امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس انصار اللہ ناروے کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ۲۹؍جنوری۲۰۲۳ء کو مجلس انصار اللہ ناروے کی آن لائن ملاقات ہوئی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹي اے سٹوڈيوز سے رونق بخشي جبکہ مسجد بیت النصر اوسلو ناروے سے انصار نے آن لائن شرکت کی۔
پروگرام کا آغازتلاوت قرآن کریم مع اردو ترجمہ سے ہوا۔
اس کے بعد صدر صاحب مجلس انصار اللہ ناروے نے حضور انور کی خدمت میں انصار اللہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ناروے میںانصاراللہ کی کُل۱۲؍مجالس ہیں اور تجنید ۳۲۹؍انصار کی ہے۔
اس کے بعد مختلف امور پر انصار کو حضور انور سے سوالات کرنے کا موقع ملا۔
ایک ناصر نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اور ان کی اہلیہ تین ماہ قبل احمدیت میں داخل ہوئے۔اس سے قبل ۱۸؍سال تک وہ سنی مسلمان تھے۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ ہمارے اور سنیوں کے درمیان کافی مشترک چیزیں ہیں۔
بعد ازاں موصوف نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت اسلام کی تجدید اور اشاعت کےلیے کس قدر ضروری ہے؟ نیز ہم اشاعت اسلام میں کیسے ممد ثابت ہو سکتے ہیں اور خلیفہ وقت کے ساتھ ہم کیسے اچھا تعلق پیدا کر سکتے ہیں؟
اس پرحضور انورنے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے اپنے عمل نے ہی خلافت کی ضرورت کو ثابت کر دیا ہے اور یہ کہ خلافت اشاعت اسلام کے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے تو آپ سنیوں سے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی تھی کہ ایک ہزار سال کے تاریک عرصے کے بعد مسلمانوں میں مسیح موعود کی آمد ہو گی اور وہ مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق یہ الفاظ بیان فرمائے کہ ان کا مقام خلیفۃ الرسول کا ہو گا۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں اور اس کے بعد یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ اسلام کے پیغام کی اشاعت کےلیے نظام خلافت جاری رہے گا کیونکہ یہی موزوں وقت تھا کہ جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کےلیے تمام ذرائع میسر تھے۔ اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میڈیا اور دیگر ذرائع میسر ہیں اور خلافت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقش قدم پر چل کر کام کرے گی اور آپ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا۔
پھر یہ ایک منظم نظام ہو گا۔ دوسرے فرقوں میں آپ کو یہ نظام نہیں ملے گا۔ یہاں خلافت کے ماتحت اسلام احمدیت کا پیغام دنیا کے سارے کناروں تک پہنچا رہا ہے۔مختصراً اس لیے اس کی ضرورت ہے۔ورنہ اگر آپ کے پاس ایک قیادت نہیں ہے تو آپ ایک ریوڑ کی طرح ہیں جس کی دیکھ بھال کےلیے کوئی مقرر نہ ہو۔ پس خلافت احمدیہ کے تحت ہمارے نظام میں یک جہتی ہے اور ایک وجود آپ کی راہنمائی کرتا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ اس پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور راہنمائی نازل ہوتی ہے۔اور جب بھی وہ ضروری سمجھتا ہے کہ فلاں کام ہونا چاہیے تو وہ جماعت کو اس کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ پس خلافت کے نظام کی ایک وجہ ہے۔اسی لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ میرے جانے کے بعد خلافت راشدہ قائم ہو گی جس کے بعد ملوکیت کا ایک دَور آئے گا اور اس کے بعد تاریکی کا دَورآئے گا اور اس کے بعد جیساکہ میں نے کہا مسیح و مہدی ظاہر ہو گا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ وہ خلافت تاقیامت جاری رہے گی اور یہی ہمارا ایمان ہے کہ خلافت احمدیہ تاقیامت جاری رہے گی اور اللہ تعالیٰ اس خلافت کی نصرت اور راہنمائی فرمائے گا۔ اور خلافت کی ہی ہدایت سے جماعت ترقی کرے گی اور پھولے پھلے گی اور یہی ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ ہر سال ہزارہا لوگ احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں۔ ایک اکیلا شخص جس نے ایک چھوٹی سی بستی میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا آج تقریباً دنیا بھر میں شہرت پا چکا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کے ذریعہ سے اسلام کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے میں اللہ تعالیٰ ہماری مدد کر رہا ہے۔ اگر آپ نظام خلافت سے جڑ جائیں گے اور آپ اس بات پر ایمان لائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کے پیغام کو پھیلانے کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور آپ یہ بھی مانیں گے کہ آپ علیہ السلام کے بعد حقیقی خلافت جاری ہے تب آپ کو بھی اسلام کے بارے میں علم حاصل کر کے تبلیغ اسلام کے ذریعہ سے خلیفہ اور نظام جماعت کی مدد کرنی چاہیے۔ پس یہ ہر ایک احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کے پیغام کو پھیلائے کیونکہ بیعت کرتے وقت سب نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ اسلام میں مدد کریں گے۔ پس آپ کو چاہیے کہ آپ اسلام کے بارے میں زیادہ علم حاصل کریں اور قرآن کریم کی تلاوت، اس کا ترجمہ اور اس کی تفسیر سیکھیں، اسی طرح معتبر احادیث بھی۔ اس کے ساتھ یہ بھی یقیناًبہت ضروری ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کو پڑھیں۔ آپ علیہ السلام کی کافی کتب کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ اگر نارویجن زبان میں ترجمہ موجود نہ ہو تو آپ کم از کم وہ کتب پڑھ سکتے ہیں جن کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے۔ اس کے ذریعہ آپ اسلام اور احمدیت کے بارے میں اپنے علم کو تازہ کر سکتے ہیں بلکہ اس کو وسیع بھی کر سکتے ہیں اور پھر اس پیغام کو پھیلا سکتے ہیں۔اس طرح آپ خلیفہ، جماعت ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بالآخر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مددگار ثابت ہوں گے۔اور ہمیں چاہیے کہ جیسے اللہ تعالیٰ اشرف المخلوقات یعنی انسانوں سے چاہتا ہے،ہم صراط مستقیم پر چلنے والے لوگ بنیں۔ جب آپ یہ سب کریں گے تو آپ کا خلافت سے اچھا تعلق قائم ہو جائے گا۔
ایک ناصرنے سوال کیا کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پاکستان، ہندوستان اور الجزائر کے بعد اب حال ہی میں برکینا فاسو میں نو (۹)احمدیوں کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا ہے۔ کیا یہ مخالفت جماعت کی ترقی کو دیکھ کر مزید ملکوں میں بھی پھیلنے کا امکان ہے اور جماعت کو ان خطرات کی وجہ سے سیکیورٹی کے کیسے انتظامات کرنے چاہئیں؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ جس طرح جماعت پھیل رہی ہے حسد بھی بڑھ رہا ہے۔ اب حسد بڑھ رہا ہے تو فتنہ اور فساد پیدا کرنے ،وسوسے ڈالنے والے اوردجالی صفت رکھنے والے لوگوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی آخری تین سورتوں میں پہلے ہی دعا سکھا دی۔ ان لوگوں کو پتا ہے کہ احمدی ہی ہیں جو خدائے واحد کی صحیح طرح عبادت کرنے والے ہیں۔ گو کہنے کو تو یہ ہمیں ان ملکوں میں خدا تعالیٰ یا اس کے رسول کے نام پہ قتل کرتے ہیں اورہم پہ ظلم کرتے ہیں لیکن دراصل ان میں ایک حسد ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی خلاف ورزی کرنے والے ہیں اور ہر نبی کی جماعت کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے۔جب بھی وہ پھیلتی ہے حاسدین کی تعداد بھی بڑھتی ہے، وسوسے ڈالنے والوں کی تعدادبڑھتی ہے اور پھر جہاں ان کو موقع ملتا ہے وہ ظلم سے بھی دریغ نہیں کرتے اور یہی کچھ جماعت احمدیہ سے ہوا۔
