عالمی خبریں

خبرنامہ

(اہم عالمی خبروں کا خلاصہ)

٭…پاکستان کے صوبۂ پنجاب میں عید الاضحی کے موقعے پر قربانی کرنے کے الزام میں جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو دو الگ الگ مقدمات پر شیخوپورہ اور فیصل آباد میں گرفتار کیا گیا ہے۔ان میں سے تین کا تعلق فیصل آباد سے ہے جب کہ دو افراد کو شیخوپورہ میں گرفتار کیا گیا۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق پہلا مقدمہ ضلع فیصل آباد کے گاؤں 89 ج ب رتن تھانہ سے موصول ہونے والی درخواست پر تھانہ ٹھیکری والا میں درج کیا گیا ۔ پولیس نے ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 298 سی کے تحت تین افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے جس میں الزام گیا ہے کہ قادیانی عقائد سے تعلق رکھنے والے اپنے گھر کے اندر بکرے کی قربانی کر رہے تھے۔

دوسری جانب شیخوپورہ کے تھانہ صفدر آباد میں درج کیے گئے مقدے میں کہا گیا ہے کہ اتوار کو عیدالاضحی کے دِن احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک گھر سے ’بسم اللہ‘ اور ’اللہ اکبر‘ کی آوزیں سنی گئیں جس کے بعد اس گھر سے خون نکلتے دیکھا گیا۔ اس کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دی گئی تھی جس پر کارروائی کرتے ہوئے پولیس نے موقع پر پہنچ کر قربانی کرنے والے دو افراد کو گرفتار کر لیا۔ ان افراد کے خلاف بھی 298 سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جو شعائرِ اسلام کی خلاف ورزی سے متعلق ہے۔

خیال رہے اِسی طرح کے واقعات گذشتہ سال عیدالاضحی کے موقع پر پنجاب کے اضلاع ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرانوالہ، پیر محل اور شیخوپورہ میں بھی ہوئے تھے۔

ترجمان فیصل آباد پولیس منیب شاہ بتاتے ہیں کہ عیدالاضحی سے قبل محکمۂ داخلہ پنجاب کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صوبے بھر میں کوئی بھی احمدی قربانی نہ کرے۔ سرکاری مراسلے میں درج تھاکہ پاکستان کے آئین کےمطابق احمدی غیر مسلم ہیں۔ اس مراسلے کے بعد پولیس نے ضلع فیصل آباد میں تمام احمدیوں کو خبردار کیا کہ وہ قربانی نہ کریں کیوں کہ اس سے امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے اندر اور عالمی سطح پر ملک کے توہینِ مذہب سے متعلق قوانین پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔اندرون ملک بہت سے حلقے اس قانون کا از سر نو جائزہ لینے کے مطالبات کرتے آئے ہیں اور اقوام متحدہ کے بعض اداروں سمیت انسانی حقوق کی دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس قانون کی تنسیخ کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔ مذہبی آزادی رکھنے والے ممالک میں بھی پاکستان کا نام فہرست میں نچلے نمبروں پر ہے۔

٭…سری لنکا میں بد ترین معاشی بحران کے پیش نظر صدر اور وزیراعظم نے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھاتاہم اگلے روز ہی رات گئے سری لنکا کے صدرمالدیپ فرار ہو گئے اور وزیراعظم نے ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی۔

سری لنکن وزیراعظم کے آفس سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ مظاہرین وزیراعظم کی نجی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور اسے آگ لگادی۔مشتعل مظاہرین نے وزیراعظم کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔

دوسری جانب سری لنکا میں ہزاروں مظاہرین نے صدارتی محل پر دھاوا بولا اور مطالبہ کیا تھا کہ صدر گوٹابایا راجاپاکسے استعفیٰ دیں۔ حملے سے قبل ہی صدر کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے فائرنگ کی، جس سے 3 افراد زخمی ہوئے جبکہ آنسو گیس کی شیلنگ سے 30 سے زائد متاثر ہوئے ہیں۔

٭…انڈونیشا کے دارالحکومت جکارتہ میں آسیان سیکرٹریٹ میں ایک خطاب میں چین کے وزیرخارجہ وائینگ یی نے خبردار کیا کہ ایشائی اقوام عالمی طاقتوں کا مُہرہ بننے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں کئی ممالک پر دباؤہے کہ وہ جانبداری کا مظاہرہ کریں یا کسی ایک طاقت کی حمایت کریں۔ ایک ایسے خطے کو جسے جیو پولیٹیکل عوامل کی طرف سے تشکیل نو کا خطرہ لاحق ہو،جغرافیائی سیاسی حساب کتاب اور کسی بڑی طاقت کی دشمنی اور زبردستی سے شطرنج کے مُہروں کے طور پر استعمال ہونے سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ہمارے خطے کا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہونا چاہیے۔

