پاکستان میں جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تازہ لہر
ضیاء الحق کا بنایا ہوا سیاہ قانون ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس نمبر20‘‘ مکمل طور پر مذہبی جنونیوں اور انتہاپسندوں کا آلۂ کار بن چکا ہے۔ اس قانون کے ۲۶؍ اپریل ۱۹۸۴ء کو نافذ ہونے کے بعد سے مخالفین جماعتِ احمدیہ کے خلاف اس کا اندھا دھند استعمال کر رہے ہیں۔ریاست،حکومت، سیاسی جماعتوں و قائدین سب ہی گویا مذہبی جماعتوں کے آگے بےبسی کی تصویر بنے اپنی ’خاموشی‘ کے ساتھ اُن کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور اگر کبھی اُن کی طرف سے کوئی کارروائی عمل میں لے آئی جائے تو الّا ماشاء اللہ محض خانہ پُری کے علاوہ اور کوئی مقصد نظر نہیں آتا کیونکہ مخالفین اپنی مخالفانہ روش پر قائم و دائم نظر آتے ہیں جبکہ مظلوم کی کسی بھی طرح دادرسی نہیں ہوپاتی۔ اگر جرم کسی احمدی کے خلاف ہوا ہو تو اکثروبیشتر اس کا بار ’نامعلوم ‘مجرم کے سر پر ڈال کر معاملہ داخلِ دفتر کر دیا جاتا ہے۔ مذہبی تعّصب کی ایک مثال اس طرح بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ پاکستان کا اردو میڈیا چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، احمدیوں پر ہونے والے مظالم کی رپورٹنگ سے گریز کرنے میں عافیت سمجھتا ہے جبکہ بعض انگریزی اخبارات و جرائد اور عالمی نشریاتی ادارے ایسے افسوسناک واقعات کی کوریج کرتے ہیں۔ سالِ رواں کا ابھی یہ تیسرا ماہ شروع ہوا ہے اورکراچی اور سندھ سمیت وطنِ عزیز کے کئی شہروں میں مساجد کے مناروں کی توڑ پھوڑ اور ان پر حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ جنوری کے وسط میں مارٹن روڈ کراچی کی مسجد کے مناروں کو شرپسندوں نے سیڑھی لگا کر نقصان پہنچایا اور فرار ہو گئے۔ ۲؍فروری کو صدر کراچی میں واقع احمدیہ ہال کے مناروں کو نقصان پہنچایا گیا،ذرائع ابلاغ کے مطابق دس، پندرہ نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ درج کیا گیا ہے جبکہ تصاویر اور ویڈیوز کی صورت میں واضح شواہد موجود ہیں کہ قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کی جانے والی احمدیہ مسجد کو نقصان پہنچانے والے اس کریہہ فعل میں کون لوگ ملوث ہیں۔ ماہ فروری کے پہلے ہفتہ میں اندرون سندھ میں متعدد کارروائیاں کی گئیں اور جماعت کی مساجد پر حملے کیے گئے۔ ایک ہی رات میں دو واقعات ہوئے۔ نور نگر ضلع عمر کوٹ سندھ میں احمدیہ مسجد کی دیوار پھلانگ کر نامعلوم افراد اندر داخل ہوئے اور مسجد کو آگ لگا دی جس سے مسجد کی صفیں اور کرسیاں جل گئیں۔گوٹھ جاوید احمد ضلع میر پور خاص میں احمدیہ مسجد کے منار توڑے گئے اور مسجد کو آگ لگائی گئی۔ ہفتہ 4؍فروری کی رات کو سٹیلائٹ ٹاؤن میرپور خاص میں احمدیہ مسجد پر فائرنگ کی گئی۔ مسجد کی دیواروں اور گیٹ پر گولیاں لگیں جب کہ اس وقت متعدد احمدی اندر موجود تھے۔(ہفت روزہ فرائڈے ٹائمز لاہور)۔
۱۸؍جنوری ۲۰۲۳ءکو مارٹن روڈ کراچی سے شروع ہونے والی کارروائی کا دائرہ اب اندرونِ سندھ تک پہنچ گیا ہے۔ اس موجودہ صورتحال میں حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کی طرف سے جماعت احمدیہ کے احباب کی جانوں اور اموال کو کتنا تحفظ دیا گیا اس کا اندازہ کراچی کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس جاوید عالم اوڈھو کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو انٹرویو کے دوران دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن ۲۴؍گھنٹے سیکیورٹی نہیں دی جاتی ہے،انہوں نے مزید کہا کہ احمدیوں کی عبادت گاہوں پر عبادت کے لیے مخصوص اوقات میں سیکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے یہ۔شرپسندوں کی طرف سے حملوں کا خطرہ چوبیس گھنٹےرہتا ہے اور حملے ہوتے بھی ہیں، لیکن صرف عبادت کے وقت سیکیورٹی دینا، محض رسمی کارروائی کے مترادف ہے۔گذشتہ سال شرپسندوں کی جانب سے پنجاب میں بھی اسی قسم کی متعدد کاروائیاں کی گئیں۔ ۴؍جون ۲۰۲۲ء کو پنڈ دادن خان(جہلم) میں مسجد کے منار شہید کیے گئے۔۱۸؍جون کو گوجرانوالہ میں باغبانپورہ کے مقام پر لوگوں کی شکایت پر پولیس کی جانب سے مسجد کے منارے نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے ان کے سامنے کچھ تعمیر کیا گیا۔ دسمبر میں پولیس نے ان مناروں کو شہید کر دیا۔ ۳۱؍ اگست ۲۰۲۲ء کو ضلع جہلم میں بھی متیال نامی علاقے میں ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔۱۳؍ستمبرکو گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی ایسا ہی واقعہ رونما ہوا۔۱۲؍اکتوبر کو اوکاڑہ شہر کے ایف بلاک میں پولیس نے مناروں کو کور کرایا(بی بی سی اردو نیوز ۴؍فروری۲۰۲۳ء)۔سائیلان موضع پیرو چک، تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں مذہبی جماعت کے کارکنوں نے احمدیوں کے قبرستان میں داخل ہوکر نہ صرف قبروں کی بےحرمتی کی بلکہ کتبوں کوبھی شہید کر دیا اور اب اس پر باقاعدہ قبضہ کرلیا گیا ہے اور یہاں احمدی وفات یافتگان کی تدفین کی اجازت نہیں۔ یہ قبرستان ۱۹۴۷ءسے جماعت احمدیہ کی ملکیت میں ہے۔اس میں موجود چار سو کے قریب قبروں میں سے ۲۷۰ سے زائد قبریں احمدیوں کی ہیں لیکن اس معاملے میں اب انتظامیہ کی طرف سے جماعت کی کسی قسم کی کوئی دادرسی نہیں کی جا رہی۔
اس وقت پنجاب سمیت پاکستان میں تمام احمدیوں کی مساجد،ان کے مناروں اور قبرستانوں پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ملک میں موجود سیاسی عدمِ استحکام سے گھناؤنا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ ملکی معاشی و سیاسی حالات میں مذہب کارڈ کے استعمال سے پاکستان مخالف قوتوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ ان واقعات کو ایک منظم مہم سمجھتے ہیں جو طے شدہ منصوبہ کے تحت شروع کی گئی ہے۔بی بی سی اردو نیوز اپنی ایک رپورٹ مطبوعہ ۴؍ فروری ۲۰۲۳ءمیں لکھتا ہے کہ پنجاب اور سندھ میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر حملوں میں تیزی، یہ ایک منظم مہم لگتی ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ سندھ میں پھیل جانے والی جماعت احمدیہ کی مخالفت کی لہر کراچی سے اٹھی ہے۔ سندھ میں ایک کلیدی عہدیدار کی تقرری کے بعد اس سب میں تیزی دیکھی گئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ کلیدی عہدیدار نے کرسی سنبھالنے کے چوبیس گھنٹے بعد ہی حکومتِ سندھ کو نکاح فارموں میں ختمِ نبوت کا کالم شامل کرنے کی تجویز پر مشتمل خط لکھ دیا تھا۔ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ اور موجودہ حالات و واقعات ہمارے خدشات کی تصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کراچی وہ شہر ہے جہاں بانی پاکستان ابدی نیند سو رہے ہیں۔لیکن آج کل اسی کراچی سمیت ملک بھر میں اقلیتوں کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ بانی پاکستان کے فرمان کی پامالی کے ساتھ ساتھ ان کی توہین بھی ہے۔ شہرِ قائد میں احمدیوں کی مساجد کے منارے توڑے اور گرائے جا رہے ہیں، کوئی روکنے والا نہیں۔ یکے بعد دیگرے متعدد واقعات ہوئے ہیں۔ شرپسند عناصر کو کھلی چھٹی ملنے پر انہوں نے اندرونِ سندھ پہنچ کر وہاں شرپسندی شروع کر رکھی ہے۔ پاکستان کے تشخص کو مجروح کرنے کی اس سے زیادہ خطرناک اور گھناؤنی سازش اور کیا ہو سکتی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں مساجد کے منار جبکہ پنجاب میں قبریں اور ابدی نیند سونے والے احمدی تک محفوظ نہیں۔ ایک باشعور، امن پسنداور محب وطن پاکستانی سوچنے پر مجبور ہے کہ پاکستان کن عناصر کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔
کراچی آزادی کے بعد پاکستان کا پہلادارالحکومت بھی رہا ہے۔ اسی شہر میں بانی پاکستان نے ۱۱؍ اگست کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی تاریخی تقریر میں یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان کے شہری کے مذہب و عقیدہ سے ریاستی امور کا کوئی تعلق نہ ہو گا اور اُس کی جان و مال کی حفاظت حکومت کا اولین فریضہ ہو گا۔ اسی تاریخی تقریر میں ہر حکومت کے اولین فرض کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ نے فرمایا تھا کہ’’ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور ان کے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے‘‘۔
آج ۷۵؍ سال بعدپاکستانی شہریوں کو جتنا تحفظ مل رہا ہے،وہ سب کے سامنے ہے۔