تاریخ احمدیت

خان عبدالغفار خان۔ از صوبہ سرحد

(عمانوایل حارث)

ہم قادیان روانہ ہوگئے۔ ان دنوں حکیم نورالدین صاحب خلیفہ تھے۔ ہم ان سے ملنے کے لئے گئے۔ ہم پر ان کی سادہ، بے تکلف، زندہ اور محبت سے بھرپور باتوں نے بہت اثر کیا۔ وہ بہت بڑا عالم اور بااخلاق شخص تھا

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں خان عبد الغفار خان پشتونوں کے سیاسی راہ نما کے طور پر مشہور شخصیت ہو گزرے ہیں جنہوں نے برطانوی دَور میں عدم تشدد کے فلسفے کا پرچار کیا۔ مہاتما گاندھی کے بڑے مداحوں میں سے تھے۔ خان کے چاہنے والے آپ کو باچا خان اور سرحدی گاندھی کے طور پر پکارا کرتے تھے۔

خان عبدالغفار خان پختون قبائل کے علاقے میں اتمان زئی گاؤں میں 1890ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ گھر پر ابتدائی تعلیم کے بعدمختلف جگہوں پر زیر تعلیم رہے۔ ان کے والد بہرام خان خوانین اور زمین دار طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں انگریز افسروں میں عزت اور رسوخ حاصل تھا۔ مقامی طور پر نہ پڑھ سکنے کے سبب خان عبدالغفار خان کو ان کے والد نےمختلف مقامات پر تعلیم کے لیے بھیجنا چاہا مگر کبھی کوئی اور مجبوری سامنے آتی رہی۔

خان صاحب کے طویل سیاسی کیریئر میں مختلف نشیب و فراز آتے رہے۔ آپ 1919ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے ذریعے سیاست میں داخل ہوئے اور چھ ماہ قید کاٹی۔ 1920ء میں ہجرت تحریک میں شریک ہوکر افغانستان گئے مگر تحریک ناکام ہونے کے سبب واپس آگئے۔ وغیرہ وغیرہ۔

الغرض خان عبدالغفار خان صاحب کی زندگی 20؍ جنوری 1988ء میں اپنی وفات تک بہت زیادہ ہنگامہ خیز واقعات اور مصروفیات سے پُر رہی۔

سال 2004ء میں پاکستان کے مشہور اشاعتی ادارے فکشن ہاؤس۔ 18مزنگ روڈ، لاہور نے ظہور احمد خان کے زیر اہتمام ’’آپ بیتی: خان عبدالغفار خان ‘‘کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی، جس کی قیمت 130 روپے تھی۔ اس کتاب کے صفحہ 17 پرموصوف کے تعلیمی سفر کے ضمن میں درج ہے کہ’’میں نے پھر تعلیم کی طرف رجوع کیا۔ انہی دنوں میں اپنے ایک اور ساتھی کے ہمراہ کیمبل پور (موجودہ اٹک پاکستان)چلا گیا۔ اورکیمبل پور کے ہائی سکول میں از سر نو داخل ہوگیا۔ لیکن اس جگہ بڑی سخت گرمی تھی اور میری طبیعت وہاں نہ لگ سکی۔ میں اس جگہ سے قادیان چلاگیا۔ لیکن یہاں کی فضا بھی مجھے پسند نہ آئی۔ وہاں رات کو میں نے ایک خواب دیکھا کہ میں ایک خوبصورت گہرے کنویں میں گر پڑا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک آدمی وہاں آتا ہے اور کنویں کے اندر میری جانب اپنا لمبا ہاتھ بڑھاتا ہے اور اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتا ہوں اور وہ شخص مجھے کنویں سے باہر نکال لیتا ہے۔

اس کے بعد وہ حیرت سے میری طرف دیکھ کر کہتا ہے کہ کیا تم کو یہ کنواں نظر نہیں آتا؟ آخر اس میں اپنے آپ کو کیوں پھینکتے ہو؟

علی الصبح جاگا۔ تو یہ قصہ میں نے اپنے اس ساتھی کو سنایااور ہم دونوں اس بات پر متفق ہوگئے کہ اس جگہ سے نکل جائیں۔ چنانچہ ہم اس جگہ سے واپس اپنے گاؤں آگئے۔‘‘

زیر نظر کتاب کا یہ بیان تو یہاں مکمل ہوجاتا ہے۔ لیکن بات مکمل واضح نہیں ہوتی ہے۔ مزید تلاش کرنے سے سامنے آیا کہ 1958ء میں بھارتی ارباب سیاست کے ہاتھوں قائم ہونے والے معروف مطالعاتی اور تحقیقاتی ادارےGandhi Peace Foundationکی مدد سے تیار ہوکرمعروف اورقدیم اشاعتی ادارےPopular Prakashan, Bombayکی طبع کردہ مصنف D.G. Tendulkarکی باچا خان کے حالات زندگی پر ایک ضخیم اور مستند کتاب Abdul Ghaffar Khan Faith is a battleسامنے آئی تو اس کے صفحہ 20 پر کیمبل پور کے بعد کے ذکر میں لکھا ہے کہ

“In those days, he had acquired a taste of Arabic studies and the reputation of Maulvi Nooruddin of Kadian attracted his attention. Abdul Ghaffar Khan left his province with a friend.

