لفظ ’’روح‘‘ کی وضاحت
قرآن کریم میں روح اور نفس کے الفاظ مختلف جگہوں پر مختلف معانی میں آئے ہیں۔ روح کا لفظ کلام الٰہی، فرشتوں، حضرت جبرائیل، انبیاء اور اس روح کے معانی میں بیان ہوا ہے جو بحکم الٰہی ایک خاص وقت پر انسانی قالب میں نمودار ہوتی ہے۔ جبکہ نفس کا لفظ جان، سانس، شخص، ذی روح چیز، دل، ہستی اور شعور وغیرہ کےلیے استعمال ہوا ہے۔
لغوی اعتبار سے روح کا لفظ اس چیز کےلیے بولا جاتاہے جس کے ذریعہ نفوس زندہ رہتے ہیں۔ یعنی زندگی۔ اسی طرح روح کا لفظ پھونک، وحی و الہام، جبرائیل، امر نبوت، خدا تعالیٰ کے فیصلہ اور حکم کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ نیز جسم کے مقابل پر ایک چیز جو حیوان کو باقی چیزوں سے ممتاز کرتی اور انسان کو باقی حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے اورجو انسان کو با خدا بنا دیتی ہےاسے بھی روح کہا جاتا ہے۔
جبکہ نفس کا لفظ لغوی اعتبار سے جسم، شخص، روح، جسم اور روح کا مجموعہ انسان، عظمت، عزت، ہمت، ارادہ، خود وہی چیز اور رائے وغیرہ کےلیے بولا جاتا ہے۔
قرآ ن کریم اور احادیث کے مطالعہ سے نفس اور روح میں ایک فرق یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نفس پر قابو پانے، اس کی اصلاح کرنے اور اس میں تبدیلی پیدا کرنے کی ایک حد تک قدرت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے نفس کی تین حالتیں ( امارہ، لوامہ اور مطمئنہ) بیان فرمائی ہیں۔ نیز حدیث میں آتا ہے کہ بہادر وہ نہیں جو کُشتی میں مدمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔ جبکہ روح کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور انسان کو اس پر قدرت نہیں دی۔ جیسا کہ فرمایا:قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل: ۸۶)
یعنی تو کہہ دے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اسی طرح اسلام نے روح کے بارہ میں سوالات کرنے کو بھی پسند نہیں فرمایا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی عربی تصنیف نور الحق میں سورت النبا کی آیتیَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا۔ (آیت۳۹)کی تفسیر میں روح کے معانی بیان فرماتے ہوئے ساتھ نفس کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۲۷
مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل ۲۱؍جنوری ۲۰۲۲ء)