خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 06؍مئی2022ء

’’تم سے اللہ تعالیٰ کا عہد و پیمان لیا جاتا ہے کہ تم ضرور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ گے اور ضرور نماز کو قائم کرو گے اور ضرور زکوٰة ادا کرو گے اور اسی چیز پر تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کی طرف سے بھی بیعت کرو گے‘‘

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد صدیقِ اکبرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمالات اور مناقبِ عالیہ

’’تم اپنے ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ‘‘

خلافتِ اولیٰ میں باغی مرتدین کے خلاف کی جانے والی مہمات میں سے چند ایک کا تفصیلی تذکرہ

مکرمہ صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ رفیق احمد بٹ صاحب آف سیالکوٹ اورمکرمہ ثریا رشید صاحبہ اہلیہ رشید احمد باجوہ صاحب آف کینیڈا کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 06؍مئی2022ء بمطابق 06؍ ہجرت 1401 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ (سرے)، یو کے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ

کے بارے میں گذشتہ خطبات میں مہمات بھجوانے کا جو ذکر ہوا تھا ان کی کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں تا کہ اس وقت کے حالات کی شدت کا بھی کچھ اندازہ ہو۔ جیساکہ ذکر ہوا تھا گیارہ مہمات بھیجی گئی تھیں۔ ان میں سے پہلی مہم کی تفصیل کچھ یوں ہے جو طُلَیحَہ بن خُوَیلِد، مالک بن نُوَیْرَہ، سَجَاح بنت حارث اور مسیلمہ کذاب وغیرہ باغی مرتدین اور جھوٹے نبیوں کے قلع قمع کے لیے بھیجی گئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک جھنڈا حضرت خالد بن ولیدؓ کے سپرد کیا اور آپؓ کو حکم دیا کہ طُلَیْحَہ بن خُوَیْلِدکے مقابلے کے لیے جائیں اور اس سے فارغ ہو کر بُطَاحْ میں مالک بن نُوَیْرَہ سے لڑیں اگر وہ لڑائی پر مصر ہو یعنی کہ اگر لڑنے پہ اصرار کر رہا ہو تو پھر لڑنا ہے۔ بُطَاحْ بنو اسد کے علاقے میں ایک چشمہ کا نام ہے وہاں (مقابلہ) ہوا تھا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ257مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(معجم البلدان جلد1 صفحہ527)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کو انصار کا امیر مقرر کیا اور انہیں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ماتحت کر کے حضرت خالد کو حکم دیا کہ وہ طُلَیحہ اورعُیَیْنَہ بن حِصْنکے مقابلے پر جائیں جو بنواسد کے ایک چشمہ بُزَاخَہپر فروکش تھے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ260مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

جب حضرت ابوبکرؓ نے

مرتدین سے جنگ

کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کے واسطے جھنڈا باندھا تو فرمایا: مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ خالد بن ولید اللہ کا بہت ہی اچھا بندہ ہے اور ہمارا بھائی ہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کفار اور منافقین کے خلاف سونتا ہے۔

(البدایۃ و النھایۃ جلد 3 صفحہ 313 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان 2001ء)

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو طُلَیحہاورعُیَیْنَہ کی طرف بھیجا۔ ان دونوں مخالفین کا مختصر تعارف بھی پیش ہے۔

طُلَیحہ اَسَدِی جھوٹے مدعیان نبوت میں سے ایک تھا

جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں نمودار ہوا۔ اس کا نام طُلَیْحَہ بن خُوَیْلِدْ بن نوفل بن نَضْلَہ اسدی تھا۔ عَامُ الوُفُود یعنی وفود کی آمد والے سال میں، نو ہجری میں اپنی قوم بنواسد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور مدینہ پہنچ کر ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور احسان جتاتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ہم اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہاکہ حالانکہ آپؐ نے ہماری طرف کسی کو نہیں بھیجا اور ہم اپنے پیچھے والوں کے لیے کافی ہیں۔ جب یہ لوگ واپس چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی طُلَیحہارتداد کا شکار ہوا اور نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اورسَمِیراءکو اپنا فوجی مرکز بنایا۔ سَمِیراء:قومِ عاد کے ایک شخص کے نام پر اس مقام کا نام رکھا گیا تھا اور مدینہ سے مکہ کی جانب ایک منزل کے فاصلے پر یہ واقع ہے۔ اس علاقے کے ارد گرد سیاہ رنگ کے پہاڑ ہیں جن کی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا۔ بہرحال اس نے جو دعویٰ کیا تھا عوام اس کے مرید ہو گئے۔ لوگوں کی گمراہی کا پہلا سبب یہ ہوا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، پانی ختم ہو گیا تو لوگوں کو شدید پیاس لگی۔ اس نے لوگوں سے کہا کہ تم میرے گھوڑے اِعلَالْ پر سوار ہو کر چند میل جاؤ وہاں تمہیں پانی ملے گا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہیں پانی مل گیا۔ اس وجہ سے یہ دیہاتی اس فتنہ کا شکار ہو گئے۔ پانی کی کوئی جگہ اس نے دیکھی ہوگی پہلے ہی۔بڑی ہوشیاری سے اس نے ان کو وہاں بھیجا اور اس وجہ سے جو اَن پڑھ لوگ تھے وہ اس کے فتنہ کا شکار ہوئے۔ بہرحال اس کی بے حقیقت باتوں میں سے یہ بھی تھی کہ اس نے نماز سے سجدوں کو ختم کر دیا تھا۔ یعنی نمازوں میں سجدے کی ضرورت کوئی نہیں اور اس کا یہ زعم تھا کہ آسمان سے اس پر وحی آتی ہے اور مُسَجَّعْ و مُقَفّٰی عبارتیں بطور وحی کے پیش کیا کرتا تھا۔

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں کاہن لوگ مسجع ومُقَفّٰی عبارتیں لوگوں کے سامنے پیش کر کے ان پر رعب بٹھاتے تھے۔ طُلَیحہ بھی کاہن تھا۔ طُلَیحہ اسدی کے نفس نے اس کو دھوکا میں ڈالا۔ اس کا مسئلہ زور پکڑ گیا۔ اس کی طاقت بڑھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے معاملے کی اطلاع ملی تو آپؐ نے ضِرَار بن اَزْوَر اَسَدِی کو اس سے قتال کے لیے روانہ کیا لیکن ضِرار کے بس کی بات نہ تھی کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قوت بڑھ چکی تھی۔ خاص طور پر اسد اور غطفان دونوں حلیفوں کے اس پر ایمان لے آنے کے بعد مزید بڑھ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور طُلَیحہ کے معاملے کا تصفیہ نہ ہوا۔ جب خلافت کی باگ ڈور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سنبھالی اور باغی مرتدین کو کچلنے کے لیے فوج تیار کی اور قائدین مقرر کیے تو طُلَیحہ اسدی کی طرف حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن ولید کی قیادت میں فوج روانہ کی۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 316-318مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

