حضرت مصلح موعود ؓ

خدام کو نصائح

(از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ )

(فرمودہ 15؍اپریل 1952ءبر موقع افتتاح دفاتر مجلس خدام الاحمدیه مرکزیه ربوہ )

تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ’’جس وقت یہ زمین خریدی گئی تھی اس وقت مَیں نے تحریکِ جدید اور صدرانجمن احمد یہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کر یں۔ چنانچہ بارہ بارہ کنال زمین دونوں کے لئے وقف کی گئی۔ بارہ کنال زمین کے یہ معنے ہیں کہ 65 ہزار مربع فٹ کارقبہ ان کے پاس ہے اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آسکتا ہے۔ مثلاً اس کے ارد گرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ کسی اَور میدان میں کیا جائے بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے۔ 65 ہزار مربع فٹ زمین میں سے اگر عمارتوں اور سڑکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لئے 25 ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو چالیس ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے بلکہ 15،15 فٹ زمین بھی ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے تو چالیس ہزار فٹ زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سو سکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں۔ پھر اگر زیادہ نمائندے آ جائیں تو سڑکوں وغیرہ کے لئے زمین کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ پھر پاس ہی انصار اللہ کا دفتر ہو گا۔ اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو 24کنال زمین استعمال میں لائی جاسکتی۔ انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیںدے دیں اس طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے۔ پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی نہ کسی قسم کی چار دیواری اس زمین کے ارد گرد ہو جائے۔ خواہ وہ چار دیواری لکڑیوں کی ہی کیوں نہ ہو۔ بارہ کنال کی چار دیواری پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری بن جائے گی۔‘‘

اس موقع پر محترم صاحبزادہ مر زا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمد یہ نے عرض کیا کہ پتھروں کی چار دیواری بارہ سو روپیہ میں بن جاتی ہے۔ اس پر حضورؓ نے

فرمایا:

’’میرے مکان کی چار دیواری کو لیا جائے تو یہ اندازہ بہت کم ہے۔ اتنی رقم میں چار دیواری نہیں بن سکتی۔

صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور اس رقم میں صرف چار فٹ اونچی چار دیواری بنے گی۔ حضور نے فرمایا:

ہاں اگر چار فٹ اونچی چار دیواری بنائی جائے تو اتنی رقم میں کام ہو سکتا ہے۔

لیکن چار فٹ اونچی چار دیواری سے پردہ نہیں ہو تا۔ بہر حال اگر چار دیواری بن جائے تومرکز کا اثر بیرونی مجالس پر بڑھ جائے گا۔ عورتوں کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ جب وہ کوئی بنی ہوئی چیز دیکھتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر روپیہ خرچ کرتی ہیں اور نوجوانوں میں تو یہ سپرٹ (Spirit) زیادہ ہونی چاہئے۔ جب سالانہ اجتماع ہو گا۔ خدام باہر سے آئیں گے اورچار دیواری بنی ہوئی دیکھیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ ان کاروپیہ نظر آنے والی صورت میںلگ رہا ہے اور ان کا جوش بڑھ جائے گا۔ دفاتر میں جو روپیہ لگتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا۔

