ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب
(حضورِانور کے دورہ Scandinavia مئی ۲۰۱۶ء سے چند واقعات حصہ پنجم)
ایک احمدی کے جذبات
اس تقریب کے بعد میری ملاقات سویڈن جماعت کے ایک ممبر وقاص ناصر صاحب سے ہوئی، جنہوں نے مجھے اس استقبالیہ کے حوالہ سے اپنے مشاہدات اور جذبات سے آگاہ کیا۔آپ نے بتایا کہ جب حضور انور صبح گیارہ بجے مسجد میں تشریف لائے تو یہ واضح تھا کہ ہم تیار نہیں تھے بلکہ ہر طرف افراتفری کا سماں تھا۔ اس موقع پر مجھے خیال آیا کہ شاید حضور انور ناراض ہوں گے اور ہمیں کوئی سخت ہدایت فرمائیں گے تاہم حضور انور کے چہرے پر اطمینان تھا اور آپ نے فوراً ہدایت فرمائی کہ مہمانوں کو اندر لایا جائے اور یہ کہ ہم بے شک تزئین و آرائش کرتے رہیں۔ حضور انور کس قدر محبت کرنے والے اور پر حکمت اور وسیع حوصلہ کے مالک ہیں۔ مجھے یقین ہوگیا کہ حضور بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں۔
وقاص صاحب نے مزید بتایا کہ میں ربوہ میں رہتا تھا اور یوں میں نے حضور انور کو خلافت سے قبل دیکھا ہے اور آپ کی طبیعت نہایت کم گو تھی اور عوام الناس میں زیادہ گفتگو نہ فرماتے اور آج میں دیکھتا ہوں کہ وہی شخص پارلیمنٹس میں خطاب فرماتا ہے، جماعت کی راہنمائی فرماتا ہے اور شیروں جیسی بہادری اپنے اندر رکھتا ہے تو اس سے میرے ایمان کو تقویت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قدم خلیفۃ المسیح کے ساتھ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس وجود کو میں نے کئی سال قبل ربوہ میں دیکھا تھا وہ یکسر بدل چکا ہے۔
حضور انور کی دعاؤں کی قبولیت
پچھلے پہر حضور انور نے احمدی فیملیز سے ملاقات فرمائی اور ان ملاقاتوں کے بعد خاکسار کو چند احباب سے اس حوالہ سے بات کرنے کا موقع ملا۔
میری ملاقات ایک نوجوان میاں بیوی سے ہوئی۔ مبشر محمودصاحب (عمر ۲۹ سال ) اور ان کی اہلیہ زینوبیہ حمید صاحبہ نے بتایا کہ جب میں حضور انور سے ملی تو مجھے ایسے لگا جیسے میں کسی دوسری دنیا میں ہوں۔جیسے میں جنت میں ہوں۔ حضور انور اس قدر شفیق ہیں اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارا پانچ ماہ کا بچہ بہت خوش مزاج بچہ ہے۔ جب حضور انور نے یہ الفاظ بیان فرمائے تو مجھے لگا کہ جیسے خوشی سے میری آنکھوں سے آنسو بہ پڑیں گے۔
پھر زینوبیہ صاحبہ نے مجھے اپنا بیٹا دکھایا تو وہ واقعی بہت زیادہ خوش مزاج اور مسکرانے والا بچہ تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ اس کے کان میں پیدائشی طور پر ایک مسئلہ تھا کیونکہ وہ مکمل بنا نہیں تھا۔ جب یہ بچہ پیدا ہوا تھا تو وہ اور ان کے شوہر بہت پریشان تھے اس لیے وہ حضور انور سے ملاقات کرنے کے لیے لندن گئے تاکہ آپ سے دعا کی درخواست کر سکیں۔ حضور انور نے ملاقات کے دوران اس بچے کے لیے دعا کی ا ور فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے وہ ٹھیک ہو جائے گا۔
زینوبیہ صاحبہ نے بتایا کہ سویڈن واپسی پر ان کے بچے کی سماعت کا ایک ٹیسٹ کیا گیا جس کے نتیجہ کےبارے میں انہوں نے بتایا کہ اللہ کے فضل سے میرے بیٹے کی سماعت بالکل ٹھیک تھی۔ اس بات پر ڈاکٹرز بھی حیران تھے۔
ایک جذباتی خادم