(اسد الغابہ جزء3 صفحہ94 دارالکتب العلمیۃ بیروت2016ء)

(معجم البلدان جلد3صفحہ290)

یہ صرف مرتد نہیں تھے یا نبوت کے دعوےدار نہیں تھے بلکہ یہ مسلمانوں سے جنگیں بھی کیا کرتے تھے اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔

عُیَیْنَہ بنحِصنْکون تھا؟

اس کے متعلق لکھا ہے۔عُیَیْنَہ وہی شخص ہے جو غزوۂ احزاب کے موقع پر بنو فَزَارَہ کا سردار تھا۔ اس غزوہ کے دوران کفار کے تین لشکروں نے بنو قُریظہ سے مل کر مدینہ پر زبردست حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو ان میں سے ایک لشکر کا سردار عُیَینہ تھا۔ غزوۂ احزاب میں کفار کی شکست کے بعد بھی اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر سے باہر نکل کر اس کے حملہ کو روکا اور اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ یہ غزوہ ذی قَرَدْ کہلاتاہے۔

(سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ139مطبوعہ شرکت پرنٹنگ پریس لاہور)

عُیَینہ بن حِصْن فتح مکہ سے پہلے اسلام لایا اور اس میں شرکت کی۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ مسلمان تھا۔ غزوۂ حُنَین اور طائف میں بھی شرکت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نو ہجری میں بنو تمیم کی سرکوبی کے لیے پچاس سواروں کے ساتھ بھیجا تھا جن میں کوئی بھی انصار یا مہاجر صحابی نہ تھا اور اس سَرِیَّہ کا سبب یہ ہوا تھا کہ بنو تمیم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل کو صدقات لے کر جانے سے روک دیا تھا۔ پھر عہدِصدیقی میں باغی مرتدوں کے ساتھ یہ بھی فتنہ ارتداد کا شکار ہو گیا اور طُلَیحہ کی طرف مائل ہو گیا اور اس کی بیعت کر لی۔ بہرحال بعد میں پھر یہ اسلام کی طرف بھی لوٹ آیا تھا۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء4صفحہ639 دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)

(ضیاء النبی ازپیر محمد اکرم شاہ الازہری جلد4صفحہ566-567مطبوعہ تخلیق مرکز پرنٹرز لاہور1420ھ)

یہ لوگ پہلے بھی اسلام کے خلاف لڑتے رہے تھے۔ پھر مسلمان ہوئے پھر لڑائی شروع کر دی۔ پھر لکھا ہے کہ جب عَبْس اور ذُبْیَان اور ان کے حامی بُزَاخَہ مقام پر جمع ہو گئے تو طُلَیحہ نے بنوجَدِیْلَہ اور غَوث کو جو کہ قبیلہ طَے کی دو شاخیں تھیں کہلا بھیجا کہ تم فوراً میرے پاس آ جاؤ۔ ان قبائل کے کچھ لوگ فوراً اس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے اپنی قوم والوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ ان سے آ ملیں۔ پس وہ لوگ بھی طُلَیحہ کے پاس آ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولید کو ذُوالقَصَّہ سے روانہ کرنے سے قبل حضرت عدیؓ سے کہا کہ تم اپنی قوم یعنی قبیلہ طَے کے پاس جاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ برباد ہو جائیں۔ جنگ کریں اور برباد ہوں۔ حضرت عدیؓ اپنی قوم کے پاس آئے اور ذَرْوَہ اور غَارِب میں ان کو روک لیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان کو خوف دلایا۔ذَرْوَہ بھی غَطَفَان کے علاقے میں ایک جگہ کا نام ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بنو مُرّہ میں بن عوف کے چشمہ کا نام ہے۔ بہرحال ان کے پیچھے ہی حضرت خالدؓ روانہ ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کو حکم دیا تھا کہ پہلے وہ طَے قبیلہ کے اطراف سے مہم کا آغاز کریں اور پھر بُزَاخَہ کا رخ کریں اور وہاں سے آخر میںبُطَاحْ جائیں اور جب وہ دشمن سے فارغ ہو جائیں تو تاوقتیکہ ان کو جدید احکام موصول نہ ہوں وہ کسی اور جگہ حملے کا قصد نہ کریں۔

حضرت ابوبکرؓ نے اس امر کا اظہار کیا کہ آپؓ خود خیبر کی طرف روانہ ہو رہے ہیں۔

آپؓ نے یہ اظہار کر دیا۔ لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ حضرت ابوبکرؓ خود خیبر کی طرف روانہ ہو رہے ہیں اور پھر وہاں سے مڑ کر وہ خالد سےسلمیٰ پہاڑ کے اطراف پر آ ملیں گے۔ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓنے یہ تدبیر اس لیے کی تھی تا کہ جب دشمن کو یہ خبر پہنچے تو وہ مرعوب ہو جائے کہ ایک اَور فوج بھی ہے حالانکہ آپ تمام لشکر حضرت خالدؓ کے ہمراہ روانہ فرما چکے تھے۔ حضرت خالدؓ روانہ ہوئے۔ بُزَاخَہ سے انہوں نے مڑ کر اَجَاء کا رخ کیا۔ اَجَاء اور سَلْمٰی یہ دو پہاڑ ہیں۔ سلمٰی کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے جو سَمِیْرَاء کے بائیں طرف ہیں۔ ایک قول کے مطابق اَجَاء بنو طَے کا ایک پہاڑ ہے۔

