شہادتوں کے بعد مہدی آباد کا پہلا سفر
ایئر فورس کے فوجی ہیلی کاپٹر کی پھٹہ نما سیٹ پر بیٹھے سوچ کے دھارے ان جواں مرد شہیدوں اور ان کے بہادر ورثاء کے گرد گھوم رہے تھےجو آج احمدیت کے ستارے بن کر چمک رہے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کے گھومتے پنکھوں کا شور کم کرنے کے لیے ہمیں ہیڈ فون مہیا کیا گیا تھا لیکن اس کو لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی کہ خیالات کی رو اس قدر تیزی سے بہ رہی تھی کہ کچھ بھی ا س میں حائل نہیں ہو سکتا تھا۔ جنگلوں سے پرے صحرا کی ریت پر بسنے والے ’مہدی آباد‘کے استقامت کے پُتلوں کو ملنے کے لیے دل کچھ ایسا بے قرار تھا کہ بظاہر اڑ کر جا نا بھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جہاز اڑ نہیں بلکہ رینگتا ہوا آگے بڑھ رہا ہو۔
یہ سعادت تھی کہ سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے ارشادِ گرامی کے مطابق مہدی آباد جانے والے وفد میں عاجز کا نام بھی شامل تھا۔ جس دن سے شہادتیں ہوئیں اُسی دن سے مہدی آباد پہنچ جانے کی خواہش اور ایک ایک کو سینے سے لگا کر ان کی عظمت کو سلام کرنے کی تمنا ستا رہی تھی۔ ان کے ساتھ اسی ریتلی زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے اور ان کا درد بانٹنے کی حسرت تھی لیکن ایسا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔ وفد تو جانا ہی تھا لیکن ا س میں آخری وقت میں عاجز کا شامل ہو جانا بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہی تھا۔
گیارہ جنوری ۲۰۲۳ء کو سانحہ مہدی آباد میں نو(۹) احمدی بزرگوں نے جامِ شہادت کچھ اس ادا سے نوش کیا کہ وہ شجاعت و اسقامت کے استعارے بن گئے۔ وہ سید الشہداء عبد اللطیف شہید کے قائمقام ٹھہرے اور ان کے صبر و استقلال کا نمونہ اپنی مثال آپ قرار پایا۔ مکرم امیر صاحب برکینا فاسو کو حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ہدایت موصول ہو چکی تھی کہ مہدی آباد والوں سے ملنے جائیں۔ اس کے لیے حسب ہدایت حضور انور اید ہ اللہ تعالیٰ مکرم محمد بن صالح صاحب امیر جماعت گھانا اور آپ کے ساتھ گریٹر اکرا کے ریجنل صدر پر مشتمل ایک وفد برکینا فاسو پہنچا۔
ان دنوں برکینافاسو کے دارالحکومت واگا دوگو سے دو صد پینسٹھ کلومیٹرز دور ڈوری اور پھر اس سے آگے پینتالیس کلومیٹرز دور مہدی آباد بذریعہ سڑک جانا تو ممکن نہیں رہا۔ چنانچہ اس علاقے میں موجود گولڈ مائننگ کمپنی کے پرائیویٹ جہاز پر جانے کی کوشش کی گئی جو بظاہر اتنی آسانی سے میسر آتا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اجازت تو غالباً ہو ہی جاتی لیکن جہاز کے میسّر آنے میں کچھ دن اَور لگ سکتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے چنیدہ بندے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی تعمیل کے لیے ایسا انتظام کیا کہ برکینا فاسو ایئر فورس کے ساتھ معاملات طے پاگئے۔ جہاں پہلے چند لوگ جا سکتے تھے وہاں گیارہ افراد پر مشتمل ایک بھرپور وفد کے سفری انتظامات ہو گئے۔
