ممباسہ کینیا کے پرانے اور مخلص عرب احمدی بزرگ مکرم حسین صالح الحفیظ الہدار مرحوم کا ذکر خیر
جماعت احمدیہ ممباسا کینیا کے نہایت مخلص، وفا شعار اور پرانے احمدی مکرم حسین صالح الحفیظ صاحب مورخہ ۳؍جنوری ۲۰۲۳ء کو قریباً ۸۰ برس کی عمر میں بقضائے الٰہی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
آپ کے آباؤاجداد کا تعلق ملک یمن کے علاقہ حذرالموت سے تھا۔ ۱۹۵۹ء میں جب ممباسا میں جماعت کی مسجد تعمیر ہوئی تو آپ کا گھر قریب ہی تھا۔ اس وقت ممباسا میں صرف چند مساجد ہوا کرتی تھیں۔ آپ نے نماز کے لیے جماعت احمدیہ کی مسجدمیں آنا جانا شروع کر دیا،جہاں آپ کی ملاقات وہاں موجود جماعت کے مبلغ محترم مولانا عبد الکریم شرما صاحب مرحوم سے ہوئی جن کی تبلیغ سے آپ نے بیعت کر کے عین جوانی میں جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی اور تادم مرگ اپنے عہد بیعت کو باوجود مخالفت کے بخوبی نبھایا۔
آپ کو ایک لمبا عرصہ بطور صدر جماعت ممباسا خدمت کی توفیق ملی۔ اور کچھ عرصہ نیشنل مجلس عاملہ کینیا میں بطور سیکرٹری رشتہ ناطہ بھی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ کینیا کسٹم میں ملازم تھے اور بطور کسٹمز کمشنر کوسٹ ریجن کے بڑے سرکاری عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ مالی لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کشائش سے نوازا تھا۔ چندوں کی ادائیگی میں بڑے باقاعدہ تھے مہمان نوازی کی صفت بھی بہت اعلیٰ تھی۔ ۱۹۷۴ء میں بطور نمائندہ کینیا جماعت آپ کو جلسہ سالانہ ربوہ میں شمولیت اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کےساتھ ملاقات کا شرف ملا۔ ۱۹۸۸ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کینیا تشریف لائے اس وقت آپ کو حضور کے استقبال اور ملاقات کی سعادت ملی۔ جب ۲۰۰۵ءمیں حضور اقدس خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کینیا تشریف لائے تو آپ نے بطور صدر جماعت ممباسا،ممباسا ایئر پورٹ پر آپ کا شاندار استقبال کیا اور ملاقات کا شرف پایا۔ آپ کی تبلیغ سے آپ کے چھوٹے بھائی مکرم محمد شریف الہدار صاحب کو بھی احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی جو ایک مخلص اور پکے احمدی ہیں۔آپ کہا کرتے تھےکہ تین خلفائے احمدیت کے بابرکت ہاتھوں کو چھونے کی مجھے سعادت حاصل ہے۔
مسجد کے ساتھ بڑا مضبوط تعلق تھا۔ جب تک صحت نے اجازت دی ہر روز باقاعدگی سے دوتین نمازیں ضرور مسجد میں ادا کرتے۔آپ بہت سے عمدہ اوصاف کے مالک تھے۔ مبلغین اور دیگر جماعتی عہدیداران کا خاص احترام کرتے۔تبلیغ کا بہت شوق تھا۔ تبلیغ کاکوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ ممباسا کے اکثر لوگ بلکہ اگر یوں کہا جائےممباسا کے تمام عرب جو ہزاروں کی تعداد میں نسلوں سے یہاں آباد ہیں آپ کے احمدی ہونے کے بارے میں خوب جانتے بلکہ احمدیت ان میں آپ کے تعارف کا بڑا ذریعہ بنی تو یہ غلط نہ ہو گا۔ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ جب سے ایم ٹی اے آیا،گھر میں ڈش لگوائی اور حضور انور کا خطبہ جمعہ باقاعدگی سے سنتے۔ آپ نےلواحقین میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا مکرم صالح حسین الہدار اور دو بیٹیاں سوگواران میں چھوڑی ہیں۔اللہ تعالیٰ تمام لواحقین کو صبر جمیل دے اور آپ کی نیکیوں کو زندہ رکھنے والا بنائے۔آمین
آپ سے تعارف ۲۰۰۶ءکے وسط میں ہوا جب خاکسار کا تبادلہ ممباسا ریجن میں ہوا۔ جس دن خاکسار نیروبی سے ممباسا پہنچا اس وقت مغرب کی نماز ہو چکی تھی اور آپ باہر مسجد کے صحن میں کھڑے تھے۔ جیسے ہی خاکسار مسجد میں داخل ہوا تو آپ نے بآواز بلند نعرہ ہائے تکبیر لگانے شروع کر دیے اور نہایت تپاک سے ملے اور خوش آمدید کہا۔ اس وقت آپ بطور صدر جماعت ممباسا بھی خدمت کی توفیق پا رہےتھے۔ آپ نے بتایا کہ آج صبح سے مجھے آپ کے آنے کی اطلاع تھی اورعصر کی نماز سے لےکر اب تک میں مسجد میں آپ کا ہی انتظار کر رہا تھا۔
بہر حال ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تعلق اور تعارف مضبوط سے مضبوط ترہوتا چلا گیا جسےآپ نے اپنی وفات تک بفضلہ تعالیٰ بخوبی نبھایا۔ آپ سے جڑی اخلاص و وفا کی اس قدر بےشمار لازوال یادیں ہیں کہ اگر خاکسار ان سب کو لکھے تو شاید ایک کتابچہ بن جائے۔ آپ کی وفات پر بہت سے ملک اور بیرون ملک سے موجودہ اور سابقہ واقفینِ زندگی اور دیگر احباب جماعت کے تعزیت کے پیغام ملے۔ اوربعض نے کہا کہ آپ کا ان سے لمبا قریبی تعلق رہا ہے اس وجہ سے ان کا ذکر کرنا آپ پر قرض ہے۔ سو اس کام کو خاکسار ایک نیکی اور خود پر اس بزرگ اور پائنیئر(Pioneer)احمدی کا قرض سمجھ کر ادا کر دینا مناسب خیال کرتا ہے۔ واقعہ ڈوری برکینا فاسو نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ افریقہ کے ان دور دراز ممالک کے ان ریگزاروں اور جنگلوں میں بکھرے پڑے ان گو ہر نایاب اورگم نام بزرگوں نے جو اخلاص و وفا کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں اور کر رہے ہیں ان کو بھی محفوظ کیا جائے اورجب جماعت کی فتح کا سورج طلوع ہو گا،تو ان کے اخلاص و وفا کی یہ داستانیں احمدیت کی آنے والی نسلیں فخر سے بیان کر سکیں اور ان بزرگوں کی بخشش اور روحوں کےلیےدائمی ایصال ثواب کا سبب ہو گا۔
اپنے احمدی ہونے کے حوالے سے جن واقعات کا آپ نے کئی بار خاکسار سے ذکر کیا وہ کچھ یوں تھے۔ اپنی بیعت کا واقعہ کچھ یوں بیان کرتے تھے کہ جب ۱۹۵۹ء میں ممباسا میں جماعت کی مسجد تعمیر ہوئی تو اس وقت ممباسا میں چند ہی مساجد تھیں اور یہ مسجد ہمارے پرانے گھر کے بالکل قریب تھی اس وجہ سے خاکسار نے نماز وغیرہ کی ادائیگی کے لیے یہاں جانا شروع کر دیا اوریوں جماعت اور مکرم شرما صاحب سے تعارف پیدا ہوا اور شرما صاحب کی تبلیغ سے آپ نے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی۔ مرحوم شرما صاحب کا آپ کے دل میں بہت احترام تھا ان کو اپنا استاد یعنی mentorسمجھتےتھے اور اکثر ان کے ذکر پر جذباتی ہو جاتے تھے۔ ان سے جڑی بہت سی یادوں کا اکثر مجھ سے ذکر کرتے رہتے۔ بیان کیا کہ جب میں احمدی ہوا تو کسی نے میرے والد صاحب سے اس بارے میں میری شکایت کی کہ اۤپ کا لڑکا تو عرب ہو کر بھی گمراہ ہو گیا ہے اور ہندیوں کے پیچھے لگ گیا ہے۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب نے مجھے تو کچھ نہ پوچھا نہ کہا بلکہ مجھ سے خفیہ طور پر جماعت کی مسجد جانا شروع کر دیا۔اور کچھ عرصہ تک ایسا کرتے رہے مگر مجھے کبھی جتلایا بھی نہیں۔ مگر کچھ عرصہ بعد اس شکایت کنندہ کو کہا کہ میں نے تسلی کر لی ہے وہ ٹھیک راستے پر ہے۔اور پھر زندگی بھر کبھی میری احمدیت کی وجہ سے تھوڑی سی بھی مخالفت نہیں کی۔
اس ضمن میں ایک اور یاد جس کا آپ اکثر ذکر کرتے وہ یہ تھی کہتے کہ میں گھر میں سب سے بڑا بیٹا تھا اور جیسے ہوش سنبھالی گھر کی بہت سی ذمہ داریاں مجھ پر پڑنے لگیں۔ (اس دوران میں احمدی ہو چکا تھا) اور گھریلو حالات کو دیکھتے ہوئےمیں نے مزید تعلیم جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ کچھ کام تلاش کر کے اپنی فیملی کو سپورٹ کروں۔ بیان کرتے تھے کہ جب مکرم شرما صاحب کو اس بات کا پتہ چلا تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور جس سکول میں میں پڑھتا تھا لے گئے اور سیدھے پرنسپل کے کمرے میں مجھے ساتھ لےکر داخل ہو گئے اور پرنسپل کو کہا یہ میرا لڑکا ہے مجھے اس کو پڑھتے اور آگے بڑھتے دیکھنا ہے اس کی کسی قسم کی پڑھائی کے متعلق مشکل یا ضرورت ہو آ پ نے مجھے بتانا ہے۔ بادی النظر والوں کے لیے یہ بظاہر ایک معمولی سی بات ہو۔ مگر اس نے آپ کی باقی پوری زندگی پر گہرے نقوش مرتب کیے۔ جب بھی یہ واقعہ بیان کرتے آپ کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ آپ کی حالت میاں محمد بخش کےپنجابی شعر کے اس مصرعہ کی عین عکاسی تھی۔
اصلاں نال جے نیکی کریے سو نسلاں تک نہیں بھُلدے
کہا کرتےمیں ایک غریب گھر کا بچہ تھا۔ شرما صاحب کی صحبت اور دعا نے میری کایا پلٹ دی۔آپ نے تعلیم مکمل کر کے کینیا کسٹمز میں بطور کلرک بھرتی ہو کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اوراپنی فرض شناسی اور ایمان داری کی بدولت کینیا کسٹمز اتھارٹی کے نہایت بڑے عہدے کسٹمز کمشنر کوسٹ ریجن سے ریٹائرڈ ہوئے۔ کہا کرتے کہ یہ سب جماعت اور امام الزمانؑ کو ماننے کی برکت ہے ورنہ کہاں میں اورکہاں یہ اعلیٰ عہدے اور یہ دنیوی نعمتیں جو اللہ نے محض اپنے خاص فضل سے مجھے عطا کی ہیں۔ جس واقعہ کا اوپر خاکسار نے ذکر کیا ہے اس نے آپ کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے تھے۔ اور آپ نے اس نیکی کو آگے بھی جاری رکھا۔ میں اس بات کا گواہ ہوں کہ جب بھی آپ کے علم میں یہ بات آتی کہ کوئی احمدی بچہ مالی مسائل کی وجہ سے تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہا تو آپ اس کی تعلیمی ضرورت کے لیے نقد رقم یا چیک لا کر خاکسار کو اس رنگ میں دیتے کہ اس بچے کو بھی یہ پتا نہ چلے کہ یہ کس نے دیا ہے اور مجھے کہتے کہ آپ نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کے سکول لےکر جانا ہے اور ہیڈ ماسڑ کے سامنے اس کی فیس ادا کرنی ہے اور اس بچے کو یہ لگے کہ یہ آپ نے ادا کی ہے۔ پہلے شروع میں جب خاکسار کو آپ کے مندرجہ بالا واقعہ کا علم نہیں تھا تو ایک دن خاکسار نے آپ سے کہا یہ کام تو آپ بھی کر سکتے ہیں یا کسی اور سے کروا سکتے ہیں پھر ہر بار مجھے ہی کیوں کہتے ہیں۔ جس پر آپ نے مجھے اپنا یہ واقعہ سنایا۔ آج ایسے بچوں میں سے جب کسی سے سامنا ہوتا ہے جو اکثر اب بڑے اور برسر روز گار ہو چکے ہیں تو ان کی نظروں میں جو احترام،شکر گزاری اور عزت دیکھتا ہوں تو مجھے آپ کی بات یاد آتی ہے۔ بلکہ اس کا ایک مظاہرہ ہم دونوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ایک یتیم احمدی لڑکا تھا جواب صاحبِ اولاد ہے۔ جس کی فیس وغیرہ آپ میرے ذریعے سے ادا کرواتے تھے۔ ایک دن میں اور آپ تبلیغ کے لیے کینیا کے تاریخی ساحلی شہر مالنڈی گئے ہوئے تھے۔ (یہ وہ شہر ہے جہاں سے پرتگالی واسکوڈے گاما نے ۱۴۹۸ء میں پہلی دفعہ ایک ماہرگجراتی نا خدا کی مدد سے جنوبی ایشیا کی بندر گاہ کالی کٹ تک پہنچا جہاں سے دنیا کی تاریخ کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا) دوپہر کا وقت تھا ہم ایک سڑک پر چل رہے تھے تو ہمارے پاس سے ایک فوجی گاڑی گزری اور تھوڑی دور جا کر وہ رک کر ریورس ہوئی اور ہمارے پاس آکر رکی۔ ایک دفعہ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ ادھرصبح سے تبلیغ کرتے پھر رہے ہیں کسی نے ہماری نا حق شکایت ہی نہ کر دی ہو۔ مگر جب گاڑی کا دروازہ کھلا تو وہی بچہ جو اب جوان ہو چکا تھا اور کینیا فوج کے ایک ذیلی ادارے میں بھرتی ہو چکا تھا اترا اور بڑے ادب واحترام سے ہمیں ملا اور عربی طریق پر ہمارے ہاتھ چومےاور حیرت سے پوچھا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے بتایا تبلیغ کے لیے آئے تھے۔ جس پر اس نوجوان نے پوچھا آپ نے لنچ کر لیا ہے؟ ہم نے کہا نہیں ابھی سوچ رہے ہیں۔ جس پر اس نوجوان نے اپنے ساتھی فوجیوں کو بتایا کہ یہ دونوں میرے محسن اور بزرگ ہیں۔ آپ لوگ جاؤ میں نے اب ان کے ساتھ لنچ پر جانا ہے۔ جس پر وہ ہمیں وہاں قریب موجود ایک نہایت عمدہ ہوٹل میں لےکر گیا اور بہت عمدہ لنچ کروایا۔ اس کی آنکھوں میں احسان مندی اور شکر گزاری دیکھ کر میں خود اندر سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ خیر جب اس سب سے فارغ ہو کر ہم واپس آرہے تھے تو آپ نے راستے میں مجھے کہا یہ وہ پھل تھا جس کی میں نے آپ کے ہاتھ سے آبیاری کی تھی اور آج ہم دونوں نے اس کا پھل اپنی زندگیوں میں کھایا جو بہت شیریں تھا۔ کئی احمدی یتامیٰ کی خبرگیری کرتے اور کئی احمدی بچوں کو پڑھایا اوران کا برسروزگاربھی بنایا۔
آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا اور کوئی موقع تبلیغ کا اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔جب خاکسارا بھی نیا نیا ممباسا گیا تھا تو آپ اس وقت سروس سے ریٹائر ہو چکے تھے۔اور آپ کااکثر وقت مسجد میں گزرتا تھا۔ خاص کر نماز عصر سے کچھ وقت قبل مسجد آ جاتے اور مسجد کا باہر والا لاؤڈ سپیکر آن کر کے قریباً روزانہ آدھا گھنٹہ تبلیغ کرتے جس کی آواز پورے علاقے میں سنائی دیتی۔ عصر کی نماز ادا کر کےعموماً مجھے ساتھ لےکرشہر میں نکلتے کہ اب ہم مغرب تک تبلیغ کریں گے۔ اور مجھے کہا کہ آپ یہاں نئے آئے ہیں اس طرح ایک تو آپ کو یہاں کے کلچر اور ماحول سےواقفیت ہو جائے گی دوسرا آپ کو سواحیلی زبان بھی اچھی آ جائے گئی۔ آج جب میں سوچتا ہوں تو آپ کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ خاکسار نے جو سواحیلی زبان سیکھی اس میں مکرم مولانا جمیل الرحمان رفیق صاحب کے بعد آپ کا بہت حصہ تھا۔ بہت سے فقرے اور سواحیلی الفاظ جو آپ نے مجھے سکھائے آج کہیں بولتا یا لکھتا ہوں تو آپ کی یاد ذہن میں تازہ ہو جاتی ہےکہ کس پیار اور حکمت سے آپ نے میری غلطیوں کی اصلاح کرنی اور نئے الفاظ سکھانے۔ خیر آپ کے ساتھ اس طرح بازاروں میں گھوم پھر کر تبلیغ کرنے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔آپ کا ساتھ ہونے سے ایک اعتماد اور تحفظ کا احساس رہتا کہ اگر کہیں کچھ اوپر نیچے رہ گیا تو خود ہی سنبھال لیں گے۔ آپ ممباسا کے پرانے رہنے والے اور معروف شخص تھے اس وجہ سے قریبا ًہر چوتھا شخص آپ کا واقف ہوتا۔ ایک دن اسی طرح تبلیغ کرتے ہم عربوں کی ایک معروف مسجد کے پاس پہنچے وہاں آپ کے کافی پرانے عربی دوست عصر کی نماز پڑھ کربیٹھے تھے(ممباسا میں خاکسار نے دیکھا ہے عموماً عصر سے لےکر عشاء کی نماز تک بوڑھے لوگ مساجد کے باہر یا صحن میں بنے تھڑوں پر بیٹھ کر وقت گزارتے ہیں۔) جب ہم وہاں پہنچے تو آپ نے ان کو سلام کیا اور میرا تعارف کروایا کہ یہ ہمارے نئے مبلغ ہیں۔ جس پر ایک بوڑھا عرب بولا کہ (شریف) تم اچھے بھلے سمجھدار عرب ہو پر ان ہندیوں نے تمہیں گمراہ کر دیا ہے۔ جس پر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آپ نے اس کو جواب دیا کیا تم نےقرآن کریم پڑھا ہے؟ جس پر اس نے کہا ہاں پڑھا ہے۔آپ نے اس کو سورۂ بقرہ کی آیت ھُدًی الِّلْمُتَّقِیْن سنائی اور پوچھا اب یہ بتاؤ یہاں کہاں لکھا ہے کہ ہدایت صرف عربوں کے لیے مخصوص ہے۔ جس پر وہ سب لاجواب ہو گئے۔ اس پر آپ نے ان کویہ کہہ کر اور رگڑا لگایا کہ تم تو وہ عرب ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے…اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ کُفْراً وَّ نِفَاقًا…(سورۃالتوبۃ:97)
