حضرت مصلح موعود ؓ

کوشش کرو کہ تمہاری اگلی نسل پچھلی نسل سے زیادہ اچھی ہو(قسط نمبر1)

از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

( خدام الاحمدیہ کوئٹہ سے خطاب فرمودہ18؍جولائی1950ء بمقام کوئٹہ)

تشہد ،تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:’’دنیا میں اچھے سے اچھا کام کرنا یہ بہت فرق رکھنے والی چیزیں ہیں۔ قومیں اپنی ترقی کے وقت بھی اچھا کام کرتی ہیں اور قومیں اپنے تنزل کے وقت بھی اچھا کام کرتی ہیں۔ مگر قومیں اپنے تنزل کے وقت اچھا کام کرتی ہیں اور ترقی کے وقت اچھے سے اچھا کام کرتی ہیں۔ ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا اگلا قدم اس کے پچھلے قدم سے آگے پڑے اور جب کسی قوم کی ترقی کسی ایک نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہوتی بلکہ اس کی ترقی اس کی کئی نسلوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے تو اس کے ہر فر دکو یہ مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اگلی نسل پچھلی نسل سے زیادہ اچھی ہو۔ اگر اگلی نسل پچھلی نسل سے اچھی نہ ہوتو اس کا قدم آگے کی طرف نہیں اٹھ سکتا۔ در حقیقت مسلمانوں کی تباہی کا بڑا موجب یہی ہوا کہ ماضی کو حال سے کاٹ دیا گیا اور مستقبل کے متعلق انہیں نا امید کر دیا گیا۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ماضی اپنی بنیادوں پر قائم ہے آئندہ آنے والا کوئی شخص اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بہر حال ہمیں اپنے اعمال سے اور اپنے طریق سے ایسے کاموں سے احتراز کرنا چاہئے اور نوجوانوں میں ہمیشہ یہ روح پیدا کرنی چاہئے کہ وہ پہلوں سے روحانیت میں بڑھنے کی کوشش کر یں۔ بننا نہ بننا الگ بات ہے لیکن کم از کم اس طرح دماغ تو اونچا رہتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص اتنی ترقی نہ کر سکے کہ وہ پہلوں سے بڑھ جائے مگر اسے نیچا کر نے میں اس کی مدد ہم کیوں کریں۔ ہم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو درجہ حاصل ہے وہ ہر شخص سمجھتا ہے لیکن آپؑ کے درجہ کے متعلق سب سے پہلا مضمون جو مَیں نے لکھا اور وہ تشحیذالاذہان میں شائع ہوا اُسے پڑھنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے مجھے فرمایا۔ میاں تمہا را مضمون تو اچھا ہے مگر اسے پڑھ کر ہمارا دل خوش نہیں ہوا پھر آپؓ نے فرمایا۔ ہمارے بھیرہ کی ایک مثال ہے کہ ’’اونٹ چالی تے ٹوڈا بتالی ‘‘ یعنی اونٹ کی تو چالیس روپے قیمت ہے اور اس کے بچہ کی بیالیس روپے۔ کسی نے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ اونٹ کی قیمت تو بہرحال ایک بچے سے زیادہ ہونی چاہئے۔ بیچنے والے نے کہا اونٹ کے بچہ کی قیمت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ اونٹ بھی ہے اور اونٹ کا بچہ بھی۔ یہ مثال دے کر آپؓ فرمانے لگے۔ میاں ہم تو امید رکھتے تھے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی بڑھ کر مضمون لکھو گے لیکن ہماری یہ امید پوری نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پوزیشن ایک بڑی پوزیشن تسلیم کی جاتی ہے لیکن میرے اندر ہمت پیدا کرنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ مجھے یہ بات کہنے سے بھی نہ رُکے کہ تمہیں مرزا صاحبؑ سے بھی بڑھ کر مضمون لکھنا چاہئے تھا۔ پس میرے نزدیک کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ہم اپنے کاموں میں اولوالعزمی قائم نہ رکھیں۔اسلام میں کوئی Priesthood یا مولویت نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر نے کے لئے ہر ایک کے لئے راستہ کھلا ہے۔ پس ہمیں نو جوانوں میں یہ احساس پیدا کر تے رہنا چا ہئے کہ وہ کبھی بھی یہ نہ سمجھیں کہ وہ پہلوں سے بڑھ نہیں سکتے۔ پس اپنے اندر حقیقی روحانیت اور خدا تعالیٰ کا سچا عشق پیدا کرو اور اس بارہ میں کسی بڑی سے بڑی مشکل اور مصیبت کی بھی پرواہ نہ کرو۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اے رسول ! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہوتا تو تم پیچھے رہ جاتے اور میں اس پر ایمان لے آتا (قُلۡ اِنۡ کَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ ٭ۖ فَاَنَا اَوَّلُ الۡعٰبِدِیۡنَ ۔الزخرف : 82)مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں تم نے صرف ایک جھوٹا بیٹا بنالیا ہے۔ اگر مسیح فی الواقعہ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہوتے تو سب سے پہلے مَیں ایمان لاتا۔

