کہ ایک دن رسول اللہﷺمسجد میں تشریف لائے اور اپنے منبر پر قدم رکھا۔جب پہلا قدم رکھا تو آپؐ نے آمین کہی،پھر دوسرا قدم رکھا تو پھر آمین کہی اور پھر تیسرا قدم رکھا تو پھر آمین کہی۔آپؐ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہﷺیہ کیا تھا کہ آپ نے تین مرتبہ آمین کہی؟تو آپﷺنے فرمایا کہ جب میں نے (منبر کی) پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو جبرئیل ؑمیرے سامنے آئے اور کہا:وہ شخص بڑاہی بد بخت ہے جس نے رمضان پایا اور وہ گزر گیا اور اس کے گناہ نہ بخشے گئے۔تو میں نے کہا آمین۔پھر جبرئیل ؑنے کہا کہ وہ بڑاہی بد بخت ہے جس نے اپنے دونوں والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا اور وہ ان کی(خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو سکا۔اس پر میں نے کہا آمین۔پھر جبرئیلؑ نے کہا کہ وہ شخص بڑاہی بد بخت ہے جس کے سامنے آپؐ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپؐ پر درود نہ بھیجا۔تو میں نے کہا آمین۔(الادب المفرد از امام بخاریؒ،باب من ذکر عندہ النبیﷺفلم یصل علیہ،حدیث 646،دارالصدیق الجبیل سعودی عرب،1421ہجری،2000ء٭…صحیح مسلم حدیث 2551٭…مسند احمد حدیث 7451-8557۔٭…’القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیعﷺ‘از امام محمد بن عبد الرحمن السخاوی ؒ،باب الثالث فی التحذیر من ترک الصلوٰۃ علیہ عند ما یذکر،حدیث نمبر1تا2صفحہ 292تا298،شائع کردہ مؤسسۃ الریان المدینہ المنورہ 2002ء)
کشف نمبر18:نبی کریمﷺکے سامنے دیگر امتوں اور اپنی امت کا کشفاًپیش کیا جانا
حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ بیان فرماتے تھے کہ نبی کریمﷺنے فرمایاکہ میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں،کسی نبی کے ساتھ پوری امت گزری،کسی نبی کے ساتھ چند افراد گزرے،کسی نبی کے ساتھ دس افراد گزرے،کسی نبی کے ساتھ پانچ افراد گزرے اور کوئی نبی تنہا گزرے۔پھر میں نے دیکھا کہ انسانوں کا ایک بہت بڑا گروہ ہے میں نے جبریل ؑ سے پوچھا کیا یہ میری امت ہے ؟انہو ں نے کہا نہیں۔بلکہ کہا کہ افق کی طرف نظر فرمائیں۔تو میں نے دیکھا کہ انسانو ں کا ایک جم غفیر ہے۔جبریل ؑنے کہا کہ یہ آپؐ کی امت ہے اور یہ ستر ہزار لو گ جو ان کے آگے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ نہ جن سے حساب کتاب ہو گا اور نہ ہی ان پر کوئی عذاب ہو گا۔میں نے پوچھا کہ ایسا کیوں ہو گا؟جبریل ؑنے بتایا کہ اس لیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو داغ نہیں لگواتے تھے،چوری نہیں کرتے تھے،شگون نہیں لیتے تھے اور صرف اپنے ربّ پر توکل کرتے تھے۔(اس پر) حضرت عکاشہ بن محصن ؓ کھڑے ہو ئے اور نبی کریمﷺسے عرض کیا کہ اللہ سے دعافرمائیں کہ وہ مجھے ان لوگو ں میں شامل فرمائے۔نبی کریمﷺنے ان کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ! انہیں بھی ان میں شامل فرما لے۔اس کے بعد ایک اور صاحب کھڑے ہو ئے اور عرض کی کہ میرے لیے بھی اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے بھی ان لو گو ں میں شامل فرمالے۔اس پر نبی کریمﷺنے فرمایاکہ عکاشہ تم سے سبقت لے جاچکا ہے۔( صحیح بخاری کتاب الرقاق،باب یدخل الجنۃ سبعون الفا ًبغیر حساب)
نبی کریمﷺکے بہت سے کشفی واقعات محدثین نے اپنی کتب میں جمع کیے ہیں مثلاً شق صدر،درختوں کا چل کر نبی کریمﷺکے پاس آنا،کنکریوں کا تسبیح کرنا،غزوات میں فرشتوں کا شامل ہوناوغیرہ۔یہ سب واقعات نبی کریمﷺکے معجزات کے بیان میں اور آثار و علامات نبوت کے بیان میں ملتے ہیں۔امام سیوطی ؒنے الخصائص الکبریٰ میں،امام ابن کثیرؒ نے اپنی تاریخ میں اور امام بیہقی ؒنے دلائل النبوۃ میں ان کو جمع کیاہے۔
حرف آخر
رؤیا اور خواب کے مو ضوع پر قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی کتب کے علمی ذخیرے میں کثیر مواد موجود ہے۔انہی کتب کی خوشہ چینی کرتے ہو ئے اللہ تعا لیٰ کی دی ہو ئی تو فیق سے بکھرے ہو ئے مو تیو ں کو جمع کر کے چند صفحات تقرب اِلی َاللہ کی خا طر اور ثواب اخروی کی غرض سے تحریر کیے ہیں۔
تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنِّیْ! اَللّٰہُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِہٖ بِعَدَدِ ہَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَحُزْنِہٖ لِہٰذِہِ الْاُ مَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلیَ الْاَبَدِ۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
٭…٭…٭