بانئ اسلام اور بائبل مقدس
دعائے خلیل و نوید مسیحا
ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویدا
سرورِدوجہاں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی بشارت جملہ کتب آسمانی میں موجود ہے۔ تورات وانجیل قربِ زمانہ کی وجہ سے اس ظہور پُر نور کے متعلق نہایت واضح بیانات پر مشتمل ہیں۔ قرآنِ مجید کا دعویٰ ہے۔
اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ وَ لۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (الاعراف آیت158)
کہ یہ رسول وہی موعود ہے جس کی خبر تورات و انجیل میں مندرج ہے۔ یہ وہ نبی ہے جو راستی کو قائم اور بدی کو نیست و نابود کرتا ہے۔ طیبات کی حلت اور خبائث کی حرمت یعنی شریعت کی عزت کواز سرِ نو قائم کرتا ہے۔ بوجھ کے نیچے دبنے والوں کوآزاد اور قیدیوں کو رستگاری بخشتا ہے۔
اس دعویٰ کی تصدیق اور حق پسند غیرمسلموں سے اپیل کے طور پر ہم ذیل میں وہ پیشگوئیاں درج کرتے ہیں جو آج بھی یہود و نصاریٰ کی تحریف کے باوجود بائبل میں موجود ہیں۔
نسلِ اسمٰعیلؑ میں ایک عظیم الشّان نبی
تورات میں لکھا ہے:
(الف) ’’اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی۔ دیکھ میں اسے برکت دوں گا۔ اوراسے برومند کروں گا۔ اور اسے بہت بڑھا ؤں گا۔ اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے۔ اور میں اسے بڑی قوم بناؤں گا۔‘‘ (پیدائش 17: 20)
(ب) ’’میں ان (بنی اسرا ئیل )کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا۔ اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا۔ وہ سب ان سے کہے گا اور اب ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا کہ میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔‘‘ ( استثناء 18: 18)
ایک وہم کا ازالہ
ان آیات میں بنو اسماعیل میں سے ایک مثیلِ موسیٰ صاحبِ شریعت نبی کی بشارت دی گئی ہے عیسائی لوگ اس پیش گوئی کو حضرت مسیح پر چسپاں کرنا چاہتے ہیں جو سراسر غلط ہے کیونکہ
اول: تو حضرت مسیح بزعمِ نصاریٰ خود خدا تھے وہ نبی کیسے بن سکتے ہیں نبی تو المخبر عن الغیب بالھامٍ من اللّٰہ (المجاصفحہ583)کے مطابق خدا سے خبر پانے والے کو کہتے ہیں۔ جو خود خدا ہے وہ کس سے غیب کی خبریں حاصل کرے گا ؟ غرض نبی اور خدا ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا اگر عیسائی اس پیش گوئی کو حضرت مسیح پر لگانا چاہیں تو انہیں الوہیت مسیح سے انکار کرنا پڑے گا۔
دوم: یہود اس پیشگوئی کونسلاً بعد نسلٍ مسیحؑ کے علاوہ کسی اور وجود کے لیے مانتے آئے ہیں جیسا کہ انجیل میں لکھا ہے: ’’اس ( یوحنا ) نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا۔ بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیا ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں !کیا تو وہ نبی ہے؟اس نے جواب دیا کہ نہیں۔‘‘ (یوحنا: 1۔ 20تا21)
سوم: نفس پیش گوئی بھی اس خیال کو باطل ٹھہراتی ہے کیونکہ حضرت مسیحؑ حضرت موسیٰؑ کی مانند صاحب شریعت یا جلالی نبی نہ تھے۔ نیز پھرآپ نے ’’سب کچھ کہنے ‘‘ کا دعویٰ بھی نہیں فرمایا۔ بلکہ یہ کہا ہے: ’’مجھے تم سے اور بہت سی باتیں کہنی ہیں۔ مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کی روح کا آئے گا۔ تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا 16: 12تا13)
چہارم: مقدس پولوس نے بالصراحت اس خیال کو رد کردیا ہے چنانچہ لکھا ہے: ’’ضرور ہے کہ وہ( مسیح )آسمان میں اس وقت تک رہے۔ جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں۔ جن کا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کیا ہے۔ جو دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں۔ چنانچہ موسیٰ نے کہا کہ خداوند تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے مجھ سا ایک نبی برپا کرے گا۔ جو کچھ وہ تم سے کہے اس کی سننا۔‘‘ (اعمال: 3۔ 21تا22)
پس استثناء کی پیشگوئی کا مصداق حضرت مسیحؑ کو بتلانا سراسر غلطی ہے۔ اس کا مصداق وہی نبی عربی ہے جو اسماعیل کی نسل سے بھی ہے اور الفاظ پیش گوئی بھی آپﷺ پر صادق آتے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت یا خدا کا ظہور
بائبل نےاپنے محاورہ کے مطابق خدا کے برگزیدہ بندوں کو اس کے بیٹے قرار دیا۔ تو ان سب کے سردار اور سرتاج کی آمد کو خدا کی آمد بتلایا ہے بائبل میں لکھا ہے
(1)’’خدا دکن سے اور وہ جو قدوس ہے۔ کو ہ فاران سے آیا اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا۔ اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔ اس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں پر وہاں بھی ا س کی قدرت درپردہ تھی۔ مری اس کے آگے آگے چلی۔ اور اس کے قدموں پرآتشی وبا روانہ ہوئی۔ وہ کھڑا ہوا اور اس نے زمین کو لرزا دیا۔ اس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا۔‘‘ (حبوق3: 3تا6)
