جمعہ کی نماز میں قنوت کے متعلق حضور انور کی راہنمائی
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ میں اپنی جماعت میں امام الصلوٰۃ ہوں۔ جمعہ کی نماز میں قنوت پڑھنا چاہتا ہوں کیونکہ آج کل وبا کے دن ہیں اور احمدیوں پر بعض ممالک میں ظلم بھی ہو رہا ہے۔ لیکن بعض دوستوں کو اس پر اعتراض ہے۔ اس بارے میں اجازت اور راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 12؍فروری 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:
جواب: آنحضورﷺ نے امام الصلوٰۃ کےلیے ایک نہایت ضروری نصیحت یہ فرمائی ہےکہ إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيْفَ وَالسَّقِيْمَ وَالْكَبِيْرَ وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ۔ (صحیح بخاری کتاب الاذان) یعنی جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے ہلکی نماز پڑھانی چاہیے کیونکہ مقتدیوں میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں۔ اور جب تم میں سے کوئی اکیلا اپنی نماز پڑھے تووہ جس قدر چاہے اسے لمبا کرے۔
جہاں تک نمازوں میں قنوت کرنے کا معاملہ ہے تو احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آنحضورﷺ نے مسلمانوں پر کسی مصیبت کے وارد ہونے پر بھی کچھ وقت کےلیے قنوت کے طریق کو اختیار فرمایا۔ چنانچہ رجیع اور بئر معونہ کے موقع پر دشمنان اسلام کی طرف سے بد عہدی اور دھوکا دہی کے ساتھ صحابہ کی ایک بڑی جمعیت کی شہادت پر حضورﷺ نے ان مخالف قبائل کے خلاف تیس روز تک قنوت فرمایا اور ان قبائل کے خلاف بد دعا کی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی)
نیز اس کے علاوہ حضورﷺ نے صحابہ کو وتر کی نماز میں قنوت کرنے کا بھی طریق سکھایا اور اس کےلیے مختلف دعائیں بھی صحابہ کو سکھائیں۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ بَاب الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ)
پس قنوت کا ایک طریق وہ ہے جو نماز وتر میں اختیار کیا جاتا ہے اور ایک قنوت خاص حالات میں مثلاً دشمن کی طرف سے کسی تکلیف کے پہنچنے پر یا کسی وبا وغیرہ کے پھیلنے پر اختیار کیا جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی پیش خبری کے مطابق جب پنجاب میں طاعون پھیلی تو حضور علیہ السلام نے آنحضورﷺ کی اسی سنت کی اتباع میں فرمایا کہ ’’آج کل چونکہ وبا ء کا زور ہے اس لئے نمازوں میں قنوت پڑھنا چاہیے۔‘‘(البدرنمبر 15، جلد 2، مورخہ یکم مئی 1903ء صفحہ 115)
نیز فرمایا کہ ’’چاہیے کہ ہر ایک شخص تہجد میں اٹھنے کی کوشش کرے اور پانچ وقت کی نمازوں میں بھی قنوت ملاویں۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 192، مطبوعہ 2016ء)
علاوہ ازیں حضور علیہ السلام نے قنوت میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے متعلق بھی راہنمائی فرماتے ہوئے ہدایت دی کہ اس میں ادعیۂ ماثورہ جو قرآن و حدیث میں آئی ہیں وہ ہی پڑھی جائیں۔ (اخبار بدر نمبر 31، جلد 6، مورخہ یکم اگست 1907ء صفحہ12)
قنوت کے بارے میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایک تو اسے مختلف نمازوں میں پڑھنا مسنون ہے، فرض نہیں۔ اس لیے اسے پڑھنا لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیز احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں قنوت کے نمازوں میں پڑھنے کی روایات تو ملتی ہیں لیکن نماز جمعہ میں پڑھنے کی کوئی روایت کہیں نہیں ملتی۔ اس لیے ایسی نیکیوں کو جن میں دوسرے لوگ بھی شامل ہو رہے ہوں اسی حد تک بجا لانا چاہیے جس حد تک شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ تاکہ کسی کو بھی تکلیف مالا یطاق کا سامنا نہ کرنا پڑے۔