متفرق مضامین

قرآن کریم کی دائمی حفاظت

(مدثرہ عباسی)

قرآن خدا نما ہے خدا کا کلام ہے

بےاس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے

اللہ تعالیٰ نےاپنی مخلوق کی ہدایت اور رشد پانے کے لیے ایک عظیم نعمت قرآن کریم نازل کیا اور پھر اس کی دائمی حفاظت کا ذمہ بھی خود اپنے پر رکھا۔

سب سے پہلے تو میں یہ بتاتی چلوں کہ دائمی حفاظت سے کیا مراد ہے۔’دائمی‘ کا مطلب ہمیشہ، مستقل، دوامی ہے اور’حفاظت‘سے مراد سلامتی، پاسبانی، نگرانی ہے ۔قرآن کریم سے پہلے کوئی الہامی کتاب اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں ۔ بلکہ پہلی تمام کتب میں اتنا تصرف ہو چکا ہے کہ یقین کے ساتھ ان پر عمل کرنا ایک سچے طلب گا ر کے لیے ناممکن ہو گیا ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کریم جوں کا توں لفظاً لفظاً اسی طرح محفوظ ہے جس طرح رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا۔چونکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء یہ تھی کہ قرآن کریم محفوظ رہے۔ (ماخوذ از دیباچہ تفسیرالقرآن ، صفحہ269)

اگر دنیا بھر کے جابر، اہل اقتدار، سیاستدان، ظالم، منحرف، اہلِ فکر اور جنگ آزما جمع ہو جائیں اور اس کے نور کو بجھانا چاہیں تو وہ بھی ایسا نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ تو وہ چراغ ہے جسے حق تعالیٰ نے روشن کیا ہے اور یہ وہ آفتاب ہے جس کے لیےغروب ہونا نہیں ہے۔ حق یہ ہے کہ درج ذیل قرآنی آیت کے ذریعے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ قرآن کی ہر لحاظ سے حفاظت اور نگہداری کرے گا ،اسے ہر قسم کی تحریف سے بچائے گا، اسے فنادی نابودی سے محفوظ رکھے گا اور وسوسے پیدا کرنے والے سو فسطائیوں اور بدیہات کے منکر دین سے اس کی محافظت کرے گا۔ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت کی آخری کتاب ہے جو کہ قیامت تک کے لیے تمام انسانیت کے واسطے مکمل ضابطۂ حیات اور ذریعۂ فلاح و نجات ہے۔ اس قدر اہمیت کی حامل کتاب کی حفاظت کے موضوع پر چند سطور ان دلائل کی روشنی میں تحریر ہیں جو دنیا کے سامنے اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھے۔ سب سے پہلے قرآن کریم کے اپنے دلائل ہیں۔ ان دعاوی کا پتہ ہونا ضروری ہے جو اس بابت اس کتاب میں درج ہیں۔ اس مُنْزِل مِنَ اللّٰہ کتاب میں خدائے قادر تاکید سے بھرے ہوئے الفاظ میں فرماتا ہے کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ۔(الحجر: 10) یقیناً ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

گذشتہ کتب میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک کتاب کا ایک خاص دور اصلاح ہوا کرتا تھا اور وہ کتب اس خاص زمانے کی ضرورتوں اور پیش آمدہ مسائل کو ہی مخاطب کیا کرتی تھیں اور ان مسائل کا حل بتایا کرتی تھیں اور ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد خدائے قادر کی حکمت بالغہ کے تحت ان کتب کا اثر اور ان میں مذکور مسائل کا حل زمانے کے مسائل کی تعداد اور شدّت سے پیچھے رہ جاتا تھا اور نئی کتاب کا دور شروع ہو جاتا تھا۔اب قرآن کریم قیامت تک کےلیے بطور قانون اورضابطہ ٔحیات ہے۔ اس مذکورہ بالا حفاظت قرآن کے وعدہ کے اختتام کی آخری مدت خدا نے مقرر نہیں فرمائی۔نیز یہ فخر صرف اور صرف قرآن کریم کو ہی حاصل ہے کہ اس کی حفاظت کا وعده خود خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے۔قرآن کریم کے مطالعہ کے دوران ہم مذکورہ بالا حفاظت قرآنی کے وعدے کے علاوہ بھی اس کتاب کے اندر ہی اس کی حفاظت کے لیے خاص انتظامات کا متعدد جگہ مختلف طریقوں کا ذکر پڑھتے ہیں۔ مثلاً خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ

اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ(القیامة: 18)

یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو یقین دلایا کہ ہم ہی نے یہ قرآن نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کو جمع کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے خاص تصرف سے ایسے الفاظ اورایسی ترکیب سے نازل فرمایا ہےکہ وہ سہولت سے حفظ ہو جاتا ہے۔پس قرآن مجید کی زبان اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ان سامانوں میں سے ہے جن کے ذریعے سے قرآن مجید کی حفاظت کی جاتی ہے۔

اوّل:اللہ تعالیٰ نے ایسے آدمیوں کو پیدا کیا جو اسے شروع سے لے کر آخر تک حفظ کرتے ہیں۔

