حضور انور کے ساتھ ملاقات

واقفاتِ نو (ناصرات الاحمدیہ) برطانیہ کی (آن لائن) ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفاتِ نو (ناصرات الاحمدیہ) برطانیہ کی (آن لائن) ملاقات

اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے، بے انتہا رحم کرنے والا ہے اور لوگوں کو معاف کرنے والا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کے آٹھ دروازے رکھے ہیں

امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ 8؍مئی 2022ء کو واقفاتِ نو (ناصرات الاحمدیہ) برطانیہ جن کی عمر 12 سے 15 سال ہے، کی آن لائن ملاقات ہوئی۔

حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ واقفاتِ نو نے بیت الفتوح Mordenسے آن لائن شرکت کی۔ اس ملاقات کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ بعد ازاں و اقفات نو کو حضورِانور سے سوالات پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک واقفہ نَو نے عرض کی کہ حضورِانور نے اس خطبہ عید میں فرمایا کہ ہماری حقیقی عید وہ ہو گی جب ہم رسول پاکﷺ کو اپنی عیدوں میں شامل کریں۔ ایسا ہم کس طرح کرسکتے ہیں؟

حضورِانورنے فرمایا کہ غور سے سنو تو وہیں مَیں نے بتایا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پہنچاؤ، تبلیغ کرو اور آپؐ کی جو تعلیم ہے اس کو دنیا میں پھیلاؤ، تعلیم پر خود عمل کرو، قرآن کریم کو پڑھو، اسلام کی تعلیم کو غور سے دیکھو کہ کیا ہے، اس پہ خود بھی عمل کرو اور دوسروں کو بھی بتاؤ اور جب ہم اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم دنیا میں پھیلا دیں گے اور دنیا کو آپؐ کے جھنڈے کے نیچے لے آئیں گے تو اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شمولیت ہو گی، وہ عید ہوگی۔ اس سےیہ مراد تھی۔

ایک واقفہ نو نے سوال کیا کہ ہم ان لوگوں کو کیا کہہ سکتے ہیں جو حجاب کا تمسخر اڑاتے ہیں یا اس حوالہ سے خود کیا کر سکتے ہیں ؟

حضورِانور نے فرمایا کہ اگر آپ میں مضبوط عزم و ہمت ہے اور اگر آپ اپنے دین میں ثابت قدم اور مضبوط ہیں تو پھر آپ کو فکر نہیں کرنی چاہیے کہ دوسرے لوگ کیا کہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ا یک حکم ہے کہ خواتین کو حجاب پہننا چاہیے۔ انہیں اپنا سر اور سینہ ڈھانپنا چاہیے۔ اور اگر ہم حقیقی مسلمان ہیں تو ہم نے ان احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اگر لوگ ہمارا تمسخر اڑاتے ہیں تو آپ پروا نہ کریں۔ آپ انہیں بتائیں کہ یہ میری مرضی ہے اور یہ میرا ذاتی نظریہ ہے۔ مجھے حق حاصل ہے کہ میں جو مرضی چاہوں کروں اور مجھے ذاتی طور پر پسند ہے۔ میں یہ اپنی مذہبی تعلیمات کی وجہ سے پہنتی ہوں۔ کیونکہ یہ شریعت اور قرآن کریم کا حکم ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔ تو اگر آپ میں مضبوط عزم و ہمت ہے اور آپ ایک پکے احمد ی ہیں تو پھر آپ کو لوگوں کی باتوں کی کبھی بھی فکر نہیں ہوگی۔ آپ ان سے پوچھ سکتی ہیں کہ وہ حجاب کیوں نہیں پہنتے اور یہ کہ وہ غیر اخلاقی کاموں میں کیوں ملوث ہیں، جو انہیں بیشک اخلاقی لگتے ہیں جبکہ آپ کو آپ کی تعلیم کے مطابق وہ کام غیراخلاقی لگتے ہیں۔ اگر میں آپ کی باتوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتی تو پھر آپ مجھ سے یہ سوال کرنے والی کون ہوتی ہیں کہ میں حجاب کیوں پہنتی ہوں؟