حضور انور کے دورے کے دوران کئی احمدی احباب قریبی ممالک سے سفرکر کے یہاں پہنچے تھے جن میں ناروے اور فن لینڈ بھی شامل تھے تاکہ حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کر سکیں اور مسجد کے افتتاح میں شرکت کر سکیں۔
ایسے ہی ایک دوست فن لینڈ جماعت کے صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھے۔جب میں نے ان سے بات کی تو انہوں نے مجھے اپنا ایک ذاتی واقعہ بتایا جس نے انہیں خوب متاثر کیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ سویڈن آنے سے چند روز قبل حادثاتی طور پر ان سے اپنی انگلی پر ایک زخم آگیا۔یہ زخم بہت گہرا تھا اور جوں جوں ملاقات کے دن قریب آرہے تھے یہ درد بہت زیادہ بڑھتا گیا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے زخم میں انفیکشن ہو گیا ہو۔ ملاقات سے قبل انہوں نے اپنی انگلی پر پٹی لپیٹ دی تھی تاکہ یہ زخم حضور انور کو مَس نہ کرے۔ اپنی ملاقات کے اختتام پر انہیں حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت نصیب ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ اس موقعے پر حضور انور نے میرا ہاتھ اتنی مضبوطی سے پکڑا جس کا میں نے سوچا بھی نہیں تھا اور مجھے اس زخمی انگلی میں ایک شدید درد کا احساس بھی ہوا۔ تاہم جب میں ملاقات کر کے باہر نکلا تو میں نے فوراً پٹی اتاری تو حیران رہ گیا کیونکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ زخم مکمل طور پر ٹھیک ہو چکا ہو اور انفیکشن کے جملہ اثرات غائب ہو چکے تھے۔
انہوں نے مجھے اس زخم کی ایک دن پہلے کی تصویر دکھائی تو وہ زخم واقعی بہت خراب لگ رہا تھا اور پھر انہوں نے مجھے اس وقت ملاقات کے بعد اپنی انگلی دکھائی تو اس زخم کی صرف ایک معمولی سی خراش باقی رہ گئی تھی۔حالانکہ ایسے زخموں کے ٹھیک ہونے کی توقع ہفتوں بعد ہی کی جاسکتی ہے۔ اس واقعہ کے بارے میں بتاتے ہوئے صدر صاحب نے بتایا کہ کسی دوسرے کے لیے شاید یہ چھوٹی بات ہو لیکن میرے لیے یہ خلافت کی سچائی کا ایک نشان تھا۔ اس واقعہ نے مجھے پوری طرح ہلا کر رکھ دیا ہے اور میں اس کو کبھی بھی بھلا نہیں سکتا۔
کافی (coffee)پیش کرنا
میری ملاقات خالہ سبوحی (حضور انور کی اہلیہ محترمہ) سے ہوئی۔ جبکہ آپ service station cafe میں ایک میز پرتشریف فرما تھیں۔ انہوں نے ازراہ شفقت دریافت فرمایا کہ مالا اور بچے کیسے ہیں؟ اس موقع پر میجر صاحب نے مجھے بلایا اور مجھے دوcappuccinos دیتے ہوئے کہا کہ یہ حضور انور اور خالہ سبوحی کے میز پر لے جاؤں۔ جب میں کافی لے کر گیا تو خالہ سبوحی نے اپنا کپ اٹھا لیا لیکن حضور انور کی کافی کے متعلق فرمایاکہ جب حضور تشریف لائیں تو اس وقت تازہ پیش کرنی چاہیے۔ مجھے اپنی غلطی پر احساس ہو گیا تھا کہ حضور انور کو تازہ چیز پیش کرنی چاہیےاور پہلے سے میز پر رکھ دینا مناسب نہ تھا۔ میں خالہ سبوحی کے حضور انور کا خیال رکھنے اور آپ کی تکریم کے مشاہدے سے نہایت متاثر ہوا۔
میں نے کافی کا زائد کپ طارق شاہ صاحب کو تھمایا جن کا تعلق سویڈن جماعت سے ہےآپ اس موقع پر موجود تھےاور خالہ سبوحی کے رشتہ دار ہیں۔ چند لمحات کے بعد حضورانور تشریف لائے تو خاکسار آپ کے لیے تازہ cappuccinoلینے کے لیے گیا۔ بدقسمتی سے یہ کیفے نہایت سادہ نوعیت کا تھا چنانچہ ایک سٹاف ممبر نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس مزید کپ اور پرچیں نہیں ہیں۔ اس لیے حضور انور کو ایک نہایت سادہ مگ میں بغیر پرچ کے cappuccino پیش کی گئی۔