مورخہ ۲۶؍جنوری کو ایئریس واگا دوگو سے روانہ ہو کر ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد ہمارا ہیلی کاپٹر گولڈ مائن کے احاطے میں جا اترا۔ ہیلی کاپٹر سے باہر آئے تو پتا چلا منزل ابھی دور ہے۔ ہم نے مہدی آباد کے لوگوں سے ملنےجانا تھا جو یہاں سے کم و بیش دس کلومیٹرز دور ایساکان (Esakan) گاؤں میں عارضی طور پر جا بسے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی بے چین تھا کہ جس قدر جلدی ہو سکے ان کے پاس پہنچ جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت ان کے درمیان گزار سکیں۔ لیکن جنگ زدہ علاقہ (war zone) کے اپنے قاعدے قانون ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی بس جنگی حالات کی پیدا کردہ ان رکاوٹوں کے اندر سے راستہ بنا کر منزل تک پہنچنا اور پھر اسی جگہ واپس آنا تھا۔ گولڈ مائن والوں نے جماعت کے ساتھ دیرینہ تعلقات کی بنا پر ہمیں بسیں اور سیکیورٹی دینے کی حامی بھرلی لیکن مائن کے احاطہ کی نسبت باہر کی دنیا یکسر مختلف تھی۔ اندر بھر پورحفاظتی انتظامات اور باہر مکمل وحشت کے ڈیرے۔
بہر حال مسلح فوجی گارڈز، پائلٹ موٹر بائکس، فوجی جوانوں کے ساتھ مشین گن نصب شدہ ڈبل کیبن جو ہمارے قافلے کی دو بسوں کے پیچھے تھی اس کے ساتھ ہم مائننگ ایریا سے باہر نکل کر مہدی آباد کی طرف روانہ ہوئے۔
کچےراستے پر پچیس منٹ کا یہ سفر عجیب کیفیات کا سفر تھا۔ شہداء کے ورثاء اور جماعت مہدی آباد کے ساتھ واقعۂ شہادت کے بعد مرکزی وفد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ہر ایک اپنی اپنی بساط اور ذوق کے مطابق خیالات کی رو میں بہ رہا تھا۔ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی ہمت تھی نہ فرصت۔ کم از کم مجھ میں تو نہیں تھی۔ کیسے ملیں گے؟شہداء کے ورثاء سے کن الفاظ میں تعزیت کریں گے؟کیسے حوصلہ دیں گے؟وہ الفاظ کہاں سے لائیں گے جو ان کے زخموں کے لیے مرہم بن سکیں۔ شہداء کے معصوم بچے جو شفقتِ پدری سے محروم ہو گئے انہیں کیسےصبر کی تلقین کر سکیں گے۔ خبیب بن عدیؓ جیسی جوانمردی، سمیہؓ اور یاسرجؓیسی شجاعت اور عبد اللطیفؓ جیسی استقامت دکھانے والوں کی بستی میں قدم رکھنا، ان شہداء کے خاندانوں سے ملناعجیب احساس پیدا کر رہا تھا۔ واردات قلب پر اختیار کب تھا۔ اگر طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا کر دلیری کی داستان رقم کی تھی تو اسی کی نسل سے ان بربر اور تماشق لوگوں نے ثابت کر دیا کہ وہ بھی کشتیاں جلا کر ہی احمدیت میں داخل ہوئے تھے واپسی کی کوئی راہ بچی کب تھی۔
عارضی خیمہ جات
جوں جوں ہماری بسیں گاؤں کے قریب ہو رہی تھیں دلِ ناتواں کے بندھن کمزور پڑ رہے تھے۔ ہر فرد قافلہ خاموشی سے بیٹھا تھا۔ اسی شش و پنج میں تھے کہ ایساکان گاؤں کی آبادی نظر آنا شروع ہوگئی۔ بلکہ اہلِ مہدی آباد کے خیمے گاؤں سے باہر بائیں جانب میدان میں ہی ایستادہ تھے۔ خیمے کیا تھے، کائی اورمچھٹی سے بنے چھپر۔ ترپالوں سے ڈھکے خستہ حال خیمے۔ جس کو جو ملا اس کے ساتھ سر ڈھانپنے کی جگہ بنا لی۔ میری نظریں ان خیموں کا طواف کررہی تھیں۔ محبت اور بے پناہ الفت سے، بہت ادب اور بے حد احترام سے۔ میرا دل فرش راہ ہو رہا تھا۔ عظیم شہیدوں اور احمدیت کے چمکتے ستاروں کے وارثوں سے ملاقات کا شرف عطا ہو رہا تھا۔