پہلے ہندوستان میں ہوا جب پاکستان ہندوستان ایک تھا۔اس وقت احراری شور مچاتے تھے۔حالانکہ اس وقت برٹش گورنمنٹ تھی لیکن بعض مواقع ایسے آئے کہ انگریز افسران جماعت کی مخالفت کرتے تھے۔یہ ہماری تاریخ سے ثابت ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے خلاف مقدمے کرتے رہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف مقدمے ہوتے رہے اور فساد پیدا ہونے کی بھی کوشش ہوتی رہی۔
پھر پاکستان ہندوستان بنا تو پاکستان میں کیونکہ جماعت کی تعداد زیادہ تھی وہاں شروع سے ہی پہلے۵۳ء کے فساد ہوئے۔پھر اس کے بعد ۷۴ء کے واقعات ہوئے۔۸۴ءمیں ہمارے خلاف قانون مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی اور پھر جو تبدیلیاں کر سکتے تھے،جو ان کے بس میں تھا ،وہ کرتے رہے اور اب تک کر رہے ہیں۔ حاسدین جماعت کی ترقی دیکھ کر یہ کر رہے ہیں اور کریں گے اور یہی کچھ الٰہی جماعتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ ہندوستان میں بھی مولویوں نے آج کل سر اٹھانا شروع کیا ہواہے۔ آج کل وہاں بھی نئے سرے سے مولویوں کا گروپ ختم نبوت کے نام پہ احمدیوں کے خلاف مختلف چھوٹے قصبوں میں، جہاں جماعت تھوڑی تعداد میں ہے، وہاں فساد پیدا کرنے یا مار دھاڑ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔وہاں بھی اکا دکا واقعات ہو رہے ہیں اور اسی طرح جب باہر نکلتے ہیں تو باہر بھی ہوں گے۔
افریقہ میں کیونکہ جماعت پھیل رہی ہے اور پاکستانی مولوی بھی وہاں جاتا ہے ، ختم نبوت یا وہابیت کی تعلیم کے نام پہ بعض عرب ملک اپنا روپیہ بھی لگاتے ہیں۔برکینا فاسو میں مسلمان زیادہ تر وہابی ہیں۔بہرحال وہ پیسہ لگا رہے ہیں اور یہ سارا فتنہ اور فساد کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اس طرح ہم سختی سے جماعت کو دبا لیں گے لیکن جو شخص احمدی ہوتاہے، خود اسلام قبول کرتا ہے اور اپنے ایمان میں پختہ ہے وہ ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ آپ نے نمونہ دیکھ لیا کہ کس طرح انہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر دیے لیکن اپنے ایمان سے نہیں ہٹے۔اسی طرح بعض اور نوجوان ہیں جن کو دھمکیاں مل رہی ہیں کہ یہ کرو نہیں تو ہم یہ کر دیں گے۔مَیں نے پچھلے خطبہ جمعہ میں جو برکینا فاسو کے بارے میں تھا مثال بھی دی تھی کہ ایک نوجوان نے کہا کہ تم کہتے ہو تصویریں کیوں لگاتے ہو، مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اَور تصویریں لگاؤں گا۔تویہ ان کے ایمان کی پختگی ہے۔
یورپ میں تو ویسے ہی دہریت پھیل رہی ہے اور مذہب کے خلاف ایک باقاعدہ مہم ہے۔ آج کل مختلف قسم کی حرکتیں شروع ہوئی ہوئی ہیں ،عورت مرد کی آزادی کے نام پہ ،مختلف genderکی آزادی کے نام پہ جس کو یہ مختلف نام دیتے ہیں یا دوسرے ناموں پہ۔ گو بعض جگہ یہ صحیح ہیں لیکن جہاں مذہب کے ساتھ آزادی کے نام پہ یہ باتیں کرتے ہیں یا مذہبی تعلیم کے خلاف آزادی کے نام پہ باتیں کرتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ یہ دہریت پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی سکیم ہے۔صرف یہی نہیں کہ ہمارے سے مذہبی مخالفت ہو گی بلکہ ہمیں دہریت کا بھی مقابلہ کرنا پڑے گا۔ دہریت کی طرف سے بھی مخالفت ہو گی۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صرف یہ نہیں لکھا کہ میں مثیل مسیح کے طور پر آیا ہوں اس لیے عیسائیت کے خلاف میرا جہاد ہے۔ آپؑ نےمسلمانوں کو بھی ہدایت دینی تھی اور عیسائیوں کو بھی ہدایت دینی تھی۔ بلکہ آپؑ نے کہا کہ ایک زمانہ آئے گا ،اور اب آ گیا ہے ،جب لوگ خدا تعالیٰ کو ہی بھول رہے ہیں۔اس لیے دہریت کے خلاف بھی تمہیں جہاد کرنا پڑے گا۔ اب وہ زمانہ ہے کہ ہمیں دہریت کے خلاف اپنے لٹریچر کو مضبوط کرنا ہو گا ،اپنے دلائل مضبوط کرنے ہوں گےاور اس حوالے سے اپنی باتوں میں زیادہ سے زیادہ زور پیدا کرنا ہو گا کیونکہ عیسائیت کو تو لوگ بھول چکے ہیں۔لیکن بہرحال سارے مخالفین چاہے وہ مذہب کے مخالفین ہوں،دہریہ ہوں، اسلام کے مخالفین ہوں،یاعیسائی یا دوسرے مذاہب کے ہوں ،یہ سب مل کے احمدیت کے خلاف محاذ کھڑا کریں گے۔ اورہو سکتا ہے کہ ایک وقت آئے جب ان کو یہاں احمدیت پھیلتی یا مضبوط ہوتی نظر آئے تو یورپ کے بعض ممالک میںبھی اس طرح کی مخالفت سامنے آئے۔ اس کے لیے ہمیں انتظامات کے حوالے سےہر روز ہوشیار رہنا چاہیے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ دعاؤں اور صدقات کے ذریعے سے ان بلاؤں کو ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ مساجد کی حفاظت کے جو ظاہری طریقے ہیں اس بارے مَیں بڑے عرصے سے جماعتوں کوکہہ رہا ہوں کہ اپنی مساجد کی حفاظت کا انتظام رکھیں۔ ایک ظاہری انتظام ہونا چاہیے۔ ہم میں سے ہر شخص اگر ہر وقت ہوشیار ہے اور دائیں بائیں دیکھنے والا ہو تو یہ دشمن کو مایوس کرنے کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اگر ہم ہوشیار ہیں تو فوراً پتا لگ جاتا ہے اوراس وقت اتھارٹیز کےذریعہ ہم ان کو قابو میں لا سکتے ہیں۔ بہرحال دعا، صدقات اور وسائل کے اندر رہتے ہوئے ہمیں حفاظت کے لیے ظاہری کوشش کرنی چاہیے ،لیکن ہو سکتا ہے کہ ایک وقت آئے کہ یہاں بھی آپ کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑے۔
ایک ناصر نے سوال کیا کہ انسانیت کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک چیلنج گلوبل وارمنگ (global warming)اور کلائمیٹ چینج (climate change)کا ہے۔آج کل ساری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے ہر پلیٹ فارم پہ آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ حضور سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ ہم انفرادی طور پر اور بحیثیت جماعت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کیسے ادا کر سکتے ہیں؟
یہ سوال سن کر حضور انورنے سوال کرنے والے سےاستفسار فرمایا کہ گلوبل وارمنگ سےآپ کو کیا فرق پڑا ہے؟جس پرموصوف نے عرض کی کہ directlyنہیں پڑا۔
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ آپ کہتے ہیں directlyنہیں پڑا۔موسم اتنا چینج (change)ہو رہاہے اور طوفان آرہے ہیں۔ کہیں بارشیں ہو رہی ہیں،کہیں برفیں پڑ رہی ہیں،کہیں off- season ایسی باتیں ہو رہی ہیں۔ پھر اس کی وجہ سے دنیا کی اکانومی پہ بھی اثر پڑ رہا ہے۔ آپ کے اپنے ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے اورآپ کہتے ہیں کہ مجھ پر directlyکوئی اثر نہیں ہوا؟
بات یہ ہے کہ جس طرح دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اس کے لیے زمین درکار ہے اور ظاہر ہے کہ جب زمین کی ضرورت ہو گی تو جہاں جنگل ہیں ان کوزمینوں کو آباد کرنے اور خوراک پیدا کرنے کے لیےکاٹنا ہو گا۔ خوراک پیدا کرنے کے لیے،فارمنگ کے لیےزرعی زمین چاہیے۔ایک بات یہ ہے کہ اس میں ہمیں ایک نسبت رکھنی ہو گی۔
اب ترقی یافتہ ممالک نے ایک شرط رکھی ہے کہ ہم نے 20%، 30% یا 40% زمین کو جنگلوں کے اندر رکھنا ہے۔اگر یہ اسی طرح maintainکریں تو ٹھیک ہے۔ افریقہ میں جنگل کاٹتے جا رہے ہیں اور نئے نہیں لگا رہے۔ غریب ممالک پاکستان وغیرہ ان میں جنگل کاٹ رہے ہیں اورنئےنہیں لگا رہے تو اس سے بھی ایک موسم میں تبدیلی آتی ہے اورماحولیاتی کیفیت بدلتی ہے۔
اب جب پاکستان میں بارشیں ہوئیں اور floodآیا تو یہ الزام دیتے ہیں کہ مغرب کی پولیوشن (pollution)کی وجہ سے ہمارے ہاں floodآئے۔ مغرب کی پولیوشن تو پھر مغرب پہ بھی اثر انداز ہونی چاہیے تھی،لیکن تم نے اپنے ملک میں کیا کیا؟ پہلے راولپنڈی سے نکلتے تھے تو مری کی طرف گھوڑا گلی کی طرف جانے سے پہلے آپ کو جنگل ہی جنگل نظر آتے تھے۔ اب اس طرف آبادی تو اتنی نہیں ہوئی لیکن ٹھیکیداروں نے جنگل کاٹ کے نئے جنگل نہیں لگائے۔ کوئی درخت نہیں۔ سوات میں جائیں تو وہاں درخت کٹ گئے اور پہاڑی علاقوں میں جائیں تو وہاں درخت کٹ گئے ،ان کے جنگل ختم ہو گئے۔تو خود انہوں نے اپنی اکانومی کو تو تباہ کیا۔پھر پانی کو ریزرو کرنے کے لیےجوڈیم بنانے چاہئیں تھے انہوں نے نہیں بنائےاورالزام لگا دیا کہ یہ یورپ اور مغربی ممالک کی پولیوشن نے کیا۔ ہاں انڈسٹریل ریوولیوشن یا صنعتی انقلاب نے بھی اثر ڈالا اور اثر انداز ہو رہا ہے۔اسی لیے چین نے کہا کہ ترقی یافتہ مغربی ممالک نے اپنی انڈسٹری کو اتنا ڈیویلپ کر لیا جس کی وجہ سے ہوا میں پولیوشن ہوئی اور گلوبل وارمنگ شروع ہوئی، اب ہمیں کہتے ہو کہ تم رکو۔ ہم تو نہیں رکیں گے ہم بھی اب پچاس سال تک اسی طرح اپنی انڈسٹری چلائیں گے۔ پھر دیکھیں گے کہ رکنا ہے کہ نہیں۔انڈیا بھی یہی کہتا ہے۔یہ چیزیں اب ساتھ ساتھ چلیں گی ،ان کو برداشت کرنا پڑے گا۔
