فضائل القرآن (3) (قسط نمبر11)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
پس جب انسانیت مرد کا نام نہیں اور نہ انسانیت عورت کا نام ہے بلکہ مرد و عورت دونوں کے مجموعے کا نام انسانیت ہے تو ماننا پڑے گا کہ انسانیت کو مکمل کرنے کے لئے مرد و عورت کا ملنا ضروری ہے۔ اور جو مذہب ان کو علیحدہ علیحدہ رکھتا ہے وہ انسانیت کی جڑ کاٹتا ہے۔ اگر مذہب کی غرض دنیا میں انسان کو مکمل بنانا ہے تو یقیناً مذہب اس عمل کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ اسے اپنے مقصد کے حصول کے لئے استعمال کرے گا۔ اور جو مذہبی کتاب بھی اس طبعی فعل کر برا قرار دے کر اس سے روکتی ہے یا اس سے بچنے کو ترجیح دیتی ہے وہ یقیناً انسانی تکمیل کے راستہ میں روک ڈال کر اپنی افضلیت کے حق کو باطل کرتی ہے۔
اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جب مرد اور عورت ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو کیوں ان کو علیحدہ علیحدہ وجود بنایا؟ کیوں ایسا نہ کیا کہ ایک ہی وجود رہنے دیتا تا کہ مرد کو عورت کی اور عورت کو مرد کی خواہش ہی نہ ہوتی۔ اس کا جواب اسلام یہ دیتا ہے کہ
وَمِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَجَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّرَحۡمَۃً (الروم:22)
اس کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لئے جوڑے بنائے تا کہ تمہیں آپس میں ملنے سے سکون حاصل ہو۔ گویا انسان میں ایک اضطراب تھا۔ اس اضطراب کو دور کرنے کے لئے اس کے دو ٹکڑے کر دیئے گئے۔ اور ان کا آپس میں ملنا سکون کا موجب قرار دیا گیا۔ اب ہم غور کرتے ہیں کہ وہ کون سا اضطراب ہے جس کا نمونہ عورت و مرد کے تعلقات ہو سکتے ہیں۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ وہی
اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی(الاعراف:173)
والا اضطراب ہے جو انسانی فطرت میں رکھا گیا ہے۔ اور جس کے لئے تجسس کی خواہش اس کے اندر ودیعت کی گئی ہے جو اسے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہے۔ جو چیز اپنی ذات میں مکمل ہو اس میں تجسس نہیں ہوتا لیکن جب تجسس کا مادہ ہو تو بسا اوقات لوگ کسی چھوٹی چیز کا تجسس کرتے ہیں تو انہیں بڑی چیز مل جاتی ہے۔ خدا تعالیٰ بھی فرماتاہے کہ ہم نے انسان کے قلب میں تجسس کی خواہش پیدا کر دی ہے۔ جب وہ اس سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی ذات اس کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہے اور وہ اسے پا لیتا ہے۔ جب مرد عورت کی تلاش کر رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے اپنے قلب میں اضطراب پاتا ہے تو خدا کہتا ہے کہ کیا میں اس قابل نہیں ہوں کہ تم میری تلاش کرو۔ تب اس کی زبان سے بلٰیکی آواز نکلتی ہے اور وہ کہہ اٹھتا ہے کہ آپ ہی تو اصل مقصود ہیں۔ اسی طرح جب عورت مرد کی تلاش کر رہی ہوتی ہے اسے خدا کہتا ہے کہ کیا میں تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ تب وہ پکار اٹھتی ہے کہ بَلٰییقیناً آپ ہی اصل مقصود ہیں۔ اس طرح مرد اور عورت ایک دوسرے کے متعلق تلاش اور تجسس کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کر لیتے اور اسے پالیتے ہیں۔
خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کا مادہ فطرت انسانی میں مخفی کیوں رکھا
اب سوال ہو سکتا ہے۔ کہ خدا تعالیٰ نے ظاہراً کیوں نہ مرد و عورت میں اپنی محبت پیدا کر دی اور اس طرح مخفی کیوں رکھا اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہراً محبت ہوتی تو حصول اتصال موجب ترقیات نہ ہوتا اور نہ اس کا ثواب ملتا۔ ثواب کے لئے اخفاء کا پہلو ضروری ہوتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ نے مرد کے پیچھے عورت کے لئے اور عورت کے پیچھے مرد کے لئے اپنی محبت کو چھپا دیا تا کہ جو لوگ کوشش کر کے اسے حاصل کریں وہ ثواب کے مستحق ہوں۔ مرد میں عورت کی اور عورت میں مرد کی جو خواہش پیدا کی وہ مبہم خواہش ہے اصل خواہش خدا ہی کی ہے۔ اس لئے اس نے انسان میں یہ مادہ رکھا کہ وہ خواہش کرے کہ میں مکمل بنوں۔ اور وہ یہ سمجھے کہ مجھے تکمیل کے لئے کسی اَور چیز کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر انسان میں صرف اضطراب اور تجسس کی خواہش ہی رکھی جاتی تو اضطراب مایوسی بھی پیدا کر دیتا ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ جہاں انسان کے قلب میں مکمل ہونے کے متعلق اضطراب ہو وہاں اس اضطراب کے نکلنے کا کوئی رستہ بھی ہو۔ جیسے انجن سے زائد سٹیم نکلنے کا رستہ ہوتا ہے۔ پس خداتعالیٰ نے انسان میں اضطراب پیدا کیا اور ساتھ ہی عورت کے لئے مرد اور مرد کے لئے عورت کو سیفٹی والو بنایا اور اس طرح وہ محبت جو خدا تعالیٰ کے لئے پیدا کرنی تھی اس کے زوائد کو استعمال کرنے کا موقع دے دیا گیا۔ اگر اس کے لئے کوئی سیفٹی والو نہ ہوتا تو یہ محبت بہتوں کو جنون میں مبتلا کر دیتی۔ دنیا میں کوئی عقلمند کسی چیز کو ضائع ہونے نہیں دیتا پھر کس طرح ممکن تھا کہ خداتعالیٰ کسی چیز کو ضائع ہونے دے۔ پس اس نے اس کا علاج یہ کیا کہ انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے دو شکلوں میں ظاہر کیا۔ جس سے اس جوش کا زائد اور بے ضرورت حصہ دوسری طرف نکل جاتا ہے اور اس طرح انسان خواہ مرد ہو یا عورت سکون محسوس کرتا ہے۔ اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ
حُبِّبَ إِلَىَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ وَالطِّيْبُ وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ۔ (الجامع الصغیرللسیوطی جلد 1 صفحہ 122مطبوعہ مصر1306ھ +مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 128مطبوعہ بیروت 1978ء)
ایک روایت میں مِنَ الدُّنْیَا کی بجائے مِنْ دُنْیَا کُمْ کے الفاظ بھی آتے ہیں۔ یعنی دنیا میں سے تین چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں۔ النِّسَاءُعورتیں الطِّيْبُ خوشبو وَجُعِلَ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَاةِ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں رکھی گئی ہے۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ مرد و عورت کے جنسی تعلقات بھی تسکین اور ٹھنڈک کا موجب ہوتے ہیں۔ اور خوشبو سے بھی قلب کو سکون محسوس ہوتا ہے اور نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور عاجزانہ دعائیں جو لذت پیدا کرتی ہیں۔ وہ بھی انسان کے لئے سکون کا موجب ہوتی ہیں۔
مرد و عورت ایک دوسرے کے لئے سکون کا موجب ہیں
یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ یہاں تو صرف یہ ذکر ہے کہ مرد کے لئے عورت سکون کا باعث ہے یہ ذکر نہیں کہ عورت کے لئے بھی مرد سکون کا باعث ہے۔ یہ مفہوم جو مرد و عورت کے تعلقات کا بتایا گیا ہے تب درست ہوتا جب دونوں ایک دوسرے کے لئے سکون کا موجب ہوں۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے
ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ(البقرۃ:188)
یعنی عورتیں تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ پس موجب سکون اور آرام ہونے میں دونوں برابر ہیں۔ عورت مرد کے لئے سکون کا باعث ہے اور مرد عورت کے لئے۔
مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہہ کر اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اگر کوئی نہا دھو کر نکلے لیکن میلے کچیلے کپڑے پہن لے تو کیا وہ صاف کہلائے گا۔ کوئی شخص خواہ کس قدر صاف ستھرا ہو لیکن اس کا لباس گندا ہو تو وہ گندا ہی کہلاتا ہے۔ پس
ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ
میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا نیکی بدی میں شریک قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ہونا چاہئے۔ اس طرح بھی
لِتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا
کا مفہوم پورا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے لئے بطور رفیق سفر کے کام کرتے ہیں۔
روحانی طاقتوں کی جسمانی طاقتوں سے وابستگی
