وفا گر جرم ہے تو جرم کا اعلان کرتے ہیں
چلو دنیا کی خاطر کام کو آسان کرتے ہیں
وفا گر جرم ہے تو جرم کا اعلان کرتے ہیں
اطاعت مانگتی ہے ہر قدم تجدید کے تحفے
مکرر ہم وفا کا عہد اور پیمان کرتے ہیں
فدائے مال و جان و آبرو دلدار پر کرنا!
خسارہ ہے کہاں کا؟ کونسا نقصان کرتے ہیں
نرالا تو نہیں ہے رسم الفت کا طریق اپنا
یہی اک کام سارے صاحبِ ایمان کرتے ہیں
گروہِ بےضمیراں نے عدو بن کر خلافت کا
کیا ہے کام جو ابلیس اور شیطان کرتے ہیں
’’الا اے دشمنِ ناداں‘‘ خلافت کے تقدس کی
حفاظت تو خدا کے منتخب دربان کرتے ہیں
عقیدت میں وہ کرتے ہیں ہم اپنے پیر و مرشد کی
جنونِ عشق میں جو مردمِ مستان کرتے ہیں
بہا لے جائے جو فتنہ گروں کے سارے منصوبے
بہا کر اشک سجدوں میں بپا طوفان کرتے ہیں
ستاتے ہیں جو رب کے پاک بندوں کو دلیری سے
ہلاکت کا وہ اپنی آپ ہی سامان کرتے ہیں
خلافت ہے ہماری زندگی اور جانتے ہو تم
حفاظت جان کی تو ہر طرح انسان کرتے ہیں
چلو انصار میں اس کے ہم اپنا نام لکھوا کر
مددگاری کریں ایسی کہ جو سلطان کرتے ہیں
درِ مسرور کا خادم ظفرؔ تنہا نہیں ہرگز
یہ وہ اعزاز ہے جس پر کروڑوں مان کرتے ہیں
(مبارک احمد ظفر)