٭…امریکہ کے وزیر خارجہ نے چین کو متنبہ کیا کہ وہ 2016ء کے اس عالمی فیصلے کی تعمیل کرے، جس میں چین کے جنوبی بحیرہ چین پر ملکیت کے دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر متنازعہ سمندری حدود کی خلاف ورزی ہوئی اور فلپائن کی فوجوں، بحری جہازوں اورطیاروں پر حملہ ہوا تو امریکہ اپنے اتحادی فلپائین کا دفاع کرے گا۔

2013ء میں فلپائن نے ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کے بحری قانون کے کنونشن سے چین کے خلاف شکایت کی تھی کہ وہ متنازعہ بحری حدود کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس کی سماعت کرتے ہوئے 2016ءمیں فیصلہ کیا گیا کہ ہیگ میں ایک ثالثی کنونشن بنایا جائے گا، جو جنوبی بحیرہ چین کی سمندری حدود کا تعین کرے گا۔چین نے کبھی اس رولنگ کو تسلیم نہیں کیا اورنہ اس کنونشن میں شریک ہوا۔ حالیہ برسوں میں اس نے فلپائین سمیت جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کے بحری ملکیتی دعووں کو نظر انداز کرتے ہوئے متنازعہ سمندری علاقوں میں اپنی جارحانہ سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ ہم عوامی جمہوریہ چین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے اور اشتعال انگیز کارروائیوں کو بند کرے۔ 1951ءکے امریکہ فلپائن دفاعی معاہدے کے تحت امریکہ اپنی ذمہ داری پوری کرے گا اورجنوبی بحیرہ چین میں فلپائن کی فوجوں اور اس کے جہازوں پر حملے کی صورت میں فلپائین کا ساتھ دے گا۔

٭…فرانس سے سمندر کے خطرناک راستے سے پناہ کے طالب افراد کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ منسٹری آف ڈیفنس کے مطابق پیر کو فرانس سے 442 غیر قانونی تارکینِ وطن برطانیہ پہنچے، 15 چھوٹی کشتیوں پر اوسطاً 29 افراد سوار تھے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ رواں برس چوتھی بار ایک ہی دن میں 400 سےزائد تارکینِ وطن برطانیہ پہنچے ہیں۔ رواں برس سمندر کے راستے سے آنے والوں کی تعداد 13 ہزار 749 تک پہنچ چکی ہے۔

٭…اقوام متحدہ نے اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کے کئی جنگ سے متاثرہ علاقوں میں ہزاروں بچوں کو گذشتہ سال جنسی زیادتی ، معذوری اور موت سمیت سنگین مظالم کا سامنا کرنا پڑا، اوراب یوکرین سمیت تنازعات کے نئے خطوں میں بچوں سے متعلق خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی ادارے کےسیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ ورجینیا گامبا نے کہا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں بچے ہر سال کے ہر مہینے کے ہر ہفتے کے ہر دن تنازعات سے متاثرہ ریاستوں اور خطوں میں مسلح تصادم میں تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال بچوں کے لیے سب سے خطرناک ملک افغانستان، عوامی جمہوریہ کانگو، اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقے، صومالیہ اور یمن تھے۔

ورجینیا گامبا کے دفتر نے معروضی سطح پر اقوام متحدہ کی ٹیموں کے ساتھ کام کرتے ہوئے بچوں کے خلاف تقریباً 24,000 سنگین خلاف ورزیوں کی تصدیق کی۔تنازعات کے باعث 8000 سے زیادہ ہلاک یا معذور ہوئے۔ جمع کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 6310 بچوں کو بھرتی کیا گیا اور انہیں جنگوں میں استعمال کیا گیا جبکہ تقریباً 3500 دیگر بچوں کو اغوا کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق تشویشناک رجحانات میں بچوں کے اغوا اور جنسی تشدد میں نمایاں اضافہ شامل ہے۔ دونوں رجحانات میں سن 2020ء کے مقابلے میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

لڑکیوں کے خلاف سب سےزیادہ خلاف ورزیاں جھیل چاڈ بیسن کے علاقے میں ہوئیں جسے گذشتہ سال تنازعات کے شکار علاقوں شامل کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ جھیل چاڈ بیسن کے علاقے میں کیمرون، وسطی افریقی جمہوریہ، چاڈ، لیبیا، نائیجر اور نائیجیریا شامل ہیں۔ یہ ملک عدم استحکام، بین المسالک تشدد، دہشت گردی اور تنازعات کی مختلف حالتوں کا شکار ہیں۔