ایک اَور واقفہ نونے سوا ل کیا کہ کیا تہجد کی نماز میں کی ہوئی ہر دعا قبول ہوتی ہے؟

حضورِانورنے فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ آپ نے تہجد کس طرح پڑھی ہے۔ تہجد کی نماز ایک ایسی نماز ہے جس میں کوئی نہیں جانتا کہ انسان پڑھ رہا ہے۔ آدمی بالکل علیحدہ ہوتا ہے، بالکل isolation میں پڑھی جارہی ہوتی ہے اور بندہ جانتا ہے یا اللہ جانتا ہے کہ تم کیا دعائیں کر رہی ہو،کس طرح نماز پڑھ رہی ہو۔ تو اگر دعائیں ایک دل کے سوز سے نکل رہی ہیں، دل کی آواز نکل رہی ہے اور جائز دعائیں ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور وہ چاہے تہجد کی نماز میں تم پڑھو یا فرائض میں پڑھو یا سنتوں میں پڑھو یا باقی نوافل میں کرو تو اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ایک بندہ جب میری خاطر رات کو اپنی نیند خراب کر کے اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز کے لیے جاگتا ہے اور میرے سامنے جھکتا ہے تو میں اس بندے کو rewardدیتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کی خاطر جب ہم کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کے لیے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے مانگنے کے لیے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کے جب کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ تم نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا اس لیے میں تمہیں reward دوں گا اور اللہ تعالیٰ وہ دعائیں سنتا ہے۔ یہ کہنا کہ ہر دعا قبول ہوتی ہے یہ اللہ بہتر جانتا ہے کس قسم کی دعائیں تم کر رہی ہو۔ کسی کو بددعائیں دے رہی ہو تو وہ تو نہیں اللہ تعالیٰ قبول کرے گا ناں۔ اپنے لیے اچھی اچھی دعائیں کر رہی ہو تو وہ قبول کر لے گا۔

ایک واقفہ نو نے عرض کی کہ اسلامی تعلیم کے مطابق جب کوئی فوت ہو جائے تو اس کو جلد دفن کرنے کا حکم ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسلمان سائنسدانوں نے میڈیسن میں ریسرچ کے لیے فوت شدہ انسانوں کے جسموں پر تجربات کیے۔ کیا ہم بطور مسلمان ریسرچ کے لیے مردہ جسم کو donateکر سکتے ہیں جیسا کہ آرگن ڈونیشن کی بھی اجازت ہے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ ہاں عمومی طور پر یہ حکم ہے کہ اگر کوئی بندہ فوت ہو جائے تو اس کی تدفین جلدی کر دینی چاہیے لیکن اگر انسانی فائدے کے لیے، انسانوں کی جان بچانے کے لیے، ریسرچ کے لیے، مزید تحقیق کے لیے اگر جسم کے آرگن کو، مختلف قسم کو دیکھتے ہیں، ان کو استعمال کرتے ہیں یا تھوڑی دیر تک دل بھی اگر دھڑکتا رہتا ہے اس کو دیکھتے ہیں یا دوسرے آرگن جو کام کر رہے ہیں ان کو بھی استعمال کرتے ہیں پھر بعض لوگ اپنے آرگن ان کو donateکرتے ہیں۔ مثلاً آنکھیں ہیں، تو وہ پھر کچھ عرصہ کے لیے رکھتے ہیں۔ اور ان کو جلدی سے نکالنے کے لیے کوشش کرتے ہیں تا کہ دوسرے کو ٹرانسپلانٹ کی جا سکیں۔ اسی طرح دوسرے آرگن ہیں، تو ریسرچ کے لیے یا انسانی فائدہ پہنچانے کے لیے اس کے مرنے کے بعد اگر کسی انسان کا آرگن لے بھی لیتے ہیں تو کوئی ہرج نہیں۔ یہ جائز ہے۔ لیکن عمومی طور پر یہ ہے کہ اگر کوئی مقصد نہیں ہے توبلاوجہ مُردوں کو لمبا عرصہ نہیں رکھنا چاہیے۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جلدی دفنا دو۔