دوم: اس کی زبان ایسی سہل اور دلنشیں بنائی کہ سہولت سے یاد ہو جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اِنَّہ لَقُرآن کَرِیمٌ۔ فِی کِتَابٍ مَکنُونٍ۔(الواقعہ:78تا79) یقیناً یہ قرآن بڑی عظمت والا ہے اور ایک چھپی ہوئی کتاب میں موجود ہے ۔چھپی ہوئی کتاب سے مراد فطرت ہے کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم فطرت کے مطابق ہے۔اسی لیے ہر انسان جو ضد نہ کرے اسے ماننے پر مجبور ہے۔یعنی انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے بعض سچائیاں رکھی ہیں اور قوت فیصلہ رکھی ہے جب انسان اس سے کام لیتا ہے تو قرآن مجید کی سچائیاں اس پر ظاہر ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ ایک چھپی ہوئی کتاب یعنی فطرت انسانی میں موجود ہے۔(ماخوذ ازتفسیرِ صغیر از حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)

سوم:اس کی تلاوت نمازوں میں فرض کر دی ۔

چہارم :لوگوں کے دلوں میں اس کے پڑھنے کی غیر معمولی محبت پیدا کر دی۔یہ بھی اس آیت میں مذکور وعدہ کے پورا ہونے کی دلیل ہے۔ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کے لیے یہ مقرر فرمایا کہ ایسے سامان کر دیے کہ قرآن مجید اپنے نزول کے معاًبعد تمام دنیا میں پھیل گیا اور اب اس میں تغیر و تبدل کا امکان ہی نہیں رہا ۔کہا جاتا ہے کہ ایک بہت بڑا ذریعہ قرآن کریم کی حفاظت کا یہ بھی ہوا کہ نزولِ قرآن کے بعد علمی عربی زبان کی تبدیلی بند ہو گئی۔ عربی کے سوا دنیا میں کوئی زبان ایسی نہیں پائی جاتی جو آج بھی وہی ہو جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھی۔جو شخص علمی عربی آج پڑھتا ہے وہ قرآن کریم کو بھی بغیر کسی کی مدد کے سمجھ سکتا ہے۔ان ظاہری سامانوں کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ایک ایسا ذریعہ بھی مقرر کیا جو الہام ہے ۔حق یہ ہے کہ خدا کا کلام بندے کے ساتھ براہ راست ہوتا ہے۔ملائکہ صرف بطور واسطہ کے ہوتے ہیں۔

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ۔(الحجر:10)

کہہ کر یہ بتایا ہے کہ ہم اس کلام کی آئندہ تازہ بتازہ الہام کے ذریعہ سے حفاظت کرتے رہیں گے یعنی مجدد اور مامور وغیرہ مبعوث کرتے رہیں گے۔(ماخوذ از تفسیر کبیر، جلد چہارم،صفحہ 13تا14)

قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جونام دیے گئے ان میں سے الکتاب اور قرآن بھی ہیں، یہ دونوں نام اس کی تاقیامت زبانی اور کتابی شکل میں حفاظت کاپتہ دیتے ہیں۔اور ان ناموں کے معانی کے اندر اس کی حفاظت کی پیشگوئی موجود ہے۔

فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البینہ: 4)

یعنی اُن میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیںکہہ کر اس کی تعلیمات کے دائمی ہونے کا پتہ دیا۔

حفاظت قرآن کےلیے خدا تعالیٰ نے جو انتظامات فرمائے اس کا مختصر خاکہ کچھ اس طرح پر بھی کھینچا جا سکتاہے کہ

اوّل:جو بھی آیات نازل ہوتی تھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فوراً کاتب صحابہ کو بلا کر ان آیات کو ضبط تحریر میں لے آتے تھے اور یہ ساری کارروائی آپ ﷺکی آنکھوں کے سامنے ہوتی تھی اور آپؐ اس کے لیے خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ لکھوانے کے بعد اس نازل شده حصہ کو سنا بھی کرتے تھے۔ آپؐ نہ صرف خود لکھواتے تھے بلکہ خدائی تفہیم کے مطابق ان کی ترتیب بھی خود مقرر فرماتے تھے۔

دوم: یہ کہ مسلمانوں کے اندر اس کتاب کو حفظ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ایک تو خدانے لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں اس کتاب کو حفظ کرنے کا شوق پیدا کر دیا اور دوسرا اس کی عبارت اس قدر خوبصورت، سلیس اور نظم و نثر کے درمیان ہے کہ جو حفظ کرنے کے لیے بہت آسان ہے۔ہر مسلمان کو نماز کے اندر پڑھنے کے لیے قرآن کا کچھ نہ کچھ حصہ زبانی یاد کرناپڑتا ہے۔ کیونکہ ہر رکعت کے اندر سورت فاتحہ کی تلاوت کرنا فرض ہے۔

بَلۡ ھُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ۔فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ۔ (البروج:22تا23)

