خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۱؍ اپریل ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: آج رمضان کا آخری جمعہ ہے۔ رمضان گذر گیا اور بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے رمضان میں عبادت اور اپنے اندر خاص تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے منصوبے بنائے ہوں گے لیکن ان پر جس طرح سوچا تھا عمل نہیں کر سکے۔ کئی لوگ اس طرح مجھے خط لکھتے ہیں۔ اور آج رمضان کا آخری دن بھی چند گھنٹوں بعد ختم ہونے والا ہے۔ جمعہ کا دن وہ بابرکت دن ہے جس میں ایسی گھڑی آتی ہے جب دعا کی قبولیت کا خاص وقت ہوتا ہے۔پس اگر ہمارے رمضان کے دن اس طرح نہیں بھی گزرے جس طرح ہماری خواہش تھی یا جس طرح ایک مومن کے گزرنے چاہئیں تھے تو پھر بھی ہمیں آج اس بقیہ وقت میں یہ عہد کرنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے، ہم پر رحمت فرماتے ہوئے ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں کو مستقل اُس طریق پر چلانے والے بن جائیں جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کےمقصدکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعودؑ تقویٰ کے معیاروں کو اونچا کرنے اور ہماری اصلاح کے لیے بھیجے گئے ہیں اور اس کی بار بار آپؑ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؑ نے فرمایا:’’سو میں بھیجا گیا ہوں کہ تا سچائی اور ایمان کا زمانہ پھر آوے اور دلوں میں تقویٰ پیدا ہو۔ سو یہی افعال میرے وجود کی علت غائی ہیں۔‘‘ یہی میرے آنے کا مقصد ہے۔ فرمایا ’’مجھے بتلایا گیا ہے کہ پھر آسمان زمین سے نزدیک ہو گا بعد اس کے کہ بہت دُور ہو گیا تھا۔‘‘
سوال نمبر:۳ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حقیقی تقویٰ اختیارکرنےوالےکےساتھ خداتعالیٰ کےسلوک کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:’’حقیقی تقویٰ کے ساتھ جاہلیت جمع نہیں ہو سکتی۔‘‘پس یہ بنیادی بات ہے کہ متقی جاہل نہیں ہو سکتا۔حقیقی متقی عبادت گزار ہو گا اور ساتھ ہی بندوں کے بھی حق ادا کرنے والا ہو گا۔ پس یہ وہ بنیادی بات ہے جو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنی چاہیے۔ پھر فرمایا: ’’حقیقی تقویٰ اپنے ساتھ ایک نور رکھتی ہے جیساکہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے۔ یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّیُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ (الانفال: ۳۰) وَیَجۡعَلۡ لَّکُمۡ نُوۡرًا تَمۡشُوۡنَ بِہٖ(الحدید: ۲۹) یعنی اے ایمان لانے والو! اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لیے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔‘‘حضرت مسیح موعودؑ یہ ترجمہ تفسیری فرما رہے ہیں۔ ’’اللہ تعالیٰ کے لیے اتقا کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور تمہارے غیروں میں فرق رکھ دے گا۔ وہ فرق یہ ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے۔ یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قویٰ اور حواس میں آ جائے گا۔ تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہو گا اور تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی۔ غرض جتنی تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں، تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موجودہ زمانے میں شیطان کے حملوں کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ زمانہ تو خاص طور پر شیطان کے حملوں کا زمانہ ہے۔ اپنے تمام تر حیلوں اور مکروں اور ہتھیاروں سے شیطان حملے کر رہا ہے۔ ایسے خوفناک حملے ہیں کہ جس کی مثال پہلے نہیں ملتی تھی۔ پس ایسے حالات میں خداتعالیٰ کی طرف خاص طور پرجھکنے کی ضرورت ہے۔ ٹی وی ہو یا سوشل میڈیا ہو یا دوسرے پروگرام ہوں یا بچوں کے سکول ہوں یا ان کے پروگرام ہوں ہر جگہ شیطان نے دجال کے ذریعہ سے ایک ایسا خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہے جس سے خداتعالیٰ کی مدد کے بغیر نکلنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ فکر تو اپنے بچوں اور اگلی نسلوں کو دجال اور شیطان کے حملوں سے بچانے کی ہے اور اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے اور اس کے لیے ہر احمدی والدین کو، تمام احمدی والدین کو کوشش بھی کرنی چاہیے اور جماعتی نظام کو بھی کوشش کرنی چاہیے۔اس لیے ہر احمدی عاقل بالغ کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے تقویٰ کے اعلیٰ معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ اس طرح دجال کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے کر سکیں۔ رمضان کے بعد بھی ہمیں relaxنہیں ہو جانا چاہیے آرام سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے بلکہ اپنے قرآن کریم کے علم کو، دین کے علم کو بڑھانے کی خاص کوشش کرنی چاہیے تا کہ ایک خاص ماحول ہمارے گھروں میں مستقل قائم رہے۔ اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔ شیطان اور دجال کے حملوں سے بچنے کے لیے خاص دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ شیطان کے حیلوں اور مکروں کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھنا چاہئے کہ دجال اصل میں شیطان کے مظہر کو کہتے ہیں۔جس کے معنی ہیں راہ ہدایت سے گمراہ کرنے والا۔ لیکن آخری زمانہ کی نسبت پہلی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت شیطان کے ساتھ بہت جنگ ہوں گے لیکن آخر کار شیطان مغلوب ہو جائے گا۔۔۔’’فرمایا ’’گو ہر نبی کے زمانہ میں شیطان مغلوب ہوتا رہا ہے مگر وہ صرف فرضی طور پر تھا۔ حقیقی طورپر اس کا مغلوب ہونا مسیح کے ہاتھوں سے مقدر تھا اور خدا تعالیٰ نے یہاں تک غلبہ کا وعدہ دیا ہے کہ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ(آل عمران: ۵۶) فرمایا ہے کہ تیرے حقیقی تابعداروں کو بھی دوسروں پر قیامت تک غالب رکھوں گا‘‘پس حقیقی تابعدار بننے کے لیے آپؑ کی تعلیم پر عمل کرنے کے لیے تقویٰ اختیار کرنا ہو گا۔ پس فرمایا:’’غرض شیطان اس آخری زمانہ میں پورے زور سے جنگ کر رہا ہے مگر آخری فتح ہماری ہی ہو گی۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےاحباب جماعت کومصائب سےنجات کی بابت کیانصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت‘‘ یعنی ارادہ اور دعا بھی اس کے ساتھ شامل ہو۔ عزیمت ’’سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو‘‘ارادہ بھی ہو اور دعا بھی ہو اس کے ساتھ پھر پورا عمل ہو۔ فرمایا ’’پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیوار کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا۔‘‘پس ہر مشکل سے اور ہر بلا اور مصیبت سے بچنے کا یہ نسخہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہمیں بتایا ہے کہ میری تعلیم کے مطابق خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو اور پھر دیکھو اللہ تعالیٰ تمہیں کس طرح شیطان اور دجال کے حملوں سے بچاتا ہے بلکہ ہمیں اُن ہتھیاروں سے بھی اللہ تعالیٰ لیس کر دے گا جن کے استعمال سے ہم شیطان پر غلبہ پانے والے ہوں گے۔ نہ صرف بچنے والے ہوں گے بلکہ اس کو مارنے والے بھی ہوں گے اور شیطان کو ہمیشہ کے لیے دور کرنے والے اور دجال کے حملوں سے بچنے والے ہوں گے۔ اسے تباہ کرنے والے ہوں گے۔
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدعاکےاثرکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:(آپؑ نے)فرمایا’’دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ یہ کیا دعا ہے‘‘یہ تو کوئی دعا نہیں ہے ’’کہ منہ سے تو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے۔‘‘زبان کسی اَور طرف چل رہی ہے۔ دماغ اور دل کہیں اَور طرف جا رہا ہے۔ ’’فلاں چیز رہ گئی۔ یہ کام یوں چاہئے تھا اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یوں کریں گے‘‘دنیاوی باتیں زیادہ دماغ میں چل رہی ہیں اور زبان پہ بظاہر دعا نکل رہی ہو۔ فرمایا ’’یہ تو صرف عمر کا ضائع کرنا ہے۔ جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عمل درآمد نہیں کرتا تب تک اس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں جو احکام دیے ہیں ان کو پڑھو۔ رمضان میں ہم پڑھتے بھی رہے۔ درس بھی سنتے رہے۔ ان پر عمل کرو، دیکھو اور پھر جو زندگی گزارو گے وہ اصل زندگی ہے وہ وہ زندگی ہے، ان لوگوں کی زندگی ہے جن پر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’قرآن مجید میں تو صاف طور پر لکھا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِینَ هُمْ فِی صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ (المؤمنون: ۲-۳)یعنی جب دعا کرتے کرتے انسان کا دل پگھل جائے اور آستانہ الوہیت پر ایسے خلوص اور صدق سے گر جاوے کہ بس اسی میں محو ہو جاوے اور سب خیالات کو مٹا کر اسی سے فیض اور استعانت طلب کرے اور ایسی یکسوئی حاصل ہو جائے کہ ایک قسم کی رقّت اور گداز پیدا ہو جائے تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے۔‘‘فلاح پانے والے وہی مومن ہیں جن کی نمازیں خشیت سے بھری پڑی ہیں۔ تب فلاح کے دروازے کھلتے ہیں جب دل بالکل ہی گداز ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فیض اور اس کی استعانت تب آتی ہے جب خالصةً اللہ تعالیٰ کے لیے ہو کے انسان دعائیں کر رہا ہو۔ فرمایا تب فلاح کا دروازہ کھل جاتا ہے ’’جس سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے کیونکہ دو محبتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں جیسے لکھا ہے
ہم خدا خَواہی وَ ہَم دنیائے دُوں
اِیں خیال است و مَحال است و جُنُوں
یعنی تُو خدا کا طالب بھی بنتا ہے اور اس حقیر دنیا کا بھی۔ یہ محض وہم ہے۔ یہ تو خیالات ہی ہیں۔ ناممکن باتیں ہیں یہ تو۔ یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ یہ دیوانگی والی باتیں ہیں۔ پاگل پن ہے۔ فرمایا ’’اسی لیے اس کے بعد ہی خدا فرماتا ہے۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المؤمنون: ۴) یہاں لغو سے مراد دنیا ہے یعنی جب انسان کو نمازوں میں خشوع اور خضوع حاصل ہونے لگ جاتا ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ پھر وہ کاشت کاری، تجارت، نوکری وغیرہ چھوڑ دیتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ایسے کاموں سے جو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں اور جو خدا سے غافل کر دیتے ہیں اعراض کرنے لگ جاتا ہے۔‘‘دنیا کے ایسے کاموں سے پھر بچتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہیں۔ اس کی مزید وضاحت میں آگے ایک جگہ اس طرح بھی لکھا ہے۔کیونکہ یہ ایک مجلس کا ذکر ہے۔ تو فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَیعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ(النور: ۳۸) یعنی ہمارے ایسے بندے بھی ہیں جو بڑے بڑے کارخانہ تجارت میں ایک دم کے لئے بھی ہمیں نہیں بھولتے۔‘‘کام بھی کر رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کو نہیں بھولتے۔ فرمایا کہ’’خدا سے تعلق رکھنے والا دنیادار نہیں کہلاتا بلکہ دنیا دار وہ ہے جسے خدا یاد نہ ہو۔‘‘
سوال نمبر۷:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کےآخرپردعاکی کیاتحریک فرمائی؟
جواب: فرمایا: پاکستان کے احمدیوں کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ انہیں مخالفین کے شر سے محفوظ رکھے۔ شریروں کے شر ان پر الٹائے۔ خود پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی اپنے لیے خاص گریہ و زاری سے دعائیں کریں۔ تین دن یا چار دن یا ہفتے کی دعائیں نہیں، مستقل دعائیں کریں اور اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کا عہد کریں۔ برکینا فاسو کے احمدیوں، بنگلہ دیش کے احمدیوں، الجزائر اور دنیا کے ہر ملک کے احمدیوں کے لیے دعا کریںاللہ تعالیٰ ہر احمدی کو دشمن کے شر سے بچائے اور ان کے ایمان اور ایقان میں مضبوطی پیدا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی اور پھر دعائیں کرنے کی توفیق دے اور انہیں قبول بھی فرمائے۔