غیر ریاستی گروہوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں دہشت گرد اور باغی گروپ جیسے کہ اسلامک اسٹیٹ، القاعدہ، بوکو حرام اور الشباب بھی شامل ہیں اور انہوں نے متعدد خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔

افغانستان کے طالبان کو بچوں کو بھرتی کرنے، معذور کرنے، قتل کرنے اور اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کرنے کے لیے بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

گامبا کے مطابق 2021ء میں افغانستان میں ان کی نگرانی 15؍اگست کو اس وقت ختم ہوئی، جب حکومت کے خاتمے کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اقوام متحدہ نے اپنی توجہ انسانی ہنگامی صورت حال پر مرکوز کر دی۔ لیکن اس سے پہلے سال کے ساڑھے سات مہینوں میں بچوں کے خلاف تقریباً 3,000 تصدیق شدہ خلاف ورزیاں ہوئیں۔

عالمی ادارے کی نمائندہ نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کی زندگی میں انتہائی تنزلی کی صورت حال ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں مانیٹرز نے کسی طریقے سے اپنا کام دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کچھ مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ فہرست میں شامل کچھ ممالک نے گامبا کے دفتر کے ساتھ ایکشن پلان پر دستخط کرنے اور ان کے ساتھ مشغول ہونے کے بعد بہتری دیکھی ہے۔

ان میں جنوبی سوڈان شامل ہے جو 2018ء میں ہر سال بچوں کے خلاف 4,000 سے زیادہ خلاف ورزیوں کے ساتھ دوسرا سب سے بڑا مجرم تھا۔

آج ایک سال میں 300 سے بھی کم خلاف ورزیاں ہیں۔ گامبا نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے کے مقابلے میں اب ایکشن پلانز کے مطابق لاگو کیے گئے اقدامات، قوانین، تربیت، صلاحیت موجود ہیں۔

٭…مقبوضہ کشمیر کے علاقے باندی پورہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان مصطفیٰ ابن جمیل نے 500 میٹر طویل ڈسپلے رول پر ہاتھ سے قرآن پاک لکھنے کا کارنامہ 7 ماہ کے عرصے میں انجام دیا اور عالمی ریکارڈ بنا لیا۔

انہوںنے بتایا ہے کہ ریاضی کمزور ہونے کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا اور کئی بار کوشش کے باوجود میٹرک پاس نہ کر سکا۔ جب کیلی گرافی شروع کی تو قریبی افراد نے بہت طعنے دیے جس کی وجہ سے دن کے بجائے رات کے اوقات میں قرآن پاک کی خطاطی کا فیصلہ کیا، رات دیر گئے تک اور بعض اوقات فجر تک کام کی وجہ سے سونے کی روٹین بھی بدل گئی تھی۔

٭…امریکہ کی سپریم کورٹ کے اسقاطِ حمل کے خلاف دیے گئے فیصلے کے بعد ملک بھر میں خواتین اور دیگر ایکٹوسٹ نت نئے طریقوں سے احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کے ’ رو بنام ویڈ‘ کے تاریخی فیصلے کو کالعدم قرار دیے ہوئے کئی روز گزر چکے ہیں اور اس وقت ملک میں اسقاط حمل کو کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے۔

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’رو بنام ویڈ‘ کیس کے کالعدم ہونے کے بعد سے امریکہ میں مردوں میں نس بندی کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ایک یورولوجسٹ ڈگ اسٹین نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے جہاں روزانہ چار سے پانچ مرد نس بندی کراتے تھے، وہیں اس فیصلے کے بعد یہ تعداد روزانہ 12 سے 15 ہوچکی ہے۔

اس دوران امریکہ میں ٹوئٹر پر سیکس اسٹرائیک کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرتا رہا۔ خواتین کے مظاہروں کے دوران بھی کئی مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ جب تک خواتین کے حقوق انہیں مل نہیں جاتے، انہیں مردوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنا روک دینا چاہیے۔

تعلقات روکنے کا وار ماضی میں کئی مرتبہ کارگر رہا ہے۔ امریکی جریدے ’کوارٹز ‘نے رپورٹ کیا کہ سترہویں صدی جنگ بندی کے لیے مقامی امریکی آبادی اراوکوئیز قبیلے کی خواتین نے بھی یہ وار کامیابی سے استعمال کیا تھا۔

حالیہ برسوں میں نوبیل انعام یافتہ لیما غبووی نے لائبیریا کی پرتشدد خانہ جنگی کو روکنے کے لیے سیکس اسٹرائیک کا حربہ استعمال کیا۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے مقامی جنگجو تشدد روکنے پر راضی ہوئے اور لیماہ کو ان کی کوششوں کی وجہ سے امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button