ایک اَور واقفہ نو نے سوال کیا کہ اگر ہم احمدی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تو پھر کیا اللہ تعالیٰ ایک دوسری قوم لے آئے گا؟ کیا وہ وعدے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیے ہیں وہ اس دوسری قوم کے ذریعہ پورے ہوں گے ؟اور کیا وہ لوگ احمدی ہوں گے؟ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہوں گے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ ظاہر ہے اگر ہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود فرمایا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کسی اَور کو لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیے ہیں وہ تو پورے کرنے ہیں۔ اور جو آئیں گے وہ وعدے پورے کرنے کے لیے وہ بھی ظاہر ہے کہ احمدی ہوں گے، حضرت مسیح موعود پہ ایمان رکھتے ہوں گے تا کہ آپؑ کے مشن کو آگے چلائیں۔ اس لیے اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا پورا کردار ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ کسی اَور ذریعہ سے بھی کر دے گا۔ اب افریقہ میں بڑے بڑے مخلص پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریاں سمجھتے ہیں۔ تبلیغ بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو احمدی بھی بناتے ہیں۔ اسی طرح یورپ میں بعض لوگ ہیں، بعض دوسرے جزائر میں، انڈونیشیا وغیرہ میں یا فار ایسٹ میں، اَور ملکوں میں ایسے لوگ ہیں تو یہ صرف پاکستانی یا ہندوستانی قوم کا کام تو نہیں ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لیے نبی بن کے آئے تھے اورآپؑ کا جو مسیح موعود ہے وہ بھی ساری دنیا کے لیے آیا ہے۔ ہم نے ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ ساری دنیا کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لے کے آنا ہے۔ ساری دنیا کو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پیغام دینا ہے۔ تو یہ ہمارا کام ہے، یہ مشن ہے جسے مسیح موعود لے کر آئے تھے کہ میرے دو ہی کام ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کے حق ادا کرنا، بندوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بنانا۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا بنانا، اس کی عبادت کرنے والا بنانا اور دوسرے آپس میں ایک دوسرے کے حق کا خیال رکھنا، اعلیٰ اخلاق دکھانا، اچھے اخلاق دکھانا۔ اور اچھے کام کرنا اور اسلام کی جو تعلیمات ہیں، اللہ تعالیٰ کے قرآن کریم میں بے شمار حکم ہیں ان کو دنیا میں پھیلانا۔ تو یہ کام ہم نے کرنے ہیں۔ اگر ہم نہیں کریں گے، ہم اگر دنیا داری میں پڑ جائیں گے، ہم اگر قرآنی تعلیم پہ عمل نہیں کریں گے، اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کریں گے، ہم اگر قرآن کریم پڑھ کے قرآن کریم کے حکموں کو تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم اگر بنیادی اخلاق کو بھول جائیں گے اور دنیا کمانا اور دنیا کی رونقوں میں ڈوب جانا ہمارا مقصد ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ اَور قومیں کھڑی کرے گا اور کر رہا ہے جو اس مقصد کو پورا کریں گی اور اس کام کو پورا کریں گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مشن کو پورا کریں گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا تھاکہ تم یہ نہ سمجھو کہ یہ لوگ پھیلائیں گے یا کوئی ہو گا۔ مَیں ایسے لوگ پیدا کروں گا، مَیں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ اور اللہ تعالیٰ پہنچا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگ کھڑے کر رہا ہے جس کا پتابھی نہیں لگتا اور وہ سامنے آ جاتے ہیں اور وہ پیغام کو پہنچانے والے بن جاتے ہیں۔ اگر ہم شامل ہو جائیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس فعل میں شامل ہو جائیں گے۔ اس کی برکتیں اور فضل ہمیں حاصل ہو جائیں گے۔ اور اگر اس تبلیغ کے کام کو دنیا میں پہنچانے میںہم اپنا کردار ادا نہیں کریں گے، اپنا رول پوری طرح playنہیں کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ تو یہ کام کروا کے رہے گا لیکن دوسرے لوگوں سے کروا لے گا۔