بہرحال حضرت خالدؓ نے یہ ظاہر کیا کہ وہ خیبر کی طرف جا رہے ہیں پھر وہاں سے طَے کے مقابلہ پر پلٹیں گے۔ اس تدبیر سے قبیلہ طَے کے لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہے اور طُلَیحہ کے پاس جانے سے رک گئے۔ حضرت عدیؓ بھی طَے کے پاس آئے اور ان کو اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے کہاکہ ابوالفَصِیل کی ہرگز اطاعت نہیں کریں گے۔ ابوالفصیل سے ان کی مراد حضرت ابوبکرؓ تھے۔ فصیل اونٹنی یا گائے کے بچے کو کہتے ہیں جو اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو یا جس کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو۔ چونکہ کلمہ بِکْراور کلمہ فَصِیل دونوں کے معنی اونٹ کے بچے کے ہیں اس لیے بعض لوگ حضرت ابوبکرؓ کو حقارت و توہین کی غرض سے ابوالفَصِیلیعنی اونٹ کے بچے کا باپ کہتے تھے۔ حضرت عدیؓ نے کہا کہ تمہاری جانب ایک ایسا لشکر بڑھا چلا آ رہا ہے جو تم پر ہرگز رحم نہ کرے گا اور قتل و غارت کا بازار اس طرح گرم کرے گا کہ کسی بھی شخص کو امان نہ مل سکے گی۔ میں نے تمہیں سمجھا دیا آگے تم جانو اور تمہارا کام۔

ایک اَور روایت کے مطابق انہوں نے اپنے قبیلہ کے لوگوں کو یہ بھی کہا کہ پھر اس وقت تم حضرت ابوبکرؓ کو فَحْلُ الْاَکْبَرکی کنیت سے یاد کرو گے۔ فحل ہر جانور کے نر کو کہتے ہیں یعنی اب تو تم تمسخر اور حقارت سے ان کو اونٹ کا چھوٹا سا بچہ کہہ رہے ہو پھر تم ان کو مضبوط نر اونٹ کہنے پر مجبور ہو گے۔ قبیلہ طَے کے لوگوں نے ان کی باتیں سن کے کہا کہ اچھا تم اس حملہ آور لشکر سے جا کر ملو اور اسے ہم پر حملہ کرنے سے روکو یہاں تک کہ ہم اپنے ان ہم قوم لوگوں کو جو بُزَاخَہ میں ہیں واپس بلا لیں۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اگر ہم طُلَیحہ کی مخالفت کریں گے جبکہ ہمارے لوگ اس کے قبضہ میں ہیں تو وہ ان سب کو قتل کر دے گا یا ان کو یرغمال کی حیثیت سے قید کر لے گا۔ یہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ اپنے مخالفین کو وہ پھر چھوڑتا نہیں ہے اور طَے قبیلہ کے لوگوں نے بھی کہا کہ کیونکہ ہمارے لوگ وہاں ہیں اس لیے اگر ہم آ گئے یا اس کو بھنک پڑ گئی کہ یہ مسلمان ہونے والے ہیں تو یہ قتل کر دے گا۔

حضرت عدیؓ نے حضرت خالدؓ کا سُنْح مقام میں استقبال کیا۔ سُنْح بھی مدینہ کے مضافات میں ایک جگہ ہے۔ حضرت عدیؓ نے کہا۔ خالد! آپ مجھے تین دن کی مہلت دیں۔ پانچ سو جنگجو آپ کے ساتھ اکٹھے ہو جائیں گے جن کے ساتھ مل کر آپ دشمن پر حملہ کریں۔ یہ بات اس سے بہتر ہے کہ آپ ان کو جہنم کی آگ میں داخل کریں یعنی طَے قبیلے کے لوگ آپ کے ساتھ آ جائیں گے اور ان کے ساتھ برسر پیکار ہو جائیں۔ حضرت خالدؓ نے ان کی تجویز مان لی۔ حضرت عدیؓ اپنی قوم کے پاس آئے۔ اس سے پہلے قبیلہ طَے کے لوگ بُزَاخَہ سے اپنی قوم والوں کو واپس بلانے کے لیے آدمی بھیج چکے تھے۔ قبیلے کے لوگوں نے طُلَیحہ کے لشکر میں اپنے آدمیوں کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ فوراً واپس آ جائیں کیونکہ مسلمانوں نے طُلَیحہ کے لشکر پر حملہ کرنے سے پہلے ان پر چڑھائی یعنی طَے قبیلے پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس لیے وہ آئیں اور اس حملہ کو روکیں۔ یہ تدبیر انہوں نے چلی۔ چنانچہ وہ بطور کمک اپنی قوم کے پاس واپس آ گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو طُلَیحہ اور اس کے ساتھی انہیں زندہ نہ چھوڑتے۔ پھر حضرت عدیؓ نے حضرت خالدؓ کو آکر اپنے قبیلے کے دوبارہ اسلام لے آنے کی اطلاع دی۔

ایک مصنف نے لکھا ہے کہ عدی کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو اسلامی فوج میں شمولیت کی دعوت دی۔

بنو طَے کی لشکر خالد میں شمولیت دشمن کی پہلی شکست تھی کیونکہ قبیلہ طَے کا شمار جزیرہ عرب کے قوی ترین قبائل میں ہوتا تھا۔ دیگر قبائل ان کو اہمیت دیتے تھے۔ ان کی طاقت و قوت کا اعتبار تھا۔ ان سے خوف کھاتے تھے۔ اپنے علاقے میں ان کو عزت اور غلبہ حاصل تھا۔ پڑوسی قبائل ان کے حلیف بننے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔

(تاریخ طبری جلد2صفحہ260 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)

(عبداللہ بن سبا اور دوسرے تاریخی افسانے جلد2-3 صفحہ 92 مترجم سید قلبی حسین رضوی مطبوعہ 1427ھ)

(سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ138 مطبوعہ شرکت پرنٹنگ پریس لاہور)

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 324مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

(حضرت ابوبکر صدیقؓ، ازمحمدحسین ہیکل ،اردوترجمہ شیخ احمدپانی پتی، صفحہ 157)

(معجم البلدان جلد3صفحہ6، جلد1صفحہ119)

(المنجد صفحہ585 زیر لفظ فصل، صفحہ570-571 زیر لفظ فحل)

(فرہنگ سیرت صفحہ157زوار اکیڈیمی کراچی)

پھر حضرت خالدؓ نے یہاں سے جَدِیلَہ کے مقابلے کے خیال سے أَنْسُر کی طرف کوچ کیا۔ أَنسُر بھی قبیلہ طَے کے ایک چشمہ کا نام ہے۔ وہاں اس چشمہ کے ارد گرد آبادی تھی۔ حضرت عدیؓ نے ان سے کہا کہ قبیلہ طَے کی مثال ایک پرندے کی ہے اور قبیلہ جَدِیلَہ قبیلہ طَے کے دو بازوؤں میں سے ایک بازو ہے۔ آپ مجھے چند روز کی مہلت دیں۔ شاید اللہ تعالیٰ جَدِیلَہ کو بھی راہ راست پر لے آئے۔ بغیر جنگ کے ہی یہ لوگ ٹھیک ہو جائیںجس طرح اس نے غوث یعنی قبیلہ طَے کی دوسری شاخ کو گمراہی سے نکال لیا ہے۔ حضرت خالدؓ نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عدیؓ جَدِیلَہ کے پاس آئے۔ حضرت عدیؓ مسلسل ان سے بات چیت کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عدیؓ کی بیعت کی اور ان کے اسلام لے آنے کی بشارت حضرت عدیؓ نے حضرت خالدؓ کو آ کر دی اور اس قبیلے کے ایک ہزار سواروں کے ساتھ مسلمانوں کے پاس آ گئے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ260مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(معجم البلدان جلد1صفحہ314)