ہمارے اختیار میں یہی ہے کہ جن علاقوں میں احمدی رہتے ہیں یا جن جگہوں پہ ہمارا کچھ اثر ہے کم از کم ان کو یہ کہیں کہ جو زمین تم جنگلوں سے خالی کر رہے ہو وہاں جنگلات اور درخت تولگاؤ۔ ایک درخت کاٹتے ہو تو دو درخت لگاؤ۔ آبادی کے تناسب سے اگر زمین صاف کرنی ہے تو اول تو اس میںایسا انفراسٹرکچر (infrastructure)بناؤ کہ تھوڑے علاقے میں زیادہ آبادی آباد ہو اور اچھی فارمنگ سے،زراعت کے لیے بھی اچھی پلاننگ سے ہو سکتی ہے۔
پھر افریقہ میں بہت وسیع علاقہ پڑا ہوا ہے جہاں جنگل نہیں ہیں اور وہاں فارمنگ کر سکتے ہیں۔ان کو آباد کر کے وہاں سے اس ملک کے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی خوراک مہیا کر سکتے ہیں۔ اگرامیر ممالک وہاںکوشش کریں اور علاقے ڈیویلپ کریں تو بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارا کام تو یہی ہے کہ ان لوگوں کو سمجھاتے رہیں، بتاتے رہیں کہ جہاں خالی جگہیں ہیںان کو آباد کرو ،فارمنگ کے لیے استعمال کرو، جنگلوں کو کم کاٹو ، کاٹتے ہو تو مزید لگاؤ اور جہاں سارے پہاڑ ٹنڈ کر دیے ہیں ان علاقوں پر مزید محنت کرو۔
ہم خود زیادہ سے زیادہ ٹری پلانٹیشن (tree plantation)میں حصہ لیں اور اپنے زیر اثر لوگوں کو بھی کہیں کہ اگر ہم خالی جگہوں پہ جہاں پہلےدرخت ہوتے تھے لاکھوں کروڑوں درخت لگانے شروع کر دیں تو ایک حد تک ہم اس کے بد اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔
پھر دوسرا یہ کہ ہم دنیا کو سمجھائیں اور بتائیں کہ اس کے کیا کیا بداثرات ہو رہے ہیں۔اگلی نسل کے لیے ہم کیا چھوڑ کے جائیں گے۔ اس لیے اپنے لیے اتنا لالچ نہ کرو کہ سب کچھ ہی آپ لے لینا ہے ،اگلی نسل کے لیے بھی کچھ چھوڑ کر جاؤ۔
ایک ناصر نے سوال کیا کہ دعا اور شفاعت میں کیا فرق ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دعا اور شفاعت دو مختلف چیزیں ہیں۔ہر شخص دعا کر سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو شفاعت کرنے کی طاقت نہیں بخشی۔
حضور انور نے آنحضرت ﷺ کی سیرت مبارکہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا جس میں آنحضورﷺ نے ایک صحابی کی صحت یابی کے لیے دعا کی تھی۔اس واقعہ کے متعلق حضور انور نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ ایسی دعا شفاعت کا درجہ رکھتی ہو۔
ایک ناصرنے سوال کیا کہ عموماً بچوں کی شادی کے بعد انہیں اسلامی تعلیم کے مطابق الگ گھر میں رہنے کی ترغیب دلائی جاتی ہے اور پھر وہ اپنی خود مختار زندگی گزارنے کے عادی ہو جاتے ہیں لیکن جب والدین کو بڑھاپے میں بچوں کے ساتھ رہنا پڑے تو انہیں والدین کو اپنے ساتھ رکھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ گھر بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضور انور سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ اس صورت حال میں کس طرح والدین کی خدمت کی جاسکتی ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایاکہ اسلامی تعلیم کاکیا سوال ہے؟ یہاں جو عیسائی ، دہریہ ، لامذہب یا کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہیں وہ کونسا والدین کے ساتھ رہتے ہیں؟ ان کی کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ شادی ہوئی تو علیحدہ رہیں۔
بہتر یہی ہے کہ بجائے اس کے گھر میںمسائل پیدا ہوں نندوں بھابھیوں کی لڑائی ہو یا ساس بہو کی لڑائی ہو آپ خود کہہ رہے ہیں کہ گھر چھوٹے ہیں تو ایک اَور فیملی کو رکھ کے مصیبت ڈالنی ہے۔ تو بہتر ہے کہ ان سے کہا کریں کہ بیٹے تم اپنے گھر جاؤ اور اپنا علیحدہ گھر لو۔