اگر تم کہو کہ دفتر میں کاغذ، سیاہی، قلم، پنسل اور کارکنوں کی تنخواہوں پر روپیہ صرف ہو تاہے تو چونکہ یہ خرچ انہیں نظر نہیں آتا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ صحیح طور پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہو تا ہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہو تا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہو تا ہے۔تو وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات پر ہی ہو تا ہے اَور کسی چیز پر نہیں۔ مثلاً وہ کہیں گے تعلیم پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے۔ ہسپتالوں پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے۔ غریبوں کی امداد کے لئے کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے ، غرباء کے وظائف پر کس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اور اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ کام کو چلانے کے لئے اتنے سیکرٹریوں کی ضرورت ہے ، پھر دفتری اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے ، سفر خرچ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا۔ اگر چہ ایسا اعتراض کر نا حماقت ہو تا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو، امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہوا ہے تو اس کے اس حصہ پر ہوا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہوا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے۔ پس نظر آنے والا خرچ لوگوں میں مزید چندہ دینے کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ اگر تم اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ اعلیٰ بناتے جاؤ گے تو خدام میں چندہ کی تحر یک ہوتی رہے گی مثلاً میدان کو چھوڑ کر دیواروں کے ساتھ ساتھ پھول لگائے جائیں۔ چونکہ اس جگہ پر تمہیں سالانہ اجتماع بھی کرنا ہو گا اس لئے تم چمن تو بنا نہیں سکتے لیکن دیواروں کے ساتھ ساتھ پھول لگائے جاسکتے ہیں۔ اس طرح نظارہ اَور زیادہ خوبصورت بن جائے گا۔ پھر بیچ میں چند فٹ کی سڑک رکھ کر اس کے ارد گرد بھی پھول لگائے جاسکتے ہیں۔ جب خدام آئیں گے اور اس جگہ کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گےہماراروپیہ صحیح طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کے بعد مَیں آپ لوگوں کے لئے دعا کروں گا۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ انصاراللہ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی۔ دنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ بوڑھے بیکار ہوتے ہیں اور بیکار کا کوئی کام نہیں اس لئے انصار اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کوئی کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کےمطابق کام کرتے ہیں۔ قادیان میں بھی انصار اللہ نے زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصار اللہ کام نہیں کرتے۔ شاید یہ چیز ہو کہ صدر انجمن احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہد یدار ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صدر انجمن احمدیہ کے کاموں سے فرصت نہیں۔ بہر حال انصار اللہ کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنا مر کز بناتے لیکن انہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ یہ غلط خیال ہے کہ چونکہ قادیان واپس ملنا ہے اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ ایک صاحب یہاں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی ہیں ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لئے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لئے جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس گئے ؟ ہم تو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم قادیان واپس جائیں گے اور وہی ہمارا مر کز ہو گا لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ چلے گئے تو مکہ میں واپس نہیں آئے حالانکہ مکہ فتح ہو گیا تھا۔ آپؐ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں۔ پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام ارد گرد پھیلنے لگا۔ مکہ صرف حج کے لئے رہ گیا ۔مکہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی یا جو لوگ اپنی زندگیاں وقف کر کے مکہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ رہی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہی رہے اور وہیں آپؐ فوت ہوئے۔ خداتعالیٰ کیا کرے گا؟ آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے ہمیں اس کا علم نہیں۔ پس یہ حماقت کی بات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں جبکہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ پیشگوئیاں دوسری جگہ کے متعلق موجود تھیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں کسی اَور شکل میں پورا کیا تھا ہم یہ خیال کر لیں کہ ہمیں کسی اَور جگہ کی ضرورت نہیں۔ اگر بڑی جگہ کے لئے جو پیشگوئیاں تھیں وہ ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو چھوٹی جگہ کے لئے یہ کیوں ضروری خیال کر لیا گیا ہے کہ اس کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہوں گی۔قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ وہی آیات ہیں جو مکہ کے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ وہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر دوبارہ نازل ہوئی ہیں اور جب وہ پیشگوئیاں مکہ کے لئے بھی ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو ہم کیا لگتے ہیں کہ یہ کہیں کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ مدینہ میں ہی مرکز بنا کر کام کرتے رہے۔ صرف آپؐ حج کے لئے مکہ تشریف لے جاتے تھے اور حج کر کے واپس تشریف لے آتے تھے۔ پھر حضرت ابو بکرؓ واپس مکہ نہیں گئے۔ حضرت عمرؓ واپس مکہ نہیں گئے ، حضرت عثمانؓ واپس مکہ نہیں گئے ، حضرت علیؓ واپس مکہ نہیں گئے۔ یہ سب حج کے لئے مکہ جاتے تھے اور واپس آ جاتے تھے۔ حکومت کا مرکز مدینہ ہی رہا اور یہیں سے اسلام ارد گرد کے علاقوں میں پھیلا۔ پس جب پیشگوئیوں سے کسی جگہ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پیشگوئیاں ضرور ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی حماقت ہے۔ چاہے بعد میں وہ پیشگوئیاں ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائیں لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ جس چیز میں خدا تعالیٰ نے اسے اب رکھا ہے اسی میں وہ راضی رہے۔ خدا تعالیٰ کا معاملہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ کتنا عجیب ہے۔ ایک چور سیندھ لگاتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے تو خداتعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے دن پھر سیندھ لگائےے گا۔ پھر وہ دوسرے دن سیندھ لگا تا ہے پھر تو بہ کر تا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ جانتا ہے وہ پھر سیندھ لگائےے گا۔ پس خداتعالیٰ باوجود اس کے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ کر تا ہے لیکن ہم لوگ باوجود علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اگر خداتعالیٰ بھی ہمارے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرے تو چونکہ اسے علم ہے کہ مجرم دوبارہ جرم کرے گا اسے علم غیب حاصل ہے اس لئے کسی کی توبہ قبول نہ ہو۔ اس طرح ہزاروں لوگ مارے جائیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گناہ کرتے ہیں تو پھر بعض اوقات بڑی سٹرگل (Strruggle) کے بعد اس گناہ سے نجات حاصل کرتے ہیں۔اگر خدا تعالیٰ تو بہ قبول کرنے سے انکار کر دے تو کوئی شخص گناہ سے نجات حاصل نہ کرے۔ تو بہ ضمیر کو روشن کرتی ہے اور انسان کو گناہ سے روکتی ہے۔ باوجود اس کے کہ خداتعالیٰ دیکھ رہا ہو تا ہے کہ اس شخص نے تو بہ توڑ دینی ہے ، باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ پھر فساد کرے گا، لڑائی کرے گا، گالیاں دے گا اور جھوٹ بولے گا وہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے گویا خدا تعالیٰ باوجود علم غیب رکھنے اور جاننے کے کہ مجرم دوبارہ جرم کرے گا وہ اس سے حاضر والا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم باوجود علم غیب نہ ہونے کے خداتعالیٰ سے مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ بیوقوفی اَور کیا ہو گی۔ ہمیں خداتعالیٰ سے حاضر والا معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چا ہیے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چا ہیے۔ ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں۔ اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں۔ اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں خداتعالیٰ نے تمہیں رکھا ہے تمہیں اس میں فوراً کام شروع کر دینا چاہئے۔ خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جاکر کام شروع کر دو۔ لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو۔ مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے۔ گویامومن کے لئے کام ختم کر نے کا وقت موت ہے۔

آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنا مرکز تعمیر کر لیا اور خدا کرے کہ انصار اللہ کو بھی اس طرف توجہ پید اہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں ہیں اس لئے قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گی اور چونکہ قادیان ہمیں واپس ملے گی اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئیں۔اس لئے ہمیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا۔ مکہ کے متعلق بھی بہت پیشگوئیاں موجود تھیں بلکہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے آپؐ کو مبعوث کیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے بعد بھی مدینہ میں ہی رہے مکہ واپس نہیں گئے۔ قادیان مکہ سے بڑھ کر نہیں۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اگر چہ ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ ہمیں واپس ملے گا اور وہیں ہمارا مر کز ہو گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے۔ پس ہمیں اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہئے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے۔ بلکہ مَیں تو کہوں گا کہ اگر ہمیں تار بھی آجائے کہ آؤ اور قادیان میں بس جاؤ تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے۔ ہمیں قادیان سے کوئی غرض نہیں، ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں۔ اگر ہمیں خداتعالیٰ لے جائے ہم وہاں چلے جائیں گے ورنہ نہیں۔ ہم خداتعالیٰ کے نو کر ہیں کسی جگہ کے نو کر نہیں۔ اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اسے عزت دی ہے۔ پس مومن کو اپنے کاموں میں سست نہیں ہو نا چاہئے۔ پھر نوجوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے انہیں اپنے کاموں میں بہت چُست رہنا چاہئے‘‘۔ (الفضل ربوہ۔ فضل عمر نمبر 1966ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button