حضرت خالد بن ولیدؓ قبیلہ طَے کے قبول اسلام کے بعد طُلَیحہ اَسَدِی کی طرف روانہ ہوئے۔

حضرت خالد بن ولیدؓ جب دشمن کے قریب پہنچ گئے تو آپؓ نے حضرت عُکَّاشہ بن مِحْصَنؓ اور حضرت ثابِت بن اَقْرَمؓ کو دشمن کی خبر لانے کے لیے آگے روانہ کیا۔

جب یہ دشمن کے قریب پہنچے تو طُلَیحہ اور اس کا بھائی سَلَمہ دیکھنے کے لیے اور دریافتِ حال کے لیے نکلے۔ سَلَمہ نے حضرت ثابت کو مہلت بھی نہ دی اور انہیں شہید کر دیا اور طُلَیحہ نے جب دیکھا کہ اس کا بھائی اپنے مقابل سے فارغ ہو چکا ہے تو اس نے اسے اپنے مد مقابل یعنی عکاشہ کے خلاف مدد کے لیے پکارا کہ آؤ میری مدد کرو ورنہ یہ شخص مجھے کھا جائے گا۔ چنانچہ ان دونوں نے مل کر حضرت عکاشہؓ پر حملہ کیا اور ان کو بھی شہید کر دیا اور اپنی جگہ واپس چلے گئے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت خالدؓ نے حضرت عکاشہؓ اور ثابت انصاری کو دشمن کی خبرگیری کے لیے بھیجا تو طُلَیحہ کا بھائی حِبَال ان کو ملا تو ان دونوں نے اس کو قتل کر دیا۔کس حد تک اس میں صداقت ہے اللہ جانتا ہے یا اگر یہ روایت صحیح ہے تو وہ لڑائی کے لیے آمادہ ہوا تو لڑائی ہوئی تب قتل ہوا۔ کیونکہ بہرحال یہ لوگ تو خبر لینے کے لیے گئے تھے۔ لڑائی کرنے کے لیے گئے ہی نہیں تھے۔ جب یہ خبر طُلَیحہ کو پہنچی تو طُلَیحہ اور اس کا بھائی سلمہ نکلے۔ طُلَیحہ نے حضرت عکاشہ کو شہید کر دیا اور اس کے بھائی نے حضرت ثابتؓ کو اور پھر دونوں واپس چلے گئے۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ261-262مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(الکامل فی التاریخ۔ جلد2 صفحہ208-209 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ 2003ء)

حضرت خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ آگے بڑھے یہاں تک وہ اس جگہ پہنچے جہاں حضرت ثابت ؓمقتول ہونے کی حالت میں پڑے ہوئے تھے لیکن ان میں سے کسی کو ان کی خبر نہ تھی یہاں تک کہ اچانک کسی سواری کا ان پر پاؤں آ گیا۔ مسلمانوں پر یہ بہت گراں گزرا۔ پھر جب غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ حضرت عکاشہ بن محصنؓ بھی شہید پڑے ہیں۔ اس سے مسلمان اَور بھی غمگین ہو گئے اور کہنے لگے کہ مسلمانوں کے سرداروں میں سے دو بڑے سردار اور گھڑ سواروں میں سے دو گھڑ سوار شہید ہو گئے۔ تو اس صورت حال کو دیکھ کر حضرت خالدؓ فوج کو مرتب کرنے لگے۔ فوج کو جنگ کے لیے ترتیب دیا اور قبیلہ طَے کی طرف لوٹ گئے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عدی بن حاتمؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے کہلا بھیجا کہ آپؓ میرے پاس آ کر چند روز قیام کریں۔ مَیں طَے کے تمام قبائل کے پاس آدمی بھیجتا ہوں اور جس قدر مسلمان اس وقت آپ کے ساتھ ہیں ان سے کہیں زیادہ فوج آپؓ کے لیے جمع کیے دیتا ہوں اور پھر مَیں خود آپ کے دشمن کے مقابلے میں آپؓ کے ساتھ چلوں گا۔ پس آپؓ میری طرف چل پڑے یعنی اس طرف آ گئے۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت خالدؓ نے قصبہ سَلْمیٰ میں اُرُک مقام پر قیام کیا تھا مگر دوسری روایت کے مطابق آپ نے اَجَاء مقام پر قیام کیا تھا۔ یہاں سے حضرت خالدؓ نے طُلَیحہ کے مقابلے کے لیے اپنی فوج کو مرتب کیا اور بُزَاخَہ پر دونوں کا مقابلہ ہوا۔ جب لوگوں نے لڑائی شروع کی توعُیَینہ نے بنو فَزَارَہکے سات سو افراد کے ساتھ مل کر طُلَیحہکی معیت میں سخت لڑائی کی۔

عیینہ اور طُلَیحہ اکٹھے مل گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ کی۔