پھر اگلا سوال ہوا کہ اگرماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں۔ مغربی ملکوں نے تو یہ علاج نکال لیا کہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں تو اولڈ پیپلز ہاؤس (old people‘s house)میں ان کو جمع کرا دو اور ہفتے کے بعد بیٹا یا بیٹی ان کو جا کر السلام علیکم وعلیکم السلام کر آئے،تھوڑی سی کھیر پکا کے دے آئے اور اس نے کھا لی اور خوش ہو گئی کہ میرے بچے نے میرا خیال رکھا ہےاور باقی وقت نرسیں سنبھال رہی ہیں۔
لیکن ہمارا معاشرہ یہ ہے کہ والدین کی خدمت کرنی چاہیے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تمہاری ماں کا تم پہ حق ہے۔تمہاری ماں کا تم پہ حق ہے۔ تمہاری ماں کا تم پہ حق ہے۔پھر تمہارے باپ کا تم پہ حق ہے۔‘‘ تو یہ حق ادا کرنے ضروری ہیں اور یہی اسلامی معاشرہ کہتا ہے۔اس صورت میں کہ ماں باپ بوڑھے ہوں تو اوّل یہ کہ بچوں کی تربیت ایسی ہونی چاہیے کہ وہ بچوں کو کہیں کہ ہم تمہاری جوانی میں تمہاری خاطر تمہیں علیحدہ کر رہے ہیں یا تم ہمارے سے علیحدہ ہو رہے ہو ،ٹھیک ہے رہو ،لیکن اگر ہمیں بڑھاپے میں تمہاری ضرورت پڑے توتم نے ہمارے کام آنا ہے۔ اوّل تو ہم دعا کرتے ہیں کہ ہمیں تمہاری ضرورت ہی نہ پڑے۔ اللہ تعالیٰ تمہاری محتاجی سے ہمیں بچائے۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ اَرْذَلِ العُمُرِ سے بچ کر رہنے کی دعا کرو تا کہ ایسی محتاجی نہ ہو۔لیکن اگر بڑھاپا ہو اور ایسی صورت حال ہو کہ ماں باپ کو رکھنا پڑے تو پھر ہمارا یہ اخلاقی اور مذہبی فرض بنتا ہے کہ ماں باپ کی خدمت کی جائے،ان کو رکھا جائے اور ایسے حالات میںبہو کو بھی اپنے ساس سسر کو برداشت کرنا چاہیے۔ اور اگر گھر چھوٹے ہیں تو قریب کوئی اور گھر لے لیں۔یہاں کونسلیں مدد کرتی ہیں ان کونسل کی مدد سے قریب گھر لیا جاسکتا ہے۔پھرصبح شام ان کے پاس جائیں اور خدمت کر لیں۔ یہی ایک علاج ہے جو آپ کر سکتے ہیں۔ اور اگر بڑے گھر ہیں تو اس کے ایک کمرے میں رکھ لیں اور خدمت کر لیں تو ثواب ہے۔
اگر آخرت کی زندگی کی بھی فکر ہے، اگر اپنی عاقبت کی بھی فکر ہے اور مذہب کی کچھ سدھ بدھ ہے تو پھر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان چیزوں کا ثواب ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر ہے۔ہم نے بھی مرنا ہے اورہمارے ساتھ بھی یہی ہونا ہے۔ اس لیے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنےکی کوشش کریں اور اپنے بڑوں کی خدمت کریں۔
ایک ناصر نے عرض کیا کہ جب مجلس انصار اللہ کا کوئی پروگرام منعقد کیا جاتا ہے تو اس سے کافی عرصہ قبل ممبران کو اطلاع دی جاتی ہےاور پروگرام کو دلچسپ بنانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود حاضری میں کمی رہتی ہے۔
نیز انہوں نے عرض کیا کہ جب انصار کو رپورٹ فارم پُر کرنے کا کہا جاتا ہے تو صرف چند انصار پُر کر کے واپس بھیجتے ہیں۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ مجلس کو کسی سے عبادت کے بارے میں پوچھنے کا حق نہیں کیونکہ یہ بندے اور خدا کا ذاتی معاملہ ہے۔ان امور پر انہوں نے حضور انور سے راہنمائی کی درخواست کی۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر حاضری میں کمی رہتی ہے تو یہ فکر مندی کی بات ہے اور شعبہ تربیت کو مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
حاضری کو بڑھانے کے لیے حضور انور نے فرمایا کہ ممبران سے feedbackاور تجاویز لی جائیں کہ کس قسم کے پروگرام منعقد ہونے چاہئیں۔اس طریق سے حاضری میں بہتری آ سکتی ہے۔
فارم پُر کرنے کے حوالے سے حضور انور نے فرمایا کہ بجائے یہ پوچھنے کے کہ کتنی نمازیں ادا کی ہیں، ماہانہ رپورٹ فارم میںنماز ادا کرنے کی طرف ترغیب دلائی جائے۔ جیسے ’نماز فرض ہے، ہمیں امید ہے آپ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے ہوںگے‘، یا ’کیا آپ باقاعدہ نمازیں ادا کرتے ہیں؟‘
