امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ جماعت احمدیہ فن لینڈ کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس، ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 7؍نومبر 2021ء کو نیشنل عاملہ جماعت احمدیہ فن لینڈ کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ ممبران مجلس عاملہ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کے مشن ہاؤس واقع Helsinki، فن لینڈسے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کے بعد حضورِانور نے جملہ حاضرین سے گفتگو فرمائی اور جملہ شاملین کو حضورِانور سے مختلف امور کی بابت راہنمائی اور ہدایات حاصل کرنے کی توفیق ملی۔
حضورِانور نے ممبران مجلس عاملہ کو بھرپور توجہ دلائی کہ نماز کی ادائیگی ہر مسلمان کی بنیادی ذمہ داری اور لازمی جزو ہے نیز یہ کہ جملہ اراکین مجلس عاملہ کو اس حوالے سے عملی نمونہ ہونا چاہیے۔
حضورِانور نے مزید فرمایا کہ ممبران مجلس عاملہ کو وقت کی قربانی اور وقف عارضی کے حوالہ سے بھی مثالی نمونہ قائم کرنا چاہیے جہاں وہ دین کی خدمت کے لیے وقت کی قربانی کرتے ہیں۔
سیکرٹری صاحب مال نے اپنا تعارف کروایا تو حضورِانور نے فرمایا کہ اچھا ماشاء اللہ۔ وصایا میں لوگ اپنی حصہ آمد کا فارم صحیح پُر کرتے ہیں؟
(سیکرٹری صاحب مال نے عر ض کی )حضور اس میں کچھ کنفیوژن (confusion)ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا چندہ لگتا ہے کہ اس سے زیادہ ہونا چاہیے، بجٹ صحیح نہیں ہے انہیں اس طرف توجہ بھی دلائی جاتی ہے۔
حضور انورنے فرمایا کہ انہیں کہیں کہ اگر وصیت کی ہے تو سچ بول کے اپنی آمد پہ چندہ ادا کرو، نہیں تو اگر مجبوری ہے، چندہ صحیح طرح ادا نہیں کرسکتے تو وصیت کو منسوخ کرا لو پھر بعد میں جب حالات بہتر ہو جائیں گے پھر وصیت کر لینا۔ وصیت میں سچائی وصیت کرنے سےزیادہ ضروری ہے۔
اس کے بعد حضورِانور نے چندہ عام دینے والوں کے متعلق دریافت فرمایا۔ (سیکرٹری صاحب مال نے عر ض کی) حضور چندہ عام دینے والوں میں کچھ کمزوری ہے، اس میں سے اکثر non earning ممبرز بھی ہیں تو اکثر کا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ہمیں تو الاؤنس ہی بہت تھوڑا سا ملتا ہے جس میں خرچہ پورا نہیں ہوتا، تو اس حوالے سے تھوڑی کمزوری ہے۔
حضورِانورنے فرمایا کہ ٹھیک ہے ان سے کہو پھر آپ کو الاؤنس تھوڑا ملتا ہے تو آپ رخصت لے لیں۔ چندہ جتنا دے سکتے ہیں اتنا ہی دیں بیشک لیکن اپنی آمد کم نہ لکھوائیں۔ کہہ دیں ہماری جو بھی آمد ہے ناں ہم اس کے مطابق چندہ نہیں دے سکتے اور ہمیں کم شرح سے چندہ دینے کی اجازت دی جائے۔ وہ اجازت لے لیں، میں اجازت دے دیا کرتا ہوں ہر ایک کو۔
حضورِانورنے مزید فرمایا کہ لوگوں کو سچائی پہ قائم کریں۔ زبردستی نہ کریں۔ کوئی ٹیکس تو ہے نہیں یہ۔ جن کی مجبوریاں ہیں ان کی مجبوری کو ہم مان لیتے ہیں لیکن یہ ہے کہ پھر وہ لکھیں کہ ان حالات میں ہماری آمد کے مطابق چندہ دینا ہمارے لیے مشکل ہے، ہمیں چھوٹ دی جائے کہ ہم اس کے مطابق چندہ اتنی شرح سے دیں تو لے لیا کریں۔
ایک ممبر مجلس عاملہ نے عرض کی کہ بڑھتے ہوئے عائلی مسائل کو کس طرح بہتر کیا جا سکتا ہے؟