ایک اَور واقفہ نو نے سوال کیا کہ آج کے زمانے میں ہم teenage لڑکیاں کیسے تبلیغ کر سکتی ہیں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ اپنے اچھے اخلاق دکھاؤ، اچھے morals دکھاؤ۔ اپنے دین کی تعلیم کی خوبیاں اپنی لڑکیوں میں بیٹھ کر ڈسکس (discuss)کرو۔ لوگوں کو کہنا کہ تم مسلمان ہو جاؤیہ ضروری نہیں ہوتا۔ اس طرح کوئی مسلمان نہیں ہو گا۔ لوگ چڑیں گے۔ انہوں نے کہنا ہے کہ مسلمان تو بڑے خطرناک لوگ ہوتے ہیں۔ تم اچھے اخلاق اپنے آپ کے دکھاؤ گی اپنے دوستوں کے سامنے اچھی طرح پیش آؤ گی اور اپنے ٹیچرزکے سامنے اچھا behaveکرو گی اور پڑھائی میں اچھی ہو گی تو سکولوں میں بھی تم لوگوں کا نام ہو گا۔ ٹیچر بھی پوچھے گا اچھا تم کون ہو؟سٹوڈنٹس بھی پوچھیں گے تم کون ہو؟ پھر تم بتاؤ گی۔ پھر بعض دفعہ موقع مل جاتا ہے اسمبلی میں یا ویسے سکولوں میں اسلام کے بارے میں یا اپنے بارے میں کچھ بتانے کا تو کئی بچے ایسے ہیں، لڑکے بھی، لڑکیاں بھی جن کو موقع ملتا ہے وہ سکولوں میں پھر بتاتے ہیں کہ اسلام کی کیا تعلیم ہے۔ ہم احمدی مسلمان ہیں، ہمارا مشن کیا ہے تو اس سے پھر آہستہ آہستہ تبلیغ کے رستے کھلتے ہیں اور پھر جب وقت آئے گا، اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو گی بعض لوگ جن کے دل اللہ تعالیٰ کھولنا چاہتا ہے وہ خود کھول دیتا ہے۔ زبردستی ہم کسی کو مسلمان نہیں بنا سکتے۔ لیکن کم از کم یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی اسلام کی تعلیم کا اظہار اپنے اوپر بھی کریں اور اچھے اخلاق دکھائیں تو لوگ خود بخود ہماری طرف کھنچے آئیں گے۔

ایک اَور واقفہ نونے سوال کیا کہ ہمیں ایسی سکول ٹرپس میں جانے کی اجازت ہے جن میں overnights stay ہوتا ہے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ عمومی طور پر تو اس سے بچنے کے لیے میں کہتا ہوں سوائے اس کے کہ سکول force کرے اور compulsory ہو۔ ہر ایک کے لیے mandatory بن جائے کہ ضرور جانا ہے تو پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن otherwise day tripتو ٹھیک ہے۔ رات کو avoidکرنا چاہیے، رات کے tripکو۔ کیونکہ بہت سارے لڑکوں سے بھی، لڑکیوں سے بھی جو جاتے ہیں میں نے ان سے پوچھا ہے ان کا ایک دفعہ جانے کے بعد experienceجو ہے وہ اچھا نہیں ہوتا۔ صرف یہی نہیں کہ احمدی، بعض غیر احمدی بچوں سے ہندو یا دوسرے بچوں سے بھی مجھے پتہ لگا ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہاں بعض دفعہ ماحول اچھا نہیں ہوتا۔ اور وہ ایک تو چھیڑ چھاڑ بہت زیادہ کرتے ہیں اور پھر بعض دفعہ bullyکرنا بھی شروع کر دیتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ غلط قسم کی حرکتیں بھی کرتے ہیں تو اس لیے بہتر یہ ہے کہ overnight stay کو avoid کیا جائے۔ اگر تم نے باہر جانا ہے، سیر کرنے کا شوق ہے تو اپنے اماں ابا سے کہو تمہیں overnight stay باہر کرائیں،کیمپنگ کروا لیں۔ میں نے بعض بچوں کو کہا وہ اس طرح کریں کہ ماں باپ خود آرگنائز کریں ان کا overnight stay، کیمپ لے کر جائیں تو لوگوں نے کیا۔ آپ تو ناصرات ہیں، لجنہ ہیں واقفاتِ نَو ہیں تم لوگوں نے کیمپ لگانا ہے حدیقۃ المہدی میں جا کے کیمپنگ کرو۔ overnight stay بھی ہو جائے گا تمہاری enjoyment بھی ہو جائے گی اور جماعتی سسٹم میں رہ کے ہو گا تو پھر جو غلط قسم کی باتیں ہوتی ہیں وہ بھی نہیں ہوں گی۔

