منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام
ٹوٹے کاموں کو بناوے جب نگاہِ فضل ہو
پھر بنا کر توڑ دے اِک دم میں کر دے تارتار
تُو ہی بگڑی کو بناوے توڑ دے جب بن چکا
تیرے بھیدوں کو نہ پاوے سَو کرے کوئی بچار
جب کوئی دل ظلمتِ عصیاں میں ہووے مبتلا
تیرے بِن روشن نہ ہووے گو چڑھے سورج ہزار
اِس جہاں میں خواہشِ آزادگی بے سُود ہے
اِک تری قیدِ محبت ہے جو کر دے رستگار
دِل جو خالی ہو گدازِ عشق سے وہ دِل ہے کیا
دل وُہ ہے جس کو نہیں بے دِلبر یکتا قرار
فقَر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفئ وجود
پس کرو اس نفس کو زیر و زبر از بہرِ یار
تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وُہ ناتمام
اِس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار
تیرے مُنہ کی بھوک نے دِل کو کیا زیر و زبر
اے مرے فردوسِ اعلیٰ! اب گرا مجھ پر ثمار
اَے خدا اَے چارہ سازِ درد ہم کو خود بچا
اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار
باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل
ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار
تیرے بِن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے
ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہو جانا غبار
(درثمین مع فرہنگ صفحہ ۱۶۷)