کینیا یا ممباسا میں عرب اپنےلیے شریف کا لقب استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔اس وجہ سے جماعت میں بھی اور باہر بھی اکثر لوگ آپ کو شریف صاحب ہی پکارتےتھے۔یہ بات بھی آپ نے مجھے سکھائی کہ جب بھی کسی عرب کو مخاطب کرنا ہو تو اس کو شریف کہہ کر مخاطب کیا کرو اس سے وہ آپ کی بات عزت واحترام سے سنے گا۔ آپ کے ساتھ اس طرح گھوم پھر کر تبلیغ کرنے سے خاکسار کو بہت فائدہ ہوا۔ ایک تو وہ حجاب اور شرم اکثر ہم نئےمربیان کو لوگوں کا سامنا کرنے اور اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے میں ہوتی ہے وہ دور ہو گئی(جس کو انگریزی میں سٹیج فئر بھی کہتے ہیں) دوسرےموقع محل کی مناسبت سےاپنی بات پیش کرنے کا ہنر آ گیا۔
ویک اینڈ پر عموماً باہر کی جماعتوں کے دورے کا پروگرام ہوتا تو اکثر آپ میرے ساتھ ہم سفر ہوتے۔ آ پ نےقریباً ایک گھنٹہ کی ایک تقریر تیار کی ہوئی تھی جو وفات مسیح کی آیت وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران:145)سے شروع ہو کر ختم نبوت سے ہوتےہوئے صداقت حضرت مسیح موعودؑ بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس امام الزمانؑ کے اس الہام ( اِنِّی مُعِیْنٌ مَنْ أرَادَ اِعَانَتِکَ وَ اِنِّی مُھِیْنٌ مَنْ أرَادَ اِھَانَتِکَ ) پر ختم ہوتی اور قریبا ًہر جگہ انیس بیس کےفرق سے آپ یہی تقریر کرتے (ایک وقت میں مجھے بھی وہ پوری زبانی یاد ہو گئی تھی) آپ کی طبیعت میں مزاح بھی بہت تھا۔ اور اب میرے ساتھ کافی دوستانہ تعلق بھی بن چکا تھا گو میں آپ سے عمر میں بہت چھوٹا تھا مگر ہمیشہ مربی سلسلہ ہونے کی وجہ سے نہایت عزت و احترام سے پیش آتے۔
آپ کی تبلیغ کی وجہ سے بہت سی سعید روحوں کو احمدیت کا تعارف ہوا اور آ پ کے تبلیغی رابطوں کی وجہ سے آگے چل کر کوسٹ ریجن میں کئی جماعتوں کی بنیاد بھی پڑی اور آپ کے یہ تبلیغی رابطے کئی جماعتوں کے قیام کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ آپ کے انہی تبلیغی رابطوں کی وجہ سے ممباسا ریجن کی ساؤتھ کوسٹ میں غالباً ۱۹۸۴ء میں جماعت کو ایک بڑا تبلیغی بریک تھرو ملا اور ایک ہی دن میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔جس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ نے اپنے جلسہ سالانہ یوکے ٹلفورڈ کےافتتاحی خطاب مورخہ ۵؍اپریل ۱۹۸۵ء میں کچھ یوں ذکر فرمایا:کینیا کے مبلغ بتاتے ہیں کہ مادو مالو میں پبلک لیکچر کا انتظام تھا اور سارا گاؤں اس میں شریک ہوا، چار گاؤں کے افراد وہاں اکٹھے ہوئے تھے اور اس لیکچر کے معاً بعد ۴۰۷ افراد بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے… اور اطلاع یہ ہے کہ دو ماہ کے عرصہ میں اس علاقے میں اب ۵۸۲ بیعتیںہو چکی ہیں اور سکول کے اساتذہ بھی شامل ہیں، ایک ہیڈ ماسٹر بھی شامل ہےاور دو مساجد بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو عطا ہو گئی ہیں۔ (خطابات طاہر جلد دوم صفحہ ۵۶)
