جذب ِجنوں میں روح کو نہلا رہے ہیں ہم
جذب ِجنوں میں روح کو نہلا رہے ہیں ہم
صدق و وفا کی رسم کو دہرا رہے ہیں ہم
ہم مانتے ہیں حضرتِ مسرور کو امام
پرچم اسی کے نام کا لہرا رہے ہیں ہم
طاعت امامِ وقت کی حکمِ خدا جو ہے
یہ حکم جان و دل سے بجا لا رہے ہیں ہم
اس در کی چاکری میں تو مضمر ہیں عظمتیں
یہ راز اپنی آل کو بتلا رہے ہیں ہم
ہر قطرۂ لہُو میں وفا کی سند لیے
اس حصۂ نصاب میں یکتا رہے ہیں ہم
لطف و کرم یہ نعمتیں سب اس کی ہیں عطا
اس کے ہی در کا فیض ہے جو کھا رہے ہیں ہم
بن جائیں گے ہمارے لیے گلستاں یہی
ہنستے ہوئے جو زخم سہے جا رہے ہیں ہم
سرکش شریر فوج مقابل کھڑی ہے آج
طوفانِ بےتمیز سے ٹکرا رہے ہیں ہم
مکر و فریب کی ہمیں پہچان ہے بہت
جوتی کی نوک پر اُسے ٹھکرا رہے ہیں ہم
ہر ایک بات فتنہ گروں کی کہی ہوئی
دھتکارتے ہوئے اسے جھٹلا رہے ہیں ہم
جادوگروں نے پتلیاں چھوڑی ہیں موم کی
ایمان کی تپش سے جو پگھلا رہے ہیں ہم
سیکھا نہیں ہے ہم نے وفاؤں کو بیچنا
اے بےضمیر تاجرو! سمجھا رہے ہیں ہم
رہتے ہیں اپنے یار کی صحبت میں ہم ظفرؔ
سچ ہے کہ زندگی کا مزہ پا رہے ہیں ہم
(مبارک احمد ظفرؔ)