حقیقت یہ ہے کہ بہت لوگوں نے یہ سمجھا ہی نہیں کہ روحانی طاقتیں جسمانی طاقتوں سے اس دنیا میں وابستہ ہیں۔ اور روح اسی جسم کے ذریعہ سے کام کرتی ہے۔ یہ بات عام لوگوں کی نظروں سے غائب ہے۔ نادان سائنس والے جسم کی حرکات دیکھ کر کہتے ہیں کہ روح کوئی چیز نہیں۔ اور روحانیات سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے والے علماء جو قرآن نہیں جانتے وہ کہتے ہیں کہ روح جسم سے علیحدہ چیز ہوتی ہے۔ حالانکہ روح اور جسم ایک دوسرے سے بالکل پیوست ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے روح کو علوم اور عرفان کے خزانے دیئے ہیں وہاں ان خزانوں کے دریافت کی تڑپ اور ان کے استعمال کو جسم کی کوششوں کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ جب جسم ان کی تلاش اور تجسس کرتا ہے تو وہ نکلتے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی پاگل خدا رسیدہ نہیں ہو سکتا ورنہ اگر روح جسم سے الگ ہوتی اور اس کا جسم سے کوئی تعلق نہ ہوتا تو چاہئے تھا کہ پاگل کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا۔ کیونکہ پاگل کا دماغ خراب ہوتا ہے اور دماغ جسم سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ روح سے۔ مگر ایسا نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاگلوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرفوع القلم قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو دوبارہ عمل کا موقع دے گا۔ اگر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا صرف روح کا کام تھا جسم کا اس میں کوئی دخل نہ تھا تو وہ بَلٰی تو کہہ ہی چکی تھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جسم روح سے بالکل پیوستہ ہے۔ جسم میں خدا تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں جو روحانیت کو بڑھانے والی ہیں۔
رجولیت یا نسائیت سے متعلق قوتوں کا روح سے تعلق
انہیں قوتوں میں سے جو انسان کو ابدیت کے حصول کے لئے دی گئی ہیں ایک اس کی ان غدودوں کا فعل ہے جو رجولیت یا نسائیت سے متعلق ہیں۔ یہ غدود جسم کے ہی حصے نہیں بلکہ روح سے بھی ان کا تعلق ہے ورنہ مرد کو خوجہ بننے سے روکا نہ جاتا۔ پھر یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیاء کے بھی بیوی بچے ہوتے ہیں کیونکہ یہ اعضاء روحانیت کے لئے ضروری ہیں۔ بلکہ ان سے روحانیت مکمل ہوتی ہے۔ رجولیت یا نسائیت کی اصل غرض درحقیقت بقا کی حس پیدا کرنے کی خواہش ہے۔ اس خواہش کے ماتحت رجولیت یا نسائیت کے غدود بقا کی دوسری صورت کا کام دیتے ہیں۔ یعنی نسل کشی۔ گویا نسل انسانی کے پیدا کرنے کا ذریعہ ان غدودوں کے نشوونما کا ایک ظہور ہے۔ اور وہی طاقت جو روح کی بقا کا ذریعہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بقا کا ذریعہ بھی بنا دیا اور یہ بقائے اولاد کے ذریعہ ہوتا ہے۔ روح کی ترقی سے بقاء ابدی حاصل ہوتا ہے اور اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء ہوتا ہے۔ اس لئے بقاء پیدا کرنے والی زائد طاقت کو اس کے لئے استعمال کر لیا گیا۔
اگر کوئی کہے کہ پھر حیوانات میں اس طاقت کے رکھنے کا کیا فائدہ ہے تو اس کے لئے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان کی پیدائش مختلف دوروں کے بعد ہوئی ہے۔ پہلے چھوٹا جانور بنا۔ پھر بڑا۔ پھر اس سے بڑا اور آخر میں انسان پیدا کیا گیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
مَا لَکُمۡ لَا تَرۡجُوۡنَ لِلّٰہِ وَقَارًا (نوح:14)
تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کے لئے وقار پسند نہیں کرتے اور تم کہتے ہو کہ خدا جلدی کر دے۔
وَقَدۡ خَلَقَکُمۡ اَطۡوَارًا (نوح:15)
تم اپنی پہلی پیدائش کو دیکھو کہ کتنے عرصے میں ہوئی ہے۔ غرض انسان مختلف دوروں کے بعد بنا ہے۔ اور انہی دوروں میں سے حیوانات بھی ہیں۔ پس تمام حیوانات درحقیقت انسانی مرتبہ تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہیں ورنہ وہ اپنی ذات میں خود مقصود نہیں۔ اور جو چیز سیڑھیوں پر لے جائی جائے گی وہ راستہ میں بھی گرے گی اس لئے وہ چیزیں جو انسان کی ترقی کے لئے بننی تھیں وہ حیوانوں میں بھی پائی گئیں مگر یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی جس قدر انسان میں ترقی یافتہ ہے اس قدر حیوانات میں نہیں ہے۔ اور پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قوت شہوانی کا دماغی قابلیتوں سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ اور بہت سے اعصابی نقصوں اور دماغی نقصوں کا علاج شہوانی غدودوں کے رس ہیں۔
٭…٭( جاری ہے)٭…٭