56ویں جلسہ سالانہ برطانیہ کی تقریب پرچم کشائی اورحضورانورکا افتتاحی خطاب فرمودہ5؍اگست2022ء(خلاصہ)
جلسہ سالانہ کے وسیع تر اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کی تلقین
ہم نے آنحضرتﷺ کےغلامِ صادق کی بیعت میں آکر اپنی اور اپنی نسلوں اور کُل انسانیت کی اصلاح کا عہد کیا ہے
ہم نے ساری دنیا کوموحد بنا کر آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلےلانا ہے
تقویٰ اختیار کرنے کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے پُر معارف ارشادات
(حدیقۃ المہدی 5؍ اگست 2022ء، ٹیم الفضل انٹرنیشنل) انگلستان کی کاؤنٹی ہمپشئر کے قصبہ آلٹن میں واقع حدیقۃ المہدی میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ برطانیہ کا افتتاح فرمایا۔ افتتاحی اجلاس میں شرکت کےلیے ایم ٹی اے کی سکرین پر حضورِ انور کا قافلہ چار بج کر سینتیس منٹ پر ظاہر ہوا۔ چار بج کر اڑتیس منٹ پر حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی موٹر سے اتر کر جھنڈوں کے جھرمٹ میں بنائے گئے چبوترے پر تشریف لے گئے جہاں پہنچ کرحضورِ انور نے لوائے احمدیت لہرایا۔ جیسے ہی حضورِ انور نے لوائے احمدیت لہرایا فضا نعروں سے گونج اٹھی۔ محترم امیر صاحب یوکے نے اس موقع پر برطانیہ کا جھنڈا لہرایا۔
اس کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی اور جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس کے لیے جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پرچم کشائی کے بعد چار بج کر بیالیس منٹ پر مردانہ پنڈال میں رونق افروز ہوئے۔ جونہی حضورِانور پنڈال میں داخل ہوئے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے اور عشاقانِ خلافت نے ان نعروں کا بھرپور جواب دیا۔ بعد ازاں افتتاحی اجلاس کی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ تلاوت قرآن کریم کی سعادت مکرم محمود احمد وردی صاحب (انچارج انڈونیشین ڈیسک یوکے) کو ملی۔ آپ نے سورت آل عمران آیات 103تا 108کی تلاوت کی اورحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ترجمۃ القرآن سے اس کا اردو ترجمہ پیش کیا۔ بعد ازاں مکرم سید عاشق حسین صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے فارسی منظوم کلام
چون زِمَن آید، ثنائے سرورِ عالی تبار
عاجز از مَدَحش، زمین و آسمان و ہر دو دار
میں سے بعض اشعار اور ان کا اردو ترجمہ بھی پیش کیا۔ اس کے بعد مکرم مرتضیٰ منان صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اردو منظوم کلام
جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما
میں سے منتخب اشعار ترنم کے ساتھ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز پانچ بج کر پانچ منٹ پر منبر پر تشریف لائے اور احبابِ جماعت کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کا تحفہ پیش فرمایا۔
حضورِ انور کا افتتاحی خطاب
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ آج جس مقصد کے لیے ہم سب یہاں جمع ہیں اُسے ہم سب جانتے ہیں یعنی اپنے دینی علم کو بڑھانا، معرفت اور تقویٰ میں ترقی کرنا، آپس میں محبت اور پیار کے تعلق کو بڑھانا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینا، اشاعتِ اسلام اور تبلیغِ اسلام کے لیے خود کو تیار کرنا اور پھر عملی طور پر اسے انجام دینا۔ یہ وہ وسیع مقاصد ہیں جن کے لیے جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔ جلسےکا مقصد کوئی دنیاوی مقصد نہیں بلکہ اس بگڑے ہوئے زمانے میں جہاں ظھر الفساد فی البرّ و البحرکا نمونہ ہر جگہ نظرآتا ہے، ہم نے آنحضرتﷺ کےغلامِ صادق کی بیعت میں آکر اپنی اور اپنی نسلوں اور کُل انسانیت کی اصلاح کا عہد کیا ہے۔ ہم نے اس فساد کے زمانے میں حضرت مسیح موعودؑ کو مانا ہے۔ اس زمانے کی حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں اس وقت لوگ روحانی پانی کو چاہتے ہیں۔ زمین بالکل مر چکی ہے۔ یہ زمانہ ظھر الفساد فی البرّ و البحرکا ہوگیا ہے۔ جنگل اور سمندر بگڑ چکے ہیں۔ جنگل سے مراد مشرک اور بحر سے مراد اہلِ کتاب ہیں۔ جاہل اور عالِم بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ غرض انسانوں کے ہر طبقے میں فساد واقع ہوگیا ہے۔ روحانیت باقی نہیں رہی۔ اخلاقی اور عملی کمزوریوں میں ہر چھوٹا بڑا مبتلا ہے۔ خدا پرستی اور خدا شناسی کا نام و نشان مٹا ہوا نظر آتا ہے۔ اس لیے اِس وقت ضرورت ہے کہ آسمانی پانی اور نورِنبوّت کا نزول ہو اور مستعد دلوں کو روشنی بخشے۔ خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل سے اُس نور کو نازل کیا ہے، مگر تھوڑے ہیں جو اس نورسے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
حضورِانور نے فرمایا یہ اِس زمانے کے فساد کا نقشہ ہےاور ہم نےیہ عہد کیا ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو اور ساری دنیا کو اس فساد سےبچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آکر ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اس نور سےفیض پایا ہے، لیکن ہم نے صرف خود تک اس فیض کو محدود نہیں رکھنا بلکہ دنیا کو بھی اس سے آگاہ کرنا ہے۔ ساری دنیا کوموحد بنا کر آنحضرتﷺ کے جھنڈے تلےلانا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کےلیے ضروری ہے کہ ہم ہر وقت اپنی روحانی اوردینی حالتوں کی طرف نظر رکھیں۔ اگر اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کی بھرپور کوشش نہیں کرتے تو ہماری بیعت بےفائدہ اور ہمارے عہد کھوکھلے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیشہ اپنے ماننے والوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ بیعت کرنے کا کیا فائدہ ہے، آپؑ فرماتےہیں بیعت میں عظیم الشان بات توبہ ہے۔ جس کے معنی رجوع کے ہیں یعنی تمام برائیوں کو چھوڑ کر پاکیزگی اختیار کرنا۔ حضورؑ توبہ کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دیکھو! وطن کو چھوڑنا بڑا گراں گزرتا ہے۔ ہمسایوں یار دوستوں سب سے قطع تعلق کرکے، گھر بار اور گلیوں کی یاد بھلا کر ایک نئے ملک میں جانا پڑتا ہے اور اس سابقہ وطن میں پھر کبھی نہیں آتا۔ توبہ کی مثال بھی ایسے ہی ہے۔ جب یہ سچی توبہ ہوتی ہے تو پھر خدا کی محبت ملتی ہے، تب خدا تعالیٰ نوازتا بھی ہے۔
اس تبدیلی کے پیدا کرنے کے لیے بیعت ضروری ہے۔ توبہ کو بیعت کے ساتھ کیوں لازمی رکھا گیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں کہ درخت کو پیوند لگانے سے خاصیت بدل جاتی ہے اسی طرح اس پیوند سے بھی اس میں وہ فیوض وانوار آنے لگتے ہیں جو اس تبدیلی یافتہ انسان میں ہوتے ہیں بشرطیکہ اس کےساتھ سچا تعلق ہو، خشک شاخ کی طرح نہ ہو۔ بیعت رسمی فائدہ نہیں دیتی ایسی بیعت سے حصہ دار ہونا مشکل ہوتا ہے، اس وقت حصےدار ہوگا جب اپنے وجود کو ترک کرکے بالکل محبت اوراخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ ہوجاوے۔
حضورانور نے فرمایا کہ ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیعت کے بعد ہمیں کیسے دیکھنا چاہتے ہیں۔ فرمایا کہ تقویٰ کی راہوں پر چلنا ضروری ہے۔ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو، کسی کو حقارت سے نہ دیکھو۔ پھر تقویٰ کے بارے میں فرمایا کہ بجز تقویٰ اللہ تعالیٰ کسی اور بات سے راضی نہیں ہوتا۔ پھر فرمایا کہ ہماری جماعت کے لیے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً وہ ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کاہے۔ پس گناہوں سے بچنے کی ہروقت کوشش کرو۔ یہ نہ ہوکہ معصیت کا داغ تمہارے چہرہ کو داغ دار کردے اور جب انسان کا چہرہ داغ دار ہوجائے تو پھر اس کے بعد تباہی و بربادی کے سواکچھ نہیں رہتا۔ بے شک اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے لیکن وہ قہار اور منتقم بھی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ ایک جماعت کودیکھے کہ وہ دعوے دار تو بڑے ہیں لیکن عمل کچھ بھی نہیں ہے تو پھر وہ کیوں اپنا فضل فرمائے گا۔ پس دیکھ لو جب مسلمانوں کے عمل نہیں رہے تو کافروں نے انہیں تہ تیغ کردیا۔ پس اللہ کا خوف ایساہے کہ انسان دیکھےکہ اس کے قول و فعل کہاں تک مطابقت رکھتے ہیں۔ اگر مطابقت نہیں رکھتے تو پھر وہ غیض و غضب کا شکار ہوگا۔ پس ہر ایک کو چاہیے کہ وہ غور کرے کہ اُس کا اندرونہ کیسا ہے۔ اس کی باطنی حالت کیسی ہے۔ اگر ہماری جماعت بھی ایسی ہے کہ قول و فعل میں تضاد ہے تو اُس کاخاتمہ بالخیرنہیں ہوگا۔
بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورتِ الحاح کیا ہے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے معلوم نہیں کہ اس کی شرائط مخفی ہوں۔ پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی تو پھر ہماری کیا اوقات ہے۔ پس جب ہماری یہ حالت ہوگی تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے۔
حضورِانور نے فرمایاکہ پس ہمیں تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اپنی زندگیوں کو گزارنا ہوگا۔ اگر انسان میں تکبر نہ ہو تو کبھی غصہ نہ آئے۔ غضب اُس وقت ہوگا جب انسان اپنے نفس کو دوسروں پر ترجیح دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ میری جماعت کے لوگ ایسی راہوں پر چلیں۔ میری جماعت کے لوگوں کو ایسی راہوں سے اجتناب کرنا چاہیے تاکہ ہلاکت سے محفوظ رہیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایک دوسرے کا چڑ کر نام نہیں لو یہ فعل فساد کا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک خود بھی اُسی صورت میں مبتلانہ ہوگا۔ مکرم و معظم دنیاوی اصولوں سے نہیں ہوسکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک متقی وہ ہے جو دوسروں کا خیال رکھتا ہے، جو دوسروں سے نیک سلوک کرتا ہے۔
حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو شخص جس قدر قرب حاصل کرتاہے اُسی قدر وہ مواخذہ کے قابل ہے۔ اہلِ ایمان زیادہ مواخذہ کے قابل تھے۔ اگر تم میں ایمان نہیں، تقویٰ نہیں تو پھر تم میں اور غیروں میں کیافرق رہ گیا۔ موت کا کیا اعتبار! موت تو ہر ایک کو درپیش ہے۔ جب کوئی شخص مجھ سے تعلق نہیں رکھتا تو یہ ایک دوسرا امر ہے لیکن اگر آپ نے مجھے مانا ہے، میرے قریب آئے ہیں تو آپ نے پھر نیکی کے راستوں پر چلنے اور صحابہ کی راہوں پر چلنے کا عہد کرلیا۔ پس دعاکرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بھی وہی توفیق عطا کرے۔ کوئی شخص تذلل کی زندگی اختیار نہیں کرسکتا اگر خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو۔ دعا جاری رکھو تاکہ صحابہ کی طرح خدا تعالیٰ کا فضل ہو۔ اس کے لیے مسلسل محنت اور کوشش چاہیے۔ صحابہ کی طرح عمل درکار ہیں۔ مسلسل کوشش اور جدو جہد چاہیے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی آبپاشی کی۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چلتے صحابہ بھی اسی طرح چلنے کی کوشش کرتے۔ اگر تم بھی صحابہ کی طرح قول و فعل بنالو گے، عملی طور پر دعا کرو گے، عملی طور پر کوشش کرو گے تو پھر خدا سے بھی فضل پاؤ گے۔نا امید نہ ہو کیونکہ نیک لوگوں کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا۔عملی کوششیں کرکے تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارو تو پھر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے۔
حقیقی مومن بننے کےلیے اور ایمان سچا ثابت کرنے کے لیے قول و فعل ایک ہی کرنا ہو گا تب ہی ہم اسلام کی خدمت کرنے کے دعویٰ میں سچے ثابت ہوں گے۔فرمایا جس طرح دشمن کے مقابل پر سرحدوں پر گھوڑے باندھنے ضروری ہیں تا کہ دشمن اندر داخل نہ ہو اور نقصان نہ پہنچائے اسی طرح اگر اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہو تو اول اپنے اندر تقویٰ پیدا کرنا ہو گا تب ہی اس خدمت کے استحقاق کے لیے موزوں ٹھہرو گے۔مسلمانوں کی بیرونی حالت دیکھوکہ ان کی دنیا میں کیا عزت ہے اگر اندرونی حالت بھی کمزور ہو گئی تو پھر خاتمہ ہی ہو گیا۔ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو تا قوت قدسی پیداہو کیونکہ اللہ کا فضل پاکوں کے ہی شامل حال ہوتا ہے۔ اپنے اعمال ایسے نہ بناؤ کہ اسلام پر داغ لگے۔ اگر ایک مسلمان شراب پیتا ہے تو گند میں گرتا پڑتاہے اوراس کی اپنی حالت ابتر ہوتی ہے لیکن اپنی حالت کے ساتھ ساتھ اس عمل سے اسلام کو بھی بدنام کرتاہے۔ جب میں اسلام کی یہ حالت دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی اس حالت کی وجہ سے اسلام پر ہنسی کروا رہے ہیں۔ میری اس بات کی غرض یہ ہے کہ مسلمان ایسے کام نہ کریں کہ اپنے اعمال سے بھی مخالفین کو تضحیک کا موقع دیں۔حضور انور نے فرمایا یہ اس لیے کیونکہ جب کوئی غیر مسلم منفی عمل کرے تو کہتے ہیں کہ یہ دماغی طورپر ٹھیک نہیں لیکن کوئی مسلمان کہلانے والا منفی کام کرے تو کہتے ہیں کہ اسلام ایسا ہے اور سب لوگ اور سارامیڈیا اسلام کی مخالفت شروع کر دیتاہے۔ حضورؑفرماتے ہیں کہ تمہیں چاہیےکہ اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنی عملی حالت بنا لو۔ سچا شکر، طہارت اور تقویٰ اختیار کرو۔ سچا شکر یہ نہیں کہ صرف منہ سے شکر اللہ کہہ دیا بلکہ عملی حالت سے ظاہر ہو اسی طرح دشمن سرحدوں میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
پھر ایک جگہ افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے کہ ایک احمدی کی کیا حالت ہونے چاہیے۔ فرماتے ہیں :
جو شخص اپنے ہمسایہ کو اپنے اخلاق میں تبدیلی دکھاتا ہے کہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے وہ گویا ایک کرامت دکھاتا ہے۔ اس کا اثر ہمسایہ پر بہت اعلیٰ درجہ کا پڑتا ہے۔ہماری جماعت پر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کیا ترقی ہو گئی ہے اور تہمت لگاتے ہیں کہ افترا، غیض وغضب میں مبتلا ہیں۔ کیا یہ ان کے لیے باعث ندا مت نہیں ہے کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آیا تھا جیسا کہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے۔ اور اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اُمّہات المومنین کہا ہے۔ گویا کہ حضورؐ عامۃ المومنین کے باپ ہیں۔ جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہو تا ہے اور حیات ظاہری کا باعث۔ مگر روحانی باپ آسمان پر لے جاتا اور اس مرکز اصلی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔آپ پسند کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے؟طوائف کے ہاں جاوے؟ اور قمار بازی کرتا پھرے؟۔ شراب پیوے یا ایسے افعال قبیحہ کا مرتکب ہو جو باپ کی بدنامی کا موجب ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کوئی آدمی ایسا نہیں ہو سکتا جو اس فعل کو پسند کرے۔ لیکن جب وہ ناخلف بیٹا ایسا کرتا ہے تو پھر زبانِ خَلق بندنہیں ہو سکتی۔لوگ اس کے باپ کی طرف نسبت کر کے کہیں گے کہ یہ فلاں شخص کا بیٹا فلاں بد کام کرتا ہے۔ پس وہ ناخلف بیٹا خود ہی باپ کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے۔ اسی طرح پر جب کوئی شخص ایک سلسلہ میں شامل ہوتا ہے۔اور اس سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوتا ہے۔کیونکہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے لیے ایک برا نمونہ ہو کر ان کو سعادت اور ہدایت کی راہ سے محروم رکھتا ہے۔پس جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو۔ جہاں عاجز آجاؤ وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ کیونکہ خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اٹھتے ہیں خالی واپس نہیں ہوتے۔ ہم تجربہ سے کہتے ہیں کہ ہماری ہزارہا دعائیں قبول ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ یہ ایک یقینی بات ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اندر اپنے ابنائے جنس کے لیے ہمدردی کا جوش نہیں پاتا وہ بخیل ہے۔ اگر مَیں ایک راہ دیکھوں جس میں بھلائی اور خیر ہے تو میرا فرض ہے کہ مَیں پکار پکار کر لوگوں کو بتلاؤں۔ اس امر کی پرواہ نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔
پھر جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کی پروا نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی۔ آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو۔ ہر ایک قسم کے ہزل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزّت سے پیش آؤ۔ ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے۔ اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کرلو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے توبہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں۔ تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے۔
اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہدنہ باندھو تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پروا نہیں۔ ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ہر روز ذبح ہوتی ہیں پر اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو کتنی باز پرس ہوتی ہے۔ سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لاپروا بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔ چاہیے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہو سکے، کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی۔ ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم ادنیٰ باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ۔ لوگ تمہاری مخالفت کریں گے مگر تم ان کو نرمی سے سمجھاؤ۔ اور جوش کو ہر گز کام میں نہ لاؤ۔ یہ میری وصیت ہے۔اس بات کو وصیت کے طور پر یاد رکھو کہ ہر گز تندی اور سختی سے کام نہ لینا۔
پھر نصیحت کرتے ہوئے کہ ایک روز اللہ کے حضور جانا ہے، عمدہ حالت میں اس دنیا سے کوچ کرنا چاہیے آپؑ فرماتے ہیں کہ میں پکار کر کہتا ہوں اور میرے دوست سن رکھیں کہ میری باتوں کو ضائع نہ کریں اور ان کو ایک قصہ گو اور داستان کا رنگ نہ دیں۔ بلکہ میں نے یہ ساعی باتیں نہایت دل سوزی اور سچی ہمدردی سے جو فطرتاً میری روح میں ہیں، کی ہیں۔ ان کو گوشِ دل سے سنو اور عمل کرو۔ اس کو یاد رکھو کہ ایک روز اللہ کے حضور جانا ہے۔ پس اگر ہم عمدہ حالت میں کوچ کرتے ہیں تو مبارک ہےورنہ خطرناک حالت ہے۔یاد رکھو جب انسان بری حالت میں جاتا ہے تو مکانِ بعید یہیں سے اس کے لیے شروع ہو جاتا ہے۔
خطاب کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بیعت کا حق ادا کرنے والا بناتے ہوئے آپؑ کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ایک پاک تبدیلی ہم اپنے دلوں میں پیدا کرنے والے ہوں۔ اپنے عملی نمونوں کے ساتھ اپنی نسل کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیم پر چلنے والا بنانے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ یہ دنیا کی چمک دمک کبھی ہمارے اورہماری نسلوں کے ایمانوں میں کمزوری پیدا کرنے والی نہ ہو۔ اسلام کے پیغام کو ہم دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کاحق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ جلسہ کی تمام برکات سے فیض پانے والا بنائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے۔
اس معرکہ آرا خطاب کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اجتماعی دعا کروائی جس کے بعد جلسہ سالانہ برطانیہ کا افتتاحی سیشن اختتام پذیر ہوا۔ بعد ازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا اور جلسہ گاہ سے تشریف لے گئے۔
کل ان شاء اللہ جلسہ سالانہ کا دوسرا روز ہے جس میں حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مستورات سے خطاب اور بعد دوپہر کے خطاب کے علاوہ علمائے سلسلہ کی اردو و انگریزی زبان میں تقاریر بھی پیش کی جائیں گی۔ احبابِ جماعت حضورِ انور کے ارشادات کی روشنی میں جلسہ سالانہ کی کارروائی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔
(تیارکردہ: لطیف احمد شیخ، حافظ نعمان احمد خان،اظہار راجہ، ذیشان محمود)