ان کی جرأت کو سلام کرنے اور ان کو گلے لگانے کا موقع تھا۔وہ استقبال کے لیے منتظر تھے۔
پتا ہی نہیں چلا کب قدم گاڑی سے باہر نکل کر اس سرزمین پر پڑے۔ اچانک ہم ان کے سامنے کھڑے تھے۔ کہاں سے شروع کریں۔ کس کے گلے پہلے لگیں۔ یہ سب معلوم کرنے کی طاقت تھی نہ موقع۔ ہر ایک عظیم تر تھا۔ ہر ایک بےحد پیارا۔ ہر ایک مظلوم اور ہر ایک عزم و استقلال کا پیکر۔ ایک طرف سے ملنا شروع ہوئے تو احساس ہوا کہ ہم تو محبت کے دو طرفہ جاری دھاروں کے ساتھ بہے جا رہے ہیں۔ دلِ حزیں اور نمناک پلکوں کے ساتھ کچھ کہنے کی استطاعت نہ تھی۔ آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بہت کوشش کے باوجود تھمنے میں نہ آرہی تھیں۔
ایک ایک کو گلے لگ کر اپنے اندر سمو لینے کو دل چاہا۔ ان کے غم سمیٹنے اور بانٹ لینےکا من۔ الفاظ تو ختم ہو چکے تھے۔ صرف دوطرفہ محبت کی موج در موج لہریں تھیں۔ آنسوؤں کی زباں، دلی محبت اورسچے جذبات کی خاموش زبان کتنی مضبوط ہوتی ہے۔ اسی زبان کا بہت خوبصورت عملی اظہا ر ہو رہاتھا۔ایک ایک کو مضبوط پایا۔ ہر ایک جرأتِ ایمانی سے سرشار، ہر کوئی صبر ورضا کا مجسم نمونہ، ہر فرد جماعت جوانمردی کا پرتو۔ واقعی جری شہیدوں کے حقیقی وارث کہلانے کے مستحق ہیں مہدی آباد کے احمدی۔ دشمن ان کو اتنا بڑا زخم دے کر بھی ان کی مسکراہٹ نہ چھین سکا۔ اگر دشمن اتنے بڑے سانحہ کے بعد ان کی دل نواز مسکان دیکھ پاتا تو شرم سے ہی ڈوب مرتا۔
میں نے سانحہ میں سے گزرنے والوں، شہداء کے بچوں یا کسی دوسرے فرد کو حادثے کے زیرِ اثر ہلکان ہوتےنہیں پایا۔ کوئی واویلا، کوئی شور شرابا نہیں۔ میں سانحہ مہدی آباد کے عینی شاہدین کے سامنے کھڑا تھا۔ میں ایک ایک سے بات کر رہا تھا۔ ہر کوئی واقعہ کی تفصیلات بتا رہا تھا۔ ایسے جیسے وہ ابھی بھی دیکھ رہا ہولیکن مضبوط دل کے ساتھ۔
پھر اس بچی کا بلند حوصلہ تو دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا جو کہہ رہی تھی ’میں اپنے بابا کے پاس پہنچی، وہ دائیں پہلو پر گرے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا ان کو گولی سینے پر لگی تھی۔‘’آپ بابا کو دیکھ کر روئی نہیں!؟‘’نہیں! مجھے ہمارے بزرگوں نے کہا شہید پر روتے نہیں ہیں۔ آپ کے بابا شہیدِ احمدیت تھے۔ کوئی نہیں روئے گا۔ پھر ہم میں سے کوئی نہیں رویا۔ میں بھی نہیں روئی۔ میرے بابا احمدیت پر قربان ہوئے۔ ان کو کہا گیا کہ احمدیت چھوڑ دیں لیکن بابا نے کہا میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ مجھے مرنا قبو ل ہے۔‘
معصوم اور مضبوط اعصاب کی بچی۔ اتنی مضبوط کہ بہادری کے بڑے بڑے دعویداروں کے کلیجے اُس کے مقابل شرماتے ہوں گے۔ ہاں! بہت بلند۔ بلند و بانگ دعوے کرنے والے مردوں کو ٹوٹتے اور مصیبت کے وقت بکھرتے دیکھا ہے۔ لیکن اس بچی کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔کون ہے یہ بچی؟ یہ چودہ پندرہ سالہ عائشہ ابراہیم ہے۔ امام ابراہیم بدیگا صاحب کی بیٹی۔ واقعی اس نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک قوی، پہاڑوں جیسا ایمان رکھنے والے، احمدیت کے ستارے اورعظیم شہید کی عظیم بیٹی ہے۔ سلام اے احمدیت کی بیٹی! تیری جرأت کو سلام!
