جرمن ایمگریشن قانون کو پُر کشش بنانے کی سیاسی کوشش
گذشتہ ہفتہ کے دوران گہرے پانیوں سے وابستہ دو خبروں نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر لی۔ ایک کا شمار خلق خدا کے ان سات سو افراد سے تھا جو اچھے مستقبل کی تلاش میں گھر سے بے گھر ہوکر ایک ایسے ٹھکانے کی تلاش میں تھے جہاں وہ اپنے مستقبل کے خواب پورے کر سکیں۔ایک دوسری المناک خبر دنیا کے ان پانچ امیر ترین افراد سے متعلق ہے جو دنیا کی ہر زمینی آسائش سے لطف اٹھانے کے بعد خوب سے خوب تر کی تلاش میں گہرے پانیوں میں جا اترے۔ جن سات سو افراد نے اپنی زندگی کو آزمائش میں ڈالا وہ تیس میٹر لمبی مچھلیاں پکڑنے والی کشتی میں سوار تھے۔ وہ امیدوں کے چراغ جلاتے لیبیا کے ساحل سے روانہ ہو کر یونان کے ایک ساحلی گاؤں Pylos میں اپنی زندگی کا چراغ گل کر بیٹھے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان میں ۳۵۰؍پاکستانی تھے ۱۶۶؍کا تعلق کوٹلی آزاد کشمیر سے تھا۔ ان سب نے سات ہزار ڈالر دے کر موت کو گلے لگایا۔ ان کے خاندانوں کے دلغراش انٹرویوز آجکل انٹرنیشنل میڈیا پر دیکھنے والوں کو خون کے آنسو رلا رہے ہیں۔ یورپی یونین باڈر کوسٹ گارڈ ایجینسی Frontex کے بیان کے مطابق ۲۰۲۳ءکے پہلے پانچ ماہ میں پانچ ہزار سے زائد پاکستانی کشتیوں کے ذریعہ یورپ میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایسے واقعات و حادثات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہمارا نظام ناکام ہو چکا ہے۔ دنیا آگے کی طرف بڑھ رہی تو ہمیں پیچھے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ مذہبی جنونیت انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتی۔ ترقی یافتہ دنیا کو جن ماہرین کی تلاش ہے وہ ہماری یونیورسٹیاں پیدا نہیں کر رہیں۔
غیر تعلیم یافتہ،بے ہنر بے روزگار افراد جب روزی کی تلاش میں دنیا میں نکلتے ہیں تو کئی ایک منزل کو پا لیتے اور کئی راستہ میں ہی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
جرمنی ایک ترقی یافتہ صنعتی ملک ہے۔ بیس پچیس سال پہلے کے مشینی دَور میں ایک ایک مشین پر ایک سے زائد افرادی قوت کی ضرورت رہتی تھی۔ اب ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت خودکار مشینوں کا دَور ہے لیکن اس کے باوجود مشین اور فرد کا باہمی تعلق ختم نہیں کیا جا سکا۔ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دینے کے باوجود جرمنی کو ہر سال چار لاکھ نئی افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھی ایک ملین ملازمتیں لوگوں کی منتظر ہیں۔ ایمگریشن کے بارے میں جرمنی کی پالیسی ہمیشہ حوصلہ شکن رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جرمنی کی سب سیاسی پارٹیوں کے منشور میں غیر ملکیوں کے لیے گنجائش نہ تھی۔ جرمنوں کا مزاج بھی اس نوعیت کا ہے کہ یورپی یونین ممبر ممالک سے آ کر کام کرنے والوں کو بھی انہوں نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ جب جرمنی میں شرح پیدائش مسلسل گرنی شروع ہوئی تو بعض تھنک ٹینک کی طرف سے مستقبل کے حوالے سے بعض منفی اثرات کی نشان دہی کی گئی۔ صنعت کاروں کی انجمن نے بھی ان کو قبول کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کی۔ چنانچہ ملک میں غیر ملکیوں کو قبول کرنے کا ماحول پیدا کرنا سیاسی پارٹیوں کی مجبوری بن گیا۔ سب سیاسی پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور میں اس کی گنجائش پیدا کی۔ صنعت کاروں کے لیے فرینڈلی حکومت کا سربراہ ہونے کے باوجود ہیلمٹ کول اپنے دَور اقتدار میں غیر ملکیوں کے لیے کسی فراخ دلی کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ البتہ انجیلا مریکل نے بعض شرائط کے ساتھ بلیو کارڈ سکیم کا اجراکیا تھا۔ یہ سکیم بھی سپیشلسٹ اور ہائی کولیفائڈ لوگوں کے لیے تھی جس میں سالانہ تنخواہ کی شرط چوالیس ہزار یورو رکھی گئی تھی۔ سرکاری اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سکیم سے سب سے زیادہ فائدہ انڈین آئی ٹی ایکسپرٹ نے اٹھایا اور جرمنی کو بطور بیس (Base)کے استعمال کیا۔ دو سال کے بعد اکثریت امریکہ چلی گئی ہا پھر مشرقی یورپ سے آنے والے اپنے ملکوں کو واپس سدھار گئے۔ جرمن حکومت کی یہ سکیم توقع کے مطابق نتائج دینے میں کامیاب نہ رہی۔
جرمنی کی موجودہ اتحادی حکومت ۲۰۲۱ءسے ایمگریشن قوانین کو پرکشش بنانے کے لیے غور و فکر کر رہی ہے۔
جمہوری ملکوں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کو پالیسیاں بناتے وقت عوامی سوچ کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے جس سے انہوں نے ووٹ لینے ہوتے ہیں اور ریاستی امور کو چلانے کے لیے وہ ملکی اداروں اور خصوصاً صنعت کاروں کی راے کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔ ایمگریشن قوانین کو نرم کرنے کے لیے جو فیصلے سیاسی سطح پر ہوے ان کے بارے میں ماہ جون کے شروع میں جرمن چانسلر اور صنعت کاروں کی انجمن کے نمائندگان کے درمیان طویل مذاکرات ہوے جس کے بعداس ایمگریشن سکیم نے فائنل شکل اختیار کی جس کا آجکل بہت چرچہ ہے۔
ایک کا تعلق افرادی قوت کی کمی کو پر کرنے کے لیے لوگوں کو جرمنی میں لانا اور راستہ کی مشکلات یعنی بیورکریٹک سسٹم کو آسان بنانا اور دوسرے جو یہاں آباد ہیں ان کو جرمن شہریت اختیار کرنے کی ترغیب دینا اور ڈبل نیشنیلٹی کی سہولت مہیا کرنا ہے۔
جرمنی کی وزیر داخلہ نے ۲۳؍جون کو پارلیمنٹ میں ایمگریشن اصلاحات کی جو تفصیل پیش کی ہے اس کو موجودہ اپوزیشن جو جرمنی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے کرسچین ڈیموکریٹ یونین نے بھی ملکی ضرورت کے مطابق قرار دیا ہے۔ نئی سکیم کے تحت Blue Card کو Opportunity Card میں بدل دیا گیا ہے۔ پوائنٹ سسٹم رائج کر دیا گیا ہے جو یہ پوائنٹ حاصل کرلے گا اس کو جرمنی کا ایک سال کا ویزا جاری کر دیا جاے گا،اس ایک سال میں وہ جرمنی میں نوکری تلاش کر کے اپنے قیام کو مستقل کروا سکے گا۔ سیاحتی ویزہ پر آنے والے اگر نوکری تلاش کر لیں تو ان کو بھی یہاں پر ہی قیام کی اجازت ہو گی۔ اس سے قبل ان کو واپس اپنے ملک جاکر ویزہ کو تبدیل کروانا پڑتا تھا۔ ہفتہ میں بیس گھنٹہ کام کرنے والوں کو بھی ایسی ہی سہولیات حاصل ہوں گی۔ جرمنی میں عام طور پر ہفتہ میں ۳۵ سے ۴۰ گھنٹہ کام کرنا پڑتا ہے۔ جرمنی میں ایک بہت بڑا مسئلہ غیرملکی یونیورسٹی کی ڈگری کی کنفرمیشن کا ہے۔ اب اس سے آزاد کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کی ڈگری رکھنے والا اگر ساتھ دو سال کا تجربہ رکھتا ہے تو وہ فوری کام شروع کر سکے گا۔ ڈگری کنفرمیشن بعد میں آتی رہے گی۔ پوائنٹ سسٹم میں جرمن کے ساتھ انگریزی کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ اب دونوں میں سے ایک زبان کا کسی حد تک آنا ضروری ہو گا۔ پوائنٹ سکیم کے تحت جرمنی آنے والوں کو اپنے پارٹنر جرمنی ساتھ لانے کی اجازت ہو گی۔ ایسے پناہ گزین جو ۲۹؍مارچ ۲۰۲۳ء تک اپنے کو رجسٹر کروا چکے ہیں اور ان کو ایسی ملازمت مل رہی ہے جس پر کام کی اجازت دینے والے دفتر کو اعتراض نہیں تو وہ ملازمت شروع کر کے اپنا اسائلم ویزہ نارمل ویزہ میں تبدیل کروا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پروفیشنل ٹریننگ حاصل کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔
یاد رہے کہ صنعت کاروں کی انجمن نے حکومت سے وعدہ کیا ہے کہ اپ پروفیشنل لوگوں کو جرمنی آنے دو ان کو تعلیمی اور پروفیشنل طور پر اپ گریٹ کرنے کی ذمہ داری ہم پوری کرنے کو تیار ہیں۔ پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں جرمن سیاست دانوں کی طرف سے کی جانے والی تقریر ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ مثلاً جرمن چانسلر کے دست راست Martin Rosemann کو یہ کہنا کہ ہمیں زیادہ پر کشش افرز نوجوانوں کو دینی چاہیں تاکہ وہ ہمارے ملک میں آ کر کام کریں۔ جرمن وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ یہ اصلاحات بڑی لمبی گفت و شنید کی بعد کی گئی ہیں۔ امید ہے جرمن بیورکریٹ اس سسٹم کی راہ میں مشکلات کھڑی نہیں کریں گے۔ ماضی کے مقابلہ میں ایک حیرت انگیز تبدیلی ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ لوگ دو دو سال سے اپنے ویزوں کے اجرا کا انتظار کر رہے ہیں۔
سفارت خانے تاریخ ہی نہیں دیتے۔ ویزہ کی فائنل منظوری دینے والے دفتر کے ڈائریکٹر نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ میرے پاس جو کام جمع ہے اس کو کلیر کرنے کے لیے مجھے مزید پچاس افراد کا سٹاف چاہیے تب جا کر میں تین ماہ میں رکے ہوے کام کو مکمل کر سکوں گا۔
ڈبل نیشیلٹی
ایک اور اہم فیصلہ جس پر جرمن سیاست دانوں میں اتفاق راے پیدا ہو رہا ہے وہ جرمن شہریت اختیار کرنے کے طریق کار کو آسان کرنا اور ڈبل نیشنلیٹی رکھنے کی اجازت دینا ہے۔ اس حوالہ سے یورپی یونین ممالک اپنی اپنی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اٹلی، سویڈن، آئرلینڈ، فرانس ڈبل نیشنلیٹی رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ جبکہ جرمنی اب تک اس بارے میں بہت سخت پالیسی رکھتا ہے۔ جرمن قومیت اختیار کرتے وقت اپنی پیدائشی قومیت کو چھوڑنے کا سرکاری سرٹیفکیٹ پیش کرنے پر جرمن نیشنلیٹی کے کاغذات منظور کیے جاتے ہیں۔ جن کی ڈبل نیشنیلٹی کا علم ہو جائے ان کو کورٹ کی طرف سے ہزاروں میں جرمانے بھی کیے گئے۔ بعض سے جرمن نیشنیلٹی واپس لے لی گئی۔ ان میں زیادہ تعداد ترکی کے لوگوں کی تھی۔ جرمنی میں جو تین ملین سے اوپر ترکی کے لوگ رہتے ہیں ان میں ابھی بھی ۱.۴۵ ملین ترکی کا پاسپورٹ رکھتے ہیں۔ اس حوالہ سے جو نرمی کی جا رہی ہے اس میں ایک تو آٹھ سال کی بجاے ۵پانچ سال بعد جرمن پاسپورٹ کے لیے اپلائی کر سکیں گے۔ جو بچے جرمنی میں پیدا ہوں گے اور ان کے والدین میں سے کسی ایک کو جرمنی میں پانچ سال کی مدت ہو چکی ہو تو وہ بچہ جرمن شمار ہو گا۔
ڈبل نیشنلیٹی کی اجازت نہ ہونے کے سبب جرمن پاسپورٹ لینے والوں کی شرح دوسرے یورپی ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ سویڈن میں شہریت بدلنے والوں کی شرح ۸.۶ فیصد جبکہ جرمنی میں ۱.۱ فیصد ہے۔ اس لیے اب جرمنی بھی ڈبل نیشنلیٹی رکھنے کی اجازت دینے پر تیار ہے۔
٭…٭…٭