حضور انور نے فرمایا کہ جماعت کا فرض ہے کہ افراد جماعت کو نمازوں کی طرف ترغیب دلائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار نمازوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔
حضور انور نے ایک حدیث کا ذکر کیا جس میں آنحضورﷺ نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ جو لوگ عشاء کی نماز پر مسجد نہیں آتے ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔
حضور انور نے فرمایا کہ انصار کو نماز سے متعلق باقاعدگی سے احادیث بھیجی جائیں تا کہ ان کو یاددہانی ہوتی رہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ تربیت کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اس سے اور بہت سارے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
ایک ناصر نے عرض کیا کہ انصار اللہ کے ممبران عمر کے ایسے حصے میں ہوتے ہیں جہاں ان کی عادتیں پختہ ہو جاتی ہیں اور اس لحاظ سے ان کی تربیت کرنا مشکل ہے۔اس حوالے سے انہوں نے حضور انور سے راہنمائی کی درخواست کی۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ انصار کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ بڑھاپے میں اگلی زندگی قریب آ گئی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کیا جائے۔ انہیں یہ احساس دلایا جائے کہ وہ زندگی کے ایسے حصے میں داخل ہو گئے ہیں جہاں ہر دن انہیں موت اور حساب کتاب کے دن کے قریب کر رہا ہے۔حضور انور نے فرمایا کہ یہ بات انہیں پیار سے سمجھائی جائے۔
ایک ناصر نے اس بات کی وجہ معلوم کرنا چاہی کہ جماعت احمدیہ بہت ساری مساجد تعمیر کرتی ہے جن کا نام ’مسجد ‘کی بجائے ’بیت‘ ہوتا ہے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ درست نہیں اور مثال دی کہ لندن میں بیت الفتوح مسجد ہے جس کا درست نام ’مسجد بیت الفتوح ‘ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ پاکستان میں قوانین کی وجہ سے مسجد کو ’مسجد‘ کا نام نہیں دیا جا سکتا اس لیے وہاں ’بیت‘ کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں۔ عموماً جب اللہ تعالیٰ کے کسی صفاتی نام پر مسجد کا نام رکھا جائےتو وہاں ’بیت‘ کا لفظ ساتھ لگاتے ہیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ خانہ کعبہ کو بھی ’بیت اللہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ایک ناصرنے سوال کیا کہ یورپ اور خاص طور پر سکنڈےنیوین ممالک میں گورنمنٹ پچاس فیصد تک ٹیکس وصول کرتی ہے۔ یہ ٹیکس انکم (income)کے علاوہ جمع پونجی جائیداد اور پروڈکشن پہ بھی لیا جاتا ہے۔ اس ٹیکس کا مصرف بھی اسلام میں زکوٰۃ کے مصرف جیسا ہی ہے جیساکہ غریبوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے علاوہ معاشرے میں بہت ساری سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ ٹیکس کی شرح زکوٰۃ کی شرح سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ حضور سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ کیا ایسا ملکی ٹیکس جو زکوٰۃ کے مصرف کو پورا کرتا ہو زکوٰۃ کا نعم البدل سمجھا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انورنے استفسار کرتے ہوئےفرمایا کہ زکوٰۃ تو فکس (fix)چیزوں پر ہے مثلاً زیوریاسونا۔اگر آپ نے گھر میںسونا رکھا ہوا ہے تو کیا اس کے اوپر گورنمنٹ ٹیکس لیتی ہے؟
اس پر ان ناصرنے نفی میں جواب دیا۔
اس پرحضور انورنے فرمایاکہ نہیں لیتی لیکن زکوٰۃ اس پہ واجب ہے۔ ساڑھے سات تولے سونے پہ زکوٰۃ واجب ہے۔حکومت آپ کا اس پہ ٹیکس نہیں لیتی۔
مثلاً جانور ہیں گائیاں یا بھینسیں ، ان کا ایک نصاب مقرر ہے۔ اس پہ آپ کی جو انکم (income)ہے اس پہ گورنمنٹ ٹیکس لیتی ہے،ان جانوروں کے اوپر نہیں لیتی۔ اسی طرح آپ کہتے ہیں کہ پراپرٹی (property)وغیرہ پہ لیتی ہے تو جن چیزوں پہ آپ سے گورنمنٹ ٹیکس لے لیتی ہے اس پہ زکوٰۃ نہیں ہے۔