میں نے مہدی آباد کے ہر احمدی کو عالی ہمت، بلند حوصلہ،مضبوط، بے خوف، ثابت قدم اور باصبر پایا۔ ہم جو انہیں حوصلہ دینے کا سوچ رہے تھے ان کی جرأت ایمانی سے جذبوں کی تازگی مستعار لے کر لوٹے۔جتنا وقت ہم وہاں رہے سیکیورٹی گارڈز خیمہ بستی کے ارد گرد پوزیشن لیے کھڑے رہے۔ ہمارے قافلہ کی گاڑیاں اسٹارٹ رہیں۔ سیکیورٹی والوں کو فکر تھی کہ جلدی چلیں۔ ہمیں یہ پریشانی کہ وقت تیزی سے مٹھی میں ریت کی طرح پھسل رہا تھا۔ ابھی پیاس بجھی کہاں تھی۔ دل کی تمام باتیں ہوئیں کب تھیں۔ علیم کے شعر کی عملی تصویر تھے ہم کہ
بجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی ہے
پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی
حضور انور کی طرف سے احباب جماعت مہدی آبا د کے ساتھ اظہار تعزیت
امیر صاحب برکینافاسو اور امیر صاحب گھانا نے احباب جماعت سے تعزیت کی۔ انہیں سیدنا حضور انو ر ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘کا تحفہ پہنچایا۔ شہداء کے بچوں اور خاندانوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور تحائف پیش کیے۔ انہیں حوصلہ دیا اور ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ جب امیر صاحب نے پوچھا کہ حضورِانور نے مہدی آباد کی مسجد کھولنے کے متعلق استفسار فرمایا ہے تو انہوں نے کہا کہ مسجد تو اب بھی کھلی ہے ہم پہلے جیسی رونق بحال کرنے کے لیے تیا رہیں۔
وقتِ روانگی تھا۔ چھوٹے بڑے سلیقے سے کھڑے تھے۔ خدام نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر از خود دو قطاریں بنا لیں اور ہمیں بسوں کی طرف لے گئے۔ ہم سب بوجھل دلوں کے ساتھ سوار ہوئے۔ مہدی آباد کے احباب بڑے احترام سے کھڑے ہاتھ ہلا کر ہمیں الوداع کر رہے تھے۔ وہ منظر کیمرے نے تو محفوظ کیے ہی ہیں لیکن جو نظارے دل ودماغ کی دیواروں پر نقش ہو گئے ان کا مقابلہ کوئی کیمرہ نہیں کر سکتا۔
جاتے ہوئے جلدی پہنچنے کی تڑپ اور واپسی پر تشنگی کے احساس کے ساتھ ہم سفر کر رہے تھے۔ ہمارا شعور اسی بستی کے گرد چکر لگا رہا تھا۔ انہی کی یاد ہم سفرتھی۔ پچیس منٹ کے بعد گولڈ مائن کے احاطے میں پہنچے اور جلد ہی ساڑھے چا ربجے شام ہیلی کاپٹر کے ذریعہ واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ سوچوں کے بحرِبےکنار کی ہر موج انہی کے نام سے معنون تھی۔ ہر مدو جزر میں انہی کے ہیولے ابھرتے رہے۔ انہی کی پیاری صورتیں اور دل نواز مسکراہٹیں آنکھوں کے سامنے گھومتی رہیں۔ راضی برضائے الٰہی ہونے کی عملی تصویر بنے وجودوں کی شکلیں سامنے آتی رہیں۔ میں نے نوٹ بک نکالی اور ان سطور کے نوٹس لینا شروع کیے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں الفاظ دھندلانا شروع ہو گئے۔ ضبط کی ساری کوششیں رائیگاں گئیں۔ آنکھوں کے مکین کہاں رکنے والے تھے۔ میں ان شہداء کے فیض سے اپنے ارد گرد سے بیگانہ سرور وعشق کی تازہ وارداتِ قلبی سے روشناس ہوا، مزید لکھنے کی مگر ہمت نہ تھی۔ میں ہیلی کاپٹر کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ نیچے ڈوری کی ریتلی، بنجر اور خشک زمین تھی جس میں شہادتوں کے تروتازہ اور خوش نما، قد آور پھول کھل چکے تھے۔
ممبران وفد
شہادتوں کے بعدمہدی آبا دکے اس پہلے سفر میں نو مرد حضرات اور دو خواتین کو شرکت کی سعادت ملی۔ وفد میں لجنہ اماء اللہ کی نمائندگی نے بہت اہم کردار اد اکیا اور شہداء کی بچیوں اور بیوگان سے براہ راست ملاقات کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا موقع ملا۔
1 | الحاج محمد بن صالح صاحب | امیر جماعت احمدیہ گھانا |
2 | محترم محمود ناصر ثاقب صاحب | امیر جماعت احمدیہ برکینا فاسو |
3 | محترم آدم کوفی یاموح صاحب | ریجنل صدرجماعت اکرا گھانا |
4 | محترم کونے داؤدا صاحب | جنرل سیکرٹری و صدر مجلس خدام الاحمدیہ برکینا فاسو |
5 | خاکسار چودھری نعیم احمد باجوہ | پرنسپل جامعۃ المبشرین برکینا فاسو |
6 | محترم اگ لیتنی محمد صاحب | تماشق قبیلہ کے پہلے احمدی |
7 | محترم جیالو عبد الرحمٰن صاحب | چئیرمین ہیومنٹی فرسٹ برکینا فاسو |
8 | ڈاکٹر کابورے ادریس صاحب | نگران احمدیہ ہسپتال واگا دوگو |
9 | یودا احمدو صاحب | معتمد مجلس خدام الاحمدیہ برکینا فاسو |
10 | امۃ القیوم صاحبہ | اہلیہ محمود ناصر ثاقب صاحب، امیر جماعت برکینا فاسو |
11 | عثمانہ روقیہ صاحبہ | نیشنل سیکریٹری مال لجنہ اماء اللہ برکینا فاسو |
اللہ اکبر۔ شہدائے برکینا فاسو زندہ باد
Mashallah