زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مت روکو
زبان کو جیسے خداتعالیٰ کی رضا مندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے۔ اسی طرح امرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی امر ہے۔ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر(آل عمران:۱۱۵) مومنوں کی شان ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔ پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے۔ اور انداز بیان ایسا ہونا چاہئے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو۔ اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے۔(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۸۱تا۲۸۲،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَتَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ (البلد:۱۸) کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مَرْحَمَہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سَومرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کی ہو۔(ملفوظات جلد۷صفحہ۷۹،ایڈیشن۱۹۸۴ء)