ایک اَور واقفہ نو نےعر ض کی کہ بیت الفتوح میں حضورِانور کی عدم موجودگی کا بہت زیادہ احساس کیا جارہاہے۔اور انہوں نے سوا ل کیاکہ حضورِانور بیت الفتوح کب دوبارہ تشریف لائیں گے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ دعا کریں۔ جب حالات بہتر ہو جائیں گے تو میں دوبارہ جمعہ کے لیے مسجد بیت الفتوح آجایا کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔اس کا انحصار آپ کی دعاؤں پر ہے اور اس بات پر کہ کب ہمیں اس کووڈ کی وبا سے خلاصی ملے گی۔

ایک اَور واقفہ نو نے عرض کی کہ سورۃ الاعراف کی آیت 12کی تشریح میں لکھا ہوا ہے کہ ابلیس سب evil spirits کا سردار ہے جیسے حضرت جبرئیل سب فرشتوں کے سردار ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس دنیا میں evil spiritsکہاں پہ ہیں اور ان کا کیا کام ہے اور ہم ان کے اثرات سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ ہر برا کام شیطان کا کام ہے اور ان برے کاموں کی جو پھونکیں مارتا ہے جو اس کے لیے لوگوں کو بھڑکاتا ہے اس کا نام شیطان ہے۔ تو اس لیے ہر نیک کام، روحانی کام جبرئیل علیہ السلام اپنے باقی کام کرنے والے ساتھیوں کے ذریعہ سے، اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے دنیا میں لوگوں کو بتاتے ہیں۔ اور جو شیطانی کام ہیں، جو برے کام ہیں، جو گندے کام ہیں ان کے لیے شیطان ہر وقت کانوں میں پھونکیں مارتا رہتا ہے کہ یہ کرو، یہ کرو، یہ کرو۔ اور پھر یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ برے کاموں کو بتائے، برے کاموں کو اچھا رنگ دے کر، جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو بتایا کہ اگر تم یہ پھل کھا لو یا یہ کام کر لو تو تم جنت میں مستقل رہ جاؤ گے اور انہوں نے اس کے دھوکے میں آ کے کر لیا۔ تو بعض دفعہ اچھے کاموں کا بہانہ کر کے شیطان برے کام بھی انسان سےکروا دیتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ ایک تو اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم پڑھتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ شیطان کے دھوکے سے، شیطان کے حملوں سے ہمیں پناہ میں رکھے۔ پھرلاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم بھی پڑھتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی سب طاقتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے foldمیں لے لے اور محفوظ رکھے اور ہر قسم کے شیطانی حملوں سے ہمیں بچا کے رکھے تا کہ کوئی گندے خیالات ہی نہ آئیں۔اور استغفار بھی کرتے رہنا چاہیے۔استغفر اللّٰہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ۔ یہ چیزیں جو ہیں یہ شیطان کے حملوں سے بچاتی رہتی ہیں۔

