توبہ و استغفار کی اہمیت و فضیلت (حصہ اول)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے صحیح اور غلط میں تمیز کرنے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی ہے۔ اسلام بطور دین ایک بامقصد زندگی گزارنے کا ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے۔توبہ و استغفار دل کا نوراور نفس کی پاکیزگی ہے۔ توبہ و استغفار انسان کی حقیقی زندگی کی طرف صحیح معنوں میں راہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام میں توبہ و استغفار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ قرآن کریم کے بہت سے مقامات پر بار بار توبہ و استغفار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں فرماتا ہے: اَلَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡلَنَاذُنُوۡبَنَاوَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اَلصّٰبِرِیۡنَ وَالصّٰدِقِیۡنَ وَالۡقٰنِتِیۡنَ وَالۡمُنۡفِقِیۡنَ وَالۡمُسۡتَغۡفِرِیۡنَ بِالۡاَسۡحَارِ۔ (آل عمران:۱۷-۱۸)ترجمہ:(یہ اُن کے لئے ہے) جو لوگ کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! یقیناً ہم ایمان لے آئے۔ پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہمیں آ گ کے عذاب سے بچا۔ (یہ باغات ان کے لئے ہیں) جو صبر کرنے والے ہیں اور سچ بولنے والے ہیں اور فرمانبرداری کرنے والے ہیں اور خرچ کرنے والے ہیں اور صبح کے وقت استغفار کرنے والے ہیں۔
’’وَالْمُسْتَغْفِرِيْنَ بِالْأَسْحَارِ‘‘ اور ’’وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ‘‘ میں صراحت کے ساتھ سحر کے وقت کو استغفار کے لیے منتخب کیا گيا ہے اور مفسرین کی اکثریت کے مطابق بھی سحر کے وقت کا استغفار دوسرے تمام اوقات پر ترجیح رکھتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گاجس نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کا ایسے ذکر کیا کہ اس کے آنسو جاری ہوگئے۔‘‘(صحیح بخاری:۱۳۳۷)
بے شک انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی اور گناہ کرنا اس کی فطرت میں شامل ہے۔ مگر بہترین وہ ہے جو اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ آنسو بہائے۔ اپنے کیے پر خدا تعالیٰ سے معافی طلب کرے اور آئندہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ کرے۔
ایک اَور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: وَمَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِاللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔(النساء:۱۱۱) ترجمہ: اور جو بھی کوئی بُرا فعل کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا پائے گا۔
توبہ کے لغوی معنی لوٹنے اور رجوع کرنےکے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں کسی گناہ سے باز آنے کو توبہ کہتے ہیں۔ استغفار کے معنی مغفرت طلب کرنے کے ہیں اور مغفرت کے معنی گناہوں کی پردہ پوشی اور ان کے شر سے بچاؤ کے ہیں۔ یہ بندے اور رب کو ملانے والی صفت ہے۔ یہ گناہگاروں کا سہارا اور عبادت گزاروں کا طریق ہے۔ استغفار ایک بہترین دائمی عبادت اور دعا ہے۔ استغفار شیطان اور اس کی فوج کے خلاف مومن کا ہتھیار ہے۔ انبیاء علیہم السلام بھی استغفار کیا کرتے تھے۔
کچھ قرآنی آیات درج ذیل ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے وہ برگزیدہ اور محبوب بندے اس کے سامنے رکوع و سجود کرتے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ کھڑے ہو کر استغفار کر رہے ہیں اور مغفرت طلب کر رہے ہیں۔
جب حضرت آدمؑ اور حواؑ نے شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ پھل کھایا جس کی ممانعت کی گئی تھی تو حضرت آدمؑ وحوا جنت کا پھل کھانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے مغفرت کے کلمات سیکھ کر دعا مانگتے ہیں: ’’اے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیاتو یقیناً ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے”۔ (الاعراف:۲۴)
حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑی عاجزی سے اللہ سے درگزر کی امید رکھتے ہیں بخشش کے طلبگار ہیں: ’’اور جس سے میں امید رکھتا ہوں وہ جزاسزا کے دن میری خطائیں بخش دے گا۔ ‘‘(الشعراء :۸۳)
حضرت موسیٰؑ کے ہاتھوں جب ایک قبیلے کا شخص مارا گیا تو ’’اس نے کہااے میرے ربّ !یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔ پس مجھے بخش دے۔تو اس نے اسے بخش دیا۔‘‘(القصص:۱۷)
حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کو جب طوفان میں ڈوبتے دیکھا تو یہ التجا کی ’’اے میرے رب! یقیناً میرا بیٹا بھی میرے اہل میں سے ہےاور تیرا وعدہ ضرور سچا ہےاور تو فیصلہ کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔‘‘(ہود:۴۶)
اللہ تعالیٰ کے یہ محبوب اور برگزیدہ بندے جو اپنے ربّ کو سب سے زیادہ جاننے والے اور سمجھنے والے تھے ان کے پورے وجود میں خدا بسا ہوا تھا۔ ان کا قول وفعل اللہ کی رضا و خوشنودی اور مرضی کے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ تب بھی ان کا یہ حال تھا۔ تو ہم جیسے گناہگاروں کو کس قدر توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی ضمن میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’انبیاء اس فطرتی کمزوری اور ضعف بشریت سے خوب واقف ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ دعا کرتے ہیں کہ یا الٰہی تو ہماری ایسی حفاظت کر کہ وہ بشری کمزوریاں ظہور پذیر ہی نہ ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۰۷)(باقی آئندہ)