طُلَیحہ اپنے اُونی خیمے کے صحن میں چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ یہ نبی بنا ہوا تھا اس لیے یہ خیمے میں بیٹھا رہا اور غیب کی خبریں دیتا تھا۔ کہتاتھا تم لوگ جنگ لڑو میں یہاںسے تمہیں بتاتا ہوں کہ کیا نتیجہ نکلنے والا ہے جبکہ لوگ قتال میں مصروف تھے۔ جب عُیَینہ کو لڑائی میں تکلیف اٹھانا پڑی اور اس کا شدید نقصان ہوا تو وہ طُلَیحہ کے پاس آیااور کہا کیا ابھی تک جبرائیل تمہارے پاس نہیں آئے؟ جنگ میں تو مار پڑ رہی ہے تم کہتے ہو مجھے الہام ہوتے ہیں، وحی ہوتی ہے اور جبرائیل مجھے بتائیں گے کیا ہونا ہے تو بتاؤ ابھی تک کچھ نتیجہ نہیں نکلا؟ جبرائیل آئے نہیں؟ اس نے کہا نہیں۔عُیَینہ واپس گیا پھر لڑائی میں مصروف ہو گیا۔ جب اس کو دوبارہ لڑائی کی شدت نے پریشان کر دیا تو وہ پھر طُلَیحہ کے پاس آیا اور کہا کہ تمہارا برا ہو کیا جبرائیل ابھی تک تمہارے پاس نہیں آئے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم نہیں آئے۔عُیَینہ نے قسم کھاتے ہوئے کہا کب آئیں گے؟ ہمارا تو کام تمام ہوا چاہتا ہے۔ وہ پھر میدانِ جنگ میں پلٹ کر لڑنے لگا اور اب جب پھر اسے ناکامی ہوئی تو وہ پھر طُلَیحہ کے پاس گیا اور پوچھا کیا جبرائیل تمہارے پاس ابھی تک نہیں آئے؟ طُلَیحہنے کہا ہاں آئے ہیں۔عُیَینہ نے پوچھا پھر جبرائیل نے کیا کہا؟ طُلَیحہ نے کہا انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ تیری چکی بھی ان کی چکی کی طرح ہوگی اور ایک ایسا واقعہ ہوگا، تیرا ایسا بول بالا ہوگا کہ جو تم کبھی بھُلا نہیں سکو گے۔عُیَینہ نے یہ سنا تو اپنے دل میں کہا کہ اللہ جانتا ہے کہ عنقریب ایسے واقعات پیش آئیں گے جنہیں تم بدل نہیں سکو گے یا بھُلا نہیں سکوگے۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور اس قوم سے کہا کہ اے بنو فزارہ! بخدا یہ طُلَیحہ کذاب ہے۔ پس تم لوگ واپس چلو۔ اس پر تمام بنو فَزَارَہ لڑائی سے کنارہ کش ہو گئے اور ان لوگوں کو شکست ہوئی تو وہ بھاگے اور طُلَیحہ کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ اس سے پہلے ہی طُلَیحہ نے اپنے لیے اپنا گھوڑا اور اپنی بیوی نَوَار کے لیے اونٹ تیار کر رکھا تھا۔ وہ کھڑا ہوا اور لپک کر اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنی بیوی کو سوار کیا پھر اس کے ساتھ بھاگ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم میں سے جو کوئی بھی اس کی استطاعت رکھتا ہے جیسامَیں نے کیا ہے وہ بھی ایسا کرے اور اپنے اہل کو بچائے۔ دوڑ جاؤ میدان جنگ سے۔ پھر طُلَیحہ نے حُوشِیَّہ کی راہ اختیار کی یہاں تک کہ شام پہنچ گیا۔ اس کی جماعت پراگندہ ہو گئی اور اللہ نے ان میں سے بہتوں کو مار دیا۔ بہت سے مارے گئے۔ ایک روایت کے مطابق طُلَیحہ میدان جنگ سے بھاگ کرنَقْع میں بنو کَلْب کے پاس مقیم ہو گیا اور وہاں جا کے اسلام لے آیا۔ نقع بھی طائف کے اطراف میں مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات تک وہ بنو کَلْب میں ہی مقیم رہا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ261-262، 264مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

(معجم البلدان جلد5صفحہ346، جلد 2 صفحہ 215)

بنوعامر اپنے خاص و عام افراد کے ساتھ اس کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اور قبائل سُلَیم اور ہَوَازِن کا بھی یہی حال تھا۔ پھر

جب اللہ نے بنو فَزَارَہ اور طُلَیحہ کو بری طرح شکست دی تو وہ قبائل یہ کہتے ہوئے آئے کہ جس دین سے ہم نکلے تھے ہم پھر اسی میں داخل ہوتے ہیں۔

وہ خود ہی آ کے اسلام میں شامل ہو گئے اور کہاہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے جان اور مال کے متعلق اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 260تا 262 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

تاریخ طبری کی ایک روایت میں ہے کہ اہل بُزَاخَہ کی شکست کے بعد بنو عامر آئے اور انہوں نے کہا کہ ہم دین میں داخل ہوتے ہیں جس سے ہم نکل گئے تھے۔ حضرت خالدؓ نے ان سے اس شرط پر بیعت لی جو آپؓ نے اہل بُزَاخَہیعنی اَسَد، غَطَفَاناور طَے سے لی تھی اور ان سب نے اسلام قبول کرنے کی شرط پر اطاعت قبول کر لی۔ اس

بیعت کے الفاظ

یہ تھے۔ تم سے اللہ تعالیٰ کا عہد و پیمان لیا جاتا ہے کہ تم ضرور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ گے اور ضرور نماز کو قائم کرو گے اور ضرور زکوٰة ادا کرو گے اور اسی چیز پر تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کی طرف سے بھی بیعت کرو گے۔ اس پر وہ کہتے ہاں۔

(الکامل فی التاریخ۔ جلد2 صفحہ210-211مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ 2003ء)

حضرت خالدؓ نے اَسَد، غَطَفَان، ہَوازِن، سُلَیم اور طَے میں سے کسی کی بیعت قبول نہیں کی سوائے اس کے کہ وہ ان تمام لوگوں کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں جنہوں نے ارتداد کی حالت میں اپنے ہاں کے مسلمانوں کو آگ میں جلایا تھا اور ان کا مُثلہ کیا تھا اور مسلمانوں پر چڑھائی کی تھی۔

حضرت خالدؓ نے ان سے یہ بیعت اس صورت میں لی کہ اپنے ان لوگوں کو ہمارے سپرد کرو جنہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، قتل کیا، ان کے گھروں کو آگ لگائی۔ مسلمانوں کو آگ میں جلایا۔ پھر ان کا مُثلہ کیا اور آگ میں جلایا۔ یہ ساری باتیں کیں۔ انہوں نے کہا ہمارے حوالے کرو گے پھر تمہاری بیعت قبول کی جائے گی۔ وہ ملزمان جو ہیں، سارے مجرم جو ہیں وہ سب پیش ہوں۔ پس ان تمام قبائل نے ان لوگوں کو حضرت خالدؓ کے سپرد کر دیا تو حضرت خالدؓ نے ان قبائل کی بیعت کو قبول کر لیا اور جن لوگوں نے مسلمانوں پر مظالم کیے تھے ظلم کرنے والے جو لوگ تھے ان کے اعضاء بھی قطع کرا دیے اور ان کو آگ میں بھی جلایا گیا۔

(الاستقصا لاخبار دول المغرب الاقصی جزء1 صفحہ76مطبوعہ دارالکتاب1997ء)