ایک اور واقفہ نونے سوال کیا کہ آپ کی کیا adviceہے ان بچوں کے لیے جو مینٹل ہیلتھ اور ڈپریشن کے شکار ہیں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ کھلی ہوا میں جایا کریں اور پہلے تو وجہ معلوم کریں۔ ان کو اپنے کسی psychiatristکو دکھانا چاہیے، ان کے ماں باپ کو، ان کے parentsکو، ان کے بڑے بہن بھائیوں کو کسی psychiatrist کے پاس لے جائیں اور اس کا صحیح طرح علاج کریں اور اس کی جو تکلیف ہے دور کرنے کی کوشش کریں۔ اور پھر یہ ہے کہ یہ نوٹ کرو کہ کس وقت زیادہ ایسی صورت بنتی ہے۔ دن کے وقت دس گیارہ بجے بنتی ہے تو پھر اس وقت تھوڑی سی کھلی ہوا میں باہر جا کے ٹہلیں۔ دوسرے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے خود بھی دعا کریں۔ تھوڑی اپنی بھی will powerہونی چاہیے determination بھی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس phaseمیں سے نکالے۔ تو علاج بھی ہو اور دعا بھی ہو تو ان شاء اللہ تعالیٰ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے لیے آجکل ایم ٹی اے پہ پروگرام بھی آرہے ہوتے ہیں ایک ڈاکٹر صاحب بتا رہے ہوتے ہیں کس طرح دور کی جا سکتی ہے۔ وہ پروگرام دیکھ لو اور میرا خیال ہے اس کی آن لائن ریکارڈنگ چل رہی ہو گی وہاں سے بھی پتا لگ جاتا ہے تو دیکھ کے جو ان کے parentsہیں یا بڑے بہن بھائی ہیں وہ دیکھ لیں پھر اس کے مطابق treatmentکریں لیکن بہرحال یہ بیماری ہے اس بیماری کو پوری طرح seriously دیکھنا چاہیے، اورtreatکرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ کسی ڈپریشن والے کا مذاق اڑا دیا ، یوں نہیں کرنا چاہیے۔ اور خود بھی استغفار کرو اور نماز پڑھو تو اللہ تعالیٰ پھر اسے ٹھیک کر دیتا ہے۔

ایک اَور واقفہ نونے سوال کیا کہ ہم خود کو سوشل میڈیا کے negative استعمال سے کیسے بچا سکتے ہیں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ تمہیں پتا ہے سوشل میڈیا کی کون سی چیزیں negative ہیں کون سی positive ہیں؟ کہتے ہیں کہ اگر کوئی سویا ہوا آدمی ہو اس کو تم جگا سکتے ہو جو جاگ رہا ہو اس کو کس طرح جگاؤ گے جو مچلا بن کے سویا ہو۔ جو pretendکر رہا ہو کہ میں سویا ہوا ہوں۔ اگر تم pretend کر رہی ہو کہ میں سوئی ہوئی ہوں۔ تمہیں جومرضی ہلاتا رہے تم اٹھو گی نہیں۔ اگر صحیح طرح سوئی ہوئی ہو، حقیقت میں تمہیں کوئی جگائے گا تو جاگ جاؤ گی۔ اور غصہ میں جگانے والے کو کہو گی کیا مجھے تنگ کر رہے ہو، مجھے سونے نہیں دے رہے۔ تو بہرحال سوشل میڈیا پہ negative باتیں بھی آتی ہیں، positive بھی۔ negative باتیں تمہیں پتا ہے کیا ہیں تو ان کو avoidکرو، ان کے قریب نہ جاؤ، ان کو نہ دیکھو۔ یہ تو temptationہے۔ temptationہو جاتی ہے ایک آدمی ایک دفعہ میڈیا پہ کوئی لنک کھولتا ہے، اس میں کچھ دیکھ لیتا ہے، اس میں interestپیدا ہوتا ہے وہ پھر دیکھتا ہی نہیں کہ اس کے بُرے اثرات کیا ہو رہے ہیں۔ پھر اگلا، پھر دوسرا، پھر تیسرا پروگرام اس پہ دیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ اس سے غلط ہوتا ہے۔ تو پہلی دفعہ اگر تم دیکھوکہ سوشل میڈیا پہ کوئی ایسی چیز آئی ہے جو تمہارے پہ negative اثر ڈال سکتی ہے تو تم فوری طور پر اس کو بند کر دو اور اس سوشل میڈیا کی اَور سائٹس جو اچھی اچھی ہیں ان کو دیکھ کے جہاں knowledge بھی ہے، علم بھی آ رہا ہے یا ایجوکیشنل (educational) پروگرام ہیں یا دوسرے سائنس کے پروگرام ہیں یا ڈاکومنٹریز ہیں یا اس کے اوپر کوئی comments ہیں یا اَور پڑھے لکھے سائنسدانوں کے comments ہیں یا جماعت کا سوشل میڈیا ہے ان پہ چلی جاؤ اور ان کو دیکھو بجائے اس کے کہ negative اثر ڈالنے والے سوشل میڈیا کو دیکھو۔ تو یہ تو خود اپنی will powerاورdeteminationہے کہ کتنا تم اپنے آپ کو بچانا چاہتی ہو۔

