وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۴؍ جنوری ۲۰۱۱ء)
خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (الاعراف:200)۔ عفو اختیار کر، اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس فقرے نے کہ کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن۔ یعنی آپؐ کی زندگی قرآنی احکام اور اخلاق کی عملی تصویر تھی، آپؐ کے اعلیٰ ترین اخلاق کے وسیع سمندر کی نشاندہی فرمادی کہ جاؤ اور اس سمندر میں سے قیمتی موتی تلاش کرو۔ اور خلقِ عظیم کے جو موتی بھی تم تلاش کرو گے اس پر میرے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ثبت ہو گی۔
یہ ہے وہ مقامِ خاتمیتِ نبوت جواَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ: 4) کے خدائی ارشاد میں ہمیں نظر آتا ہے۔ پس دین کا کمال اور نعمت کا پورا ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری شرعی کتاب اتار کر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی ذات میں پورا فرما دیا۔ پس آپؐ سے زیادہ کون اس الٰہی کتاب کو سمجھنے والا اور اپنے رب کے منشاء کو سمجھنے والا ہو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو جہاں قرآن کی عملی تصویر ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہمارے لئے اسوہ حسنہ بھی ہے۔
اس وقت مَیں آپ کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ایک حسین پہلو کی چند جھلکیاں پیش کروں گا جس نے نیک فطرت لوگوں کو تو آپ کے عشق و محبت میں بڑھا دیا۔ اور منافقین کے گند سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جب آپ نے یہ خُلق دکھایا کہ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ تو دنیا پر ان لوگوں کی فطرت واضح ہو گئی۔ یہ خُلق جس کے بارے میں مَیں بیان کرنا چاہتا ہوں یہ ’’عفو‘‘ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’خدا کے مقربوں کو بڑی بڑی گالیاں دی گئیں۔ بہت بری طرح ستایا گیا۔ مگر ان کو اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (الاعراف: 200) کا ہی خطاب ہوا۔ خود اس انسان کامل ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت بری طرح تکلیفیں دی گئیں اور گالیاں، بدزبانی اور شوخیاں کی گئیں۔ مگر اس خلق مجسم ذات نے اس کے مقابلہ میں کیا کیا؟ ان کے لئے دعا کی اور چونکہ اللہ نے وعدہ کرلیا تھا کہ جاہلوں سے اعراض کرے گاتو تیری عزت اور جان کو ہم صحیح وسلامت رکھیں گے اور یہ بازاری آدمی اس پر حملہ نہ کر سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضور(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مخالف آپ کی عزت پر حرف نہ لا سکے اور خود ہی ذلیل و خوار ہوکر آپ کے قدموں پر گرے یا سامنے تباہ ہوئے۔‘‘(رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 99)
کہنے کو تو یہ ایک عام سی بات ہے لیکن مسلسل ظلموں سے خود بھی اور اپنے صحابہؓ کو بھی گزرتے ہوئے دیکھنا، اور پھر جب طاقت آتی ہے تو عفو کا ایک ایسا نمونہ دکھانا جس کی مثال جب سے کہ دنیا قائم ہوئی ہے ہمیں نظر نہیں آتی، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے۔ پھر منافقین اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کے مقابل پر آپؐ نے تحمل اور برداشت کا اظہار فرمایا۔ یہ بھی کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھنے والا کوئی تاریخ دان ہو تو باوجود مذہبی اختلاف کے یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ کی برداشت اور عفو اور ہر خلق کا نمونہ بےمثال تھا۔ اور لکھنے والے جنہوں نے لکھا ہے بعض ہندو بھی ہیں اور بعض عیسائی بھی۔ بہر حال اس وقت میں چند واقعات بیان کرتا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو کے خلقِ عظیم پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔ پہلے مَیں عبداللہ بن أبی بن سلول کے واقعات لیتا ہوں، جو رئیس المنافقین تھا۔ ظاہر میں گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو منظور کر لیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر غلیظ حملے کرنے کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑتا تھا۔ مدینہ میں رہتے ہوئے مسلسل یہ واقعات ہوتے رہتے تھے۔ اس کی دشمنی اصل میں تو اس لئے تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت سے پہلے مدینہ کے لوگ اسے اپنا سردار بنانے کا سوچ رہے تھے لیکن آپؐ کی مدینہ آمد کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قبیلے اور مذہب کی طرف سے سربراہِ حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تو یہ شخص ظاہر میں تو نہیں لیکن اندر سے، دل سے آپ اکے خلاف تھا اور اس کی مخالفت مزید بڑھتی گئی، اس کا کینہ اور رنجشیں مزید بڑھتی گئیں۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ جانے کے بعد اور جنگِ بدر سے پہلے کا ایک واقعہ ملتا ہے جس سے عبداللہ بن أبی بن سلول کے دل کے بغض اور کینے اور اس کے مقابلے پر آپ کے صبر کا اظہار ہوتا ہے۔ اور یہ اظہار جو دراصل عفو تھا، یہ عفو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردّ عمل ظاہر ہوتا ہے۔ بہر حال روایت میں آتا ہے۔ امام زہری روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کے علاقہ کی ایک چادر ڈال کر گدھے پر سوار ہوئے اور اپنے پیچھے اسامہ بن زید کو بٹھایا اور سعد بن عبادہؓ کی عیادت کے لئے بنو حارث بن خزرج میں واقعہ بدر سے پہلے (یعنی جنگِ بدر سے پہلے) تشریف لے جا رہے تھے تو ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن أبی بن سلول بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اس وقت اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس مجلس میں مسلمان بھی بیٹھے ہیں، بُت پرست بھی ہیں اور یہودی بھی بیٹھے ہیں اور اسی مجلس میں عبداللہ بن رواحہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ جب اس مجلس پر گدھے کے پاؤں سے اٹھنے والی دھول پڑی تو عبداللہ بن أبی بن سلول نے اپنی چادر سے ناک کو ڈھانک لیا۔ پھر کہا ہم پر مٹی نہ ڈالو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب لوگوں کو سلام کیا۔ پھر رُک گئے اور اپنی سواری سے اترے اور ان کو دعوتِ اِلی اللہ کی۔ اُن کو قرآن پڑھ کر سنایا۔ اُس پر عبداللہ بن أبی بن سلول نے کہا اے صاحب! جو بات تم کہہ رہے ہو، وہ اچھی بات نہیں ہے اور اگر یہ حق بات بھی ہے تو ہمیں ہماری مجلس میں سنا کر تکلیف نہ دو۔ اپنے گھر میں جاؤ اور جو شخص تمہارے پاس آئے اسے قرآن پڑھ کر سنانا۔ عبداللہ بن أبی بن سلول کی یہ باتیں سن کر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے کہا۔ کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہماری مجالس میں آ کر قرآن سنایا کریں کیونکہ ہم قرآن کو سننا پسند کرتے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ مسلمان اور مشرک اور یہود سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح بحث میں الجھ گئے کہ لگتا تھا کہ ایک دوسرے کے گلے پکڑ لیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مسلسل خاموش کرواتے رہے اور وہ چُپ ہو گئے۔ جب خاموش ہو گئے تو آپؐ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور سعد بن عبادہؓ کے پاس پہنچے اور اس کو جا کر بتایا کہ ابو حباب یعنی عبداللہ بن أبی بن سلول نے کیا کہا ہے۔ اُس نے یہ بات کی ہے۔ تو سعد بن عبادہؓ نے عرض کی۔ یا رسول اللہؐ! اس سے عفو اور درگزر کا سلوک فرمائیں۔ اُس ذات کی قسم جس نے آپ پر قرآنِ کریم جیسی عظیم کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حق کو لے آیا جس کو اس نے آپ پر نازل فرمایا۔ اس سرزمین کے لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ عبداللہ بن أبی بن سلول کو تاج پہنا کر اپنا بادشاہ بنائیں اور اس کے دست و بازو کو مضبوط کریں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس فیصلے سے اس حق کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے انکار کر دیا تو اس سے اس کو بڑا دکھ پہنچا۔ اس وجہ سے اس نے آپ سے یہ بدسلوکی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے عفو کا سلوک فرمایا۔
یہ اس وجہ سے نہیں فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے بات کی تھی کہ عفو کا سلوک فرمائیں بلکہ آپؐ نے ان کو یہ بتانے کے لئے بات کی تھی کہ آج اس نے اس طرح میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے لیکن مَیں تو بہر حال عفو کا سلوک کرتا چلا جاؤں گا۔ آگے پھر لکھا ہے کہ آپؐ اور آپ کے صحابہ مشرکوں اور اہلِ کتاب سے درگزر کا سلوک فرماتے تھے جیسا کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا۔ اور وہ ان کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرتے تھے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد جب عبداللہ بن اُبی بن سلول بظاہر مسلمان ہوا تو اپنی منافقانہ چالوں سے آپؐ کو تکلیف پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہتا تھا۔