بہرحال جو ظلم انہوں نے مسلمانوں پر کیے تھے جیسا کہ گذشتہ خطبہ میں مَیں بیان کر چکا ہوں سزا کے طور پر ان سے اسی طرح سلوک کیا گیا۔

حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حضرت خالدؓ کے ایک خط

کا ذکر ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے قُرَّہ بن ہُبَیرہ اور اس کے چند ساتھیوں کو رسیوں سے باندھ دیا اور پھر قُرَّہ اور دوسرے قیدیوں کو حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کے پاس روانہ کیا اور آپؓ کی خدمت میں لکھا کہ بنو عامر اسلام سے روگردانی اور انتظار کے بعد پھر سے اسلام میں داخل ہو گئے ہیں۔ جن قبائل سے میری جنگ ہوئی یا جن سے بغیر جنگ کے مصالحت ہوئی مَیں نے ان سب سے کسی کی بیعت قبول نہیں کی یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کو میرے پاس لائیں جنہوں نے مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم کیے تھے۔ مَیں نے ان کو قتل کر دیا۔ قُرَّہ اور اس کے ساتھیوں کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں۔

حضرت ابوبکرؓ نے بھی حضرت خالدؓ کے نام ایک خط لکھا جو نافع سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے اس خط کے جواب میں حضرت خالدؓ کو لکھا کہ جو کچھ تم نے کیا اور جو کامیابی تم کو حاصل ہوئی اللہ تم کو اس کی جزائے خیر دے۔

تم اپنے ہر کام میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ(النحل:129)۔یقیناً اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں۔

تم اللہ کے کام میں پوری جدوجہد کرنا اور تساہل نہ کرنا۔ جس شخص نے کسی مسلمان کو مارا ہو اور وہ تمہارے ہاتھ لگ جائے تو اس کو ضرور قتل کر دو اور اس طرح قتل کرو کہ دوسرے عبرت پکڑیں۔ وہ لوگ جنہوں نے خدا کے حکم سے نافرمانی کی ہو اور اسلام کے دشمن ہوں ان کے قتل سے اگر اسلام کو فائدہ پہنچتا ہو تو قتل کر سکتے ہو۔ حضرت خالدؓ ایک ماہ بُزَاخَہ میں فروکش رہے اور اس قسم کے لوگوں کی تلاش میں ہر طرف چھاپے مار کر ان لوگوں کو گرفتار کرتے رہے۔( تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 265مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)اور یوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت کے مطابق ان لوگوں کو سخت سزائیں دیں۔

قُرَّہ بن ہُبَیرہ اور عُیَینہ بن حِصن کے قید ہو کر مدینہ آنے کے متعلق

تاریخ طبری میں اس طرح ذکر آتا ہے کہ حضرت خالدؓ نےبنو عامر کے معاملے کا تصفیہ کر کے جب ان سے بیعت لے لی اور عُیَینہ بن حِصن اور قُرَّہ بن ہُبَیرہ کو قید کر کے حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیج دیا اور جب یہ حضرت ابوبکرؓ کے سامنے آئے تو قُرَّہ نے کہا کہ اے خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مَیں مسلمان ہوں۔ حضرت عمرو بن عاصؓ میرے اسلام کے گواہ ہیں۔ جب وہ میرے پاس سفر کے دوران آئے مَیں نے ان کو اپنا مہمان بنایا، ان کی تعظیم و تکریم کی اور ان کی حفاظت کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو بلا کر اس کی تصدیق چاہی۔ حضرت عمرؓو نے تمام واقعہ بیان کیا اور جو کچھ قُرَّہ نے کہا تھا وہ بتایا اور جب وہ زکوٰة کے متعلق اس کی گفتگو کو بیان کرنے لگے تو قُرَّہ نے کہا بس کیجیے آگے بیان نہ کریں۔ اس پر انہوں نے کہا اللہ کی رحمت ہو۔ حضرت عمروؓ نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ مَیں تو پوری بات حضرت ابوبکرؓ سے بیان کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے تمام گفتگو بیان کر دی۔ قُرَّہ نے زکوٰة کے حوالے سے پہلے کہا تھا کہ اس کے مطالبہ کو ختم کر دیں تو عرب بات سنیں گے یعنی زکوٰة نہ لی جائے۔ اس پر حضرت عمروؓ نے کہا گویا تم کافر ہو چکے تو قُرَّہ نے کہا پھر آپ زکوٰة کے مطالبے کا ایک وقت مقرر کر دیں تو ہم لوگ مل کر فیصلہ کر لیں گے کہ زکوٰة دینی ہے کہ نہیں دینی۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے درگزر کیا۔ بہرحال اس کی باتیں سننے کے باوجود حضرت ابوبکرؓ نے اس سے درگزر کیا اور اس کی جان بخشی کر دی۔

عُیَینہ بن حِصن اس حالت میں مدینہ آیا کہ اس کے دونوں ہاتھ رسی سے اس کی گردن پر بندھے تھے۔ مدینہ کے لڑکے اسے کھجور کی شاخیں چبھو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اے اللہ کے دشمن !کیا ایمان لانے کے بعد تُو کافر ہو گیا ہے؟ تو اُس نے کہا بخدا! مَیں آج کے دن تک کبھی اللہ پر ایمان ہی نہیں لایا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے درگزر کیا اور اس کی بھی جان بخشی کر دی۔

( تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 263-264مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

ایک اَور مصنف لکھتے ہیں کہ عُیَینہ کو خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر کیا گیا۔ اس نے حضرت ابوبکرؓ سے عفو ودرگزر کا ایسا برتاؤ پایا جس کا اس کو یقین نہ تھا۔ آپ نے اس کے ہاتھ کھولنے کا حکم دیا۔ پھر اس سے توبہ کا مطالبہ کیا توعُیَینہ نے خالص توبہ کا اعلان کیا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت پیش کی اور اسلام لایا پھر اچھی طرح اسلام پر کاربند رہا۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے از ڈاکٹر علی محمدصلابی مترجم صفحہ 326مکتبہ الفرقان مظفرگڑھ پاکستان)

جھوٹے مدعیٔ نبوت اور باغی، طُلَیحہ اسدی نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔

اس کے بارے میں لکھا ہے کہ طُلَیحہ اسدی کے اسلام لانے کا سبب یہ ہوا کہ جب اسے اطلاع ملی کہ قبیلہ اسد، غطفان اور بنو عامر مسلمان ہو چکے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گیا۔ پھر وہ حضرت ابوبکرؓ کی امارت میں عمرہ کرنے مکہ روانہ ہوا۔ وہ مدینہ کے اطراف سے گزرا تو حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا گیا یہ طُلَیحہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا مَیں اس کا کیا کروں؟ اس کو چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ نے اسے اسلام کی طرف ہدایت دے دی ہے۔ طُلَیحہ مکہ کی طرف گیا اور عمرہ ادا کیا۔ پھر حضرت عمرؓ کے خلیفہ ہونے کے بعد ان کی بیعت کرنے آیاتو حضرت عمرؓ نے اس سے کہا کہ تم عکاشہ اور ثابت کے قاتل ہو۔ بخدا! مَیں کبھی تم کو پسندنہیں کر سکتا۔ طُلَیحہ نے کہا اے امیر المومنین !آپ ان دو شخصوں کا کیا غم کرتے ہیں جن کو اللہ نے میرے ہاتھوں سے عزت دی۔ شہید ہوئے اور مجھے ان دونوں کے ہاتھوں ذلیل نہیں کیا۔ یعنی میں ذلیل نہیں ہوا۔ ان کے حملے سے مرا نہیں ورنہ میں جہنم میں جاتا اور آج میں اسلام قبول کر کے اللہ تعالیٰ کا فضل پانے والا بن رہا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے اس سے بیعت لےلی اور کہا اے دھوکے باز! تمہاری کہانت میں سے کیا باقی ہے؟ یعنی تم کاہن تھے اس میں سے ابھی بھی کچھ کہانت کا کام کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ ایک آدھ پھونک مار لیتا ہوں۔ پھر وہ اپنی قوم کی قیام گاہ کی طرف آیا اور وہیں مقیم رہا۔

( تاریخ الطبری جلد2 صفحہ264مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

عراق کی جنگوں میں طُلَیحہ نے ایرانیوں کے مقابلے میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ مسلمان ہونے کے بعد عراق کی جنگوں میں یہ لڑا اور اچھا لڑا اور جنگ نَہَاوَنْد میں 21؍ہجری میں شہید ہوا۔

(حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل صفحہ 144،بک کارنر شوروم بک سٹریٹ جہلم پاکستان)

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء3صفحہ441 دارالکتب العلمیۃ بیروت2005ء)

حضرت خالد بن ولید کا ظَفَر، یہ ایک علاقہ ہے اس جانب جانا اور اُمِّ زِمل سلمیٰ بنتِ اُمِّ قِرْفَہ کی طرف پیش قدمی۔

ام زِمل

کا نام سلمیٰ بنت مالِک بن حُذَیفہ تھا جو اپنی ماں اُمِّ قِرْفہ بنت رَبِیعہ سے مشابہ تھی۔ وہ عزت و شہر ت میں اپنی ماں جیسی تھی اور اس کے پاس اُمِّ قرفہ کا اونٹ بھی تھا۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 265مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

اُمِّ قِرْفہ

کا تعارف یہ ہے کہ اُمِّ قرفہ کا نام فاطمہ بنت ربیعہ تھا اور وہ بنو فَزَارَہ کی سردار تھی۔ یہ عورت اپنی قوت اور حفاظتی انتظامات کے طور پر ایک ضرب المثل مانی جاتی تھی۔ اس کے گھر میںہر وقت پچاس تلواریں آویزاں رہتی تھیں اور پچاس مردانِ شمشیر زَن ہر وقت وہاں موجود ہوتے تھے۔ یہ سب کے سب اس کے بیٹے اور پوتے تھے۔ اس کے ایک بیٹے کا نام قرفہ تھا اس کی وجہ سے اس کی کنیت اُمِّ قرفہ تھی جبکہ اس کا اصلی نام فاطمہ بنت ربیعہ تھا۔ اس کا گھر وَادِی القُرٰی کی ایک جانب تھا جو مدینہ طیبہ سے سات رات کی مسافت پر تھا۔

(پیغمبر اسلام اور غزوات و سرایا از حکیم محمود احمد ظفر صفحہ447مطبوعہ شفیق پریس)

ام قرفہ کی طرف ایک سَرِیَّہ چھ ہجری میں وقوع پذیر ہوا۔ اُمِّ قرفہ کی سرکوبی کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس نے مدینہ پر حملہ کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ اس بارے میں ایک مصنف نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ اس نے اپنے تیس بیٹوں اور پوتوں کا ایک دستہ تیار کیا اور کہا کہ مدینہ پر چڑھائی کرو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرو۔ اس لیے مسلمانوں نے اس فتنہ باز عورت کو کیفرِکردار تک پہنچا دیا۔

(ضیاء النبیﷺ ازپیر محمد اکرم شاہ الازہری جلد4صفحہ121مطبوعہ تخلیق مرکز پرنٹرز لاہور1420ھ)

اس کا دوسرا سبب یہ تھا کہ حضرت زید بن حارثہ تجارت کی غرض سے شام کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے پاس دیگر صحابہ کرام کے اموالِ تجارت تھے۔ جب وادی القریٰ پہنچے تو قبیلہ فَزَارَہ کی شاخ بنو بدر کے بہت سے آدمی نکل آئے۔ انہوں نے حضرت زیدؓ اور ان کے ساتھیوں کو سخت مارا پیٹا اور سارا سامان بھی چھین لیا۔ انہوں نے واپس آ کر بارگاہِ رسالت میں یہ واقعہ عرض کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر اُن کے ساتھ بھیجا تا کہ ان لٹیروں کی گوشمالی کرے۔

(ضیاء النبیﷺ ازپیر محمد اکرم شاہ الازہری جلد4صفحہ120 مطبوعہ ضیاع القرآن پبلی کیشنز لاہور)

ام قرفہ کی بیٹی اُمِّ زِمل سلمیٰ کا واقعہ یوں ہے کہ غَطَفَان، طَے، سُلَیم اور ہَوَازِن کے بعض لوگ جنہوں نے بُزَاخَہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہاتھوں شکست کھائی تھی، بھاگ کر اُمِّ زِمل سلمیٰ بنت مالک کے پاس پہنچے اور وعدہ کیا کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ مل کرجنگ کرتے ہوئے جانیں قربان کر دیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

(سیرت سیدنا صدیق اکبرؓ منسوب بہ استاذ عمر ابو النصر،صفحہ 610،مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور)