حضرت نظام الدین صاحب اولیاءؒ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ کہیں جارہے تھے۔ آپ کے ساتھ آپ کے ایک بڑے مخلص مرید بھی تھے جن کو آپ کا اپنے بعد خلیفہ بنانے کا ارادہ تھا اور ان کے علاوہ آپ کے اَور بھی مرید تھے۔ رستہ میں آپ کو ایک خوبصورت بچہ نظر آیا آپ کھڑے ہو گئے اور اس بچہ کو بوسہ دیا۔ آپ کو بوسہ دیتے دیکھ کر آپ کی نقل میں آپ کے مریدوں نے بھی اس بچہ کو بوسہ دینا شروع کر دیا۔ مگر وہ بڑے مرید جن کو آپ کا اپنے بعد خلیفہ بنانے کا ارادہ تھا وہ ایک طرف کھڑے رہے اور انہوں نے بوسہ دینے میں آپ کی اتباع نہ کی۔ جب آگے چلے تو دوسرے مریدوں نے آپس میں چہ میگوئیاں شروع کر دیں کہ یہ بڑا مخلص بنا پھرتا ہے حضرت نظام الدین صاحب اولیاءؒ نے اس بچہ کو بوسہ دیا مگر اس نے آپ کی اتباع نہیں کی۔ وہ چپ رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ کچھ دُور آ گے گئے تو ایک بڑبھونجا دانے بھون رہا تھا اس نے آگ میں پتے ڈالے تو ایک شعلہ اونچا ہوا۔ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء ؒآگے بڑھے اور آگ میں منہ ڈال کر اسے چوم لیا۔ اس پر وہ مرید بھی آگے بڑھا اور اس نے بھی آگ کو چوم لیا اور باقی مریدوں کو اشارہ کیا کہ وہ بھی آگ کو چو میں مگر وہ سب پیچھے ہٹ گئے اور ان میں سے کوئی بھی آگے نہ بڑھا۔ پہلے تو ایک بچہ ملا تھا اور وہ خوبصورت لگا تھا جب حضرت نظام الدینؒ نے اسے بوسہ دیا تو آپ کی اتباع میں انہوں نے بھی اسے چوم لیا مگر یہاں تو داڑھی اور بال جل جانے کا خطرہ تھا اس لئے وہ یہاں آپ کی نقل کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے حالانکہ اگر سچا عشق ہو تو انسان ہر قسم کے خطرات میں اپنے آپ کو جھو نک دیتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ اگر خدا تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہوتو مجھے کیا انکار ہوسکتا ہے میں اس پر ایمان لے آتا۔ میں تو خدا تعالیٰ کا بیٹا ہونے کااس لئے انکار کرتا ہوں کہ اس کا کوئی بیٹا ہو ہی نہیں سکتا۔

دوسری بات میں یہ کہنا چا ہتا ہوں کہ ہر بات کی کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے۔ یہاں ہر دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جلسوں کا پروگرام اس طرح بنایا جا تا ہے کہ اصل غرض کو پورا کرنے کے لئے وقت نہیں بچتا حالانکہ مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیم اس لئے قائم کی گئی ہے کہ ہر چیز حساب کی طرح ہر ممبر کو یا د ہو۔ وہ جب بھی کوئی پروگرام بنا ئیں انہیں علم ہونا چاہئے کہ فلاں کام پر کتنا وقت لگے گا ، فلاں پر کتنا وقت لگے گا ، ہم نے فلاں سے کتنی دیر تقریر کرانی ہے اور ہمارے پروگرام کے مطابق اس کے لئے کتنا وقت بچتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں جب یہ جلسہ ہوا تو ایک خادم کے ذہن میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وقت کی تقسیم کیسے ہوگی۔ پروگرام کا ہمیشہ ناقص ہونا انتظام کی کمی پر دلالت کرتا ہے۔ عید کے روز بھی جب مصافحہ کے وقت انتظام کے لئے میں نے قائد مجلس خدام الاحمدیہ کو بلا یا تو انہوں نے جو طریق اختیار کیا وہ ماہرفن کا طریق نہیں تھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کام تو ہو گیا مگر ایسا نہیں جس کی ان سے امید کی جا سکتی تھی۔ اگر ایسا انتظام وہ قادیان میں کرتے تو یقیناً ناکام رہتے۔ میرے نزدیک جب خدام میں یہ نظام پایا جا تا ہے کہ ہر9 خدام کا ایک گروپ لیڈر ہے تو قائد کو جو کام کرنا چا ہئے تھا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے دوسائقین کو بلاتے اور انہیں حکم دیتے کہ تم میں سے ایک اس طرف کا انتظام کرے اور دوسرا دوسری طرف کا۔ بہرحال ہر چیز نظام کے نیچے آنی چاہئے ورنہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم قائم کرنے کی غرض و غایت پوری نہیں ہوسکتی۔