But there too, he did not like the atmosphere and one night he had a strange dream: …”

اس حوالے سے معلومات میں اتنا سا اضافہ ہوتا ہے کہ موصوف عربی زبان کی تحصیل کے لیے قادیان میں حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کی شہرت سے متاثر ہوکر پہنچے تھے۔ کیونکہ مسیح دوراں کی برکت سے مرجع خلائق قادیان کے مرکز علم و ایمان ہونے پر زمانہ گواہ تھا۔

خان عبدالغفار خان کے سفر قادیان کی مزیدتفصیلات کی تلاش مجھے شبل پبلیکیشنز۔ عظمیٰ آرکیڈ۔ مین کلفٹن روڈ کراچی کی جنوری 1988ء میں جاوید احمد صدیقی کی مرتب کردہ کتاب غفار خان: غدار یا محب وطن تک لے گئی۔

اس کتاب کے نصف آخر میں غفار خان کی آپ بیتی کے عنوان کے تحت ایک خود نوشت درج ہے جس کے مترجم کا نام یونس قیاسی درج ہے۔

صفحہ 91 پرخان عبدالغفار خان کے تعلیمی سفر کے ذکر میں ایک ساتھی طالب علم کے ساتھ کیمبل پور میں قیام کے تسلسل میں لکھا ہےکہ’’ہم نے (کیمبل پور میں )داخلہ لے لیا اور بورڈنگ میں رہنے لگے۔ یہاں کسی نے مجھ سے قادیانیوں کا ذکر کیا اور ان کی تعریف کی لہٰذا ہم قادیان روانہ ہوگئے۔ ان دنوں حکیم نورالدین صاحب خلیفہ تھے۔ ہم ان سے ملنے کے لئے گئے۔ ہم پر ان کی سادہ، بے تکلف، زندہ اور محبت سے بھرپور باتوں نے بہت اثر کیا۔ وہ بہت بڑا عالم اور بااخلاق شخص تھا۔ ہم وہاں بیٹھے ہی تھے کہ مرزا غلام احمد کا بیٹا جو بعد میں اس جماعت کا امیر ہے، آیا۔ وہ ان دنوں کالج میں پڑھتا تھا۔ لہٰذا ہم نے رخصت چاہی اور سکول کے بورڈنگ میں واپس چلے آئے۔ یہاں پر ہر طالب علم کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔

ابن مریم کی بات کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے

[غالباً حضرت مسیح موعودؑ کے اس شعر کی طرف اشارہ ہے:

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے]

یعنی ابن مریم عیسیٰؑ کو یاد مت کرو اس سے غلام اچھا ہے۔ یہ آواز ہمارے لئے ناآشنا تھی۔ وہ لڑکے ہمیں ’’ جنت کے قبرستان‘‘ میں لے گئے۔ ہم جوں جوں یہاں کے حالات سے باخبر ہوتے ہماری حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا۔

رات خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا کنواں ہے میں اس میں گرنے والا ہوں۔ لیکن ایک سفید ریش شخص مجھے کنویں میں گرنے سے بچا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ خبردار ہوجاؤ۔

اگلے روز جب ہم نیند سے بیدار ہوئے عبدالعلیم کو خواب کے بارہ میں بتایا۔ اس نے بھی کچھ ایسا ہی خواب دیکھا تھا۔ لہٰذا ہم لوگ اگلے روز پشاور واپس چلے آئے۔ جہاں وہ اپنے سکول میں داخل ہوگیا۔ جب کہ میں علی گڑھ چلا گیا۔‘‘

خان عبدالغفار خان کے بطور نوجوان طالب علم قادیان دارالامان وروداور قیام کا ذکر جماعتی ماخذوں میں واضح طور پر تو موجود نہ ہے، اورنہ ہی اس مختصرقیام کے سن اور مہینے کی تعیین آسان ہے۔ کیونکہ تب تو کثرت سے ضرورت مند لوگ اور طالب علم دور دراز سے اسی کرموں والی اچی بستی کا رخ کیا کرتے تھے۔ نیز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب رضی اللہ عنہ تو کسی بھی دنیاوی کالج کے تعلیم یافتہ نہ تھے، البتہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کالج کی تعلیم حاصل کی تھی۔

علاوہ ازیں یاد رہے کہ انسانوں کے خواب توتعبیر طلب ہوتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ یہ دنیا اور اس کے تعلقات خوبصورت گہرے کنویں کی طرح ہی ہوجاتے ہیں اورقید خانہ کی شکل بن جاتے ہیں اور قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے کہ اس زمرہ انبیاء ہی کو توانسانوں کو ان گہرے کنووں سے نکالنے کے لیے مبعوث کیا جاتا ہے۔ نیز مذکورہ بالا حوالہ جات میں موصوف کے خواب کے واقعات میں بھی فرق ہے۔

قادیان دارالامان میں رہنا کسی دنیا دار کے لیے چنداں آسان نہ تھا۔ اور نہ ہی محولہ بالا کتب میں وضاحت سےموجود ہے کہ موصوف کو قادیان کے ماحول اور فضا اور ہوا میں ناپسند کیا تھا؟

مدینہ منورہ کے بارے میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بدو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام پر بیعت کی، لیکن اسے مدینہ میں بخار ہو گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے میری بیعت واپس کر دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مدینہ تو دھونکنی اور بھٹی ہے، یہ خبیث چیز کی نفی کر دیتا ہے اور طیب چیز کو نکھارتا ہے۔‘‘

شاید اسی پس منظر میں ہی خان عبدالغفار خان کے ہم علاقہ اور خطہ پشتون و افغانستان کے حقیقی سید اور سید الشہداء حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ قادیان شریف میں وہی آرام سے رہتاہے جو درود شریف بہت پڑھتاہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت سے محبت رکھتاہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button