غطفان کے شکست خوردہ لوگ ظَفَر میں جمع ہو گئے۔ یہ ظَفَر جو ہے بصریٰ اور مدینہ کے راستے پر ایک مقام ہے۔ یہ حَوأب کے قریب ایک مقام ہے۔ حَوأب بھی مدینہ اور بصریٰ کے راستے پر ایک جگہ ہے اور وہاں ایک کنواں ہے۔ وہاں

ام زِمل سلمیٰ نے ان لوگوں کو ان کی شکست پر غیرت دلائی اور جنگ کا حکم دیا اور پھر خود بھی مختلف قبائل میں بار بار چکر لگا کر ان کو حضرت خالدؓ سے جنگ کے لیے اکسایا یہاں تک کہ وہ لوگ ان کے پاس جمع ہو گئے اور جنگ کے لیے دلیر ہو گئے۔

یہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے بھڑکانے والی تھی اور ہر طرف سے بھٹکے ہوئے لوگ اس کے پاس آ گئے۔ اس سے قبل اُمِّ قرفہ کی زندگی میں یہ اُمِّ زِمل سلمیٰ قید ہو کر حضرت عائشہؓ کو ملی تھی۔ انہوں نے اسے آزاد کر دیا تھا۔ یہ کچھ عرصہ ان کے پاس رہی پھر اپنی قوم میں چلی آئی۔ وہاں جا کےمرتد ہو گئی۔

(الکامل فی التاریخ۔ جلد2 صفحہ211ذکر ردۃ بنی عامر، و ھوازن و سلیم۔مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ 2003ء)

( المعجم البلدان جلد 4 صفحہ 68، جلد 2صفحہ 360)

جب حضرت خالدؓکو اس کی اطلاع ہوئی وہ اس وقت مجرموں کی گرفتاری، زکوٰة کی تحصیل، دعوتِ اسلام اور لوگوں کی تسکین میں منہمک تھے تو اُمِّ زِمل سلمیٰ کے مقابلہ کے لیے بڑھے جس کی شوکت اور طاقت بہت بڑھ چکی تھی اور اس کا معاملہ بہت شدت اختیار کر گیا تھا۔ پس حضرت خالدؓ اس کے اور اس کی جمعیتوں سے مقابلے کے لیے آگے بڑھے۔ نہایت شدید جنگ ہوئی۔ اُمِّ زِمل سلمیٰ اس وقت اپنی ماں کی طرح بڑی شان سے اپنی ماں کے اونٹ پر سوار تھی اور دونوں لشکروں کے درمیان شدید جنگ ہوئی۔ اُمِّ زِمل اونٹ پر سوار اشتعال انگیز تقریروں سے برابر فوج کو جوش دلا رہی تھی۔ مرتدین بھی بڑی بہادری سے جان توڑ کر لڑ رہے تھے۔ اُمِّ زِمل کے اونٹ کے گردسو اونٹ اَور تھے جن پر بڑے بڑے بہادر سوار تھے اور بڑی پامردی سے اُمِّ زِمل کی حفاظت کر رہے تھے۔ مسلمان شہسواروں نے اُمِّ زِمل کے پاس پہنچنے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن اس کے محافظوں نے ہر بار انہیں پیچھے ہٹا دیا۔ پورے سو آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد مسلمان آخر کار اُمِّ زِمل کے اونٹ کے قریب پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی انہوں نے اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اُمِّ زِمل کو قتل کر دیا۔ اس کے ساتھیوں نے جب اس کے اونٹ کو گرتے اور اُسےقتل ہوتے دیکھا تو اُن کی ہمت نے جواب دے دیا اور بدحواس ہو کر بے تحاشامیدان جنگ سے بھاگنے لگے۔ اس طرح اس فتنہ کی آگ ٹھنڈی ہو گئی اور جزیرہ نما عرب کے شمال مشرقی حصہ میں ارتداد اور بغاوت کا خاتمہ ہو گیا۔

(حضرت ابوبکرصدیقؓ ازمحمدحسین ہیکل۔اردوترجمہ ص156-157 مطبوعہ بک کارنر جہلم)

حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو اس فتح کی بشارت بھیجی۔

(تاریخ الطبری جلد2 صفحہ 265مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان2012ء)

حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں یہ ذکر ابھی آگے بھی ان شاء اللہ بیان ہو گا۔ اس وقت اتنا ہی بیان کرتا ہوں۔

اس وقت میں

دو مرحومین کا ذکر

بھی کروں گا۔ جمعہ کی نماز کے بعد ان کے جنازے پڑھاؤں گا۔

پہلے

صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ رفیق احمد بٹ صاحب سیالکوٹ ہیں

جو گذشتہ دنوں وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ مرحومہ کے بارے میں ان کے بیٹے نے لکھاہے کہ نمازوں کی پابند، تہجد گزار، دعا گو، مہمان نواز، غریب پرور، نیک فطرت خاتون تھی۔ خلافت کے ساتھ گہری وابستگی تھی اور عقیدت کا تعلق تھا۔ باقاعدہ اہتمام کے ساتھ خطبات سنا کرتی تھیں۔ واقفینِ زندگی کا بہت احترام کرتی تھیں۔ ان کے بیٹے نسیم بٹ صاحب کاڈونا (Kaduna) نائیجیریا میں مربی سلسلہ ہیں۔ میدانِ عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہو سکے تھے اس لیے ان کا جنازہ پڑھا رہا ہوں۔ ان کا سارا خاندان ہی، ان کے خاوند بھی اور باقی ان کے بیٹے، پوتے جماعت کی خدمت کرنے میں پیش پیش ہیں۔

دوسرا جو ذکر ہے وہ جنازہ

ثریا رشید صاحبہ

کا ہے۔ مرحومہ رشید احمد باجوہ صاحب کی اہلیہ تھیں۔ 20؍اپریل کو ان کی کینیڈا میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔یہ بھی بڑی نیک خاتون تھیں۔ تقویٰ شعار، دعا گو، غریب پرور، مہمان نواز، ملنسار۔ عرصہ تک انہیں اپنے محلہ کی صدر لجنہ کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی بھی ان کو بہت زیادہ توفیق ملی اور پھر ربوہ آگئیں جہاں انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی وجہ سے اپنا سب کچھ بیچ کے ربوہ آ کر اپنا گھر بنایا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ ان کے بھی ایک بیٹے سفیر باجوہ صاحب ربوہ میں مربی سلسلہ ہیں۔ ایک بیٹی بھی مربی سلسلہ کی اہلیہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان دونوں سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کواور ان کی نسلوں کو بھی ان نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button