بلکہ وہ تو ایک صاحبِ مجد قرآن ہے۔ایک لوحِ محفوظ میں ۔قرآن کریم ایک بزرگ کلام ہے ہر جگہ اور ہر زمانہ میں پڑھا جانے والااور مزید کمال یہ ہے کہ وہ لوحِ محفوظ میں ہے۔یعنی قیامت تک قائم رہے گا۔ (تفسیرِ صغیر از حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ) اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کی نسبت فرمایا: گویا لوح پر لکھے ہوئے کلام کی خوبی تو اس کو ملے گی مگر اس کے نقص سے وہ محفوظ رہے گا۔(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہشتم،صفحہ 372)

قرآن کریم کے جو نسخے سارے عالم میں پھیلے اور ان کی تعداد بلامبالغہ کروڑوں میں ہے۔ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بھی قرآن ہی ہے۔آج کے اس جدید پریس کے زمانے میں قرآن کریم کے نسخے بلامبالغہ لاکھوں کی تعداد میں چھپتے ہیں اور ان کی چھپائی میں اغلاط اور ہر طرح کے سقم سے بچنے کےلیے شدید عرق ریزی اور زر کثیر خرچ کر کے اس کی اعلیٰ حفاظت کا انتظام کیا جاتا ہے۔اور مسلمان ممالک میں پورے پورے محکمے اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے ہیں۔ نیز گذشتہ وقتوں میں مسلمانوں کی اس طرف بے پناہ توجہ کا اندازہ ہمیں ان قلمی نسخوں سے بھی ہوتا ہے جو آج کل لائبریریوں کی زینت ہیں۔ اور مسلمانوں میں اس کی کتابت کا اس قدر رواج تھا کہ نہ صرف عوام بلکہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کی کتابت نہایت محبت اور جانفشانی سے کیا کرتے تھے۔قرآن کی حفاظت پر ایک گواہ وہ تبلیغ قرآن ہے جو انتہائی قلیل عرصہ میں بڑے خطہ زمین پر پھیل گئی۔ دیگر مخالف اقوام کو اس کی تعلیمات کا بخوبی علم ہو گیا۔

سر ولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمدؐ میں بحث کے بعد لکھتا ہے کہ

’’Since what we now have, though possibly corrected and modified by himself, is still his own.‘‘(The Life of Mohamet by Sir William Muir, Page 562)

اب جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے گو یہ بالکل ممکن ہے کہ محمد رسول اللہﷺ نے اپنے زمانے میں خود اس کی غلطیاں درست کی ہوں اور بعض دفعہ خود ہی اس میں بعض تبدیلیاں بھی کر دی ہوں۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ یہ اب اس زمانہ تک وہی قرآن ہے جو محمدﷺ نے ہمیں دیا تھا۔

یہ تو ظاہری حفاظت کا معاملہ ہے۔ حفاظت کی اقسام کے موضوع پر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اب حفاظت دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو حفاظت ظاہری اور ایک حفاظت معنوی۔ جب تک دونوں قسم کی حفاظت نہ ہو کوئی چیز محفوظ نہیں کہلا سکتی ۔ ایک کتاب جس کے اندر لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ عبارتیں زائد کر دی ہوں یا اس کی بعض عبارتیں حذف کر دی ہوں یا جس کی زبان مردہ ہو گئی اور کوئی اس کے سمجھنے کی قابلیت نہ رکھتا ہو یا جواس غرض کے پورا کرنے سے قاصر ہو گئی ہو جس کے لیے وہ نازل کی گئی تھی،محفوظ نہیں کہلا سکتی کیونکہ گو اس کی حفاظت بھی صرف معنی کی حفاظت ہی کے لیے کی جاتی ہے۔ پس قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اس کے الفاظ اور اس کے مطالب دونوں کی حفاظت ہے۔(ماخوذ ازدعوت الامیر، انوارالعلوم جلد7صفحہ380)

خدا تعالیٰ نے اس معنوی حفاظت کے میدان کو بھی تشنہ نہ چھوڑا اور گذشتہ چودہ سو سال میں کوئی وقت بھی ایسانہ گزرا کہ جس میں ہمیں آنحضور ﷺکا کوئی نہ کوئی روحانی فرزند اپنی تمام خداداد طاقتوں اور استعدادوں کےساتھ اس راہ میں مصروف عمل نظر نہ آتاہو۔خدا تعالیٰ نےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے آکر بڑے عظیم الشان اعلانات کیے اور حفاظت قرآن کا حق ادا کر دیا۔ آپ علیہ السلام نے اعلان عام کیا کہ قرآن کی کوئی آیت، کوئی نقطہ بھی منسوخ یا ناقابل عمل نہیں ہے بلکہ قرآن کریم مکمل محفوظ اور خدا کی طرف سے تا قیامت قابل عمل تعلیم کا مجموعہ ہے۔ آپ علیہ السلام نے بطور حکم اور عدل اعلان کیا کہ و بان القرآن المجید بعد رسول اللّٰہ محفوظ من تحریف المحرفین و خطأ المخطین۔(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ21)

خدا تعالیٰ نے نزول قرآن سے لے کر آج تک اس کتاب کی ظاہری اور معنوی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہےاور اس قدر اعلیٰ حفاظتی معیار کی حامل اور حفاظت کے خدائی وعدوں کی حامل کتاب اس وقت روئے زمین پر صرف اور صرف قرآن حکیم ہی ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button