حضورِانور نے فرمایا کہ میری ایک کتاب ہے ’عائلی مسائل اور ان کا حل‘۔ اس کو پڑھیں اور اس کے اقتباس نکال کے اپنے گھروں میں دیں۔ اور دوسرے یہ کہ صبر اور حوصلہ۔ مردوں عورتوں میں صبر کی کمی ہے۔ ذرا سی بات ہوتی ہے تو انتہا پہ پہنچ جاتی ہیں۔ تو مردوں کو بھی نرمی اور پیار کا سلوک کرنا چاہیے، عورتوں میں بھی برداشت پیدا ہونی چاہیے اور اس کے لیے مختلف وقتوں میں سیکرٹری تربیت کا کام ہے، اصلاحی کمیٹی اور تربیت مختلف پروگرام بناتے رہیں تا کہ مردوں اور عورتوں دونوں کی ٹریننگ ہوتی رہے اور معاملے امورعامہ کے پاس تو تب آتے ہیں جب بگڑتے ہیں۔ اس سے پہلے پہلے اگر اپنےسیکرٹری تربیت کو فعال کر دیں ،اگر آپ کے سیکرٹری تربیت اچھا کام کرنے والے ہیں تو مسائل آپ کے پاس کم آئیں گے اور حل ہو جائیں گے۔
ایک حاضر مجلس دوست نے عرض کی کہ یہاں سکولوں میں اسلام کی تعلیم بھی ایک مضمون کے طور پر سکھائی جاتی ہے لیکن گورنمنٹ کی طرف سے کوئی نصاب مقرر نہیں ہے جس کی وجہ سے اساتذہ اپنی مرضی سے اسلام کے غلط عقائد معصوم بچوں کو سکھاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں تحریف ہو چکی ہے اور اس طرح کی چیزیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ نہیں تویہ غلط ہے ناں۔ آپ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو لکھیں کہ یہ آپ غلط پڑھا رہے ہیں، اسلام یہ نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ لوگوں کی جماعت وہاں قائم ہے تو اپنا منسٹری آف ایجوکیشن میں، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اتنا اثر و رسوخ ہو جانا چاہیے اب تک کہ آپ ان کو لکھ کر کہیں اور اخباروں میں بھی لکھیں کہ بچوں کو جو پڑھایا جا رہا ہے یہ غلط طریقے سے پڑھایا جا رہا ہے اور اصل اسلام کی تعریف یہ ہے اور یہ ثابت شدہ ہے کہ قرآن کریم intact ہے، اپنی اصلی حالت میں اور اب تو بہت سارے ان کے اپنے لوگوں کی گواہیاں پیش ہیں۔ برمنگھم میں بھی ان کے ہاں ایک exhibition ہوا تھا وہاں انہوں نے ثابت کیا، دکھایا، اَور جگہوں پہ آرٹیکل بھی آ چکے ہیں، غیروں کے بھی آ چکے ہیں اور ثابت کر سکتے ہیں اور یہ قرآن کریم کا اپنا دعویٰ بھی ہے تو اس کے لیے آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہیے۔ اگر یہ کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں؟ اب جرمنی میں انہوں نے کوشش کی ہے تو وہاں انہوں نے پھر کہا اچھا پھر سکولوں میں پڑھانے کے لیے ہم نے سلیبس بنانا ہے، بتاؤ۔ مختلف فرقوں نے اپنے اپنے سلیبس بھیجے لیکن جماعت احمدیہ نے سکول کے لیے اسلام کی بنیادی تعلیم کا جو سلیبس بھیجا تھا اس کو انہوں نے accept کر لیا اور وہی پڑھایا جاتا ہے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں چھیڑنا، ہم نے اسلام کی بنیادی تعلیم، بنیادی عقائد، ارکانِ اسلام، ارکانِ ایمان، قرآنِ کریم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام یہ چیزیں اور مشہور حدیثیں، اس قسم کی باتیں اور جو authentic تاریخ ہے وہ۔ یہ چیزیں دی جائیں اور اس کو انہوں نے acceptکر لیا جہاں کسی فرقے کا کوئی بیان نہ ہو اور وہ ہر ایک کو منظور ہواور اس کے بعد قبول ہو گیا تو اسی طرح آپ لوگ بھی کوشش کریں۔ کیوں نہیں وہاں کوشش کرتے؟ اور پہلی بات تو یہ ہے کہ اخباروں میں لکھیں اور باربار مختلف احمدیوں کی طرف سے لکھا جائے کہ اس طرح پڑھایا جا رہا ہے یہ تو آپ لوگوں کو غلط تعلیم دے رہے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ کیا اسلام ہے۔ ہمارے سے تو نہیں پوچھا جاتا آپ کس طرح بیٹھ کے یہ بنا رہے ہیں۔ تو اس طرح کوشش کرنی پڑے گی، اس کے لیے پوری طرح مہم چلائیں۔