(ب) ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی۔ ہاں وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے۔ اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں۔ اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں۔ اور تیری باتوں کو مانیں گے۔‘‘ (استثناء: 33۔ 2تا3)
(ج) حضرت مسیح اپنی بعثت کو بیٹے کی بعثت قرار دیتے ہوئے انگوری باغ کی تمثیل میں فرماتے ہیں: ’’جب باغ کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا۔ انہوں نے اس سے کہا ان برے آدمیوں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور باغ کا ٹھیکہ اور آدمیوں کو دے گا۔ جو موسم پر اس کو پھل دیں۔ یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خدا وند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے دی جائے گی۔ اورجو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے، مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔‘‘ (متی: 21۔ 40تا41)
ان آیات سے ظاہر ہے کہ استثناءاورحبوق کی نبوت میں جس کامل مظہر خدا کی بشارت دی گئی ہے وہ بیٹے یعنی حضرت مسیح کےبعد معاً آنے والا ہے۔ کیا کوئی حق پسند انسان ان پیشگوئیوں کے ہوتے ہوئے آ نحضر تﷺ کا انکار کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اے پڑھنے والے تو خدا کے لئے غور کر کہ فاران میں کس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی جلویٰ گری ظاہرہوئی۔ کون دس ہزار صحابہ کو لے کر آیا؟کس نے دنیا کے سامنے ایک شریعتِ بیضاء پیش کی۔ کس نے خداکی جلالی صفات کو دنیا پر روشن کیا۔ کون تھا جس نےباغ دوسری قوم ( بنی اسمٰعیل )کے سپرد کیا ؟ یقیناً یقیناً وہ حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہی ہیں۔
راستی کو قائم کرنے والا خداوند کا بہادر
یسعیاہ نبی نے باب 42 میں بالتفصیل نبیٔ اسلام کی بشارت دی ہے جس میں چند آیات یہ ہیں: ’’دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالتا۔ میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے۔ میں نے اپنی روح اس پررکھی وہ قوموں کے درمیان عدالت کو جاری کرائے گا۔ وہ نہ چلّائے گا۔ اور اپنی صدا بلند نہ کرے گا۔ اور اپنی آواز بازاروں میں نہ سنائے گا۔ وہ مسلے ہوئے سینٹھے کو نہ توڑے گا۔ اور دھکتی ہوئی بتی کو نہ بجھائے گا۔ وہ عدالت کو جاری کرائے گا کہ دائم رہے۔ اس کا زوال نہ ہوگا۔ اور نہ مسلا جائے گا۔ جب تک راستی کوزمین پر قائم نہ کرےاور بحری ممالک اس کی شریعت کی راہ تکیں …میں خداوند نے تجھے صداقت کے لئے بلایا میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا۔ اور لوگوں کے عہداور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا۔ کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے۔ اور بند ہوؤں کو قید سے نکالےاوران کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں۔ قید خانے سے چھڑائے…خداوندکے لئے ایک نیا گیت گاؤ۔ اےتم جو سمندر پر گزرتے ہو اور تم جو اس میں بستے ہو…اے بحری ممالک اور ان کے باشندو! تم زمین پر سرتاسراسی کی ستائش کرو۔ بیابان اور اس کی بستیاں قیدار(نوٹ: قیدار حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے۔ پیدائش: 25: 13) کے آباد دیہات اپنی آواز بلند کریں گے۔ سلع (نوٹ: سلع مدینے کے پہاڑ کا نام ہے۔ مجمع ا لبحار جلد 2 صفحہ 13) کے بسنے والے ایک گیت گائیں گے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے للکاریں گے وہ خداوندکا جلال ظاہر کریں گے۔ اور بحری ممالک میں اس کی ثناءخوانی کریں گے۔ خداوند ایک بہادر کی مانند نکلے گا۔ وہ جنگی مرد کی ما نند اپنی غیرت کو اکسائے گا۔ وہ چلائےگا۔ ہاں وہ جنگ کے لئے بلائے گا۔ وہ اپنے دشمنوں پر بہادری کرے گا …خداوند اپنی صداقت کے سبب راضی ہوا۔ وہ شریعت کو بزرگی دے گا۔ اور اسے عزت بخشے گا۔‘‘
اس پیشگوئی میں جس مقدس وجود کو ’’عدالت کا جا ری کرنے والا‘‘ ۔ ’’راستی کا قائم کرنے والا ‘‘ ۔ اور ’’شریعت کو بزرگی دینے والا ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے وقت کے متعلق حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں: ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ اگر میں نہ جاؤں۔ تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا۔‘‘ (یوحنا: 16۔ 7تا8)
کیا اس صرا حت کے باوجو د انکار جائزہو سکتا ہے؟عیسائی صاحبان کا فرض ہے کہ بتلائیں کہ وہ کون سا ’’بندہ خدا ‘‘ گزرا ہے جو اس پیشگوئی کا مصداق ہے۔ ورنہ حضرت مسیح کی تکذیب لازم آئے گی۔ عیسائی اور یہودی احباب خدارا ان واضح بیانات پر غور کریں۔ اور خدا کے برگزیدہ انبیاء کے سردار حضرت محمدﷺ کی تکذیب کرکے موردِ غضبِ الٰہی نہ بنیں۔
(مرسلہ: عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)