قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یہ حسن سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہو گا۔
قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دار ہیں، تمہارے والد کی طرف سے بھی اور تمہاری والدہ کی طرف سے بھی۔ پھر بیوی کے رحمی رشتہ دار ہیں۔ پھر خاوند کے رحمی رشتہ دارہیں۔ دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو، ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو، ان کے لئے نیک جذبات اپنے دل میں پیدا کرو۔ غرض کہ وہ تمام حقوق جو تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو، ان قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو جن سے تمہارے اچھے تعلقات ہیں، کیونکہ قریبی رشتہ داروں میں بھی تعلقات میں کمی بیشی ہوتی ہے بعض دفعہ قریبی رشتہ داروں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ صرف ان سے نہیں جن سے اچھے تعلقات ہیں، جنہیں تم پسند کرتے ہوبلکہ جنہیں تم نہیں پسند کرتے، جن سے مزاج نہیں بھی ملتے ان سے بھی اچھا سلوک کرو۔ پس یہ حسن سلوک ہر قریبی رشتہ دارسے کرناہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ صرف ان سے نہیں جن سے مزاج ملتے ہیں بلکہ ہر ایک سے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ نہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں سے بلکہ مرد کے لئے اپنی بیوی اور عورت کے لئے اپنے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کے لئے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔ یہ سلوک ہے جو اللہ کی سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہو گا۔ کئی جھگڑے گھروں میں اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے لئے عزت اور احترام نہیں ہوتا۔ میاں اور بیوی کے سب سے قریبی رشتہ دار اس کے والدین ہیں۔ جہاں اپنے والدین سے احسان کے سلوک کا حکم ہے وہاں میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کے والدین سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔ بعض دفعہ خاوند زیادتی کرکے بیوی کے والدین اور قریبیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور بعض دفعہ بیویاں زیادتی کرکے خاوندوں کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہیں۔ تو احمدی معاشرے میں جس کو اللہ اور رسولﷺ کا حکم ہے کہ سلامتی پھیلاؤ، اس میں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم جون ۲۰۰۷ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۲۲؍جون ۲۰۰۷ء)