(ان دوست نے عرض کی) جی حضور۔ اس سلسلہ میںایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کیا ہے۔ اب انشاء اللہ اخباروں میں بھی لکھیں گے۔
حضور انورنے فرمایا کہ ہاں اخباروں میں لکھیں، باربار لکھیں۔ یہاں کوئی شورمچاؤ پروٹسٹ کرنے کی اور شور سننے کی ان کو عادت ہے، جب شور مچائیں گے، لکھیں گے، بچوں کی طرف سے بھی جائے گا، ماں باپ کی طرف سے جائے گا، بے شمار خط آئیں گے، جتنا بھی ان کا میڈیا ہے اس میں لکھیں تو ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ والےآپ ہی پریشرائزڈ ہو جائیں گے۔
ایک دوست نے عرض کی کہ حضور تبلیغی حوالے سے ایک سوال تھا کہ مختلف پروگرامز کے ذریعہ جب تبلیغی رابطے بنتے ہیں تو لوگوں کی طبیعت میں کم گوئی کی وجہ سے وہ رابطے قائم رکھنے میں مشکل ہوتی ہے تو اس سے متعلق حضور کی کیا راہنمائی ہے، کس طرح رابطے قائم رکھے جائیں؟
حضورِانور نے استفسار فرمایا کہ کون کم گو ہے، سننے والا یا بولنے والا؟
(انہوں نے عرض کیا کہ)حضور جو فنش عوام ہے ان کی طبیعت میں کافی shyness ہے، یہ جلدی اوپن نہیں ہوتے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تو پھر ذاتی رابطے بنائیں، دوستیاں بنائیں، تعلق رکھیں۔ اپنے ہمسایوں سے تعلق رکھیں، ہمسایوں کو پتہ لگے۔ مختلف سیمینار کریں آپ ان کو اس میں بلائیں۔ چھوٹے موٹے پیمانے پہ سیمینار کریں، مہینے میں، دو مہینے میں، تین مہینے میں ایک سیمینار ہو جائے۔ انٹرفیتھ پروگرام ہوجائے، کوئی اس طرح کی چیز ہو جائے اس میں بلائیں اور وہاں یہ آپ کی باتیں سنیں۔ جب سنیں گے تو خود ہی سوال کریں گے۔ آہستہ آہستہ introduction ہو گی، پھر اخباروں میں خط لکھیں کہ اسلام کیا چیز ہے، اسلام کی تعلیم کیا چیز ہے، امن کیا چیز ہے، امن دنیا میں کس طرح قائم ہو سکتا ہے، اسلام کا کیا نظریہ ہے امن کے بارے میں۔ اور موجودہ contemporary issues کے اوپر اصل رائے کیا ہونی چاہیے، ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری کیا رائے ہے وہ لکھیں تو پھر ان کو توجہ پیدا ہو گی کہ ہاں یہ لوگ صرف پرانی دقیانوسی باتیں نہیں کرتے، صرف مذہب مذہب کی بات کر کے ہمیں ورغلا نہیں رہے بلکہ یہ contemporary issuesکے اوپر بھی بات کر کے ہمیں گائیڈ کر سکتے ہیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ کھلیں گے تو واقفیت پیدا ہو جائے گی انشاء اللہ۔
فرمایا کہ فنش لوگ جن کی آپ کے ساتھ دوستیاں ہیں اگر کسی کی ذاتی دوستی ہے، میں جانتا ہوں بعضوں کو جن کی ذاتی دوستیاں ہیں ان کے ساتھ تو وہ بڑے کھل کے باتیں کرتے ہیں۔ تو ذاتی تعلق بنانے کی بات بھی ہے۔ لیکن ذاتی تعلقات بنانے کے علاوہ اسلام کے بارے میں آپ کو ایک اووَر آل پکچر (overall picture)دینی پڑے گی اور وہ سوشل میڈیا اور اخبار اور مختلف طریقوں سے دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور پھر gathering، سیمینار میں اس طرح کی باتیں کریں۔
ایک اَور دوست نے سوال کیا کہ پیارے حضور لوگوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کا شوق کیسے پیدا کیا جائے؟