ایک اَور واقفہ نو نے سوال کیا کہ ہمیں نماز کا طریقہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا تھا۔ اسلام سے پہلے انبیاء کس طرح عبادت کرتے تھے؟

حضورِانور نے فرمایا کہ ان کے بھی مختلف طریقے تھے۔ بعض لوگ سجدے کرتے ہوں گے۔ بعض لوگ بیٹھ کے ہاتھ اٹھا کے کر لیتے ہوں گے۔ گھٹنے ٹیکتے ہوں گے۔ سجدہ تو میرا خیال ہے ہر مذہب میں ہی ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہندوؤں میں بھی اور دوسروں میں بھی کہ سجدہ کا رجحان ہے، ماتھا ٹیکنے کا ہر مذہب میں ہے۔ لیکن یہ جو طریقہ ہے کھڑے ہونا، دعا کرنا پھر رکوع میں جانا پھر سمع اللّٰہکہہ کر کھڑے ہونا، پھر سجدے میں جانا پھر بیٹھنا، نماز کا یہ طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں کو سکھایا ہے۔ باقیوں کے لیے اتنا detail میں یہ طریقہ نہیں تھا۔ مختلف طریقے تھے۔

ایک اَور واقفہ نو نے عرض کی کہ حدیث میں آتا ہے کہ جنت کے ایک دروازے کا نام ریان ہے جس میں سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔ میرا سوال ہے کہ کیا جنت کے اس کے علاوہ اَور بھی دروازے ہیں؟

حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ آٹھواں دروازہ بخشش کا دروازہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے رحم اور بخشش سے وہاں اس میں داخل ہو جائیں گے۔ تو ہر نیکی کے لیے دروازے ہیں۔ اور سات تو نیکیوں کے دروازے اور آٹھواں دروازہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کرنے کے لیے بخشش کا رکھا ہوا ہے ، اپنے رحم کا رکھا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمائے گا اس کو جنت میں داخل کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ تو بہت رحم کرنے والا ہے، بے انتہا رحم کرنے والا ہے اور لوگوں کو معاف کرنے والا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کے آٹھ دروازے رکھے ہیں۔ دوزخ کے کم اور جنت کے زیادہ ہیں۔

بعد ازاں حضورِانور نے فرمایاکہ چلو پھر وقت بھی ہو گیا تمہارا۔80 فیصد سوال تو تمہارے ہو ہی گئے ہیں۔ جن کے رہ گئے ہیں پھر کبھی کلاس ہوئی تو دیکھ لیں گے۔ چلو پھر اللہ حافظ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button