مکرم حسین صالح صاحب اپنی زبانی اس کا احوال کچھ یوں بیان کیا کرتے تھےکہ اس علاقہ میں میں نے ایک زرعی زمین حاصل کی اور ویک اینڈ پر عموماً اپنے بچوں کو ساتھ لےکر وہاں جایا کرتا تھا اور دن وہاں گزارا کرتا تھا۔ ایک دن میں وہاں جا رہا تھا تو راستہ میں ہمیں ایک شخص نظر آیا۔ جو پیدل سفر کر رہا تھا خاکسار نے گاڑی کھڑی کر کے ان کو سلام کیا اور لفٹ دینے کی پیشکش کی جس کو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔ بیان کیا کہ دوران سفر جب ان سے مزید تعارف ہو اتومعلوم ہوا کہ وہ اس علاقہ کے معروف استاد معلم عبداللہ مکرانی صاحب تھے جن کا اپنے علاقہ میں ایک خاص مقام اور اثرورسوخ تھا۔ کہتے تھے کہ خاکسار نے ان کو جماعت کا تعارف کروایا اور جماعت کا پیغام پہنچایا اور مزید ممباسا جماعت کی مسجد میں آکر ہمارے مبلغ سلسلہ سے ملنے کی درخواست کی جس کو انہوں نے قبول کیا…آگے چل کر آپ کا یہ ایک رابطہ نہایت با ثمر ثابت ہوا اور سینکڑوں سعید روحوں کو ایک ہی دن میں ایک تبلیغی میٹنگ جس میں شمولیت کے لیے مکرم مولانا جمیل الرحمان رفیق صاحب سابق امیر و مشنری انچارج کینیا بطور خاص نیروبی سے تشریف لائے اور آپ نے سواحیلی زبان میں ایسی عمدہ پر اثراور مدلل تقریر اس جلسہ میں کی جس کی بازگشت آج بھی ان جماعتوں میں سنائی دیتی ہےاور کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر موجود بیعت فارمز کم پڑ گئے تھے۔ اس تبلیغی سعی کے نتیجہ میں اس علاقہ میں چار جماعتیں قائم ہو گئیں جن میں مرکزی ماذو مالومے پھر جوروری، مسولوا اور تانگینی شامل ہیں۔ اس وقت ان جماعتوں میں الحمد للہ پختہ جماعتی مساجد موجود ہیں۔ جن میں سے ایک مسجد جوروری جماعت،مکرم حسین صالح الحفیظ صاحب نے اپنے ذاتی خرچ پر تعمیر کروائی۔ نیز ماذو ما لومے مسجد کی تزئین و آرائش اور مرمت کا کام اکثر آپ خود اپنی جیب سے کرواتے تھے، جس سے آپ کو دلی لگاؤ تھا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو ایک فلاحی تنظیم(سینٹ جونز ایمبولینس) کے کوسٹ ریجن کے چیئرمین کے طور پر خدمات کی توفیق بھی ملی اور کئی احمدی بچوں کو اس ادارے سے تربیتی کورسز کروائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس وفا اور اخلاص کے پیکر کے درجات بلند فرمائے اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک روشنی کا مینار ہوں۔ ہم جب تک زندہ رہیں گے آپ کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔اللھم نور مرقدہ۔