حضورِانور نے فرمایا کہ کیسے پیدا کیا جائے؟ مختلف topics کے اوپرچھوٹے چھوٹے اقتباس بنا کے، ان کو ٹائپ کر کے، پرنٹ نکال کے لوگوں کو دیں ۔ ایک کتاب کو لگاتار پڑھنا لوگوں کے لیے جن کو پڑھنے کا شوق ہی نہیں مشکل ہے۔ تو وہ اقتباسات آپ دیں گے تو اس ٹاپک (topic)کے اوپر کچھ نہ کچھ توجہ پیدا ہو گی۔ انگلش میں، اردو میں ٹائپ کر کے گھروں کو دیا کریں۔ کتابیں نہیں تو کم از کم اقتباسات ہی پڑھنا شروع کر دیں گے۔ الفضل میں اقتباسات آتے ہیں جو روزنامہ الفضل میں اور جو انٹرنیشنل الفضل ہے اس میں پہلے صفحہ پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقتباسات آتے ہیں وہی نکال کے دے دیا کریں لوگوں کو تو کچھ نہ کچھ تو کم از کم پتہ لگ جائے گا ناں۔ باقی آج کل رجحان ہی نہیں پڑھنے کا۔ آج کل تو رجحان یہ ہے کہ سوشل میڈیا پہ دیکھ لو، سن لو، تیس سیکنڈ کے اندر اندر جو بات کان میں پڑ جائے وہ دیکھ لو۔ یا ٹی وی پہ بیٹھ کے پروگرام دیکھ لو۔ اس کی طرف رجحان زیادہ ہو گیا ہے اور یا پھر آڈیو بُکس بنائیں۔ وہ بنا کے دیں تا کہ ٹریول (travel)کرتے ہوئے، ٹیکسی چلاتے ہوئے، اِدھر اُدھر جاتے ہوئے کانوں پہ لگا لیں، وہ سن لیں۔ وہ بھی دلچسپی کا سامان ہو جاتا ہے۔ پڑھنے کا رواج ویسے ہی کم ہو گیا ہے عموماً۔ اس لیے ایک تو مختلف ٹاپکس کے چھوٹے چھوٹے اقتباسات لیں، آج کل کے جو ٹاپکس ہیں contemporary، نمازوں کی ضرورت، خدا کی وحدانیت۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کی، existance of Allah کی ضرورت ہے کہ نہیں ہے ، اور یہ سب بہت سارے ٹاپکس ایسے ہیں تو ان کے اوپر اقتباس نکال کے،پرنٹ کر کے لوگوں کو بھیجیں۔ پھر آڈیو بنا کے بھیجیں تو اس طرح لوگوں کو کم از کم کچھ نہ کچھ تو آواز کان میں پڑے گی ناں۔ کتابیں پڑھنے کا اب رواج نہیں رہا۔ کتابیں سننے کا رواج ہے۔ آڈیو بکس بنا دیں۔ اس لیے الاسلام نے بھی بہت ساری آڈیو بکس بنائی ہوئی ہیں ان کو بھی دیکھیں۔ ڈاؤن لوڈ کر کے سن سکتے ہیں یا ریکارڈ کر کے لوگوں کو دے سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے ناں!آپ لوگوں کو بیان کرنے سے پہلے اپنے گھروں میں بیان کریں۔ پہلے تو بچوں کے ساتھ اتنی دوستی رکھیں کہ بچے جب سکول سے آئیں تو بتائیں کہ آج سکول میں اس بارے میں ہمیں کیا پڑھایا اور پھرآپ اس کو بتائیں کہ تمہاری عمر کیا ہے اور بعض باتیں جو تمہیں اب بتائی جا رہی ہیں تمہیں تو اس کا شعور بھی نہیں ہے، تمہیں سمجھ بھی نہیں آ سکتی کہ کیا چیز ہے اور کیا چیز نہیں ہے۔ جب تم بالغ ہو گے تمہیں سمجھ آئیں گی۔ پھر تم دوبارہ سوال پوچھنا پھر تمہیں سمجھایا جائے گا اور پھر جو سوال تمہارے ذہن میں اٹھیں ان کے جواب بھی تمہیں مل جائیں گے۔ پھر مذہب اس کے بارے میں کیا کہتا ہے ان بچوں کے لیول پہ رکھ کے، پانچ سال کا بچہ، آٹھ سال کا بچہ، دس سال کا بچہ، بارہ سال کا بچہ، پندرہ سال کا بچہ اور ان سے بے تکلف ہو کے پھر ان سے باتیں کرنی پڑیں گی، نہیں تو دوسروں کی اصلاح کرتے کرتے آپ اپنے بچوں کو ضائع نہ کر دیں۔ اصل فکر یہ کرنی چاہیے۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ بعض دفعہ افراد قرآنِ کریم صحیح تلفظ سے نہ پڑھنے کا عذر یہ بیان کرتے ہیں کہ عربی ہماری مادری زبان نہیں تو ان کو اس طرف کیسے توجہ دلائی جا سکتی ہے؟
حضور انورنے فرمایا کہ ان سے کہو بالکل ٹھیک کہتے ہیں آپ کی مادری زبان نہیں ہے اس لیے ہم آپ کو کلاسیں شروع کرو ادیتے ہیں تا کہ آپ کا تلفظ ٹھیک ہو۔ دیکھو ایک چیز ہے گلے سے آوازیں نکالنا۔ ق، ض، د،ب کرنا، وہ حافظوں کی طرح وہ نہیں پڑھ سکتا کوئی، میں بھی نہیں پڑھ سکتا۔ صرف یہ ہے کہ صحیح تلفظ زبر، زیر، پیش، مدّ، شدّ، جو ہے اس کی ادائیگی صحیح ہونی چاہیے۔ تو یہاں قراءت کا سوال نہیں ہے، ترتیل اور تجوید سکھانے کا سوال ہے وہ آپ نے سکھانی ہے۔ وہ سکھائیں۔
٭…٭…٭