جب میں نے حضور انور کی خدمت میں کافی پیش کی تو مجھے نہایت پریشانی ہوئی اور میں نے معذرت کی۔ تاہم حضور انور نے فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے اور قبل اس کے کہ میں آپ کے لیے ایک چمچ لے کر آتا ،آپ نے اپنی کافی میں ایک لکڑی کے چمچ سے شہد ہلانا شروع کر دیا۔
نہایت شفقت سے خالہ سبوحی نے مجھے فرمایا کہ میں ساتھ والے میز پر بیٹھ جاؤں جس کے بعد عمیر علیم صاحب نے مجھے کاغذ کے ایک کپ میں چائے تھمائی جیساکہ اکثر کافی کی دکانوں پر ملتا ہے۔ اس کپ کو دیکھنے پر حضور انور نے فرمایا کہ تمہیں چاہیے تھا کہ ہمیں بھی اپنے جیسے کپ میں کافی دیتے،کیونکہ ایسی جگہوں پر میں ایسے ہی کپ میں پینا پسند کرتا ہوں۔ یہ سننے پر میں نے عرض کی کہ کیا میں ایک کاغذ کے کپ میں ایک اَور کافی لے آؤں؟حضور انور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اب اس کی ضرورت نہیں۔نیز فرمایا :کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سارا دن یہیں بیٹھے گزار دیں۔
یہ حضور انور کی سادگی کی ایک خوبصورت مثال تھی کہ ایسی جگہوں پر آپ مگ کی نسبت کاغذ کے کپ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مجھے اس کیفے میں کیک اور doughnuts بھی نظر آئے اور میں نے سوچا کہ انہیں حضور انور کے لیے لے لوں۔ تاہم ہمارے گروپ کے ایک دوست نے کہا کہ مناسب نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ حضور کو ایسے کیک پسند نہ آئیں۔ اس لیے حضورانور اور خالہ سبوحی نے کافی کے ساتھ صرف بسکٹ ہی تناول فرمائے۔
بعد ازاں مجھے افسوس ہوا کہ وہ کیک لے آتا تو شاید آپ کو پسند آ جاتے۔ گذشتہ دورے کے دوران میں نے احمد بھائی (محمد احمد)کو دیکھا جب وہ حضور انور کی میز پر serveکر رہے تھے۔ وہ حضور انور اور خالہ سبوحی کے لیے مختلف dishes اور snacks لاتے تھے جن میں سےکچھ آپ استعمال فرما لیتے اور باقی دیگر قافلہ ممبران کو لطف اندوز ہونے کے لیے بھجوا دیتے۔بلاشبہ اس موقع پر میں احمد بھائی کی فراست اور مہارت کی کمی کو محسوس کر رہا تھا اور خاص طور پر ایسے معاملات میں ان کی خود اعتمادی کو بھی۔
اس لیے حضور انور اور خالہ سبوحی کی سادگی اور عاجزی کے باوجود مجھے لگا کہ میری خدمات کا معیار نہایت معمولی نوعیت کا ہے۔ اگرچہ میں ایک الگ میز پر بیٹھا تھا، میں حضور انور کے بائیں جانب شاید ایک میٹر کے فاصلے پر تھا۔cappuccinoنوش فرماتے ہوئے حضور انور نے میری طرف دیکھا اور استفسار فرمایا کہ مجھے ابھی تک سویڈن کیسا لگا ہے؟ میں نے عرض کی کہ ابھی تک میں نے صرف مسجد دیکھی ہے۔اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہم گذشتہ چھ گھنٹے سے سڑک پر سفر کر رہے ہیں ،تو تم نے ابھی تک اس دوران کوئی مناظر نہیں دیکھے۔
مجھے شرمندگی ہوئی اور خیال آیا کہ کس طرح حضور انور دورہ کے دوران اکثر گاڑی کے شیشے سےہی ممالک کو دیکھتے ہیں کیونکہ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی خاص منظر کشی کے لیے رکتے ہوں۔ یقیناً ڈنمارک اور سویڈن کے دورے میں بھی ایساکوئی مواقع نہیں آیا تھا۔
(مترجم:’ابوسلطان‘، معاونت: مظفرہ ثروت)