دوسرا یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم معین ہے۔ ایک نصاب ہے کہ اتنی رقم اگر ایک سال تک آپ کے بینک میں پڑی رہے اور اس کا مصرف نہ ہو، کسی جگہ استعمال نہیں کی گئی ،تو اس پہ زکوٰۃ ہے،اگر وہ زکوٰۃ کے نصاب کے اندرآتی ہے۔
اب آپ جب گورنمنٹ کو ٹیکس دینے کے بعد اپنی سیونگ (saving)کر لیتے ہیں اور وہ سیونگ پڑی رہتی ہے تو گورنمنٹ یہ نہیں کہتی کیونکہ ایک سال تمہاری سیونگ پڑی رہی ہے اس لیے تم اس پہ مزید ٹیکس دو۔ ہاں بعض اداروں کو گورنمنٹ منع کر دیتی ہے کہ تم لوگ یہ سیونگ نہیں رکھ سکتے یا تواس کو خرچ کرو یا پھر گورنمنٹ اس پر ٹیکس لگا دے گی لیکن انفرادی طور پر جہاں تک میرا علم ہے ایسا نہیں ہے۔لیکن زکوٰۃ یہ کہتی ہے کہ اگر آپ نے بینک میں ساڑھے سات تولے سونا کے برابر رقم رکھی ہوئی ہے، اس پہ سال گزر گیا اورآپ نے اس کو خرچ نہیں کیا تو پھر ایک سال کے بعد اس پہ زکوٰۃ ادا کریں گے جواڑھائی فیصد ہو گی۔یہ ہر انفرادی کیس میں دیکھنے والی بات ہے کہ کونسی رقم آپ نے ایسی رکھی ہوئی ہے جس پہ ٹیکس ادا کر دیا اور وہ زکوٰۃ کے زمرے میں نہیں آتی۔ اگر وہ رقم،جو ایک سال تک فکس اماؤنٹ(fix amount) ہے،جس پہ زکوٰۃ واجب ہوتی ہے،اس سے کم رقم ہو گئی ہے تو اس پہ آپ نے زکوٰۃ نہیں دینی۔لیکن اگر وہ رقم اتنی ہے یا اس سے زیادہ ہے جس پہ آپ نے زکوٰۃ دینی ہے توباوجود یکہ اس کی آمد پہ گورنمنٹ ٹیکس بھی لے چکی ہو تو ہر انفرادی کیس کو دیکھنا پڑے گا۔
زکوٰۃ اپنے نصاب کے لحاظ سے واجب ہے اور ٹیکس گورنمنٹ لیتی ہے۔ ہاں بعض چیزوں پہ گورنمنٹ کے ٹیکس ادا ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی۔
مثلاً ہمارے ملکوں میں زمیندار ہیں۔ وہاں گورنمنٹ ان سے مالیانہ لے لیتی ہے، ایک ٹیکس لے لیتی ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے اوپر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی کیونکہ گورنمنٹ وہ ان سے وصول کر لیتی ہے۔لیکن اسلام میں شروع میں تھا کہ جو بارانی علاقے تھے ان کی آمد بہتر ہوتی تھی اور جو چاہی علاقے تھے، جو کنویں ہوتے تھے،ان کے ذریعہ سے بہت تھوڑی کاشت ہوتی تھی اس لیے اس پہ ٹیکس نہیں تھا۔اور جو بارانی علاقےتھے ان پہ ٹیکس تھا کیونکہ وسیع علاقے میں کاشت کر سکتے تھے۔لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب irrigated landکی آمد زیادہ ہو گئی ہے اس لیے ان کے اوپر ٹیکس ہونا چاہیے۔ اس لیے جماعت احمدیہ کا یہ موقف ہے کہ اب اس بارے میں نئے اجتہاد کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں سوچنا چاہیے۔اس کےلیے ایک کمیٹی بھی بنائی ہوئی ہے وہ سوچ رہی ہے کیونکہ جو rain fed areasہیں جو بارانی علاقے ہیںان کی آمد کم ہے اور جو irrigated areas ہیں ان کی آمد زیادہ ہے۔پہلے الٹا حساب ہوتا تھا اس لیے ٹیکس کی بھی الٹی نوعیت تھی۔ اب ٹیکس کی نوعیت بھی بدل جائے گی۔
اسی طرح پہلے ہمارے فقہ میں بھی یہی ہوتا تھا کہ ساڑھے سات تولہ سونا یا باون تولے چاندی۔اب چاندی اور سونے کی قیمتوں میں اتنا فرق پڑ گیا ہے کہ ایک نصاب نہیں رکھا جا سکتا۔وہ کوئی ریشو (ratio)نہیں بنتی۔اس لیے ہم نے اپنے فقہ میں اپنے طور پہ یہ کر دیا ہے کہ سونے کا نصاب سونے کا نصاب ہے اور چاندی کا نصاب چاندی کا نصاب ہے۔یعنی وہ علیحدہ ہو گا اس کو برابر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مختلف چیزیں ہیں بڑا کمپلیکس ہے، ہر individualکیس پر دیکھنا ہو گا لیکن ہر جگہ یہ ruleاپلائی نہیں ہو سکتا کہ جہاں گورنمنٹ نے ٹیکس لے لیا وہاں زکوٰۃ نہیں ہے۔ نہ یہ ہو سکتا ہے کہ جہاں گورنمنٹ نے ٹیکس لے لیا وہاں زکوٰۃ دینی بھی ضروری ہے۔ہر نوعیت کے حساب سے فیصلہ کرنا ہو گا۔جب آپ کے پاس آمد آئے گی تو اس کے اوپر جماعتی نظام یا مفتی سے فتویٰ لے کر پھر اس کے اوپر زکوٰۃ ادا کریں۔
ملاقات کے آخر میں حضور انور نے تمام شاملین کو فرمایا السلام علیکم۔ اللہ حافظ ہو۔