پھر میرے نزدیک دعوتوں میں جس طرح پھل رکھا جا تا ہے اس سے نہ صرف وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ چیز کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کَلِمَۃُ الْحِكْمَةِ ضَآلَّةُ الْـمُـؤْمِـنِ اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا (ترمذی ابواب العلم باب ماجاء فی فضل الغقہ علی العبادۃ میں الفاظ یہ ہیں۔’’کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثَ وَجَدَھَا فَھُوَاَ حَقُّ بِھَا‘‘)یعنی کلمه حکمت مومن کی ملکیت ہے وہ جہاںاسے دیکھے لے لے۔ ہمارے ہاں تو رواج نہیں مگر یورپین ممالک میں ایک بفے سسٹم (Buffet System) ہوتا ہے وہ اس جیسے مواقع پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔صرف دومیزیں رکھ کر ان پر پھل لگا دیا جا تا اور پھر مدعووین سے کہہ دیا جا تا کہ آ ئیے جو پسند ہو کھا لیجئے۔ اس طرح بڑی آسانی سے یہ کام دس منٹ میں ختم ہو جا تا اور جلسہ کی اصل غرض کے لئے زیادہ وقت بچ جا تا۔ سرو (Serve) کرنے اور پھل اٹھا کر لانے کا وقت بھی ضائع نہ ہوتا۔ میرے نزیک آئندہ اس قسم کی تقریبات کا انتظام بفے سسٹم کی طرز پر ہونا چاہئے تا کہ اخراجات بھی کم ہوںاور وقت بھی کم صرف ہو۔

نظم کے متعلق میں یہ کہنا چا ہتا ہوں کہ اور لوگ تو محض رسم کے طور پر ان موقعوں پر نظم پڑھ دیتے ہیں مگر ہمارا ظاہری رسوم سے کوئی تعلق نہیں۔ ہماری ان موقعوں پر نظمیں پڑھنے سے کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے اور وہ مختلف مواقع کے لحا ظ سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلا ًجلسہ سالانہ کے موقع پر بعض دفعہ میں بھی نظم کہہ دیتا ہوں اور دوسرے لوگ بھی مختلف نظمیں پڑھ دیتے ہیں کیونکہ اس موقع پر مختلف خیالات کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور ہر مضمون کی نظم وہاں سج جاتی ہے مگر جب طلبہ اور خدام میں نظم پڑھی جاتی ہے تو نظم ان کے مناسب حال پڑھی جانی ضروری ہوتی ہے۔

خدام الاحمدیہ کو چاہئے کہ وہ ہر مجلس میں تعلیم کا ایک سیکرٹری مقرر کر یں جس کا ایک کام یہ بھی ہو کہ وہ جلسوں کے لئے نظموں اور مضامین کا انتخاب کیا کرے اور یہ مدنظر رکھے کہ نظمیں دعائیہ اور جوش پیدا کر نے والی ہوں۔ مثلاً پروگرام شروع ہونے سے پہلے کوئی خادم میری ایک نظم پڑھ رہا تھا جس میں نماز جیسے دعائیہ فقرات تھے۔ اِس قسم کی نظم طلبہ اور خدام کے لئے مفید ہوسکتی ہے لیکن ایک عام تصوف کی نظم ان کے لئے زیادہ کارآمد نہیں ہوسکتی اور اس سے جوش دلانے کی غرض بھی حاصل نہیں ہوتی اس لئے آئندہ یہ خیال رکھا جائے کہ ایسے مواقع پر ایسی نظمیں رکھی جا ئیں جو دعا ئیہ اور جوش دلانے والی ہوں اور پھر سارے خدام پڑھنے والے کے ساتھ ساتھ انہیں دہراتے چلے جا ئیں۔ اس سے طبائع میں جوش پیدا ہوتا ہے اور سننے والے مضمون کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اب تو سننے والے کی صرف اس طرف توجہ ہوتی ہے کہ پڑھنے والے کی تال اور سر کیا ہے اور اس کی آواز کیسی ہے۔ آواز اچھی ہوگی تو وہ تعریف کر یں گے۔لیکن اگر سننے والا سمجھتا ہو کہ یہ دعا ہے تو وہ اس کے مفہوم کو جذب کرنے کی کوشش کرےگا۔ پس آ ئندہ یہ ہونا چاہئے کہ جب نظم پڑھنے والا نظم پڑھے تو دوسرے بھی اس کے ساتھ شریک ہوں اور ساتھ ساتھ دعائیہ الفاظ کو دہرائیں اس طرح دعا کی عادت بھی پڑے گی اور ذمہ داری اٹھا نے کا احساس بھی پیدا ہو گا۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button